Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, July 07, 2017

بادشاہوں کے وارث ہم ہیں!!بھارت نہیں!

شہزادی نے اُس دن اپنے باغ میں جانے کا قصد کیا۔ سب سے پہلے کوتوالِ 
شہر کو طلب کیا گیا۔ اُس نے شہر کو سیل کر دیا۔ یعنی سربمہر! آمدو رفت رک گئی۔ گھوڑا گاڑیاں بیل گاڑیاں ہاتھی‘ جہاں تھے‘ وہیں رک گئے۔ پیدل چلنے والوں کو روک دیا گیا۔ شہر کے گورنر نے شہزادی کے قافلے کی’’حفاظت‘‘ کے لیے چار ایس پی گیارہ ڈی ایس پی‘ 33انسپکٹر اور دو ہزار چھ سو پولیس کے سپاہی راستوں پر تعینات کر دیئے۔ حریفوں نے شور مچایا کہ اس قدر پروٹوکول کی کیا ضرورت ہے۔ ان بددماغوں کو بتایا گیا کہ یہ پروٹوکول نہیں‘ حفاظت ہے! 
شہزادی گیارہ ہاتھیوں کے قافلے میں روانہ ہوئی! ایک ایک ہاتھی کئی کئی سو کئی کئی ہزار ہارس پاور کا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے سواری کے ہاتھیوں کے عجیب و غریب اجنبی سے نام رکھے ہوئے تھے۔ کسی کا بی ایم ڈبلیو کسی کا مرسڈیز! شہزادی کے ساتھ شان و شوکت میں مزید اضافے کے لیے اس کے بھائی بھی ساتھ تھے۔ داماد بھی ہمراہ تھا! پیچھے ایک اور ہاتھی پر اس کا میاں بھی سوار تھا۔
شہزادی جب باغ میں اتری ہے تو مداحین کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے تھے۔ ہجوم بے پناہ تھا! سب کورنش بجا لانے کے لیے جانے کب سے کھڑے تھے۔ بڑے بڑے بینر آویزاں تھے۔ وابستگان نعرے لگا رہے تھے۔ شہزادی کجاوے سے اتری تو خاتون کوتوال نے چُستی سے سلیوٹ داغا! شہزادی نے بے نیازانہ مداحین کے سامنے ایک ہاتھ لہرایا۔ ہجوم میں جوش و خروش کی ایک تازہ لہر دوڑی! دیکھنے والوں نے چاروں قُل پڑھ کر پھونکے۔ خدا نظر بد سے بچائے‘ حاسد آگ میں جلتے رہیں! بادشاہی قائم رہے! درباریوں کی نوکری سلامت رہے!
روسیاہ! جو اعتراض کرتے ہیں‘ عقل سے محروم ہیں! بادشاہی اور فقیری کے فیصلے ‘ بدبختو! کہیں اور ہوتے ہیں۔ ایک اقلیم ہے‘ مغرب کی 
سمت‘ اوقیانوس کے اُس پار‘ جہاں کے رہنے والے تمہاری طرح گندمی رنگ کے نہیں‘ بلکہ سفید‘ سرخ‘ گوری رنگت کے ہیں۔ وہی عملاً دنیا کا دارالحکومت ہے۔ کرۂ ارض کا بادشاہ وہیں بستا ہے۔ یہ بادشاہ خود تو چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے‘ اور صرف ایک باری مزید لے سکتا ہے مگر‘ باقی دنیا میں‘ جسے چاہے دس دس‘ بیس بیس بلکہ تیس تیس سال تک اقتدار میں رکھے! سو ہارتو‘ حسنی مبارک‘ اور کئی اور حکمرانوں کو اُس بڑے بادشاہ نے عشروں تک اقتدار میں رکھا۔ پھر نکال کر پھینک دیا!
