سال کے آخری دن ہم نے مٹی گوندھی۔چاک پر رکھی اور امیدیں بنائیں۔صبح اٹھ کر دیکھا تو ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھیں ۔
ہمارے ساتھ عشروں سے یہی ہورہا ہے۔ ہر سال کے ڈوبتے دن ہم امیدیں بناتے ہیں ۔ خواب بنتے ہیں ۔خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں ۔پھر یہ سب کچھ صحن میں رکھ کر سو جاتے ہیں ۔ صبح اٹھتے ہیں ۔صحن کی طرف لپکتے ہیں کہ دیکھیں نئے سال کی صبح ہماری امیدوں،ہمارے خوابوں ،ہمارے خاکوں کو کتنا سہارا دیتی ہے مگر ہمیشہ ہمیں امیدیں بکھری ہوئی ،خواب ریزہ ریزہ اور خاکے بگڑے ہوئے ملتے ہیں ۔
کیا کوئی نیا سال ایسا بھی آئے گا کہ ہم غاصبوں ،لٹیروں ، اٹھائی گیروں اور بہروپیوں سے نجات پا سکیں ۔ہم اس کلاس سے جان چھڑا سکیں جو ہماری دولت پر ،ہماری خوب پسینے کی محنت پر، ہمارے ٹیکسوں سے جمع شدہ خزانوں پر عیش و عشرت کررہی ہے اور دہائیوں سے کیے جارہی ہے۔
کیا کوئی ایسا نیا سال آئے گاکہ ہم مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اچھی خبر سنیں ۔یہ کہ امریکہ کے یا روس کے صدر ہوگئے ہیں ۔ اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہوگئے ہیں یا مشرق وسطیٰ کے کسی امیر کبیر ملک کے بادشاہ بن گئے ہیں اور پاکستان سے چلے گئے ہیں ۔ کاش کوئی نیا سال ایسا آئے کہ وہ پاکستان پر رحم کھاتے ہوئےاسے معاف کردیں ۔ان کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا اعلان کررہے ہیں اور کوئی ان کی زبان پکڑنے والا نہیں ۔
کہتے ہیں
“قبائل آزاد ہیں پاکستان میں غلام کی حیثیت سے نہیں رہیں گے ۔آزادی کے لیے جنگ لڑرہا ہوں ۔ میں نے ہمیشہ کشمیر کے حق خود ارادیت کی بات کی ہے اور آزاد قبائل کے حق خود ارادیت کی بات بھی کرتا رہوں گا۔پارلیمنٹ جمہوری ادارہ ہے مگر وہ ملک کے جغرافیے کو تبدیل نہیں کرسکتی۔قبائل آزاد ہیں ،ان کو زبردستی شامل کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں غلام کی حیثیت سے نہیں رہیں گے۔میں ایک گھنٹے کے لیے بھی پاکستان میں غلامی کی زندگی نہیں گزاروں گا ۔ میں آزادی کے لیے جنگ لڑ رہا ہوں ۔”
کیا یہ کسی پاکستانی کے الفاظ ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں !مولانا آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ۔کون سی آزادی کے لیے؟۔کون غلام ہے۔اس جنگ میں ایک طرف مولانا ہیں تو دوسری طرف کون ہے؟اور فاٹا کےانضمام سے کون سا جغرافیہ تبدیل ہوگا؟ کیاانہیں معلوم ہے کہ جغرافیہ کیا ہوتا ہے؟ اگر مولانا کو پاکستان میں رہنا غلامی لگ رہا ہے تو یہ ملک چھوڑ کر کسی آزاد ملک میں کیوں نہیں چلے جاتے؟
کیا غداری کے بازو اور ٹانگیں ہوتی ہیں ؟ اگر یہ بیان غداری نہیں تو پھر غداری کسے کہتے ہیں ؟ کشمیر کے حق خود ارادیت کو “آزاد قبائل کے حق خود ارادیت” کے برابر قرار دینا غداری نہیں تو کیا ہے؟َکشمیر کے حق خود ارادیت کی بات پاکستان اس لیے کرتا ہے کہ بھارت کا اس پر غاصبانہ قبضہ ہے اور اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خوداردیت کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ قبائلی علاقے پر کس کا غاصبانہ قبضہ ہے ؟وہ حق خودارادیت مانگ کرکہاں جانا چاہتے ہیں ؟کیا پاکستان میں بیس کروڑ لوگ غلام ہیں ؟آخر انضمام کے بعد کس کی غلامی میں آجائے گا؟
اصل معاملہ اور ہے !کانگریس کو شکست ہوئی تو کانگریس کے ہم نوا خاموش بیٹھ گئے مگر ختم نہیں ہوئے۔ کیا کسی نے مولانا فضل الرحمن کی زبان سے تحریک پاکستان کا اور قائداعظم کا نام سنا ہے؟ہر تھوڑے عرصہ بعد شیخ الہند کانفرنس منعقد کرنے والوں کو قائداعظم کانفرنس منعقد کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟کیا انہوں نے کبھی قائداعظم کے یوم پیدائش یا یوم وفات پر کسی تقریب میں شرکت کی ؟یہ تو 23 مارچ کے دن بھی مہر بہ لب رہتے ہیں ۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جس پاکستان میں رہنے کو یہ غلامی قرار دے رہےہیں اس پاکستان کو چھری کانٹے سے مسلسل تناول بھی فرما رہے ہیں ۔پورے کا پورا خاندان مراعات یافتہ ہے۔ خود سالہاسال سے قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان میں وفاقی وزیر کی مراعات سے محظوظ ہورہے ہیں ۔
