ہر رات سونے سے پہلے جھگڑا ہوتا تھا پانچ سالہ حمزہ میرے بائیں طرف سونے
پر اصرار کرتا۔ اس کی تھیوری یہ تھی کہ ابو کے ساتھ وہ سوئے گا اور چار سالہ زہرہ، اُس کے ساتھ ! زہرہ کا موقف یہ تھا کہ اس نے وہاں سونا ہے جہاں حمزہ سونا چاہتا ہے۔ اس کا حل یہ نکا لاجاتا کہ میں درمیان میں سوتا، ایک طرف حمزہ اور دوسری طرف زہرہ لیٹتے! اس پر حمزہ دھاندلی پر اتر آتا اور کہتا کہ زہرہ دوسری طرف بھی نہ سوئے، ابو کے ساتھ صرف اور صرف وہ سوئے۔ پھر اسے ڈانٹ پڑتی۔ اس ذہین بچے کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ دادا کی مصنوعی ڈانٹ ہے۔ ابا کی اصلی ڈانٹ نہیں ہے۔ چنانچہ ڈانٹ پڑنے پر وہ کھل کھلا کر ہنستا۔
ایک مہینہ اور اس کے اوپر ایک ہفتہ ، کل پانچ ہفتے یوں گزرے جیسے ایک پل گزرتا ہے ؎
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
آتے ہی باپ نے اردو کی ٹیوشن لگوا دی۔ وہاں ، بحرالکاہل کے کنارے، جس ملک میں رہتے ہیں گھر میں فتح جنگ کی ٹھیٹھ پنجابی اور باہر ٹھیٹھ انگریزی بولتے ہیں۔ باپ کو فکر ہے اردو میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ چنانچہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا درس اردو کا پورا سیٹ منگوایا۔ اب اردو پڑھنے لگا ہے مگر بول چال کے لئے پریکٹس لازم ہے۔ اس کے لئے وقفے وقفے سے پاکستان لایا جاتا ہے۔ ٹیوشن لگوائی تو چاچوں اور پھپھو نے مخالفت کی کہ بچے چند دن تعطیلات گزارنے آتے ہیں اور آدھا دن ٹیوٹر کی نذر ہو جاتا ہے۔ خدشہ یہ بھی تھا کہ ٹیوٹر صاحب ان سے انگریزی نہ بولنا شروع کر دیں۔
نواسی سے پروردگار نے نواز رکھا تھا۔ اسے تیسری بیٹی کہتا ہوں۔ یہ پہلا پوتا ہے جو مالک الملک نے خزانہ خاص سے عطا کیا۔ نواسی کا ورودہوا تو نانا نانی نے اوقیانوس عبور کیا اور استقبال کیلئے سمندر پار جا موجود ہوئے۔ پوتے صاحب نے کرئہ ارض کے دوسرے کنارے پر طلب کیا۔ استقبال کے لئے ہم اُس جزیرے میں گئے جو براعظم بھی ہے اور اتنا عجیب و غریب کہ لینڈ ڈائون انڈر کہلاتا ہے۔ جن دنوں یہاں چلچلاتی دھوپ پڑتی ہے وہاں کڑاکے کی سردی ہوتی ہے۔ درمیان میں صحرا، ساحلوںپر شہر، بڑا اتنا کہ نکلتے ہوئے چھ گھنٹے جہاز اُسی کے اوپر اڑتا رہتا ہے۔
چلنا شروع کیا تو ٹرالی بیگوں کا عاشق نکلا۔ بڑے سے بڑا ٹرالی بیگ خود سنبھالنے اور چلانے کی کوشش کرتا۔ ایئرپورٹوں پر، کسی بھی مسافر کا ٹرالی بیگ چلانا شروع کر دیتا۔ ایک دن ہم میاں بیوی نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے لئے ایک کھلونا ٹائپ چھوٹے سائز کا ٹرالی بیگ خریدا جائے۔ ہم میلبورن کے بازاروں میں پھرتے رہے، ڈھونڈتے رہے مگر کسی دکان پر مل ہی نہیں رہا تھا۔ پھر کسی نے بتایا کہ Southern Cross
ریلوے سٹیشن کے قریب ایک بڑا بازار ہے۔ شاید وہاں سے ملے۔ دادا دادی ٹرین پر سوار ہوئے اور اُس بازار میں پہنچ گئے ؎
ڈھونڈتے ڈھونڈتے ڈھونڈ لیں گے تجھے
گو نشاں ہے ترا بے نشاں بے نشاں
ایک دکان پر ایک ہی پڑاتھا، خوش قسمتی سے تھا بھی نیلے رنگ کا جو وہاں لڑکوں کا مخصوص رنگ سمجھا جاتا ہے۔ حمزہ ٹرالی بیگ کوپا کر اتنا خوش ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ اپنا کاٹھ کباڑ اس میں ڈالا زپ بند کی اور باہر چل پڑا۔ دادا پیچھے پیچھے! فٹ پاتھ پر جی بھر کر چلایا۔ اس کے بعد یہ اس کا جزو لاینفک بن گیا۔ گھر میں جہاں بھی ہوتا، یا جہاں بھی جاتا، کمرے سے لائونج میں، یا لائونج سے سٹڈی میں، یا باہر لان میں، ٹرالی بیگ ساتھ ہوتا۔ آدھی رات تک ہمارے کمرے میں ہوتا۔ کہانی سنتا! پھر اچانک اعلان کرتا کہ میں ممی اور ابا کے کمرے میں جارہا ہوں۔ ٹرالی بیگ چلاتے چلاتے ہی دوسرے کمرے میں جاتا۔ صبح اٹھ کر باہر آتا تو ٹرالی بیگ ساتھ ہوتا۔
