Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 30, 2017

ناقہ سوار کی آنکھوں میں ریت پڑ چکی

سینے میں پھانس ہے۔سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔پانی جوں جوں نزدیک ہوتا دکھائی دے رہا ہے سراب کا خوف دامن گیر ہو رہا ہے۔
ناقہ سوار جو عدالت عظمیٰ سے نکلا تھااس کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ،کچھ دیکھ نہیں پا رہا -ایک تنگ سی پگڈنڈی نخلستان کو جا رہی ہے دوسرا راستہ صحرا کی اس وسعت کی طرف لے جا رہا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں اور ہڈیاں!ناقہ سوار اس دوراہے پر،اونٹنی کو بٹھائے،آنکھیں مل رہا ہے،خلقِ خدا اوپر کا سانس اوپر رکھے نیچے کا نیچے ناقہ سوار کو دیکھ رہی ہے کہ کدھر کا رخ کرتا ہے!
زوال کا زمانہ بھی اتنا بے حیا نہ تھا۔میر نے کہا تھا ؎
نیزہ بازانِ مثرہ میں دل کی حالت کیا کہوں 
ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا 
جنوب کے مرہٹوں کے لیے ،جو ڈاکوؤں کی طرح شمالی ہند میں دندناتے پھر رہے تھے میر صاحب نے دکھنیوں کا لفظ استعمال کیا ہے،ہم مغربی پنجاب والے جنوب کو دکھن کہتے ہیں اسی سے دکن نکلا۔ بدامنی تھی اتنی کہ شرفا،مرہٹوں کو 'جومانگتے 'دے کر جان چھڑاتے۔ اس ابتری اور حد درجہ پراگندگی کے عہدِ سیاہ میں بھی لچے لقندرے،شرفا کے منہ پڑتے تو کوئی نہ کوئی ٹوکنے والا ہوتا۔مگر،آہ! اس دورِ ظلمات میں عدالت عظمٰی پر اور عدالت عظمٰی میں تشریف فرما عزت دار منصفوں پر کیا کیا تبرا نہ کیا گیا۔ کیا کیا تضحیک نہ ہوئی،کوئی نہ تھا جو ان دولت مندوں کو آگے بڑھ کر روکتا اور ٹوکتا۔قاضیوں نے فیصلہ دیا۔اس فیصلے کو رگیدا گیا،پرخچے اڑائے گئے،ہاہاکار مچی،ستم بالائے ستم یہ کہ فیصلہ پرخچے اڑانے والے نے پڑھا تھا نہ ان عامیوں نے جو ہانک کر لائے گئے اور ہجوم بنائے گئے -
تکبر کی انتہا ہوگئی۔ہم چوتھی بار وزیراعظم بنائیں گے۔ تو کیا یہ بیس کروڑ عوام مزارع ہیں اور آپ کی جاگیر ہیں؟کیا آپ نے یہ ملک بٹائی پر دیا ہوا ہے،؟کیا وزارتِ عظمیٰ خاندان کی وراثت میں لکھ دی گئی ہے۔؟کوئی رجل رشید ہے جو انھیں خدا کا خوف دلائے؟َنصرت بھٹو نے نخوت کے پہاڑ پر چڑھ کر کہا تھا۔۔۔
ؓؓBhuttos are born to rule.
کہ ہم تو پیدائشی حکمران ہیں۔استکبار کا یہ عالم تھا کہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں تو ناک بھوں چڑھاتیں کہ ہمیں تو گلاب سے الرجی ہے۔ آج نشان بھی باقی نہیں،ایک بھٹو بھی اقتدار کے لیے میسر نہیں۔پوری کی پوری پارٹی دوسرے خانوادے کو منتقل ہو چکی۔ بچپن میں اپنے قریے میں دیکھتے تھے کہ دوسرے کے گھر سے عید شبرات پر بھاجی آئی،اس پر ایک پلیٹ اوندھے منہ رکھی گئی،پھر نیچے کی پلیٹ اوپر اوراوپر والی نیچے کی گئی تو پوری کی پوری بھاجی دوسری پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ خدا کی قسم!دستِ قدرت نے پیپلز پارٹی کی پلیٹ پر زرداری خاندان کی پلیٹ الٹی رکھی۔ پھر دونوں پلیٹو ں کو پکڑ کر الٹ دیا۔یوں کہ ساری کی ساری بھاجی زرداریوں کی پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ صفائی کے ساتھ،پوری کی پوری،جی ہاں۔۔"بھٹو پیدائشی حکمران ہوتے ہیں "۔کون سے بھٹو؟برس بعد غنویٰ بھٹو کی نحیف تنہا آواز سنائی دیتی ہے۔
ابدی خاموشی کی آندھی میں 
جیسے کوئی پر ِ مگس گزرے!
فاطمہ بھٹو میں ٹیلنٹ ہے،مگر لکھنے کی حد تک۔جن میں کوئی ٹیلنٹ نہیں،لکھنے کانہ پڑھنے کا وہ سنگھاسن پر ہیں۔
دجل ہے اور تلبیس!دھوکہ، کھلا دھوکہ،عیاری اور حیلہ سازی،غلط بیانی کی انتہا،عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی حکمرانی،ساتھ اقامہ برادری،ملازمت،رقم بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی مگر مسلسل استفسار کہ کیوں نکالا گیا۔ 
معزولی کے بعد ا س صوبے میں جہاں بھائی حکمران ہے،صوبائی اجلاس کی صدارتکی۔ کس برتے پر؟کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟یہ شغل جب وفاق میں خود حکمران تھے تو کبھی نہ فرمایا،ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کبھی نہ کی۔ کوئی سنجیدہ اور ثقیل (presentation)شروع سے آخر تک مکمل کبھی نہ برداشت ہوئی۔فائلیں میر منشی سنبھالتا،حکمرانی کے سارے اجلاس سمدھی کے سپرد تھے۔مرزا یار صرف ٹہلا کرتا۔
اب چچا جان نے وسائل اور افرادی قوت سب برادر زادی کو سونپ دیے کہ انھیں استعمال کرو اور مادرِ مہربا ں کو فتح سے ہمکنار کرو۔بیوروکریسی سامنے دست بستہ کھڑی ہے۔کوتوالی دائیں طرف ہے۔ الیکشن کمیشن جمہور ی دنیا کا ضعیف ترین الیکشن کمیشن ہے۔ووٹ شمار کرنیوالی الیکڑانک مشینری راس آرہی ہے نہ بائیو میٹرک کا سائنسی نظام۔اس سے بہتر تھا کہ چوکوں چوراہوں پر عوام کو کھڑا کرکے ہاتھ اٹھواتے۔ماتحت پولیس اٹھے ہوئے ہاتھ گنتی اور فتح کا اعلان کردیتی۔
