اب مزید کون سا ثبوت چاہیے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سرکاری ادارے‘ ذاتی
وفاداروں سے بھر دیئے گئے ہیں؟ ریاست کے نہیں‘ اداروں کے سربراہ خاندان کے وفادار ہیں! ایک خاندان کے! شاہی خاندان!
سی ای سی پی کی خاتون افسر ماہین فاطمہ نے بھانڈا سر راہ پھوڑ دیا۔ ’’چیئرمین نے جے آئی ٹی کے خلاف بیان دینے کے لیے دبائو ڈالا کہ یہ کہوں کہ جے آئی ٹی نے رُلا ڈالا۔ دھمکی دی گئی کہ گلگت پھینک دیا جائے گا۔‘‘ گلگت اس لیے کہ اس سے آگے خنجراب ہے جہاں سے چین کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
عمران خان غلط نہیں رونا روتا کہ ادارے تباہ و برباد کردیئے گئے۔ ایک نہیں‘ بیسیوں‘ اس سے بھی زیادہ مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جس دن کسی نے سارا حساب کیا تو یہ مثالیں سینکڑوں‘ شاید ہزاروں کی تعداد میں ہوں۔ جنرل پرویز مشرف نے جس دن اقتدار سنبھالا‘ اس سے ایک یا دو دن بعد‘ ایک معروف انگریزی معاصر نے خبر چھاپی کہ ایف آئی اے میں تیس اہلکار بھرتی ہوئے جن میں سے اٹھائیس ایک خاص شہر کے خاص حصے سے تھے۔ اسی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ چالیس سے زیادہ کلیدی مناصب پر ایک خاص شہر اور ممکنہ حد تک ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ فائز تھے۔
اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ نوکرشاہی کے جس رکن کا نام ماڈل ٹائون چودہ قتل معاملے پر سنا جا رہا تھا اسے بیرون ملک‘ بین الاقوامی تجارتی تنظیم میں سفیر مقرر کردیاگیا۔ اس کا سفارت سے تعلق تھا نہ تجارت سے‘ تعلق تھا‘ مگر شاہی خاندان سے!
پنجاب اسمبلی اگر جیتی جاگتی اسمبلی ہوتی تو کسی دن تجزیہ کرتی کہ صوبائی پبلک سروس کمیشن میں جن ریٹائرڈ افسروں کو کھپایا جاتا ہے‘ ان کی کثیر تعداد ایک ہی علاقے سے کیوں ہے؟ پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنا ہو تو اٹک بھی شامل کیا جاتا ہے‘ بہاولپور بھی! مگر جب حقوق کی بات آتی ہے تو صرف وسطی پٹی کے پانچ چھ اضلاع سارے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ قصور کے ہسپتال کا خادم اعلیٰ کئی بار دورہ کر چکے ہیں۔ اٹک‘ میانوالی اور جھنگ‘ لودھراں‘ مظفر گڑھ اور بہاولپور کیوں نہیں جاتے؟ چار یا پانچ سال پہلے کی بات ہے صوبے کے پبلک سروس کمیشن کے ایک رکن کو مغربی پنجاب کے ایک غریب گائوں کی بے کس مگر اہل لڑکی کی درخواست بھیجی‘مروت کا یہ عالم ہے کہ یہ گردن بلند خط کی رسید تک نہیں دیتے‘ اگرچہ بالمشافہ ملیں تو تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پولیس افسروں کو دوستی کے جال میں پھنسا کر‘ سارے کیریر کے دوران خدمت گار بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ریٹائر ہوتے ہیں تو دوسرے دن گاڑی ایک اور کرسی کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے۔ اہلیت کو کس طرح ٹھوکروں کی زد پر رکھا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ذوالفقار چیمہ جیسے لائق اور دیانت دار پولیس افسر کو صوبے کا انچارج نہ بنایا گیا۔ آئی جی لگا بھی تو موٹروے کا۔ صوبے کا آئی جی وہ لگایا جاتا ہے جو اشارۂ ابرو پر رقص کرے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بے شک پہلو سے لگا رہے۔
