کیا صنعت کار اپنی ذاتی فیکٹریاں اسی طرح چلاتے ہیں؟ نہیں! ایڈمنسٹریشن اور جدید تکنیک کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ایک افسر، ایک ایک ورکر، ایک ایک مزدور کے آنے اور جانے کا وقت نوٹ کیا جاتا ہے۔ پیداوار کے پیمانے مقرر ہیں۔ روز کا حساب روز ہوتا ہے۔ کل پر کوئی کام نہیں ٹالا جاتا۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی منیجر، کوئی فورمین، کوئی اکائونٹنٹ ریٹائر ہو جائے تو مہینوں اس کا جانشین نہ مقرر ہو۔ آسمان گر سکتا ہے مگر تساہل کاروبار میں نہیں ہو سکتا۔
لیکن مجرمانہ رویہ اس وقت جائز ہے جب معاملہ ریاست کا ہو اور عوام کا ہو۔ حکومتیں یوں چلائی جا رہی ہیں جیسے مذاق ہو۔ بنانا ری پبلک؟ نہیں! بنانا ری پبلک کے پھر کچھ اصول ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت، عدالت کے حکم پر کس طرح عمل کرتی ہے؟ دھوکہ دینے کی پوری کوشش! ایک ایسے افسر کو صوبائی پولیس کا سربراہ مقرر کرتی ہے جو تین ماہ بعد ریٹائر ہو رہا ہے۔ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرتی ہے۔ اسے بیک وقت عدالت کے ساتھ مذاق اور عدالت کی توہین قرار دیتی ہے۔ فرض کیجیے، صوبائی حکومت کے سربراہ کو عدالت اپنے حضور حاضر ہونے کا حکم دے اور وہ جب حاضر ہو تو پوچھے کہ ایسا کیوں کیا ہے؟ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان کا گورنر ریٹائر ہوا۔ کسی کو نہ تعینات کیا گیا۔ پھر جب راتوں رات ڈالر مہنگا ہوا، کچھ افراد کی لاٹری نکلی تو دوسرے دن گورنر کی تعیناتی ہوئی۔ اس سے قطع نظر کہ کون لگایا گیا، اس سوال کا جواب کیا ہو گا کہ یہی کام وقت پر کیوں نہ کیا گیا؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آئینی اسامی مہینوں سے خالی پڑی ہے۔ ’’قائم مقام‘‘ سے کام چلایا جا رہا ہے! کیوں؟ کون پوچھے گا اور کون جواب دے گا؟ کوئی نہیں۔
ایس ای سی پی جیسے بڑے اور حساس ادارے کا سربراہ ضمانتیں کراتا پھر رہا ہے۔ اس کے کہنے پر اس کے ماتحتوں نے ریکارڈ میں ردوبدل کیا مگر وہ اپنے منصب پر تعینات ہے۔ کیا قانون پر چلنے والے کسی ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟
پہلے بھی عرض کیا کہ قبائلی نظمِ حکومت ہے جس کی بھینٹ یہ ملک چڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ کوئی نہیں! قطر کا وزیر خارجہ آتا ہے تو وزارت خارجہ اس کی آمد ہی سے لاعلم ہے، مقصد کا علم تو دور کی بات ہے۔پریس لکھتا ہے:
’’اس دورے کے حوالے سے دفتر خارجہ کو کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اور یہ دورہ براہِ راست وزیر اعظم ہائوس سے طے کیا گیا تھا…‘‘
وزیر اعظم کے ریاستی فرائض کہاں ختم ہو رہے ہیں اور ذاتی، خاندانی، کاروباری سلسلے کہاں سے آغاز ہو رہے ہیں؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! سب کچھ وہ خود اور ان کا آفس طے کر رہے ہیں۔ ستر سال سے قائم وزارت خارجہ لا علم ہے! ایک بار پھر پریس کی طرف پلٹتے ہیں:
’’ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں پانامہ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی تحقیقات خاص طور پر قطری خط کے معاملہ پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔‘‘