زرداری صاحب کو بری کرکے نظیر قائم کردی گئی۔سانچہ بن گیا ہے۔آنے والے مقدمے اس سانچے میں فِٹ کردیے جائیں گے۔ نا اہلی؟کون سی نااہلی؟۔۔۔۔نیا وزیراعظم سعادت مند ہے،کابینہ کے ارکان باقاعدگی سے زمین بوسی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔وفاق بھی اور سب سے بڑا صوبہ بھی قدموں میں پڑے ہیں۔نہیں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ناقہ سوار خورجین میں فیصلے کے کاغذ رکھ کر عدالتِ عظمیٰ سے نکلا تھا،مگر رک کر آنکھیں مَل رہا ہے۔ ریت ہے کہ رڑک رہی ہے۔ رخ اس کا اس بے آب و گیاہ لق و دق دشت کی طرف ہے جہا ں سراب ہیں،اور ٹوٹی طنابیں،دم بہ دم جگہ بدلتے ریت کے ٹیلے اور راہ گم کردہ بدبخت مسافروں کی ہڈیاں جنھیں لحد بھی نصیب نہ ہوئی۔۔ وسطی پنجاب سے مقتدر جماعت نے جیتنا ہی جیتنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سڈول جسم کی گولائیاں بتا رہی ہیں،کچھ نہیں کرسکتا۔۔ عمران خان کچھ نہیں کر سکے گا۔ حکومتی مشینری کی تنظیم کا مقابلہ کوئی جماعت نہیں کر سکتی۔
ہوائیں ان کی،فضائیں ان کی،سمندر ان کے،جہاز ان کے،
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر؟بھنور ہے تقدیر کا بہانہ۔۔۔!
ابھی تو حکمران جماعت نے مہم شروع ہی نہیں کی اور طبیبہ یاسمین راشد تھانے میں جاکر ایک بار فریاد بھی کرچکی ہیں۔جب زبردستوں کی مہم زوروں پر ہوگی تو زیرِ دست کیا کریں گے؟۔۔۔روز کوتوالی جاکر انصاف کی بھیک مانگیں گے؟ناقہ سوار کے عدالتِ عظمٰی سے نکلتے ہی سب کچھ بدل گیا۔پچیس ارب ساحلی اتحادی کو مل گئے۔ اربوں اپنی پارٹی کے منتخب نمائندؤں کی زنبیلوں میں رکھے گئے۔عمران خان ان اشرفیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے ۔پاکستان کی مخالفت کرنے والے تمام فیل اور پیادے حکمران جماعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ساحل والوں کو ابھی اور بھی بہت کچھ ملے گا۔ کون جانے لندن میں کون کس کو ملتا ہے۔۔اور پکائی جانے والی کھچڑی میں کیا کیاڈالا جاتا ہے۔باہر جو ہوائیں سائیں سائیں کر رہی ہیں وہ بھی حکومتی طائفے سے موافقت رکھتی ہیں۔بھارت کو معلوم ہے کس کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ ہے،امریکہ بنیے کی مُٹھی میں ہے۔ دھوتی اڑس کر جب بھی بنیے نے اوقیانوس کو پار کیا۔ قصرِ سفیدمیں اس کی پذیرائی ہوئی۔ ہمارے صاحب گئے بھی تو ملاقات کے وقت کاغذ کی چِٹوں کو ہی الٹا سیدھا کرتے رہے۔ باورچی ہمراہ لے کر گئے تھے،خور و نوش پہلے،نظمِ مملکت بعد میں۔۔۔چائے بیچنے والا تن من دھن سے اپنے ملک کے لیے بھاگ دوڑ کرتا پھرتا ہے۔ اس نگوڑے کے باہر کے ممالک میں صنعتی یونٹ،نہ اپارٹمنٹ،نہ اقامے،نہ محلات،نہ شرقِ اوسط کی ملازمتیں۔میکسکو تک جا پہنچا،چین گیا تو وہاں کے صدر اسے اپنے آبائی قصبے لے گئے۔ سینٹ پیٹرز برگ میں منعقدہ انٹر نیشنل اکنامک فورم میں شریک ہوا تو مہمانِ اعزاز ٹھہرا۔ یومِ جمہوریہ آیا تو عرب امارات کے ولی عہد نے تقریب کو زینت بخشی۔چائے بیچنے والے،بنیے کے بیٹے نے وہ سرگرمی دکھا ئی،وہ دوڑ دھوپ کی کہ آج امریکہ اس کی مٹھی میں ہے۔امریکی صدر برملا،علی الاعلان اسے افغانستان میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔عالم ِ اسلام کے عین مرکز میں امریکی صدر بنیے کے ملک کا ذکر کرتا ہے اور ہمارا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ہمارے صاحب وہاں بیٹھے سنتے ہیں،بولتے کچھ نہیں۔ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم۔
کیا ردالفساد اور کیا ضربِ عضب،جو کیا ہماری افواج قاہرہ نے کیا،ہاں اس کو سول مقتدرہ کی پوٹلی میں باندھا جائے تو ماناکہ افواج حکومت کے ماتحت ہیں۔مگر سب جانتے ہیں کہ حکمتِ عملی کس کی تھی۔پہل ان آپریشنز کی کس نے کی،کہاں سے ہوئی اور دہشتگردوں کا مقابلہ کس نے کیا۔آج جب ہمیں دھمکایا جا رہا ہے،کہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان بیٹھے ہیں،تو ہے کوئی جو تاریخ متعین کرکے کابل کو اطلاع دے کہ فلاں وقت تک مہاجرین سرحد کے پار بھیج دیے جائیں گے کہ اگر طالبان ہیں تو انہی میں چھپتے ہیں،لاکھوں مہاجرین کی میزبانی بھی کریں او ر طعنے اور دھمکیاں بھی سنیں۔ پاکستان راہداری بند کردے تو افغانستان میں مورچہ ء زن سفید فام لشکری پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں۔۔اس لیے کہ ان کا بس چلے تو آکسیجن بھی امریکہ سے منگوائیں۔مگر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھمکیوں کا جواب ہم تب دیتے جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے دامن چھڑاتے۔سب کچھ سمدھی پر چھوڑ دینے والے سابق بادشاہ کو معلوم ہی کہاں ہوگا کہ چا ر سالوں میں پینتیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔کشکول توڑ دینے کا وعدہ تھا۔وعدہ پورا کیا۔کشکول توڑا اور ایک نیا کشکول ا س سے بڑا بنایا۔حضرت جب ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں تو صرف دو کلمات اد اکرتے ہیں،"سڑکیں بن رہی ہیں،روشنیاں آرہی ہیں۔،"درآمدات،برآمدات،شرح مبادلہ،قرضوں کا گراف،بیروز گاری کی شرح،پتیلے مانجھتے اور گاڑیوں کے نیچے دراز ہوکر پھولوں جیسے ہاتھ کالے کرتے بچوں کی تعداد۔۔۔یہ سب کچھ تو تب معلوم ہوتاجب فائلیں پڑھتے،اقتصادیات سے متعلق اجلاسوں میں بنفس نفس بیٹھتے اور آسودگی کے عادی ذہن کو مشقت میں ڈالتے
تبدیلی؟۔۔ کون سی تبدیلی؟ پنجے گوشت میں پیوست ہیں۔کیسے جان چھوٹے؟مصطفیٰ زیدی یاد آرہا ہے۔۔
ابھی تاروں سے کھیلو،چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!