یہ “پاکستان بنانےکے گناہ” میں شامل نہیں مگر پاکستان سے فائدہ اٹھانے میں سب سے آگے ہیں ۔ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ،اس لیے ہیں کہ اقتدار کا بھوکا سابق وزیراعظم ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ پاکستان اور اہل پاکستان کی اس سے زیادہ سیاہ بختی کیا ہوگی کہ افغانستان سے فنڈز اور گاڑیاں لینے والے محمود اچکزئی سے میاں محمد نواز شریف اپنے”نظریاتی تعلق” کا برملا اور فخریہ اعلان کرتے ہیں ۔وہی میاں نواز مولانا فضل الرحمن کی حمایت کی خاطر فاٹا اصلاحات کے سارے معاملے سے رو گردانی کر رہے ہیں ۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ مسلم لیگ کا سربراہ ایک طرف بلوچی گاندھی کی میراث کو گلے لگا رہا ہے اور دوسری طرف تحریک پاکستان کی سر توڑ مخالفت کرنے والی جمعیت علماء ہند کے وارثوں سے اتحاد کئے ہوئے ہے۔ جن اکابر نے تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا ان سے کوئی تعلق تھانہ ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا ظفر احمد عثمانی ،مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع وہ علماء تھے جنہوں نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات کام کیا۔ اس کے بر عکس جمعیت علما ہند مسلم لیگ کی ،تحریک پاکستان کی، قائداعظم کی اور دو قومی نظریے کی مخالف تھی۔مولانا فضل الرحمن اسی جمعیت علما ء ہند کے وارث ہیں ۔
مسلم لیگ ن تو قائداعظم کے دشمنوں سے دوستی کا دم بھر کر بلوچی، گاندھی اور کانگرسی علما کے ساتھ مل چکی ہے۔وزیراعظم میں اتنا دم خم ہی نہیں کہ کچھ کہہ سکیں یا کرسکیں ۔ان کی وزارتِ اعظمی کا یہ حال ہے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے حال ہی میں جو کچھ لکھا ہے اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں کہ وہ خاقان عباسی صاحب کو وزیراعظم مانتے ہی نہیں ۔مگر کیا فاٹا کو مقبوضہ کشمیر کی طرح حق خود ارادیت دینے کے بیان پر عدلیہ بھی خاموش رہے گی؟زہریلے بیان کا نوٹس نہیں لیں گے؟کیا یہ ملک مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کی جاگیر ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں اور جو چاہیں کریں ؟
صحافت کے میدا ن میں جو چند آزاد کھلاڑی رہ گئے ہیں ،کیا انہوں نے مولانا کا یہ بیان پڑھا ہے؟کیا وہ اس پر کچھ نہیں لکھیں گے؟کیا ارشاد عارف،ہارون رشید، ایاز میر،رؤف کلاسرہ، وسعت اللہ خان ابھی انتظار کریں گے کہ بھارتی میڈیا مولانا کی اتباع میں فاٹا کے “ حق خود ارادیت “ کا پرچم اپنی سکرینوں اور اپنے اخبارات پر لہرا دے تو تب یہ حضرات مولانا کے اس بیان کی اصل نیت اور اصل اہمیت کو سنجیدگی سے لیں گے؟
ہر نئے سال نے ہمیں زخم دئیے ہیں ،ٹھوکریں ماری ہیں ،سپنے چکنا چور کئے ہیں ،سال کا آخری دن مولانا فضل الرحمن کا تھا۔قائداعظم کے پاکستان کے دارالحکومت میں کھڑے ہو کر دن دہاڑے کھلم کھلا پاکستان کا جغرافیہ بدلنے کی بات کررہے ہیں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی طرح فاٹا کے باشندوں کو حق خود ارادیت دلوانا چاہتے ہیں ۔نیا سال بھی انہی کا ہوگا۔اس لیے کہ حکومت قائداعظم کی نام لیوا نہیں ، حکومت بلوچی گاندھی کے ساتھ نظریاتی تعلق قائم کرچکی ہے۔
ہر نیا سال ہمارے لیے نئے آقا لے کر آتا ہے ۔شریف خاندان ایک ایسے ملک میں جاکر مدد تلاش کررہا ہے جس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا پاکستان سوچ نہیں سکتا۔ جہاں کوئی پاکستانی داخل زنداں ہوجائے یا اسے مہینوں تنخواہ نہ ملے تو ہمارا سفارت خانہ بے بس ہوتا ہے ۔مگر امریکہ کی طرح اب مشرق وسطی بھی فیصلے کرنے لگا ہے کہ پاکستان پر حکومت کون کرے گا۔
کیا کوئی ایسی تقویم بھی ہے جس میں نیا سال ہی نہ ہو ؟ اس لیے کہ ہمیں نئے سال راس نہیں آتے۔ہمارے لیے مہینوں اور برسوں کا یہ سلسلہ ایک لامتناہی اندھیری رات کی طرح ہے۔یہ رات مسلسل ہے اور سیاہ سے سیاہ تر ہورہی ہے۔ہم اس کے ایک ٹکڑے کو سال نو کہہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
کاش کوئی نیا سال ایسا آئے کہ پاکستان کی تھالی میں کھا کر، اس میں چھید کرنے والوں سے نجات مل جائے۔
1 comment:
Muhtaram ham kiya bolain, Ye log son of soil hain. Can not say more than this.
Post a Comment