یہ 1993ء کا واقعہ ہے۔ سنگاپور میں عجیب و غریب سلسلہ رونما ہونے لگا۔ کاروں کی صورت بگاڑی جانے لگی۔ پارکنگ میں کھڑی ہوئی گاڑیوں پر کوئی آ کر ڈنڈے چلا جاتا‘ ان پر رنگ چھڑک جاتا۔ آگے پیچھے سے ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے! ٹیکسیوں کے ٹائر تیز دھار آلوں سے پھاڑ دیئے جاتے۔ ایک شخص نے بتایا کہ اسے اپنی کار چھ ماہ میں چھ بار ورکشاپ لے جانا پڑی‘ پولیس سرگرداں ہو گئی۔ بالآخر معلوم ہوا کہ ’’سنگاپور امریکی سکول‘‘ کے غیر ملکی طلبہ اس میں ملوث ہیں۔ ان کے ساتھ مقامی لڑکے بھی شامل تھے۔ سب سے بڑا مجرم اٹھارہ سالہ امریکی مائیکل فے تھا۔ جرم ثابت ہوگیا۔ سنگاپور کی عدالت نے سزا سنا دی۔ چار ماہ قید! ساڑھے تین ہزار سنگاپوری ڈالر جرمانہ اور بَید کی چھ ضربیں۔ بَید کی سزا سنگاپور کے قانون کا حصہ ہے۔
بَید کی سزا کا سن کر امریکہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ اُس وقت بل کلنٹن صدر تھا۔ اس نے ذاتی مداخلت کی اور سنگاپور حکومت سے کہا کہ چھڑیاں مارنے کی سزا ہٹا دی جائے۔ دو درجن سے زائد امریکی سینیٹرز نے سنگاپور حکومت کو مکتوب بھیجا اور مائیکل فے کو سزا سے استثنیٰ دینے پر زور دیا۔ سنگاپور نے جواب دیا کہ جو کوئی جرم کرے گا اسے سنگاپور کے قانون کے مطابق ضرور سزا دی جائے گی۔ اس سزا کا نتیجہ ہے کہ بقول سنگاپور حکومت‘ سنگاپور اس غنڈہ گردی اور تشدد سے بچا ہوا ہے جو نیویارک کا خاصہ ہے۔ سنگاپور کے میڈیا نے امریکی صدر پرشدید تنقید کی اور کہا کہ امریکہ کئی بحرانوں میں مبتلا ہے۔ امریکی صدر کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ گیا کہ ایک مجرم کی حمایت کرنے لگ جائیں۔
امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر سنگاپور ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہاں! سنگاپور کے صدر نے کلنٹن کی مداخلت کا پاس کرتے ہوئے بَیدکی ضربوں کو چھ سے چار کردیا۔ مائیکل فے کو بَید مارے گئے! چار ضربیں!!
امریکی میڈیا میں مذمت کا طوفان آ گیا۔ نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ لاس اینجلز ٹائمز اور دیگر بڑے اخبارات نے اداریے لکھے۔ کالم چھاپے گئے۔ سزا کے ڈانڈے ایشیائی اور مغربی تہذیب کے تفاوت سے ملائے گئے۔ بنیادی حقوق کا رونا رویا گیا۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر سنگاپور کے بجائے پاکستان ہوتا تو مزاحمت کرسکتا؟ کیا سنگاپور کی طرح خم ٹھونک کرکھڑا ہو جاتا۔ اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔
اب اسی مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں۔ اگر مائیکل فے پاکستانی شہری ہوتا تو کیا پاکستان میں اسی طرح تہلکہ برپا ہو جاتا جیسے امریکہ میں ہوا؟ کیا پاکستانی صدر یا وزیراعظم اپنے ایک عام شہری کے لیے‘ جس کا جرم ثابت ہو چکا تھا‘ ذاتی طور پر مداخلت کرتے؟ کیا ہمارے منتخب نمائندے سنگاپور کی حکومت کو خطوط لکھتے؟ اگر فے پاکستانی ہوتا تو کیا تب بھی اس کی سزا میں تخفیف ہوتی؟ بدقسمتی سے ان سوالوں کے جواب بھی ہم سب کو معلوم ہیں اور کسی شبہ یا ابہام کے بغیر معلوم ہیں۔
یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ کوئی کتاب کو سازش قرار دے رہا ہے کوئی اس وقت کے حکمرانوں پر امریکہ کے پالتو ہونے کا الزام لگا رہا ہے۔ کہیں جنرل پاشا سے لے کر شہباز شریف تک‘ آصف زرداری سے لے کر اس وقت کے عسکری سربراہ تک۔ سب کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ افسوس! اصل سبب کا کوئی نہیں ذکر کرتا۔ ادراک نہیں ہے یا تجاہل عارفانہ ہے!