Monday, August 28, 2017

ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا۔


پہلے چند سطروں پر مشتمل انگریزی میں لکھا ہؤا یہ خط پڑھیے 
‏Respected sir,
‏I am arrive by passenger train,Ahmadpur station and my belly is too much swelling with jackfruit.I am therefore went to privy.Just i doing the nuisance that guard making whistle blow and train to go off and i am running with lotaah in one hand and dhoti in the next.When i am fall over and expose all my shocking to man and female women on platform.I am got leaved at Ahmadpur station.This too much bad,if passenger go to make dung that damn guard not wait train five minutes for him.i am there fore pray your honor to make big fine on the guard for public sake.Otherwise i am making big report to paper.
‏Your faithful Servent,
‏Okhil Chandra Sen.
زبردست انگریزی میں لکھا ہوا یہ خط اوکھیل چند کا ہے جو اس نے جولائی 1909میں ریلوے حکام کو لکھا تھا،اس نے یہ رونا رویا ہے کہ وہ احمد پور ریلوے اسٹیشن پر حوائج ضروریہ کے لیے اترا،ابھی اس کا کام ادھورا تھا کہ ریل چل پڑی،اس نے ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا،دوسرے سے دھوتی سنبھالتا دوڑا مگر ریل کو نہ پکڑ سکا۔ سب کے سامنے اس کا ستر بھی کھل گیا۔روایت یہ ہے کہ اس خط پر انگریز بہادر نے پورا ایکشن لیا۔اور یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ہر ڈبے میں بیت الخلاء ہوگا۔یہ نادر ِ روزگار خط بھارت کے ریلوے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
یہ دلچسپ واقعہ جناب فضل الرحمٰن قاضی کی تصنیف "رودادریل کی "میں بیا ن کیا گیا ہے۔ فضل الرحمٰن صاحب نے یہ عجیب کتاب تصنیف کی ہے جوریل کی تاریخ بھی ہے۔ برِ صغیر کی بھی اس عرصہ کی تاریخ ہے اس حساب سے آپ بیتی بھی ہے۔تاریخی تصاویر بھی ہیں۔واقعات بھی ہیں۔دلچسپ اس قدر کہ شروع کریں تو آخر تک اپنے آپ کو پڑھوا کر ہی دم لے۔
ریلورے ہماری تاریخ اور ثقافت کا جزو لاینفک ہے۔اس سے رومان وابستہ ہے۔1854سے لے کر اب تک یعنی ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ ریل کی موجودگی پر محیط ہے۔ہوائی جہاز تو بہت بعد میں آیا۔ کار بھی بیسویں صدی میں آئی،خاندانوں کے خاندان ریل سے مستفید ہوئے۔ ساتھ سامان،لوٹا اور بستر۔
گھر سے کھانے کا سامان ساتھ لیے ہوئے 
ریلوے اسٹیشنوں پر خوانچے والوں کی آوازیں،
ریل روانہ ہونے کی سیٹی
،سفر کرنے والوں اور رخصت کرنے والوں کے غم زدہ چہرے،
آنسوؤں سے لبریز آنکھیں 
اور گیلے ہوتے رخسار۔۔اپنا شعر یاد آگیا۔
وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے،
وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھلنے لگے!
منیر نیازی کا لازوال شعر غضب کا ہے۔۔۔
صبح صادق کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا!
"روداد ریل کی " میرے خیال میں اردو میں ریلوے پر لکھی ہوئی پہلی تفصیلی کتاب تھی مگر کتاب کے پبلشر شاہد اعوان صاحب نے تصحیح کی کہ یہ تیسری کتاب ہے۔شاہد اعوان سے مل کر انسان ایک بار ضرور حیران ہوتا ہے کہ اعوان اور پھر پبلشر۔۔۔۔معاملہ دو آتشہ ہونا چاہیے تھا مگر کیا نرم گفتار شخص ہے۔یعنی لازم نہیں کہ ہر اعوان میری طرح کھردرا ور کرخت ہو۔
دونوں عالم گیر جنگوں کے حوالے سے بے شمار ایسے لوک گیت ہماری ثقافت کا حصہ بنے جن میں ریل کا ذکر ہے۔ ریل جدائی کی علامت بن گئی۔ لوک گیتوں میں مائیں روئیں کہ ان کے پھول سے بچے ٹرین اٹھا کر لے گئی۔پھر یہی ٹرین جب مسافروں کو واپس لاتی ہے تو وصال کا سبب بنتی ہے ۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا گیت۔۔"متاں اِسی گڈی تے آجاویں "۔۔۔۔اس ہجر و وصال ہی کی داستاں ہے۔جسے موسیقی نے اور بھی دردناک کردیا ہے۔
ریل پر اسرار الحق مجاز کی طویل نظم بھی اردو ادب کا حصہ ہے۔قاضی فضل الرحمٰن نے اس نظم کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ 
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی 
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی 
ڈگمگاتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں 
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
رینگتی،مڑتی،مچلتی،تلملاتی،ہانپتی
اپنے دل کی آتش ِ پنہاں کو بھڑکاتی ہوئی 
منہ میں جا گھستی سرنگوں کے یکایک دوڑ کر
دندناتی چیختی،چنگھاڑتی،گاتی ہوئی!
چالیس اشعار پر مشتمل یہ نظم دلکش اور سحر انگیز ہے مگر ریل کا اصل اثر نفوذ انگریزی ادب پر ہے۔ویلز،سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے میدانوں میں دندناتی،پہاڑوں میں گھستی ریل نے انگریز شاعروں کے دلوں پر قبضہ کیا۔کمال کی شاعری ہوئی ریل کے بارے میں۔غالباً ڈبلیو ایچ آڈن کی نظم "نائٹ میل"اس شاعری میں نمایاں ترین مقام رکھتی ہے۔دل گرفتگی سے ان محبت ناموں کا ذکر شاعر کرتاہے،جو "نائٹ میل"لا رہی ہے۔یہ محبت نامے گلابی،بنفشی،نیلے اور سفید،ہر رنگ کے کاغذوں پر لکھے گئے ہیں۔۔۔اور ان کابے تابی سے انتظار ہورہاہے۔
رومان کے ساتھ ریلوے سے کچھ تلخیاں بھی وابستہ ہیں،پہلی تلخی تو انگریز حکومت کا وہ ظلم ہے جو اس نے ہندوستان پر اور اہلِ ہندوستان پر ریلوے شروع کرنے کے حوالے سے کیا۔یہا ں ایک بات اور ہوجائے۔۔ہم میں سے کچھ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ریل،تاربرقی اور دیگر جدید سہولیات فراہم کرکے احسان کیا ہے۔ورنہ ہمارا حال بھی افغانستان جیسا ہوتا۔یہ ایک خوش فہمی ہے۔ریل پوری دنیا میں موجود ہے،کیاہر جگہ برطانوی استعمار نے یہ احسان کیا ہے؟کیا برازیل،جاپان،اور کوریا پر انگریوزوں کی حکومت رہی؟ رہی یہ بات کہ افغانستان اس لیے ترقی نہ کر سکا کہ انگریزی استعمار کی "نعمت"سے محروم رہا- ۔تو معروف صحافی اظہر سہیل مرحوم سے منسوب ایک لطیفہ نما واقعہ مشہور ہے۔کہ وہ کسی افسر کے پاس ایک کام سے گئے،افسر بہت اچھی طرح پیش آیا،اور اظہارِ مسرت کے طور پر کہا کہ "خوشی ہے کہ آپ بھی ہمارے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں "اس پر اظہر سہیل نے جواب دیاکہ نہیں!میرا اس فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔یہ جو نحوست میرے چہرے پر نظر آرہی ہے اس کا سبب کچھ اور ہے۔تو افغانستان کی وحشت،قدامت اور اقتصادی ویرانی کا سبب کچھ اور ہے،یہ نہیں کہ وہاں انگریز ی حکومت قائم نہ ہوسکی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب برصغیر میں ریلوے کے قیام کا ارادہ کیا تو اس کی تہہ میں کوئی فلاحی عزم نہ تھا۔بلکہ یہ منصوبہ صرف اور صرف اس لیے بنا کہ ہندوستان بھر سے خام مال اکٹھا کرکے بندرگاہوں تک لایا جائے۔تاکہ جہازوں میں بھر کر برطانیہ بھیجا جائے۔پھر وہاں سے مصنوعات بندرگاہوں سے اتریں تو ریل کے ذریعے پورے برصغیر کو ان مصنوعات کی منڈی بنا دیا جائے۔1843میں لارڈ ہارڈنگ اور پھر دس سال بعد لارڈ ڈلہوزی نے صاف صاف کہا کہ ہم برطانیہ کی اقتصادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ریل کو متعارف کرائیں گے،مشہور مصنف ٖ وِل ڈیورانٹ کے بقول ہندوستان میں ریل صرف دو مقاصد کے لیے قائم ہوئی،برطانوی فوج اور برطانوی منڈی!
یہ ریل اہلِ ہندستان کو ازحد مہنگی پڑی۔انجنوں سے لے کر ڈبوں تک،دروازوں سے لے کر فرش تک ہر شے برطانیہ سے آئی،برطانوی سرمایہ کاروں کو اس میں لگائے گئے سرمایہ پر پانچ فیصد منافع کی گارنٹی دی گئی جو بہت بلند شرح تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان،میں ریلوے قائم کرنے کی لاگت فی میل اٹھارہ ہزار پونڈ آئی۔جبکہ اسی زمانے میں امریکہ میں لاگت فی میل دو ہزار پونڈ آئی۔یہ ساری لاگت ہندوستان نے بھری۔پھر ریلوے کی ملازمتیں صرف اور صرف سفید چمڑی والوں کے لیے مخصوص تھیں۔گارڈ سے لے کر اسٹیشن ماسٹر تک سب انگریز تھے۔بعد میں مقامی افراد بھی لیے جانے لگے،مگر تنخواہوں کے سکیل الگ الگ!انگریز گارڈ کی تنخواہ ہزاروں روپوں میں تھی اور "کالے"گارڈ کی سو ڈیڑھ سو روپے۔انیسویں صدی کے آخرمیں بارہ سو انجینئروں میں سے صرف چھیاسی مقامی تھے۔
رہا سفر تو محکموں کے لیے "تیسرا ڈبہ"مخصوص کیا گیا تھا۔اس میں لکڑی کے سخت،جانکاہ بنچ تھے۔مسافروں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح اس میں بھر دیا جاتا،جبکہ فرسٹ کلاس صرف گورے صاحب کے لیے مخصوص ہوتی تھی!حادثات کی انکوائری ہوتی تو نچلے ردجے کا مقامی ملازم دھر لیا جاتا۔اور انگریز افسروں کو بچا لیا جاتا۔
تقسیم کے وقت انگریزی حکومت ریلوے کا جو سسٹم اور اثاثے چھوڑ کر گئی ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔ہماری ناکامی اس ضمن میں واضح اور تسلیم شدہ ہے۔اس موضوع پر میرے چند تفصیلی کالم شائع ہو چکے ہیں۔جن میں سے ایک جناب فضل الرحمان قاضی نے ازراہِ لطف اپنی کتاب میں بھی شامل کیا ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ اس میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر نہ سہی،کم از کم ہمیں بھارت کے برابر تو ہونا ہی چاہیے۔