ایک مہینہ اور اس کے اوپر ایک ہفتہ، کل پانچ ہفتے، گھر باغ بنا رہا، خوشبوئیں اڑتی رہیں، قہقہے بکھرتے رہے۔ ہر طرف کھلونوں کے سپیئر پارٹس اور چیزوں کی بے ترتیبی میں عجیب ترتیب تھی اور حسن! چلے گئے ہیں تو ترتیب اور صفائی، خاموشی اور سناٹا، کلیجے پر ضرب لگاتا ہے۔ وہ ہر طرف بکھرے کاغذ کتنے اچھے لگتے تھے۔ دیواروں پر ہر طرف چسپاں ہونے والی چٹیں دل کو بھاتی تھیں۔ درہم برہم ڈرائنگ روم زندگی کا نشان تھا۔ ایک دن دیکھا کہ قیمتی فائونٹین پین کی نب ٹوٹی ہوئی ہے۔ دونوں کو بلایا اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ جو بچہ بتائے گا کہ اس نے توڑی ہے اُسے پرائز ملے گا۔ زہرہ نے فوراً بتایا کہ پین اُس سے گرا ہے۔ پوچھنے لگی پرائز میں کیا ہو گا؟ بتایا چپس اور جُوس۔ حمزہ نے فوراً مطالبہ پیش کر دیا کہ پرائز اسے بھی ملنا چاہئے، پوچھا کس خوشی میں؟ اُس کی منطق سیدھی اور صاف تھی کہ زہرا کو ملے گا تو ظاہر ہے وہ بھی لے گا۔
دونوں کو ہر شے آپس میں شیئر کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ ایک کو کارٹون دیکھنے کے لئے آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ ملتا تو دونوں مل کر دیکھتے یا دونوں کو پندرہ پندرہ منٹ کے لئے دیا جاتا۔ وقت کے تعین کے لئے الارم لگایا جاتا۔ جیسے ہی الارم بجتا، آکر، بھلے مانسوں کی طرح واپس کر دیتے مگر ساتھ ہی حمزہ پوچھنے لگ پڑتا کہ اب میں کیا کروں؟ بور ہو رہا ہوں !! شیئرکرنے کا سلسلہ ہر معاملے میں آن پڑتا ہے۔ کار میں بیٹھے کہیں جارہے تھے۔ حمزہ نے شیشہ نیچے کیا، ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا، زہرہ سے کہنے لگا، کتنی ٹھنڈی ہوا لگ رہی ہے مجھے! زہرہ نے فوراً قانونی نکتہ نکالا، ٹھنڈی ہوا ہے تو میرے ساتھ شیئر کرو۔ اور آگے ہو کر کھڑکی کے سامنے ہو گئی!
بیمار، نحیف و نزار نواب نے بچپن کے بے تکلف دوست، موٹے تازے
کسان کو مخاطب کرکے کہا جہان خانا ! میں بادام اور چہار مغز کھاتا ہوں۔ پانی فلاں چشمے کا پیتا ہوں۔ پرندوں کا گوشت میرے دسترخوان کا مستقل جزو ہے۔ گھی اور مکھن سنبھالا نہیں جاتا، مگر صحت ہے کہ ٹھیک نہیں! تم ہٹے کٹے موٹے تازہ ہو حالانکہ تمہیں کھٹی لسی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ آخر راز کیا ہے۔ جہان خان نے جواب دیا، نواب صاحبا! بادام اور چہار مغز؟ گھی اور مکھن؟ ہا ہا ! تم مٹی اور راکھ کھاتے ہو! ارے صحت مہنگے کھانوں سے نہیں بنتی۔ میں کھیتوں میں کام کرکے واپس لوٹتا ہوں تو میرے پوتے اور نواسے مجھ پر چھلانگیں لگاتے ہیں۔ پوتی میری داڑھی سے کھیلتی ہے۔ نواسہ میری پگڑی اتار کر اپنے سر پر باندھنے لگتا ہے۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے تم محروم ہو! یہی میری صحت کا راز ہے۔ سچ کہا ان پڑھ جہان خان نے ! کاش پڑھے لکھوں کو بھی یہ نکتہ سمجھ میں آجاتا ! نعمتوں کا احساس! نعمتوں کے وجود کو تسلیم کرنا اور پھر شکر ادا کرنا! مگر افسوس! انسان کی سرشت میں نعمتوں کو نظر انداز کرنا اور ناخوش رہنا لکھا ہے۔ جس کے پاس ماں باپ کے وجود کی صورت میںبے بہا دولت موجود ہے، وہ پیروں اور بزرگوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ پیر تو گھر میں بیٹھے ہیں۔ آقاؐ نے فرما دیا کہ خدا کی رضا والد کی رضا میں ہے تو پھر بھٹکنے سے کیا حاصل! رومی نے کہا تھا معشوق ہمسائے میں رہ رہا ہے۔ دیوار سے دیوار جُڑی ہے اور تم دشت و جبل میں سرگرداں ہو!