تاخت و تاراج کردیئے گئے ہیں ریاستی ادارے‘ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ دو ماہ سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آسامی خالی ہے۔ محکمے میں تین گریڈ بائیس کے افسر موجود ہیں جو ہر لحاظ سے اہل ہیں۔ مگر نہیں! اس کی تلاش ہے جس کی وفاداری میں شائبہ تک نہ ہو۔ بے شک اس کا ادارے سے اور ادارے کے تکنیکی کام سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا کام تو یہ ہے کہ بیوروکریسی کے ایک ایک رکن کا چارٹ بنا کر سامنے رکھے۔ جہاں تعینات ہو‘ تین سال تک کام کرے۔ تمام صوبوں میں اسے باری باری مامور کیا جائے مگر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ ڈاکخانے کا بابو بن کر رہ گیا ہے۔ اسے احکام زبانی دیئے جاتے ہیں۔ اوپر سے! کسی کو چند ہفتوں یا چند ماہ بعد ہٹا دو‘ کسی کو لگا رہنے دو‘ خواہ سالہا سال سے بیٹھا ہو۔ کوئی نظام نہیں‘ کوئی سسٹم نہیں‘ کوئی میرٹ نہیں‘ کوئی اہلیت نہیں۔ اداروں کے سربراہ حقہ بردار بنے پھرتے ہیں۔ ماہین فاطمائوں پر دبائو ڈال کراپنی وفاداریاں صیقل کرتے ہیں۔ ملازم ریاست کے ہیں‘ تنخواہ عوام کے پسینے سے لیتے ہیں مگر وفاداری ریاست کے ساتھ ہے نہ عوام کے ساتھ۔
کہنے کو تو الیکشن سے پہلے نجم سیٹھی وزیراعلیٰ تھے مگر طنابیں اور خیمے رائے ونڈ میں نصب تھے اس لیے کہ حاضری دینے والے بیوروکریٹ جوق در جوق‘ کارواں درکارواں‘ ادھر ہی جا رہے تھے۔ قبلہ سب کا سیدھا تھا‘ یہ جلیبی کی طرح سیدھے‘ نوکرشاہی کے ارکان‘ جنہیں میرٹ کا محافظ بننا پڑے تو پہلے جٹ بن جاتے ہیں‘ گانٹھ کے پکے ہیں‘ انہیں معلوم تھا کہ الیکشن کا نتیجہ کیا ہو گا اور اصل سرکار کہاں بیٹھی ہے۔ دیوانہ بکار خاص ہشیار!!
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صاحب! امریکہ میں بھی تو سپائل
(Spoil)
سسٹم ہے۔ جو پارٹی برسراقتدار آتی ہے‘ اپنے چہیتوں کو مناصب پر بٹھاتی ہے مگر یہاں دلیل دینے والے حضرات دو نکتے بھول جاتے ہیں۔ اول یہ کہ وہاں مناصب بانٹے جاتے تھے تو پارٹی کے حمایتیوں کو دیئے جاتے تھے۔ اس بنیاد پر ان کا انتخاب نہیں ہوتا تھا کہ فلاں شہر کی فلاں برادری سے ہیں۔ رہی بات امریکی سیاسی پارٹیوں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن کی تو ان کے سربراہ ہرسال نہ بھی بدلیں تو دو سال بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گائوں سے لے کر ریاست کے صدر مقام تک‘ ہر جگہ پارٹی کے اندر الیکشن ہوتے ہیں‘ جھرلو الیکشن نہیں‘ اصلی اور جیتے جاگتے الیکشن۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سپائل سسٹم امریکہ میں آیا تھا مگر کب کا چلا بھی گیا۔ صرف جانے والے کی گرد باقی ہے۔ 1829ء سے پہلے کوئی سپائل سسٹم نہیں تھا۔ اسی سال ’’عوامی‘‘ صدر بھائی اینڈریو جیکسن منتخب ہوئے۔ یوں سمجھیے جیالوں کا دور آ گیا۔ ان صاحب نے ووٹروں سے نوکریوں کے وعدے کیے تھے۔ چنانچہ ’’ریفارم‘‘ کے نام پر اپنے حمایتیوں میں عہدے یوں بانٹے جیسے اندھا اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دس فیصد عہدے ان کے حمایتی ہڑپ کر گئے۔ یہ تعداد ہزار سے ذرا ہی کم بنتی ہے۔ چار سو سے زیادہ پوسٹ ماسٹروں کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا اور جیالوں‘ متوالوں کو ان کی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا۔
مگر جلد ہی امریکی عوام اس بندر بانٹ کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ پھر ایک واقعہ پیش آ گیا۔ 1881ء