Sunday, August 27, 2017

ایک درد ناک قتل


تبلیغی جماعت کے ایک ستر سالہ رکن کو سوتے میں پھاوڑے سے قتل کردیاگیاہے۔دوسرا شدید زخمی ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے طریقہ کار میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر گھر جاکر تبلیغ کی جائے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے میں مصروفِ عمل اس جماعت کے ارکان کا تعلق کراچی سے تھا۔میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے پروگرام کی رُو سے اس نے سیالکوٹ سے اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا اور چنیوٹ پہنچی تھی،غالباً پروگرام یہ تھا کہ شمال سے روانہ ہو کر،سال بھر میں جنوب تک پہنچا جائے گا۔
گھر گھر دستک دینے کے طریقے کار کے مطابق یہ جماعت اس مکان پر پہنچی جہا ں دو بھائی اکرام اور عمران رہتے تھے۔یہ دونوں بھائی کسی مدرسہ میں پڑھتے تھے۔ یا وہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔بہر طور یہ طے ہے کہ ان کا تعلق دوسرے مسلک سے تھا۔ گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے تبلیغی جماعت کو دیکھ کر ان سے بحث مباحثہ شروع کردیا۔ بات بڑھ گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیو ں نے اپنے کسی عالم سے بات کی، پھر دونوں نے رات کو آکر حملہ کردیا۔ ایک کو قتل کر دیا دوسرے کو زخمی۔
ہم جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا آغاز شمالی ہند کے علاقے میوات سے ہوا تھا۔ میواتی برائے نام مسلمان تھے اور اسلام کے بنیادی ارکان کلمہ نماز تک سے نابلد تھے۔یہ لوگ اکھڑ،درشت اور کھردرے بھی تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس مرحوم نے انہی سے کام کا آغاز کیا۔اس وقت جو طریقہ کار وضع کیا گیا تھا،اس میں یہ بھی تھا کہ گھر گھر جاکر دستک دی جائے گی۔ لوگوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی جائے گی۔اس دعوت میں تبلیغ کے مخصوص طریقہ کار کی جانب مدعو کیا جائے گا۔ 
چنانچہ جماعت کی تاسیس سے لے کر اب تک وہی طریقہ کار چلا آرہا ہے۔پاکستان میں جماعت کا مرکز رائے ونڈ ہے۔اور ڈھاکہ میں ککریل۔۔۔ یہ کالم نگار ڈھاکہ کی ککریل مسجد میں تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرتا رہا۔۔اور رائے ونڈ بھی حاضر ہوتا رہا ہے۔ جو گروپ تبلیغ کے لیے بھیجا جاتا ہے،اسے "تشکیل کرنا " کہا جاتا ہے۔طویل دروں والی جماعتوں کی تشکیل جیسے چھ ماہ،ایک سال،دوسال،بیرون ممالک کے دورے،رائے ونڈ یا ککریل میں کی جاتی ہے۔دس دن کے دورے یا سہ روزہ دورے علاقائی مراکز میں تشکیل پاتے ہیں۔جیسے راولپنڈی میں علاقائی مرکز و ویسٹرج میں واقع زکریا مسجد۔
ہر جماعت کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے، جماعت کے ارکان نظم و ضبط میں اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں جاکر جماعت اترتی ہے وہاں کسی نہ کسی مسجد میں قیام کرتی ہے۔عام طور پر دوسرے مسالک کی مساجد ان کے قیام کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔چنانچہ وہ اپنے ہی مسلک کی مسجد میں قیام کرتے ہیں۔اس کے بعد" گشت "کا مرحلہ آتا ہے۔مقامی افراد مدد کرتے جس"نصرت "کہا جاتا ہے۔ گشت پر روانہ ہونے سے پہلے امیر جماعت مفصل ہدایات دیتے ہیں۔اور تلقین کرتے ہیں کہ نظر کی حفاظت کرنی ہے،اور ذکر کرتے رہنا ہے۔پھر گھر گھر،ڈور ٹو ڈور بیل بجا کر گھر والے کو باہر بلایا جاتا ہے،مختصر تعارف کے بعد دعوت دی جاتی ہے، کہ محلے کی مسجد میں عصر،مغرب یا عشاکی نماز کے بعد بیان ہوگا، اس میں شرکت کیجئے اور دین کے لیے اس محنت میں ہاتھ بٹائیے، بیان ایک تفصیلی تقریر ہوتی ہے۔جماعت کے ہر رکن نے اپنی باری پر یہ بیان یعنی تقریر کرنا ہوتی ہے، ا س کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں،نا خواندہ یا نیم خواندہ شخص کو بھی یہ کام کرنا پڑتا ہے،تفصیلی بیان کے بعد ایک شخص کاپی قلم لے کر کھڑا ہوتا ہے۔اور حاضرین کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ اپنا نام لکھوائیں،یعنی سہ روزہ کے لیے یا چالیس د ن یا چار ماہ کے چلّے کے لیے یادس دن کے دورے کے لیے خود کو پیش کریں۔اس موقع پر اصرار کیا جاتا ہے اور تلقین،ترغیب اور تحریص کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاضرین میں سے کچھ،اپنی نظریں مسلسل نیچی رکھتے ہیں،اور بیان کرنے والے یا کاپی پینسل والے شخص کی نظروں سے نظریں ملانے سے گریز کرتے ہیں۔"تشکیل"،"گشت"اور بیان کے علاوہ ایک اورآئٹم "تعلیم "کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے تبلیغی جماعت کی واحد نصابی کتاب "فضائل ِ اعمال"سے حاضرین کو کچھ پڑھ کر سنانا۔ارکان کو تلقین کی جاتی ہے کہ اہل ِ خانہ کو بھی "تعلیم"دیا کریں۔
تبلیغی جماعت کی بنیاد ایک نیک بزرگ نے خوش نیتی سے رکھی تھی۔یوں بھی گزشتہ صدی کے اوائل میں ہندوؤں کی شدھی اور سنگھٹن جیسی بنیاد پرست تحریکوں لے مقابلے میں ایسی جماعت کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔المیہ یہ ہوا کہ ایک صدی ہونے کو ہے،اس جماعت کے طریقہ کار میں رمق بھر کا بھی تغیر نہیں ہوا۔ جماعت کے کارکنان قضاو قدر جو"بزرگ" کہلاتے ہیں ،مکالمے پر یقین نہیں رکھتے،کسی سوال کا جواب نہیں دیا جاتا،کسی شبے یا اعتراض کی تسلی نہیں کی جاتی ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ اسی مسلک کے کئی بلند پایہ علماء کرام نے "بزرگوں "کو کئی بار ترمیم اور نظر ثانی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔
جس زمانے میں ہانیانِ جماعت نے گھر گھر دستک دے کر تبلیغ کرنے کا اسلوب اختیار کیا اور کرایا تھا،وہ زمانہ اور تھا۔نوے سال گزر چکے ہیں،تب مصروفیت اتنی نہیں تھی۔رہنے کا انداز سادہ تھا۔دفتری،کاروباری،خاندانی،معاشرتی مکروہات اس قدر زیادہ نہ تھیں۔کوئی دستک دیتا تھا تو اجنبی ہونے کے باوجود اندر بٹھایا جاتا تھا۔چائے پانی پوچھتے تھے،اب وقت کا پہیہ بہت آگے جاچکاہے۔اب عالم یہ ہے کہ گاؤں جائیں تو وہاں بھی مصروفیت کا رونا سننے میں آتا ہے،ضروریاتِ زندگی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گئیں ہیں،یا کرلی گئیں ہیں۔گرانی نے اعصاب شل کردیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے دور افتادہ قریوں کے رہنے والے بھی شادیاں قصبوں کے ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں منعقد کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم تقریباً تین چوتھائی نجی شعبے کو منتقل ہوچکی ہے۔جس کے اخراجات مرتا کیا نہ کرتا کے حساب سے سوہانِ روح بن گئے ہیں۔بالائی طبقہ چڑھتے ہوئے زرمبادلہ کی وجہ سے پریشان ہے۔مڈل کلاس زندگی کو موم بتی کے دونوں سِروں کی طرح جلا رہی ہے،زیریں طبقہ ایک وقت میں تین تین نوکریاں کررہا ہے،اس صورتحال میں گھر کے باہر دستک ہوتی ہے یا گھنتی بجتی ہے،صاحب ِ خانہ باہر نکلتا ہے،چار پانچ متشرع اصحاب کو دیکھ کر پوچھتا ہے کیا بات ہے،نجانے وہ اندر کس حال میں تھا،حمام میں تھا یا کو ئی ضروری کام کررہا تھا،ایسے میں اسے کھڑا کرلیا جاتا ہے،اور وقت بے وقت تبلیغ کا ہدف بنایا جاتا ہے،مذہب کے احترام کی وجہ سے وہ صبر اور ضبط سے کام لیتا ہے مگر جھنجھلایاہوا ہوتا ہے۔ یہی وہ ذہنی حالت ہے جس میں وہ اعتراض کرتا ہے بحث شروع کردیتا ہے،اختلاف کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں وہ اس وقت اس حالت میں نہیں تھا کہ مہمانوں کو خوش آمدیدکہتا۔
جس شخص کو قتل کیا گیا وہ بھی اپنے گروپ کے ساتھ ایک شام گھر گھر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکال کر تبلیغ کررہا تھا،اس دورا ن یہ صاحب عمران اور اکرام کے گھر بھی گئے،مسلک کا اختلاف تو تھا ہی،عین ممکن ہے باہر بلائے جانے پر وہ مزید چِڑ گئے ہوں،اور جھنجھلاہٹ میں بحث شروع کردی ہو۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بحث و مناظرہ،مجادلہ کی صورت تب اختیار کرتاہے جب طبعیت میں چڑچڑا پن ہو اور مخاطب کسی اور وجہ سے برا لگ رہا ہو۔ کیا نوے سال گزرنے کے بعد بھی،معاشرے کی مکمل کایا کلپ کی وجہ سے گھر گھر دستک دینے کی پابندی ہٹائی نہیں جاسکتی۔؟
دلیل یہ دی جائے گی کہ ہزاروں لوگوں میں سے ایک کیس ایسا نکل آیا تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ گھر گھر دستک دینا ہی اس حادثے کی وجہ بنا،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک انسانی جان کی قیمت بھی خالق کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اسے پوری انسانیت کا قتل کہاگیا ہے۔انگریزی عہد میں ایک ہندوستانی نے شکایت کی تھی کہ وہ رفع حاجت کررہا تھا کہ ٹرین چل پڑی، اس پر ریل کے ڈبوں میں بیت الخلاء بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ستر سالہ بزرگ کے درد ناک قتل پر بھ اگر"برزگ"سر جوڑ کر نہ بیٹھیں اور زمانہ بدل جانے کی وجہ سے جو تبدیلیاں ناگزیر ہو گئیں ہیں،وہ وجود میں نہ لائیں تو افسوس،ہزار افسوس ہے!اب عہد وہ آچکا ہے کہ جس میں قریبی اعزہ بھی ٹیلی فون پروقت طے کرکے گھر آتے ہیں۔
اس کالم نگار نے کچھ عرصہ قبل ایک تفصیلی تحریر بعنوان "با احترام فراواں "ان حضرات کی خدمت میں پیش کی تھی۔بعد میں یہی مضمون ماہنامہ الشریعہ میں بھی شائع ہوا،مگر جہاں بڑے بڑوں کی تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں گردانا جاتا،وہاں ایک گمنام کھیت کی مولی کیا کر پائے گی۔
مثلاً اسی بات پر غور فرمائیے کہ چار ماہ کے جس عرصہ میں دنیا اور ماحول سے کاٹ کر دین کی "محنت"سکھائی جاتی ہے،اس میں حقوق العباد کی تربیت صفر ہے۔ چار ماہ کی رہبانیت کے بعد جب دنیا اور کارِ دنیا میں واپسی ہوتی ہے تو کاروبار،دفتر،فرائض،اعزہ واقربا،احباب سب کھلنے لگتے ہیں۔اور "محنت "کے خلاف لگتے ہیں۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ ان پر یقین نہیں آتا مگر مبنی بر حقیقت ہیں،اور افسوسناک ہیں،امیرالمومنین عمر فاروقؓ کا حکم تھا کہ مجاہد جہاد میں مصروف ہو تب بھی چار ماہ بعد( یا غالباً چھ ماہ بعد) اپنے اہلِ خانہ میں ضرور واپس آئے۔یہاں مردوں کو دودو سال کے لیے باہر بھیج دیا جاتاہے۔کوئی نہیں جو ان محروم توجہ کنبوں اور خاندانوں کی حالتِ زار پر توجہ دے،بوڑھے اور بے کس والدین کو چھوڑ کر چلے جانے کی مثالیں تو عام ہیں۔
یہ ایک دردناک قتل ہے،اس کے اسباب و علل پر غور ہونا چاہیے،اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہییں کہ تدارک ہو! 

