جناب سجاد میر نے عسکری صاحب کا ذکر کیا تو اُس زمانے کا کراچی یاد
آگیا۔ جب کراچی کراچی تھا اور ابھی بیروت نہیں بنا تھا۔ عسکری صاحب کو نہیں دیکھا وہ اردو ادب کی عہد ساز شخصیت تھے۔ سجاد میر صاحب کی خدمت میں عرض کی ہے کہ حضور! یادداشتیں قلم بند کیجیے۔ ادب کے طالب علم کو ان یادداشتوں میں بہت کچھ ملے گا۔ سیاسی کالموں میں کچھ نہیں دھرا۔
ستر کی دہائی کا آغاز تھا جب یہ چوبیس سالہ نوجوان‘ سی ایس ایس کر کے‘ کراچی میں تعینات ہوا۔ قیام و طعام کے بندوبست سے فارغ ہوتے ہی مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کی سوجھی۔ ان کی ایک کتاب کا ان دنوں شہرہ تھا۔ بیمار تھے۔ گزر اوقات کے لیے چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ جس مذہبی پارٹی سے وہ وابستہ رہے تھے‘ غالباً اس نے ان کی اس کٹھن زمانے میں کوئی مدد نہیں کی۔
سلیم احمد صاحب کے گھر کئی بار حاضری دینے کا موقع ملا۔ غلطی یہ ہوئی کہ ان حاضریوں کی (ملاقاتوں کی نہیں) روداد نہ لکھی! شعر سناتے تو ساتھ ساتھ بائیں ران پر ہاتھ مارتے جاتے ؎
کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار
لومڑی نے کب کوئی دوہا سنا
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
جو فصل ابھی نہیں کٹی ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
لیکن کراچی میں جس شخصیت سے استفادہ کرنے کے زیادہ مواقع ملے وہ قمر جمیل تھے۔
چھوٹا منہ بڑی بات اگر یہ کہوں کہ سلیم احمد کے بعد کراچی کے ادیبوں‘ شاعروں کا مرجع قمر جمیل تھے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ وہ ایک انجمن تھے۔ ایک ادارہ تھے۔ اس کالم نگار سے‘ شاعری کے حوالے سے‘ بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک برس رہنے کے بعد کراچی سے واپسی ہوئی مگر اس کے بعد جب بھی جانا ہوا‘ ان کی خدمت میں حاضری‘ کراچی کے پھیرے کا لازمی جزو تھی۔ پاکستان میں نثری نظم کے تعارف اور آغاز میں ان کا جاندار حصہ تھا۔ ثلاثی (تین مصرعوں کی نظم) کا سہرا حمایت علی شاعر صاحب کے سرباندھا جاتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ تین مصرعوں کی نظم قمر جمیل پہلے سے کہہ رہے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ حاضر ہوا تو اگلے دن انہوں نے کئی دوسرے اہل قلم کو گھر پر مدعو کر لیا۔ رسا چغتائی کو پہلی بار انہی کے ہاں دیکھا۔ بہت برس بعد تاشقند کے چغتائی محلہ میں گھومتے اور روایتی شش لیک کھاتے رساؔکا یہ شعر مسلسل ذہن پر سوار رہا ؎
لڑ رہا ہوں رسا ؔقبیلہ وار
میر و مرزا کے خاندان سے دور
قمر جمیل نے ادبی رسالہ ’’دریافت‘‘ نکالا۔ کئی شمارے نکلے۔ پھر بند ہوگیا۔ اس فقیر کے تیسرے شعری مجموعے ’’پری زاد‘‘ کا دیباچہ انہی کا لکھا ہوا ہے۔ غزل بھی کہی۔ منفرد اور سب سے الگ ؎