نعمت کیا شے ہے؟ کوئی اس سے پوچھے جس کے گردے جواب دے رہے ہیں، جس کی ٹانگ مصنوعی ہے، جو جگر کی پیوندکاری کے لئے ملکوں ملکوں پھر رہا ہے اور دولت کے انبار بھی کام نہیں آرہے۔ سعدی کے پاس جوتا نہ تھا۔ نالاں اور غم زدہ تھے، دیکھا کہ ایک شخص کا پائوں ہی نہیں ہے، ہوش ٹھکانے آگئے۔ صحت مند اور نارمل اولاد کی قدر ان سے پوچھو جن کے بچے ذہنی یا جسمانی طور پر روگ میں مبتلا ہیں۔ یہ نعمت کیا کم ہے کہ انسان اتنی زندگی حاصل کر لے کہ اولاد کی اولاد کے ساتھ کھیلنا کودنا میسر آجائے۔ یہ وہ دولت ہے جو زور سے ملتی ہے نہ زر سے! پودینے، سرخ مرچ اور لسی سے بنی چٹنی سے سوکھی روٹی کھانے والا جب پوتوں اور نواسوں کے درمیان نہال بیٹھتا ہے اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں اس کی فرماں بردار ہیں تو وہ اُس آسودہ حال شخص کے مقابلے میں بادشاہ کی طرح ہے جس کی اولاد اس کے لئے سوہان روح ہے یا جو پوتوں اور نواسوں، نواسیوں اور پوتیوں سے محروم ہے! وہ تو ایک سوکھا درخت ہے جس کے سائے تلے کوئی بیٹھتا ہے نہ کوئی اُسے جھاڑتا ہے۔ خدا کے بندو! ان پر رشک نہ کرو جنہیں تم خوش قسمت سمجھتے ہو! یہ تمہاری بھول ہے۔ محلات میں رہنے والے،(باقی صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
جنہیں کبھی پاناما لیکس نہیں سونے دیتی کبھی سرے محل ڈرائونا سپنا بن کر خوف زدہ کرتا ہے، یہ کہاں کے خوش قسمت ہیں! خوش قسمت تو وہ ہے جو تندرست ہے، جو بچوں پوتوں نواسیوں میں گھرا ہے، جو گم نام ہے اور لوگ اس پر انگلیاں نہیں اٹھاتے، جسے نیب کا ڈر ہے نہ ایف آئی اے کا، پولیس کا نہ آئی بی کا ! جو اتنی دولت اور جائیداد اور کارخانے اور مربعے چھوڑ کر نہیں مرے گا کہ اولاد ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائے اور کبھی بھول کر بھی ماں باپ کی قبر پر دعا کرنے نہ آئے، خوش بخت ہیں وہ جو وراثت میں صرف نیکی، صرف نیک نامی اور صرف نیک اولاد چھوڑتے ہیں۔ یہی وہ اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد ایک دوسرے سے محبت کرتی ہے، ایک دوسرے کے کام آتی ہے، ماں باپ کے لئے رحمت مانگتی ہے، اُن کی قبروں پر اپنے ہاتھوں اور اپنے اُجلے رومالوں سے جھاڑو دیتی ہے!
ایک مہینہ اور اس کے اوپر ایک ہفتہ! کل پانچ ہفتے! صوفے پر بیٹھتا تو ننھی زہرہ پیچھے سے گلے میں چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی باہیں حمائل کرکے پشت کے ساتھ لگ جاتی! دل چاہتا یہ لمحہ امر ہو جائے۔ ہم نے مارگلہ کے پہاڑوں کی سیر کی! پلے لینڈ میں کھیلے، پارکوں اور باغوں میں ایک دوسرے کو پکڑنے کے لئے دوڑتے پھرے۔ پھر وہ گہری ہوتی، سانپ کی طرح سرسراتی شام اُتری اور لوہے کا پرندہ میرے بچوں کو لے کر اُڑتا بنا! میں ہاتھ ہلا تارہ گیا۔ واپس گھر پہنچے تو میں نے بیوی کو اور بیوی نے مجھے دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں خلا تھا۔
بے انت خلا، دور، کہیں دُور، لوہے کا پرندہ ہوا میں اُڑ رہا تھا!
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پل گزرا تھا
اب نہ وہ گھر نہ وہ شام کا تارا
اب نہ وہ رات نہ وہ سپنا تھا
پچھلی رات کی تیز ہوا میں
کورا کاغذ بول رہا تھا
1 comment:
Akheeeer.hats off
Post a Comment