Friday, August 25, 2017

انسانوں کی ایک قسم۔


خراسانی جب بھی عمرے یا زیارت پر جاتا تو عراقی دوست کے ہاں بغداد میں ضرور ٹھہرتا۔عراقی خوب خاطر مدارت کرتا،دعوتیں منعقد کرتا۔بغداد کی سیر کراتا۔شام کو کشتی میں دجلہ کے نظارے کراتا،خراسانی ہفتوں اس کے ہاں قیام کرتا۔وہ اکثر اپنے دوست کو کہتا کہ کبھی خراسان آنا ہو تو مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیجئے۔مگر افسوس!اس علاقے میں نہ آپ کا کاروبار ہے،نہ مقدس مقامات ہیں،تاہم حسرت ہے کہ کبھی آپ غربت کدے پر تشریف لائیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی خوشنودی ء طبع کے لیے کیا کیا کرتا ہوں۔ رَے سے خربوزے منگواؤں گا،نیشا پور کے انگور،سبحان اللہ!بلخ کے بازار وں میں سمرقند کے سیب بکتے ہیں،بہشتی مٹھاس والے۔ہرات سے ایرانی کھجوریں خصوصی طور پر منگواکر پیش کروں گا۔۔برس ہابرس بیت گئے۔عراقی کے لیے خراسان بارہ پتھر باہرتھا۔خراسانی ہر سال آتا رہا،قیام کرتا رہا۔خاطر تواضح ہوتی رہی،اس کے گھوڑے کا بھی خیال رکھا جاتا۔
قسمت نے سمت بدلی،عراقی کو سفر درپیش ہوا،خراسان سے گزر کر اس نے ماوراالنہر کے علاقے میں جانا تھا۔ قافلے سے جدا ہوگیا کہ کچھ روز اپنے دوست خراسانی کے ہاں ٹھہرے گا،آخر کتنی بار حسرت سے خراسانی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کبھی وہ اس کے ہاں ورودکرے۔بالآخر وہ خراسانی کے شہر میں اور پھر ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ صحن کے درمیان میں ایک تخت بچھا تھا۔جیسے خراسان اور وسطی ایشیاکے گھروں میں ہوتے ہیں۔ او پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے خراسانی نیم دراز تھا ۔ارد گرد چارپائیوں پر اس کے دوست احباب اور ملاقاتی بیٹھے تھے۔گپ شپ ہو رہی تھی۔عراقی نے جاکر اسے سلام کیا تو خراسانی اسے دیکھ کر مسکرایا،نہ تپاک دکھایا۔ وہ تو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔سلام کا جواب بھی اس انداز میں دیا کہ صاف محسوس ہو رہاتھا کہ اس نے نہیں پہچانا۔
عراقی کو خیال آیا کہ یہ جو میں نے اونچی دیواروں والی ٹوپی پہنی ہوئی ہے،ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ پہچان پایا ہو، اس نے ٹوپی اتار دی اور پھر اس کے پاس گیا ۔اب بھی اس نے پہچاننے کا کوئی تاثر نہ دیا۔کوئی لفٹ نہیں دی،اور مسلسل اپنے ملاقاتیوں سے مصروفِ گفتگو رہا۔عراقی نے اب اپنے بھاری بھرکم لمبے چوغے کو موردِ الزام ٹھہرایا، اس خیمہ نما چوغے میں آخر وہ کیسے پہچان سکتا ہے۔۔چوغہ اتارا،پھر جاکر خراسانی کو سلام کیا۔ اب کے خراسانی نے شرم وحیا بالائے طاق رکھی اور صاف صاف کہا کہ اے عراقی تو ٹوپی اور چوغہ تو کیا،اپنی کھال بھی اتار ڈالے تو میں نہیں پہچانوں گا۔
یہ انسانوں کی ایک قسم ہے بدترین قسم!ارزل الخلائق!کنجوسی،بخل،سفلہ پن،حرص،زر پرستی،خود غرضی ہوس،طمع،لالچ،اور کم ظرفی۔سب ایک ذات میں جمع ہوجاتے ہیں۔کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔معاشرے میں ان کی تعداد،خدا کا شکر ہے زیادہ نہیں ہوتی مگر اتنی کم بھی نہیں کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ہاں!یہ ہے کہ ان اصلیت دیر سے کھلتی ہے۔ جیسے خراسانی کی اصلیت دیر سے کھلی۔ اگر عراقی کو شمال مشرق کی طرف سفر نہ کرنا پڑتا تو ہوسکتا ہے کہ مرتے دم تک اس پر خراسانی کا کھوکھلا پن ظاہر نہ ہوتا۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔؟ایک بات تو طے ہے کہ علاقوں کے حساب سے یہ تعمیم
 Generalisation
نہیں کی جاسکتی۔ہرگز نہیں!
خراسان ہی کی مثال لیجئے۔کم و بیش اسی علاقے کو اب افغانستان کہتے ہیں۔اگرچہ ایران کے تین صوبوں کے نام خراسان پر ہیں۔شمالی خراسان،خراسان رضوی،اور جنوبی خراسان!مگر چاہے ایرانی خراسان ہو یا افغانستان،مہمان نوازی یہاں کا عام وصف ہے۔عربوں کی مہمان نوازی معروف ہے،مگر دوسری طرف عربی ادب بخیلوں،کنجوسوں،مفت خوروں اور طفیلیوں کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
غور کریں تو اس رویے کے تین اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔سب سے پہلا موروثی اثر ہوگا۔یعنی Genes-سفلہ پن خون میں رواں ہوگا۔دوسراسبب خاص مزاج،خاص کیمسٹری،جو وہ پیدائش سے لے کر آیاہے۔ تیسرا سبب اٹھان،ماحول،گھر کی تربیت، اور گھر کا مخصوص رسم و رواج، مگر یہ اسباب سب آپس میں غلط ملط ہوجاتے ہیں،ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے سگے بہن بھائی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک فضول خرچ،دوسرا پائی پائی سینت کر رکھنے والا۔ایک فیاض،دوسرا کنجوس،ایک دعوتوں پر دعوتیں کرنے والا دوسرا چائے کی پیالی بھی مشکل سے پلانے والا۔ ایک ڈھیروں ملبوسات اکٹھے لینے والا۔ دوسرا ایک پرانی پتلون میں برس ہابرس گزار دینے والا۔انسان ایک عجیب مشینری ہے۔ کوئی سے دو انسان دنیامیں شاید ہی ایک دوسرے کا مثالیہ ہوں۔جون ایلیاء نے کہا تھا۔ 
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ پیش
اب کئی ہجر ہوگئے،اب کئی سال ہوگئے!
اس ضمن میں کوئی فارمولا ہے نہ قائدہ کلیہ، برمکی خاندان کے تمام افراد فیاض تھے،اور حد درجہ سخی۔دادو دہش میں مشہور!خالد برمکی تھا یا جعفر برمکی یا یحییٰ برمکی،کسی کے دروازے سے کوئی خای ہاتھ کبھی نہ لوٹا۔مگر انہی کا ایک بھائی حد درجہ کنجوس تھا۔ نام اس کا اس وقت یاداشت میں نہیں دکھائی دے رہا۔ایک شاعر نے اس کی خِست سے تنگ آکر ہجو لکھی۔ہجو کیا لکھی،قلم توڑ کر رکھ دیا۔ لکھا کہ اگر اس کے پاس بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات کی قطار ہو اور ہر محل کا ہر کمرہ سوئیوں سے بھرا ہو اور اس سے یعقوب علیہ السلام ایک سوئی مانگیں کہ یوسف کی قمیض سینی ہے اور تمام پیغمبر سفارش کریں اور تمام فرشتے گارنٹی دیں کہ سوئی واپس کردی جائے گی،مگر وہ پھر بھی نہیں دے گا اور صاف انکار کردے گا۔ 