ایسا تو کسی قبائلی نظامِ حکومت میں بھی نہیں ہوتا! قبائلی سردار، قبائلی معاملات الگ خانے میں رکھتے ہیں اور ذاتی الگ۔
پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس ہوتا ہے۔ حکومتی رکن پھٹ پڑتا ہے…
’’چار سال میں وزارت خزانہ اور وزارتِ تجارت نے ملک کو تباہ کر دیا۔ وزیر خزانہ کی کامیابی صرف یہ ہے کہ ادھر ادھر سے قرض لیا۔ وہ اکانومسٹ نہیں، اکائونٹنٹ ہیں‘‘
خاتون حکومتی رکن اس پر گرہ لگاتی ہے:
’’وزارت تجارت کی کارکردگی سے مایوس ہو گئی ہوں۔ وزارت تجارت نے برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔‘‘
ذاتی کاروبار میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ فیکٹریاں ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ ہو رہی ہیں۔ ملک کی برآمدات کا رخ کھائی کی طرف ہے۔ قرضے آسمان کی طرف لپک رہے ہیں۔ لے دے کے ریاست کے پاس ایک سٹیل مل ہے۔ اس کی حالت ایسی ہے جیسے کٹے پھٹے ساحل کی ہوتی ہے۔ کوئی کشتی وہاں سے روانہ ہو سکتی ہے نہ لنگر انداز۔
امور طے کہاں ہو رہے ہیں؟ وزارت خارجہ میں نہ پارلیمنٹ میں! کسی لڑکے کو راستے میں پڑا پیڈل ملا تو خوش ہوا کہ اس میں سائیکل فٹ کرا لے گا۔ مسلم ملکوں کی اتحادی فوج کا نام و نشان کہیں نہیں۔ مگر سپہ سالار کو بھجوا دیا گیا، مشیر خارجہ سینیٹ میں کیا بیان دیتے ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنیے:
’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے۔ اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آر کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ ٹی او آر کو حتمی شکل دینے کے لیے رکن ممالک اور وزیر دفاع کے درمیان ملاقات ہونی تھی جو تاحال نہیں ہو سکی۔‘‘
اب یہ کون پوچھے کہ راحیل شریف کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے تو کیا کر رہے ہیں؟ بعد میں بننے والے ٹی او آر پاکستان کے مفاد سے متصادم ہوئے تو پاکستان کیا کرے گا؟ سپہ سالار کو تو پہلے ہی بھیج دیاگیا ہے۔
پارلیمنٹ عضو معطل نہ ہوتی تو یہ معاملات وہاں طے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو سینیٹ کے چیئرمین کا کہ یہ سب کچھ پوچھ لیا، آپ کا کیا خیال ہے سپیکر صاحب یہ سب کچھ پوچھتے؟
پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو وہاں یہ بحث ہوتی کہ چودہ سو سال میں عالم اسلام کی متحدہ فوج نہیں بنی تو اب کیسے بنے گی؟ کون سی متحدہ فوج کی کمان کے لیے سابق سپہ سالار کو بھیجا جا رہا ہے؟ عالم اسلام کی متحدہ فوج؟ کیا کبھی ریزے جوڑ کر کسی نے آئینہ بنایا ہے؟ کیا کبھی زرد اُڑتے پتوں کو درخت کی شاخ پر سجایا گیا ہے؟ تین چار ملکوں کی فوج بن بھی گئی تو وہ عالم اسلام کی متحدہ فوج نہیں کہلا سکے گی۔ ترکی کی حالت یہ ہے کہ ایران کے معاملے میں وہ سعودی عرب کے ساتھ ہے اور قطر کے معاملے میں سعودی عرب کا مخالف! شام اور عراق کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ یمن کو ایک طرف سے سعودی عرب پکڑ کر کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایران۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔ کیا بنگلہ دیش اپنی فوج کے دستے ایک پاکستانی کی کمان میں بھیج دے گا؟ تاریخ میں اُس کنفیڈریشن کی صرف گرد باقی ہے جو شام اور مصر نے مل کر بنائی تھی۔ تڑق کر کے ٹوٹی۔ یوں کہ پھر کبھی نہ جُڑ سکی۔