شہزادی کو پروٹوکول ملے یا حفاظت کے دستے‘ حریفوں حاسدوں کو کیا تکلیف ہے!کیا برصغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے بادشاہی مسلمانوں کا طرزِ حکومت نہیں رہی؟ اگر صوبے میں شہزادی کا چچا زاد شہزادہ سیاہ و سفید کا مالک ہے تو کیا مشرق وسطیٰ میں صوبوں کے گورنر سب شاہی خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے! شاہ جہان نے اپنے فرزندوں کو مختلف صوبوں کی گورنریاں سونپیں۔ اگر پنجاب کے والی نے ترقیاتی فنڈ کا نگران اپنے ہونہار فرزند کو بنا دیا ہے تو بادشاہت کا کون سا اصول اس سے ٹوٹ گیا؟ انسان کو بات کرنے سے پہلے کچھ سوچنا چاہیے۔
اللہ بھائیوں کی جوڑیاں سلامت رکھے! بہن کے دائیں بائیں کھڑے تھے تو آسمان پر چاند ستارے جھوم رہے تھے۔ ہوائیں شادیانے بجا رہی تھیں۔ خدا ہمارے مستقبل کے بادشاہوں کو سلامت تا قیامت رکھے۔ الیکٹرانک میڈیا پر دن رات قصیدہ خوانی کرنے والے متعدد استاد ذوق تا ابد الفاظ کے زر و جواہر نچھاور کرتے رہیں۔ حسد کرنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہوتے رہیں!رعایا دعا کرتی ہے کہ شہزادے شہزادیاں سلامت رہیں اور ہم پر حکومت کریں!
جنوب میں ایک اور شہزادہ حکمرانی کے آداب سیکھ رہا۔ قوم اس کے لیے بھی سلامتی کی دعا کرتی ہے! شاہی خاندان جتنے بھی ہیں‘ قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں! ہماری آئندہ نسلیں ان کی غلامی پر فخر کریں گی ! بادشاہت ان کا حق ہے۔ یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا!
رعایا کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ کسی ناہنجار گستاخ کو بادشاہ کے آرام میں مخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے! یہ جو دوا سازکمپنیوں کی انجمن
Pakistan pharmaceutical manufacturers association(PPMA)
نے اخبارات کے صفحہ 
اول پر اشتہار داغا ہے‘ یہ شاہی آرام میں خلل کا باعث ہے! ان گستاخوں نے لکھا ہے کہ پوری دنیا میں جگر‘ کینسر ‘ گردوں اور بلڈ پریشر کے لیے جدید طریقہ علاج متعارف ہو چکا ہے مگر پاکستان میں یہ جدید ادویات ابھی تک عوام سے کوسوں دور ہیں اس لیے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قیمتوں کی حتمی منظوری کے بغیر ان دوائوں کو بازار میں لانا ممکن نہیں! قیمتیں تجویز کرنے والی کمیٹی اپنی تجاویز پیش کر چکی ہے، فائل ڈیڑھ سال سے بادشاہ سلامت کے محل میں پڑی ان کے مبارک دستخطوں کی منتظر ہے! دوا سازوں کی اس انجمن نے شہنشاہِ دوراں سے اپیل کی ہے جان کی بازی ہارتے لاکھوں لوگوں پر رحم کیا جائے اور اس فائل کو منظور کیا جائے۔
یہ گستاخانہ اشتہار شاہی نظام میں خلل کا باعث ہے! یہ بغاوت کے مترادف ہے! کہاں لاکھوں جان ہارتے‘ سسکتے ‘ بلکتے‘ ایڑیاں رگڑتے مریض۔ اور کہاں بادشاہ سلامت تاقیامت کی شاہانہ مصروفیات! بادشاہ سلامت 