ایسے افراد سے ہر کسی کو واسطہ پڑتا ہے۔ایک بار باہر دستک ہوئی،دیکھا تو دو تین لیبر نما اشخاص کھڑے تھے، کہنے لگے پانی پینا ہے،انہیں پانی پلایا، پوچھا کہاں سے آئے ہو۔۔تو سٹریٹ کے ایک محل نما مکان کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ائیر کنڈیشنر نصب کررہے ہیں۔ کئی بار پانی مانگا مگر کسی نے بھی نہیں دیا۔ خدا کی قدرت پر حیر ت ہوئی۔ 
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں،
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے!
چائے کا ایک ایک کپ پلایا، کھانے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک سا تھی کھانا لانے بازار گیا ہے۔
ان دنوں یہ کالم نگار سٹاف کالج لاہور میں تربیتی کورس کر رہا تھا۔ جمعہ کی نماز باغِ جناح میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی مسجد میں ادا کی جاتی۔ایک جمعہ کے دن نماز پڑھ کرواپس آرہا تھاکہ ایک دوست سے ملاقات ہوگئی،کھانے کا وقت تھا،انھیں ساتھ لے آیا،کھانا کھایا،خوب گپ شپ ہوئی،ایک بار ان کے ہاں جانا ہوا۔ساتھ غالباً معروف شاعر اور بنکار ملک فرح یار تھے۔ سرِ شام پہنچے،گھنٹو ں بیٹھے رہے،وہ اٹھنے بھی نہ دیتے، ساڑھے دس بج گئے،کھانا تو کیا چائے کا کپ بھی نظر نہ آیا، بالآخر اجازت لی اور ایک ریستورا ن میں شکم کی آگ بجھائی۔
ایک بہت بڑے محکمے میں یہ کالم نگار ان دنوں سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک دن ادارے کے سربراہ نے بلایا، کہا کہ سول سروس کے جس حصے سے ہمارا تعلق ہے اس کی انگریزی عہد سے کچھ روایات چلی آرہی ہیں،ان میں ایک یہ ہے کہ تعلق صرف دفتروں اور فائلوں تک محدود نہیں رہتا۔ہم ہر ماہ ایک دعوت کیا کریں گے جس میں سب اکٹھے ہوا کریں گے۔پہلی دعوت انہوں نے کہا کہ وہ کریں گے کیوں کہ وہ سب سے زیادہ سینئر ہیں،چنانچہ ا نہوں نے دعوت منعقد کی،پھر اس شخص نے،سنیارٹی کے اعتبار سے جس کا نمبر آتا۔چھ سات ماہ یہ سلسلہ جاری رہا،اس کے بعد رک گیا۔دو تین ماہ بعد انہوں نے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا؟بتایا گیا کہ فلاں صاحب کی باری ہے،وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے، دلچسپ بات یہ تھی کہ جن صاحب کی بار ی پر آکر معاملہ اٹک گیا تھا،وہ ہر دعوت میں جوش و خروش سے شریک ہوتے تھے،تاریخ کا تعین کرانے میں پیش پیش رہتے -کبھی کبھی تو فرمائش بھی کرتے تھے کہ بھائی فلاں پکوان ضرور ہونا چاہیے،تین ماہ کے بعد چھ ماہ بھی گزر گئے،ان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی، ایک بار ایک منچلے نوجوان افسر نے پوچھ ڈالا سر!آپ کے بعد فلاں کی باری ہے،وہ دعوت کرنا چاہتے ہیں،اس پر انہو ں نے بہت دھیمے لہجے میں اطلاع دی کہ نہیں باری ان کی ہے،تو وہی کریں گے۔اس کے دو تین ماہ بعد،ان کے ہا ں مدعو ہوئے ایک سال گزر چکا تھا-
کارپوریٹ سیکٹر کے ایک سینئر ٹیکنوکریٹ جو اتنے غیر معروف بھی نہیں،ایک زمانے میں بہت گرم جوشی سے راہ ورسم رکھے ہوئے تھے،جب کراچی سے آتے ضرور ملنے آتے۔ایک مشترکہ دوست بھی اکثر وبیشتر ساتھ ہوتے۔دارالحکومت کے جن سرکاری اداروں،محکموں اور دفتروں میں ان کے کام پھنسے ہوتے۔ان کا بھرپور تذکرہ کرتے۔کوئی مشترکہ ریفرینس مل جاتا تو اسے خوب بروئے کار لاتے،ایک عرصہ اسی طرح ملتے رہے۔یہ کالم نگار اکثر وبیشتر کراچی جاتا مگروقت کی اتنی تنگی ہوتی کہ ان سے رابطہ کرنے کا خیال ہی نہ آتا،یوں بھی شام اپنی شاعر برادری میں گزرتی جس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایک بار قیام نسبتاً لمبا ہوگیا۔آواری ہوٹل میں قیام تھا۔دفعتاً وہ صاحب یاد آئے فون کیا یوں لگا جیسے کوئی اور ہی شخص ہو،شدید مصروفیت کا ذکر اتنے دلگیر لہجے میں کیا کہ ترس ہی آگیا مگر خیر،پتھر کی آنکھ میں اتنی شرم تھی کہ اس کے بعد کبھی شکل نہ دکھائی۔
معروف ادیب اور ڈرامہ نگارمرحوم احمد داؤدکا یہ حال تھا کہ ایک بار مہمان آئے تو گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔جیب بھی خالی تھی!مہمانوں کو بیٹھک میں بٹھایا کتابیں اکٹھی کیں۔موٹر سائیکل پر رکھ کر اولڈ بک شاپ آیا،فروخت کیں پھر بازار سے بہترین مرغن اور پرتکلف کھانا خریدا، اور مہمانوں کو پیش کیا!افسوس۔۔۔احمد داؤد عین شباب میں دنیاسے رخصت ہوا اور دوستوں کو مستقل رنج و محن میں چھوڑ گیا۔
یہ ایک طویل موضوع ہے اور دلچسپ بھی۔ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو فیاض اور کشاد ہ دل افراد کی قدر کون کرے۔بہت سے واقعات یاد آرہے ہیں۔مگر جلدی ہے اس لیے کہ جانا ہے،آپاکشور ناہید کے گھر دعوت ہے۔مہمانوں کو اکٹھا کرنے اور ضیافت کرنے کی بیماری آپا کو بری طرح لاحق ہے۔اب صحت پہلے جیسی نہیں رہی مگر اب بھی بیس بیس تیس تیس مہمانوں کا کھانا اپنے ہاتھ سے تیار کرتی ہیں۔شب دیگ ضرور ہوتی ہے،پودینے والی روٹی دستر خوان کا لازمی جزو ہے۔کیا لوگ ہیں جو دوسروں کو کھلا کر سرور حاصل کرتے ہیں۔یہ وہ مسرت ہے جس کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔یہ خدائی وصف ہے جو خدا کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک شخص کو کھانا کھلا رہے تھے،اس دوران گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا وہ آتش پرست ہے،دستر خوان کھینچ لیا،وحی آئی کہ واہ!ابراہیم واہ!اس آتش پرست کو ستر سال سے کھانا کھلا رہا ہوں،تم ایک وقت بھی نہ کھلا سکے۔