خواب میں جو میں نے دیکھا ہے اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے‘ ہاتھ لگانا مشکل ہے
اس کے قدم سے میں نے سنا ہے پھول کھلے ہیں چاروں طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے
شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے کل کچھ پریاں آئی تھیں
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
قمر جمیل کا اپنا منطقہ تھا‘ اپنی دنیا تھی اور اپنا سٹائل تھا۔ مرغابی کی تعریف یوں کی کہ مرغابی وہ ہوتی ہے جسے گولی مارتے ہیں۔ آج کے شعر و ادب کے طلبہ کو شاید معلوم نہ ہو کہ یہ غالباً ساٹھ کی دہائی تھی جب ایک کتاب چھپی جس کا نام ’’تین کتابیں‘‘ تھا۔ یہ تین شعرا کا مشترک مجموعہ کلام تھا۔ قمر جمیل‘ محبوب خزاں (اکیلی بستیاں) اور محب عارفی (چھلنی کی پیاس) اس دور میں یہ کتاب ہٹ ہوئی۔ پھر تینوں کے مجموعے الگ الگ بھی چھپے۔ المیہ یہ ہے کہ محبوب خزاں اپنی انوکھی افتادِ طبع کے باعث ’’اکیلی بستیاں‘‘ کے بعد دوسرا کوئی مجموعہ نہ لائے۔ ایک بار جب کراچی جانا ہوا تو حسب معمول قمر جمیل کے ہاں حاضر ہونا تھا۔ قمر صاحب نے حکم دیا کہ صدر سے آتے ہوئے راستے میں محبوب خزاں کی رہائش گاہ پڑتی ہے۔ انہیں لیتے آنا۔ قمر جمیل پہلے ایف بی ایریا کے نزدیک یو کے پلازا کے ایک فلیٹ میں مقیم تھے۔ پھر گلشن اقبال منتقل ہو گئے۔ ان کی یہ نئی قیام گاہ فاطمہ حسن کے گھر کے قریب تھی۔ محبوب خزاں کو ان کے گھر سے لیا۔ راستے میں انہوں نے ’’ہدایت‘‘ کی کہ قمر جمیل کے سامنے ان کے (یعنی خزاں کے) نئے شعری مجموعے کا ذکر نہ کرنا ورنہ قمر شروع ہو جائیں گے۔ خزاں صاحب کا ایسا ہی مزاج تھا۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’دیوارِ آب‘‘ (1982ء میں) چھپا تو جناب محمود لودھی نے انہیں پڑھنے کے لیے دیا۔ اس وقت تک خزاں صاحب سے ملاقات نہ تھی۔ ایک دن فون آیا کہ بھائی میں محبوب خزاں بول رہا ہوں۔ پھر تقریباً دس منٹ انہوں نے دیوارِ آب پر گفتگو کی۔ گفتگو کیا تھی‘ مغز تھا اور جوہر تھا اور زر و جواہر تھے۔ ان کا ہاتھ جیسے میری کتاب کی نبض پر تھا۔ دس بارہ منٹ کے بعد میں نے جسارت کی کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں‘ قلم بند کردیجیے‘ فوراً ان کا موڈ خراب ہو گیا۔ پھر زیادہ دیر بات بھی نہ کی۔ درست ہے یا غلط مگر سنا ہے کہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھے تو نتیجہ آنے سے پہلے بتا دیا تھا کہ ان کی پوزیشن اتنے نمبر پر ہوگی۔ ایسا ہی ہوا۔ غالباً اکائونٹنٹ جنرل پنجاب اور پھر اکائونٹنٹ جنرل سندھ رہے۔ ان کے کچھ اشعار تو ضرب المثل ہیں ؎
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو
خزاں کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
سنتے ہیں اک جزیرہ ہے کہ جہاں
یہ بلائے حواسِ خمسہ نہیں
معشوق ہیں کیا مدیر و نقاد؟
شاعر کو غلام جانتے ہیں!