عالم اسلام کی متحدہ فوج؟ یہاں تو علاقائی اتحادوں کا وجود نہیں! وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں باہمی رابطہ ہوتا بھی ہے تو روس کے حوالے سے۔ عملاً یہ ریاستیں اب بھی روس کے کھونٹے سے بندھی ہیں۔ شرق اوسط کے عرب، ایران کے مقابلے میں اسرائیل کو ترجیح دیں گے۔ جنوب مشرق میں تین مسلمان ملک ہیں۔ انڈونیشیا، ملائشیا اور برونائی! زبانیں ملتی جلتی ہیں۔ ساحل مشترکہ ہیں۔ نسل وہی ہے! مگر اتحاد کا نام و نشان نہیں۔ خوابوں میں زندگی گزارنے والے رومان پسند یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ امت کا تصور روحانی ہے۔ جسمانی نہیں۔ یعنی سیاسی اور عسکری نہیں۔ جو یہ بات نہیں(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
مانتا، عملاً امت کے تصور ہی کی نفی کرتا ہے۔ اگر امت سے مراد آپ سیاسی اتحاد لیتے ہیں تو اس کا تو کبھی وجود ہی نہیں رہا۔
اپنے اپنے انفرادی حالات بھی سدھار لیں تو غنیمت ہے۔ تعلیم کی پالیسی ہی درست کر لیں۔ زرعی اصلاحات کرنے سے کیا یہودو ہنود نے روکا ہوا ہے؟ سرداری نظام بلوچستان سے ختم کرنے سے کیا بھارت حملہ کر دے گا؟ لاکھوں ٹیکس چوروں کو کیوں نہیں پکڑ رہے؟ ملاوٹ کرنے والے، خوراک، ادویات اور بچوں کے دودھ کو حرام کاری کی نذر کرنے والے کیوں محفوظ ہیں؟ پورے ملک کی شاہراہیں، چھوٹی سڑکیں، کوچے گلیاں، دکانداروں کے ناجائز تصرف میں ہیں۔ انہیں مار کر پیچھے ہٹانے سے کیا اسرائیل چڑھ دوڑے گا؟ ٹریفک کا سسٹم جنگل کے قانون سے بدتر ہے! کیوں نہیں ٹھیک کرتے۔ یہ سب کچھ تو ہو نہیں رہا اور امت کے اتحاد کے خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے ہیں۔ مشترکہ فوج بنائی جا رہی ہے۔ نالائقی، جمود اور ہڈ حرامی کی انتہا یہ ہے کہ ٹی او آر بنانے کے لیے جو میٹنگ ہونا تھی، وہی نہیں ہو رہی۔ جنرل صاحب وہاں مہینوں سے جانے کیا کر رہے ہیں۔
پاکستان واحد مسلمان ایٹمی طاقت بنا تو اسے ایک ماڈل مسلم ریاست بناتے۔ یہاں ٹیکس چوری، رشوت، وقت کے ضیاع، ملاوٹ، چور بازاری کا خاتمہ کیا جاتا۔ حکومت کا نظام صاف اور شفاف بنایا جاتا۔ تعلیم کا نظام مثالی ہوتا زرعی اصلاحات ایسی ہوتیں کہ پوری دنیا تعریف و تحسین کرتی۔ نظامِ تعلیم یوں ہوتا کہ مغرب مشرق کے ممالک اس کی تقلید کرتے۔ آپ اپنے ملک کو کمال تک پہنچاتے۔ پھر دوسرے ملکوں میں اپنے مشیر، ہنر مند، ماہرین بھیجتے۔ مسلمان ممالک آہستہ آہستہ قعر مذلت سے نکلتے۔ یہ ہوتا امت کے تصور کی طرف عملی سفر! مگر یہاں تو ابھی جوتے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حکمران اپنی ہی عدالتوں کو فریب دے رہے ہیں۔ دوسرے ملک کے وزیر خارجہ سے ملک کا سربراہ اپنے کورٹ کے مسائل پر بات چیت کر رہا ہے۔
پستی! جس کا کوئی انت نہیں۔ بطور قوم ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے۔ آئیے ڈوبنے کے لیے چلو بھر پانی تلاش کریں۔
No comments:
Post a Comment