Wednesday, August 23, 2017

ٹشو پیپر


آپ ریستوران میں کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں،بیرا کپڑے کا بنا ہوا نیپکن لاتا ہے، آپ کھاتے ہوئے اس نیپکن کو اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں۔ تاکہ کھانے کے ٹکڑے یا سالن کے قطرے آپ کی پوشاک پر نہ گریں۔ 
پھر بیرا ایک پلیٹ میں چند کاغذی رومال لاتا ہے،ان سے آپ ہاتھ پونچھتے ہیں۔
آپ کی گاڑی میں ٹشو پیپر کا ایک ڈبہ پڑا ہے، کچھ کھانے کے بعد آپ ڈبے سے ایک ٹشو کھینچتے ہیں،ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں، پسینہ آئے تو ایک اور ٹشو نکالتے ہیں،پیشانی پونچھتے ہیں اسے بھی پھینک دیتے ہیں۔ 
آپ کا اس نیپکن سے،اس کاغذ ی رومال سے،اس ٹشو پیپر سے کیا رشتہ ہے،کتنی دیر کا تعلق ہے؟ پھینک دینے کے بعد کیا آپ فکرکرتے ہیں،کہ اس کا کیا بنا؟کون سا خاکروب لے گیا؟کوڑے کرکٹ کے کس ڈھیر پر پہنچا؟نہیں!آپ کا تعلق اس نیپکن سے اس کاغذی رومال سے،اس ٹشو سے محض چند لمحوں کا ہے،استعمال کیا،پھینک دیا۔
غور کیجئے کہ نیب نے شریف خاندان کے افراد پیش ہونے کے لیے حکم نامے بھیجے۔کوئی بھی نہ پیش ہوا۔۔ایسا ہی ایک حکم نامہ نیب نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھیجا،سعید احمد کی وہ اہمیت،وہ شان و شوکت،وہ جاہ وجلال وہ حیثیت نہ تھی جو میاں محمد نواز شریف اور ان کے بیٹوں کی تھی۔ سعید احمد نیب کے حکم نامے کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرسکتے تھے جو شریف خاندان نے کیا ۔سعید احمد کو پیش ہونا پڑا،انہیں گھنٹوں گرِل کیا گیا، پہروں بٹھایا گیا، پانچ رکنی ٹیم نے نچوڑا، پوچھ گچھ کی، سعید احمد کے پانچ بینک اکاؤنٹس تھے،جن سے بھاری رقوم باہر منتقل ہوئیں،انہی کے اکاؤنٹس سے اسحاق ڈار کی کمپنیوں کو رقوم گئیں۔ 
فرض کیجئے،میں صاحب بیرون ملک چلے جاتے ہیں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، جنرل پرویز مشرف بیرون ملک براجمان ہیں، رول آف لاء کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، مگر نیب سعید احمد کو نہیں چھوڑے گا، اس سے پہلے ٹی وی پر کروڑوں لوگوں نے بار ہا دیکھا کہ ایس ای سی کے چیئر مین عدالتوں میں آجا رہے ہیں، منہ پر ماسک رکھا ہے،کبھی حوالات سے نکالا جا رہا ہے،کبھی پیشی کے لیے لے جایا جا رہا ہے،
یہ بیوروکریٹ نوکر شاہی کے ارکان،یہ اہلکار کیاہیں؟یہ وہ نیپکن ہیں جنھیں بڑے لوگ کھانا کھاتے وقت اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں، تاکہ روٹی کے ٹکڑے اور سالن کے قطرے گرنے ہوں تو ان پر نہ گریں۔ یہ وہ کاغذی رومال ہیں،یہ وہ ٹشو ہیں جن سے ہاتھ پونچھ کر،ماتھے کا پسینہ صاف کرکے نیچے پھینک دیتے ہیں، اب ان کے ساتھ نیب کیا کرتی ہے،یا ایف آئی اے،یا عدالتیں،یہ ہاتھ پونچھنے والوں کا مسئلہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ پڑھے لکھے افراد اپنے آپ کو تر نوالہ کی حیثیت سے بڑے لوگوں کے دستر خوان پر کیوں پیش کرتے ہیں،؟اس کی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بھی بڑے لوگوں کے طبقے میں شمار ہو گئے ہیں، وزیراعظم بلا کر بات کرتے ہیں،حکمران پیغام مات بھیجتے ہیں،محل میں بلایا جاتا ہے،خدام جھک کر سلام کرتے ہیں،سرگوشیوں میں بات کی جاتی ہے،پروٹوکول ملتا ہے،صاحب آتے وقت اٹھ کر ملتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے ہی مطلب پورا ہوا حکمران انہیں بھول جائیں گے اور کاغذی رومال کی طرح ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ 
بیوروکریٹ کی چار اقسام ہیں۔
اول: وہ سر پھرا جو غلط حکم ملنے پر صاف بلند آواز سے "نہیں "کہتا ہے۔سچ بات سامنے کرتا ہے،اور لفظوں کو چبائے بغیر بلند اورواضح انداز میں کرتا ہے۔ایسے سر پھروں کی فوراً ٹرانسف کردی جاتی ہے،اوایس ڈی بنا دیا جاتا ہے،کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے،یا کسی ایسی مصیبت میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں،
دوم: دیانتدار مگر نسبتاً ڈرپوک یا حد سے زیادہ محتاط۔یہ غلط کام کرنے سے صاف انکار نہیں کرتے، خاموش ہوجاتے ہیں،مگر غلط حکم نہیں مانتے،چھٹی لے لیتے ہیں،بیمار ہوکر بستر پر لیٹ جاتے ہیں،بھاگ دوڑ کر تبادلہ کروا لیتے ہیں،مگر اپنے آ پکو بچا لیتے ہیں،
سوم: ایسے ڈرپوک جو غلط حکم خوف کی وجہ سے مانتے ہیں،ان کا اپنا مفاد اس میں شامل نہیں ہوتا،مگر پھنس جاتے ہیں،فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی،رات بھرجاگتے ہیں،سوچتے ہیں کس طرح جان بچائی جائے،صبح دفتر جا کر،سب کچھ کردیتے ہیں،
چہارم: وہ جن کی ہڈیوں اور ہڈیوں کے گودے میں بدنیتی بھری ہوتی ہے،یہ غلط کام ڈھونڈ ڈھونڈ کرکتے ہیں، حکمرانوں کا قرب حاصل کرنا ان کا نصب العین ہوتا ہے، یہ دوکروڑ اوپر بھیجتے ہیں تو ایک کروڑ اپنی جیب میں رکھتے ہیں، افتاد پڑے تو دے دلا کر بچ جاتے ہیں، یہ اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ 
ؔ"لے کر رشوت پھنس گیا،دے کر رشوت چھوٹ جا"
محمود احمد لودھی ایک سول سرونٹ تھے، سرپھرے،لاہور میں محکمہ تعمیرات(پی ڈبلیو ڈی وغیرہ)کے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ تھے۔گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سائیکل پر آتے جاتے،محکمہ تعمیرات سے اپنی رہائش گاہ پر چونا تک نہ پھروایا،جو اہلکار اور افسر عرصے سے ایک ہی جگہ متمکن تھے،انہیں اکھاڑ پھینکا،راشی افسروں اور اہلکاروں کو "خشک"سیٹوں پر بٹھا دیا۔
متعلقہ وزیر کا فون آیا کہ فلاں کو نہ چھڑیے،وہیں رہنے دیجیے،لودھی صاحب نے معذرت کی کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔وزیر صاحب ناراض ہو گئے۔ فون دھماکے کے ساتھ بند کیا، لودھی صاحب چھٹی کے بعد گھر پہنچے تو گھر والوں سے کہا کہ سامان پیک کرنا شروع کرو،آج کل میں تبادلہ ہونے والا ہے۔ خدا کی قدرت،دوسری صبح اخبار کھول کر دیکھا تو وزیر صاحب کی رخصتی کی خبر تھی۔
یہ تو خبر ایک استثنائی واقعہ تھا، ہر بار معجزہ نہیں برپا ہوتا۔ دیانت اور سچ کی سزا بھگتنا ہوتی ہے۔یہ اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔اس پر پریشانی یا پشیمانی کیسی؟
دو بھائیوں کا قصہ مشہور ہے ۔ایک مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا،دوسرا بادشاہ کے حلقہ ملازمین میں شامل تھا،ایک دن وہ مزدور سے کہنے لگا،تم بھی چاکری کرلو۔مزدوری کی مشقت سے بچ جاؤ گے۔
مزدور نے جواب دیا کہ تم محنت مزدوری کو شعار بناؤتاکہ نوکری کی ذلت سے رہائی پاؤ،اس لیے عقل مندوں نے خوب کہا ہے،روکھی سوکھی کھا نا اور بیٹھنا،سنہری پیٹی کمر کے ساتھ باندھ کر کھڑا ہونے سے بہتر ہے۔ہاتھوں سے لوہا کوٹنا حکمرانوں کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا رہنے سے بہتر ہے۔انتخاب خود کرنا ہوتا ہے۔ایک روٹی بہتر ہے یا جی حضوری میں کمر دہرا کرنا۔دہرا کرنے سے یاد آیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک انگریز کپتان کی خودنوشت پڑھنے کا اتفاق ہوا،اسے کمپنی بہادر نے رجنیت سنگھ کے دربار میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا،رنجیت سنگھ اے شکار یا کسی دوسری مہم پر لے جاتے ہوتے ہوئے ساتھ لے جاتا تھا، وہ آنکھوں دیکھا واقعہ لکھتا ہے کہ۔۔
سفر کے دوران پڑاؤ ہوا،خیمے نصب کیے گئے،رنجیت سنگھ نے کھانا کھانا تھا،ایک نوکر اس کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ،حالت رکوع میں ہوگیا۔اس کی پشت کو مہاراج نے تپائی کے طور پر استعمال کیا اور اس پر کھانا رکھ کر کھایا،اس سارے عرے میں وہ بے حس و حرکت جھکا رہا۔
یہ کہنا یا سمجھنا کہ افسر شاہی کی اکثریت بدعنوان ہے،قرین انصاف نہیں،اکثریت دیانتدار ہے اور خدا ترس،محب وطن ہے اور اپنے بچوں کے منہ میں حرام کی چوگ ڈالنے سے ڈرتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ منہ پر واشگاف الفاظ میں "نہیں "کہنے والے کم ہیں۔ زیادہ وہ ہیں جو حکمت سے ڈپلومیسی سے کام لے کر غلط کام سے جان چھڑا لیتے ہیں، اور قومی خزانے کی بھی حتی المقدور حفاظت کرتے ہیں۔ مگر ہر انسان کی بہادری اور دیانت داری کی ایک حد ہوتی ہے،وہ اس حد تک ہی جا سکتا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں ہوتا،معاشرے کا ہی حصہ ہوتا ہے،اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نعرہ لگا کر سولی چڑھ جائے گا،صحیح نہیں۔۔۔توقع رکھنے والے خود کبھی ایسا نہیں کرتے۔ 
یہاں کرپٹ بیوروکریٹ اسے سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کی نظر میں آجائے اور اقتدار کے برآمدوں میں آنا جانا شرو ع کردے مگر یہ کوتا ہ نظری ہے،کامیاب بیوروکریٹ وہ ہے جو اپنے حکمرانوں کی نظروں سے بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ اپنے فرائض و قوانین کے مطابق،حدود کے اندر رہ کر سرانجام دے،مرکزِ نگاہ نہ بنے،اپنے آپ کو آزمائش میں نہ ڈالے، اتنا اونچا نہ اڑے کہ پرواز جاری رکھنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑے، ورنہ گر ہی جائے۔
اخلاقیات میں ایسے افراد کی تحسین کی گئی ہے جو دربار میں،یا مجلس میں حاضر ہوں تو نمایاں نہ ہوں اور غیر حاضر ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو محسو س نہ کیا جائے،یہ خلقِ خدا کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عزتِ نفس رکھتا ہے، اور اپنی تشہیر سے بچتاہے،شاید ایسے لوگوں ہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 
تری بندہ پروری سے میرے د ن گزر رہے ہیں۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا،نہ شکایتِ زمانہ!