’’اکیلی بستیاں‘‘ جس نظم کا عنوان ہے‘ اردو ادب میں اس نظم کی مثال مشکل ہی سے
ملے گی۔ ادب کے نئے طالب علم کے لیے یہ نظم جیک پاٹ سے کم نہیں۔ یہاں نقل کرتے وقت ذہن میں جو نکتہ گردش کر رہا ہے یہ ہے کہ اب یہ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ ’’اکیلی بستیاں‘‘ کا جو ایڈیشن میرے پاس ہے وہ اگست 1972ء کا ہے۔ البیان چوک انارکلی لاہور نے مکتبہ جدید پریس سے چھپوایا ہے۔ قیمت ایک روپیہ درج ہے۔ خریدنے کی تاریخ کتاب پر پانچ فروری 1976ء درج ہے۔ اب نظم پڑھیے ؎
بے کس چمیلی پھولے اکیلی آہیں بھرے دل جلی
بھوری پہاڑی خاکی فصیلیں دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے‘ رستوں میں پتھر‘ پتھر پہ نیلم پری
لہریلی سڑکیں چلتے مناظر بکھری ہوئی زندگی
بادل‘ چٹانیں‘ مخمل کے پردے‘ پردوں پہ لہریں پڑی
کاکل پہ کاکل خیموں پہ خیمے سلوٹ پہ سلوٹ ہری
بستی میں گندی گلیوں کے زینے لڑکے دھماچوکڑی
برسے تو چھاگل ٹھہرے تو ہلچل راہوں میں اک کھلبلی
گرتے گھروندے اٹھتی امنگیں ہاتھوں میں گاگر بھری
کانوں میں بالے چاندی کے ہالے پلکیں گھنی کھردری
ہڈی پہ چہرے‘ چہروں میں آنکھیں‘ آئی جوانی چلی
ٹیلوں پہ جوبن‘ ریوڑ کے ریوڑ‘ کھیتوں پہ جھالر چڑھی
وادی میں بھیگے روڑوں کی پیٹی چشموں کی چمپا کلی
سانچے نئے اور باتیں پرانی مٹی کی جادوگری
یوں معلوم ہوتا ہے کہ محبوب خزاں نے یہ نظم سفر کے دوران کہی۔ جیسے جیسے مناظر‘ تیزی سے ان کی آنکھوں کے سامنے آئے اور گزرتے رہے‘ وہ ان کی صورت گری کرتے رہے۔ ہر منظر‘ دوسرے منظر سے مختلف تھا۔ اسی لیے نظم کا ہر شعر‘ ایک الگ منظر ہے۔ یہ منظر چلتی گاڑی کی وجہ سے‘ فوراً نظروں سے ہٹتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا منظر لیتا ہے۔ بظاہر منتشر اشعار پر مشتمل یہ نظم‘ اصل میں ایک اکائی ہے۔ سفر کے دوران نظر آنے والے مختلف مناظر کی اکائی! بستیاں‘ بستیوں میں دکھائی دیتی خوب صورت مگر مفلس قلاش حسینائیں‘ کھیلتے لڑکے‘ لینڈ سکیپ اور بہت کچھ اور۔
محبوب خزاں مجرّد رہے۔ اب کس سے کہا جائے کہ ان کا کلام یکجا کرے اور چھاپے۔
قمر جمیل اور محبوب خزاں کا یہ تذکرہ ادھورا ہے۔ کراچی کے حوالے سے بہت یادیں ہیں۔ محب عارفی پر ایک طویل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! خود نوشت ہے کہ چیونٹی سے بھی کم رفتار پر رینگ رہی ہے۔ تساہل! حد درجہ تساہل! مستقل مزاجی کہاں کہ یہاں مزاج ہی کہاں ہے کہ مستقل ہو۔
شعیب بن عزیز کہہ رہے تھے کہ خود نوشت کا معاملہ آگے بڑھائو ورنہ صادق نسیم جیسے شعرا کا ذکر تک نہ ملے گا۔ نئی نسل کو ان کے تذکرے اور تخلیقات سے آشنا کرنا ضروری ہے ؎
فراق یوسف گم گشتہ کم نہ تھا صادق
کہ میرے ہاتھ سے کنعانِ کوئٹہ بھی گیا
محب عارفی‘ وفاقی دارالحکومت کے ساتھ ہی کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ پھر طویل عرصہ یہاں رہے۔ ہر ویک اینڈ پر ان کے ہاں ادیب اور شاعر جمع ہوتے۔ گفتگو بھی ہوتی‘ شاعری بھی اور سماجی گپ شپ بھی۔ یہ سلسلہ ان کی قیام گاہ پر اس وقت شروع ہوا جب وہ شملہ میں کلرک تھے۔ اسلام آباد میں وہ بڑے افسر تھے۔ یہ روایت ان کے ہاں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں بھی جاری رہی۔
محب ملی ہے مجھے ایک عمر سعی کے بعد
وہ مرگ لوگ جسے ناگہاں سمجھتے ہیں
No comments:
Post a Comment