میں گار فیلڈ امریکی صدر بنا۔ پارٹی کا ایک حمایتی منصب کا امیدوار تھا اور فرانس کے
امریکی سفارت خانے میں تعینات ہونا چاہتا تھا۔ ناکامی پر اس نے صدر گار فیلڈ کو قتل کر دیا۔ اب سول سروس میں اصلاحات کا تقاضا زور پکڑنے لگا۔ آخر کار 1883ء میں کانگرس نے ’’سول سروس ایکٹ‘‘ پاس کیا جسے پینڈلٹن ایکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کا مصنف ایک شخص ایٹن تھا جو سپائل سسٹم کا سخت مخالف تھا۔ ایکٹ کے نتیجے میں ’’سول سروس کمیشن‘‘ وجود میں آیا اور مناصب کمیشن کی دسترس میں آ گئے۔ شروع میں صرف دس فیصد اور رفتہ رفتہ کثیر تعداد میں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سندھ میں حالات پنجاب اور وفاق سے بدتر نہیں تو بہتر بھی نہیں۔ کیا عجب بدتر ہوں۔ وہاں بھی ایک ہی خاندان ہے جو پوری صوبائی بیوروکریسی کو کنیز بنائے ہوئے ہے۔ یہ کنیز اسی کی مرضی کے مطابق بنائوسنگھار کرتی ہے‘ ناچتی ہے اور پیروں میں گھنگھرو باندھ کر تھرکتی ہے۔ نچانے والی ڈور کراچی سے دبئی تک لمبی ہے۔ رہا بلوچستان تو وہاں سرکاری ملازم سرداروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ تازہ عبرت ناک مثال سب نے دیکھ لی۔ سردار ایم پی اے نے پولیس کانسٹیبل کو گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ زیارت کا ڈپٹی کمشنر (کچھ کہتے ہیں اسسٹنٹ کمشنر) بھاگتا بھاگتا مقتول کے خاندان کے پاس پہنچا۔ دو لاکھ روپے دیئے اور ’’راضی نامہ‘‘ کی راہ ہموار کرنے لگ گیا۔ کم و بیش ساری نوکرشاہی کا وہاں یہی وتیرہ ہے یا مجبوری۔ وزیراعلیٰ سے لے کر گورنر تک سب سردار ہیں۔ سردار ابن سردار ابن سردار۔ سرکاری ملازموں کو ذاتی خدمت گار سمجھنے والے۔
کب تک مناصب ’’اپنے بندوں‘‘ میں بانٹے جاتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟ جوتیوں میں دال کب تک بٹے گی؟ شاہانہ طرز عنایت کب تک عہدوں کو خلعتوں کی طرح تقسیم کرتا رہے گا؟ وفاداروں کے منہ موتیوں سے کب تک بھرے جاتے رہیں گے؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ایس ای سی پی اور کرکٹ بورڈ جیسے عالی قدر ادارے کب تک خدمت گاروں کے سپرد ہوتے رہیں گے؟ ریاست کے مفادات پر کب تک شب خون مارا جاتا رہے گا؟
ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے۔ ایک زندہ‘ گوشت پوست کی جیتی جاگتی پارلیمنٹ! ایک ایک تعیناتی کا وہاں پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ نااہلوں کو برہنہ کیا جائے۔ ان اہلکاروں کی پشت پناہی کی جائے جو میرٹ کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ حکومت کو واشگاف الفاظ میں وہی کچھ بتایا جائے جو سعدی نے بتایا تھا۔ ؎
محال است کہ ہنر مندان بمیرند
و بی ہنران جائے ایشان گیرند
یہ ممکن نہیں کہ اہل ہنر مر جائیں اور ان کی جگہ بے ہنر لے لیں۔
مگر کون سی پارلیمنٹ؟ بے شمار پڑھنے والے اکنافِ عالم سے پوچھیں گے ’’کالم نگار صاحب! کس پارلیمنٹ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا آپ کسی سیارے میں رہ رہے ہیں؟‘‘
آہ! پارلیمنٹ! اس پارلیمنٹ کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہوتی تو رونا ہی کس بات کا تھا! منتخب نمائندوں کا کیا کہنا! سندھ اسمبلی میں نیب کا گلا گھونٹ کر جھرلو احتساب کا نظام منظور کرلیا گیا ؎
لگا ہے دربار! شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں موم کے ہیں گواہ سارے
No comments:
Post a Comment