کو مری جانا ہوتا ہے جہاں ان کے محل کو مبینہ طور پر سرکاری رہائش گاہ قرار دیا 
گیا ہے! اب مخالف اس پر بھی انگلی اٹھائیں گے کہ محلات کا سلسلہ رائے ونڈ سے ہوتا ہوا مری جا پہنچا ہے۔ تو کیا رباط جدہ اور دوحہ کی بادشاہتوں میں محلات کی قطاریں نہیں لگی ہوئیں؟ ہم ان سے پیچھے کیوں رہیں؟
ان حاسدوں کو اپنی ہی تاریخ کا علم نہیں! مغل بادشاہ کشمیر جاتے تھے تو کیا فائلیں ڈیڑھ ڈیڑھ سال کے لیے دہلی میں ان کا انتظار نہیں کرتی تھیں! بھمبر تک قافلے ہاتھیوں کے ذریعے آتے تھے۔ اس سے آگے ہاتھی نہیں جاتے تھے۔ قُلّی سامان اٹھا لیتے تھے مغل بادشاہ کا ذاتی 
سامان پانچ ہزار قلی اٹھاتے اور لے جاتے تھے! ہم پاکستانی مسلمان انہی بادشاہوں کے وارث ہیں ! اب مودی‘ واجپائی، من موہن سنگھ اور مرار جی ڈیسائی جیسے خالی ہاتھ فقیر فُقرے تو اِن تزک و احتشام والے بادشاہوں کے وارث نہیں ہو سکتے! بھک منگا مودی! روسیاہ کا جدہ میں کارخانہ ہے نہ لندن میں جائیداد! دبئی میں محل ہے نہ نیو یارک میں پینٹ ہائوس! بُھوکے قلاش بنیے! قوم کے لیے کبھی امریکہ جا دھمکتا ہے کبھی یو اے ای میں جا کر معاہدے کرتا ہے! ابے بدبخت! کچھ اپنی اور اپنے خاندان کی فکر کر! قوم کے کام تو ہوتے ہی رہیں گے۔ یہ بادشاہی پھر کب ملے گی تجھے!کچھ اپنا مُنہ سر کر لے! اپنے اثاثوں میں اضافے کی کوئی تدبیر کر!
دوا سازوں کی انجمن پر بغاوت کا مقدمہ چلنا چاہیے! لاکھوں مریض بادشاہ سلامت کے ایک لمحۂ آرام پر قربان کر دیے جائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں! ڈیڑھ سال ہی تو 
ہوافائل کو! پانچ برس تو نہیں ہو گئے کہ تم نے آہ و زاری شروع کر دی! بادشاہی میں ترجیحات اور ہوتی ہیں! مملکت کے رموز بادشاہ ہی جانتے ہیں!
رعایا دست بدعا ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ شہزادی کی حفاظتی پولیس میں مزید اضافہ کیا جائے۔ ہاتھیوں کی تعداد بڑھائی جائے! دارالحکومت میں دو دن پہلے ٹریفک جس طرح جام ہوئی اور بے پناہ گرمی میں جس طرح لاکھوں لوگ ذلیل و خوار ہوئے‘ وہ شہزادی کی حفاظت کے مقابلے میں کچھ نہیں! ٹریفک پر مستقل پابندی عائد کر دی جائے۔ لوگ پیدل گلیوں میں چلیں یا سرنگیں کھود لیں! شاہی خاندان مقدم ہے! شاہی خاندان ہو گا تو ملک بھی ہو گا! قوم بھی ہو گی! بادشاہ سلامت بیرون ملک پوتے ساتھ لے کر گئے ہیں! حکمرانی کے یہ انداز امریکہ برطانیہ اور دیگر ملکوں کے حکمرانوں کو بھی سیکھنے چاہیں!
یہ وحشت اثر خبر بھی ہے کہ دوا ساز کمپنیوں کی انجمن کو کسی نے گُر بتایا ہے کہ فائل واپس منگوا کر اُس پر عنوان (سب جیکٹ) ’’میٹرو‘‘ لکھ دو! یوں فائل شاہی توجہ حاصل کرنے میں جلد کامیاب ہو جائے گی! متبادل تجویز یہ ہے کہ دوا ساز کاروبار بدل لیں۔ سیمنٹ اور لوہے کا کاروبار شروع کر دیں یا شاہراہوں اور پُلوں کے ٹھیکے لینے پر غور کریں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com