یہ جنرل پاشا یا آصف زرداری یا شہباز شریف کا معاملہ نہیں۔ یہ معاملہ ہے ایک کمزور ملک اور ایک طاقتور ملک کا۔ یہ معاملہ ہے بھیڑیے اور میمنے کا۔ جب آپ اندر سے کمزور ہوں تو مدافعت نہیں کرسکتے۔ کسی معاملے میں بھی مزاحمت نہیں کرسکتے۔ آپ ایک فون کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ آپ سفیروں کو پکڑ کر دشمن کے حوالے کردیتے ہیں۔ آپ اپنے شہریوں کو ڈالروں کے عوض دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔ آپ میں اتنی طاقت اور اتنی جرأت کہاں کہ آپ ریمنڈ ڈیوس کو واپس کرنے سے انکار کردیتے اور کہتے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہر حال میں سزا دی جائے گی۔ آپ میں اتنی سکت کہاں تھی کہ آپ سنگاپور کی طرح ڈٹ جاتے۔
سنگاپور کیوں ڈٹ گیا تھا؟ اس لیے کہ سنگاپور کے حکمران سب سے پہلے اپنے اوپر‘ اپنی ذات پر‘ اپنے خاندان پر قانون نافذ کرتے تھے۔ ان کے ذاتی مفادات صفر تھے۔ انہیں بینک بیلنس کی فکر تھی نہ اندرون ملک اور بیرون ملک بکھری ہوئی جائیدادوں‘ محلات‘ اپارٹمنٹوں اور کارخانوں کی۔ سنگاپور مضبوط تھا‘ اس لیے نہیں کہ اس کے پاس کوئی ایٹم بم تھا یا طاقت ور فوج تھی‘ اس لیے مضبوط تھا کہ وہاں قانون کی فرماں روائی تھی۔ پولیس آزاد اور مکمل غیر سیاسی تھی۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری کنٹرول نہیں کرتا تھا۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے ایک دلچسپ فارمولا وضع کیا ہے۔ اس فارمولے کے تین اجزاء ہیں:
1۔ اگر جھگڑا دو بڑے اور طاقت ور ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔
2۔ اگر جھگڑا ایک طاقت ور ایک کمزور ملک کے درمیان ہو تو کمزور ملک غائب ہو جاتا ہے۔
3۔ اور جھگڑا دو کمزور ملکوں کے درمیان ہو تو اصل مسئلہ جو جھگڑے کا باعث ہے‘ غائب ہو جاتا ہے۔
اس فارمولے کا آپ اپنی صورت حال پر انطباق کریں تو کیا منظر ابھرے گا؟ یہی کہ جب جھگڑا دو مضبوط ملکوں میں ہو تو مائیکل فے کو بیَدضرورمارے جاتے ہیں اور جب مسئلہ ایک مضبوط اور ایک ضعیف ملک کے درمیان ہو تو ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا جاتا ہے۔ امریکی صدر تک معاملہ پہنچتا ہی نہیں۔ سفیر ہی کافی رہتا ہے۔ جہاز تیار کھڑے ملتے ہیں۔ قوانین کالعدم ہو جاتے ہیں۔ وزیروں کی ضرورت پڑتی ہے نہ پاسپورٹوں کی۔
طاقت ور ملک کی دو نشانیاں ہوتی ہیں۔ اپنے ہر شہری کی بھرپور‘ آخر دم تک‘ حفاظت کرتا ہے۔ اپنے مجرم کو نہیں چھوڑتا۔ کیا کسی کو اجمل کانسی یاد ہے؟ وہ امریکہ کا مجرم تھا۔ جون 1997ء میں میاں محمد نوازشریف وزیراعظم تھے جب امریکہ نے اسے پاکستان کے اندر سے پکڑا اور لے گیا۔ نوازشریف کی جگہ بینظیر وزیراعظم ہوتیں یا گیلانی یا پرویز مشرف‘ زرداری صدر ہوتے یا پرویز مشرف‘ اجمل کانسی کو امریکہ نے پکڑنا ہی پکڑنا تھا۔ امریکہ کو کون کہتا کہ پاکستانی قانون لاگو ہو گا؟ امریکیوں نے جواب میں یہی کہنا تھا کہ کیا پاکستانی قانون آپ پر‘ یعنی پاکستان کے حکمرانوں پر لاگو ہوتا ہے؟
جب مسلمان سپر پاور تھے تو تب بھی بین الاقوامی ’’قانون‘‘ یہی تھا جو ریمنڈ ڈیوس پر لاگو ہوا۔ سری لنکا سے آنے والے بحری جہاز میں عورتوں نے یا حجاج کہا تو کیا ہوا؟ دنیا کی طاقت ور ترین منجنیق بھیجی گئی جس نے دیبل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ معاملہ دیبل تک نہ ٹھہرا‘ ملتان تک کا علاقہ فتح کرلیا گیا۔
آپ مضبوط ملکوں کی روایت دیکھیں۔ ایک عام شہری کے لیے ان کے سفارت خانے کس طرح جدوجہد کرتے ہیں۔ کئی پاکستانی نژاد لڑکیاں جب پاکستان میں واپس لائی جاتی ہیں اور زبردستی یا فریب کاری سے ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں تو وہ ’’اپنے‘‘ سفارت خانے سے رابطہ کرتی ہیں۔ سفارت خانے پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آتے ہیں۔ عدالتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو‘ بے شک وہ تارکین وطن ہی کیوں نہ ہوں‘ پوری امداد اور حفاظت مہیا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ’’اپنے‘‘ اس ملک پہنچا دی جاتی ہیں جہاں کی شہریت ان کے پاس ہوتی ہے۔
ملک فوجوں‘ ہتھیاروں اور بموں سے مضبوط نہیں ہوتے۔ بجا کہ دفاع کے لیے یہ سب کچھ لازم ہے مگر مضبوطی اور شے ہے۔ مضبوط آپ اس وقت ہوتے ہیں جب اپنے مجرموں کو کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑتے۔ جب آپ کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ اس مضبوطی کے لیے صرف دفاعی استحکام کافی نہیں ہوتا‘ عزت نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی عزت نفس اس کے شہریوں کی عزت نفس سے عبارت ہے۔ مضبوط ملک وہ ہوتے ہیں جہاں مجید اچکزئی اور جمشید دستی کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوتا ہے۔ جب کسی سردار کے سامنے قبائلی کی‘ کسی چودھری کے سامنے مزارع کی اور کسی سائیں کے سامنے ہاری کی عزت کا کوئی وجود نہیں ہوگا‘ تو ملک کی مجموعی عزت نفس بھی اس حقیر ذرے کی طرح ہو گی جسے خرد بین سے تلاش کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ملک ہیں جہاں حکمرانوں کی اولاد بھی حکمران ہوتی ہے اور عام شہریوں کی نسبت ہر حوالے سے ممتاز ہوتی ہے۔ یہ اپنے شہریوں کو تزک و احتشام دکھاتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے سامنے بات بھی گھگھیا کر کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے ؎
میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا
رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے!
No comments:
Post a Comment