Monday, August 21, 2017

وزیر اعظم قبرستان میں


احاطے کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ احاطہ قطعوں میں تقسیم ہے۔ ہر قطہ کو پلاٹ
کہتے ہیں۔ پلاٹ قبروں میں منقسم ہیں۔ قبروں پر کتبے ہیں۔ چھوٹے بڑے۔ گول،چوکور، مستطیل۔ کتبوں پر نام ہیں۔ کہیں اشعار، کہیں دعائیہ کلمات۔ گائوں کا قبرستان یاد آ جاتا ہے۔ جنازہ جس کی طرف آہستہ آہستہ رواں دواں ہے۔ جنازے میں شریک لوگ، لَے میں لَے ملا کر، دلکش لحن میں پڑھ رہے ہیں۔
پڑھ لا الٰہ الااللہ
محمدؐ پاک رسول اللہ
کالی قبر تے گھپ ہنیرا اے
جتھے کیڑے مکوڑیاں دا ڈیرا اے
ایہہ کلمہ نور سویرا اے
پڑھ لا الٰہ الااللہ
نصف صدی پیشتر جب دارالحکومت کا قبرستان بنا تھا تو بنانے والوں کا عزم تھا کہ یہ ان دیہی اور قصباتی قبرستانوں جیسا ہولناک قبرستان نہیں ہو گا جہاں جھاڑ جھنکار کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ درختوں پر کپڑوں کے چیتھڑے لٹک رہے ہوتے ہیں اور اندر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ چنانچہ دارالحکومت کے قبرستان کو پلاٹوں میں تقسیم کیا گیا۔ درمیانی راستوں کو فٹ پاتھوں کی طرح پختہ کیا گیا۔ اندر سڑکیں بنائی گئیں۔ سینکڑوں مالی اور ملازم رکھے گئے جو خود رو گھاس کو ٹھکانے لگاتے تھے اور قبروں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
مگر پھر وہی ہوا جو اِس تیرہ بخت ملک میں ہوتا ہے وہی جو ہر شعبے، ہر محکمے، ہر میدان میں ہوا۔ کوئی کرنے والا نہ پوچھنے والا!لاوارث قوم! لاوارث قبرستان!
احاطے میں داخل ہوتا ہوں۔ وحشت نے چاروں طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں ؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ویرانی ہر سو برس رہی ہے۔ قبریں خود رو خاردار گھاس میں لپٹی ہوئی ہیں۔ پلاٹوں کے درمیان جو پختہ روشیں تھیں، شکست وریخت کے نرغے میں ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی قبروں کے سرہانے، بدنما، کُبڑے، پستہ قد درخت ہولناک منظر دکھا رہے ہیں۔ سینکڑوں ملازمین، جن کا کام صفائی، کٹائی ہے، کہیں نہیں دکھائی دیتے۔
اُس قبر پر پہنچتا ہوں جس پر پہنچنا ہے۔ کتبے کو رومال سے صاف کرتا ہوں۔ نہ جانے کہاں سے ایک شخص ظاہر ہوتا ہے۔ اس وقت دیکھتا ہوں جب بالکل قریب آ چکا ہے۔ لباس بوسیدہ، پھٹا پرانا، ہاتھ میں درانتی۔ پوچھتا ہے قبر ٹھیک کر دوں؟ میں کہتا ہوں نہیں! یہاں ایک مالی مخصوص کیا ہوا ہے، وہی کرتا ہے۔
مگر وہ قبر کو صاف کرنے لگ جاتا ہے۔ گھاس کاٹ ڈالتا ہے۔ ’’جی کوئی بات نہیں! ابھی تو میں ہی کر دیتا ہوں‘‘۔
نام محمد جان بتاتا ہے۔ وہ ’’پرائیویٹ‘‘ مالی ہے۔ یعنی حکومت کے ترقیاتی ادارے کا تنخواہ دار ملازم نہیں۔ یہاں کا سسٹم معلوم ہے مگر پھر بھی پوچھتا ہوں۔
’’محمد جان! کتنی قبریں ہیں تمہارے چارج میں
’’بس جی ہیں دس بارہ!‘‘
’’ماہوار کتنا کتنا دے دیتے ہیں؟‘‘
’’الحمدللہ، کوئی پانچ سو، کوئی تین سو‘‘
’’تو مہینے بعد کتنا ہو جاتا ہے؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔ پانچ ہزار کبھی سات آٹھ ہزار!‘‘
’’بال بچے کہاں ہیں؟‘‘
’’پیچھے گائوں میں۔‘‘
’’تو انہیں کتنے بھیجتے ہو؟‘‘
’’جی سارے ہی، جتنے بھی بنیں، کبھی پانچ کبھی کچھ زیادہ‘‘
’’تو یہاں کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’جی، ساتھ ہوٹل میں‘‘
ہوٹل سے اس کی مراد وہ کھوکھا نما جھونپڑا تھا جو قبرستان کے ایک کنارے پر تھا۔
’’اور تمہارا کھانا پینا؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے! یہاں کوئی نہ کوئی ہر روز چاول وغیرہ لا کر تقسیم کرتا ہے۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟‘‘
حیرت لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پانچ یا آٹھ ہزار روپے، اس گرانی کے زمانے میں اور محمد جان مجسم شکر ہو کر بار بار الحمدللہ کہتا ہے!
تین عشرے سیاہ و سفید کی ملکیت رکھنے والے حکمرانوں نے محمد جان اور محمد جانوں کے لیے کیا کیا؟ محمد جان سے زیادہ خوش بخت تو وہ جانور تھا جو فرات کے کنارے تھا اور جس کی فکر خلیفۂ وقت کو تھی کہ اس کے بارے میں بھی پوچھ گچھ ہو گی۔
خواب دیکھتا ہوں! خواب دیکھنے پر تادمِ تحریر کوئی پابندی نہیں۔ خواب دیکھتا ہوں کہ قبرستان کے بڑے گیٹ پر ایک گاڑی رکتی ہے۔ وزیر اعظم اترتا ہے۔ ڈرائیور کو ساتھ آنے سے منع کر دیتا ہے۔ قبرستان کے فٹ پاتھوں پر چلتا ہے۔ ادھر اُدھر، جھاڑ جھنکار دیکھتا ہے۔ قبریں چھپی ہوئی ہیں۔ کتبے تک ڈھک گئے ہیں۔ ؎
وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہارؔ
نہ جانے آرزوئیں اپنی دفن کی تھیں کہاں
اُسے محمد جان ملتا ہے۔ درانتی گردن سے لٹکائے، پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹے ہوئے جوتے! وزیر اعظم اس سے پوچھتا ہے گزارا کیسے کرتے ہو۔ محمد جان بتاتا ہے تو وزیر اعظم کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ اب وہ فون پر متعلقہ وزیر کو اور ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو طلب کرتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ پہنچ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم دونوں کو سامنے کھڑا کر کے پوچھتا ہے۔
’’تم نے یہاں، کس پلاٹ میں دفن ہونا ہے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری قبریں بھی اِسی بے آباد، وحشت کدے میں ہوں؟ خود رَو لمبی گھاس میں چھپی ہوئی؟ تمہارے پس ماندگان کو ڈھونڈنے سے نہ ملیں؟ اور یہ بتائو کہ تم یہاں آخری بار کب معائنہ کے لیے آئے تھے؟
پھر وزیر اعظم کی آواز بلند ہوتی ہے۔
’’میں کسی بھی وقت یہاں آ سکتا ہوں۔ اگر یہ منظر دوبارہ دیکھا تو تم دونوں کو نہ صرف نکال دوں گا بلکہ کارِسرکار میں غفلت کی بنا پر جیل میں ڈالوں گا۔ قبرستان کے سرکاری تنخواہ دار مالی جن جن مفت خوروں کے گھروں میں بیگار کاٹ رہے ہیں، وہاں سے انہیں واپس بلائو اور اس ڈیوٹی پر لگائو جس کی تنخواہ لے رہے ہیں اور سنو! ہر ماہ، آزاد میڈیا کو بلا کر قبرستان کا معائنہ کرائو۔‘‘
پھر وزیر اعظم اپنے دوسرے سٹاف کو طلب کرتا ہے۔ ’’میرے بیرون ملک دوروں کے بجٹ میں سے ایک کروڑ کاٹ کر قبرستان کے کنارے مالیوں اور ملازمین کے رہائشی کمرے بنوائو، صبح شام کھانا ریاست کی طرف سے ملے۔ اس کا بل صدرِ مملکت کے بیرونی دوروں کو کم کر کے ادا کیا جائے…‘‘
لمبی، خود رو گھاس میں سے ایک کیڑا نکل کر میرے پائوں پر چڑھتاہے اور پنڈلی پر کاٹتا ہے تو میں ہڑبڑاتا ہوں۔ خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ وزیر اعظم ہے نہ متعلقہ وزیر نہ ترقیاتی ادارے کا سربراہ! میں ہوں اور محمد جان ہے۔ درانتی گردن سے لٹکائے!
کبھی درانتی انقلاب کی علامت تھی۔ آج بے چارگی کی۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں ؎
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہَل کی یہ الّہڑ، جوان، نورِ نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت اٹھے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
زمیں پہ خلدِ بریں کا جو اب کاٹیں گے
ایک طرف محمد جان ہے۔ طمانیت سے چھلکتا محمد جان! ایک بار بھی نہیں کہا کہ صاحب! بہت مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہے۔ حیرت سے گنگ کر دیتا ہے جب کہتا ہے، ’’الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے، پانچ سات ہزار ہو جاتے ہیں!‘‘ کھوکھے پر سو جاتا ہے۔ خیراتی چاول کھا کر پیٹ بھر لیتا ہے۔ دوسری طرف محمد جان کے حکمران ہیں جو کروڑوں اربوں قومی خزانے کے اپنی ذات اپنے کنبے اور اپنے خاندان پر لٹا کر بھی طمانیت سے محروم ہیں۔ چہروں پر پریشانی کی کثافت ہے۔ ماتھے شکنوں سے بھرے ہوئے۔ سرکاری محل کے باہر بی ایم ڈبلیو کی قطاریں ہیں۔ ایک ارب روپے اِس بدبخت ملک کے خزانے سے دوروں پر حرام کر دیئے گئے۔ ہر روز کا ایوانِ وزیر اعظم اور ایوانِ صدر کا خرچ لاکھوں میں ہے اور تو اور مڈل کلاس سے اٹھا ہوا صدر بھی اب فیوڈل ذہنیت کا ہو چکا ہے کہ ہوائی جہاز میں بیٹھے ہوئے مسافر انتظار کر رہے ہیں کہ صدر صاحب آئیں تو جہاز اُڑے اور صدر صاحب اس ملک کے ’’بڑوں‘‘ کی روایت کے عین مطابق، مسافروں کو انتظار کرا کے، تشریف لاتے ہیں۔ حکمرانی کی کوئی نشانی بھی تو ہو۔ عام لوگوں کا کیا ہے؟ یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ انتظار کر لیں گے تو کیا موت پڑ جائے گی؟
لیکن محمد جان نے کبھی کسی کا کفن نہیں بیچا۔ کبھی کوئی قبر فروخت نہیں کی۔ اس نے توقبروں کی حفاظت کی۔ کفن چور تو دوسرے ہیں جن کی گردنوں کے ساتھ درانتیاں نہیں، تکبر کے سانپ لپٹے ہیں اور پھنکار رہے ہیں۔ سننے والوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ پھنکار سانپ کی ہے یا اُس متکبر گردن بلند کی جس کے گلے میں سانپ ہے! اقبال نے ’’مجلسِ اقوام‘‘(لیگ آف نیشتر) کے بارے میں کہا تھا ؎
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدان چند
بہرِ تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ چند کفن چوروں نے قبریں آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے۔
پچاس وزیروں کی انجمن! کابینہ! بھارت کی آبادی ایک ارب بتیس کروڑ ہے۔ مرکز میں وزرا اور وزرائِ مملکت کی کل تعداد 75ہے۔ اس حساب سے بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے تیرہ وزراء ہونے چاہئیں۔ مگر یہاں تو ڈاکخانے کا بھی الگ، مکمل وزیر ہے۔ ہر وزیر کے لیے گاڑیاں، سٹاف، رہائشی محل، دفتری ٹھاٹھ باٹھ پر کروڑوں کا خرچ ہے۔ ہر وزارت کا سیکرٹری ہے۔ اس کی الگ سلطنت ہے۔ یہ سارا بوجھ رینگ رینگ کر چلنے والے محمد جانوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ آٹھ ہزار روپے سے محمد جان کا خاندان جو شے بھی خریدتا ہے۔ اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ ٹیکس وہ دکاندار کو دیتا ہے۔ دکاندار اُوپر بھیجتا ہے۔ ٹیکس کا یہ روپیہ جمع ہو کر وزیروں کا شاہانہ طرزِ زندگی چلاتا ہے۔
میں واپس جنازے کو پلٹتا ہوں۔ سب مل کر پڑھ رہے ہیں۔
پڑھ لا اِلٰہ اِلااللہ
محمدؐ پاک رسول اللہ

Friday, August 18, 2017

آنکھوں دیکھا جُھوٹ


اپنی نو سو سالہ تاریخ میں یونیورسٹی نے اتنی سراسیمگی نہیں دیکھی تھی!
صرف سراسیمگی نہیں‘ جوش و خروش بھی تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا کوئی کالج‘ کوئی شاہراہ کوئی ہوسٹل ایسا نہ تھا جہاں یہی موضوع زیر بحث نہ ہو۔ کیا اساتذہ‘ کیا طلبہ‘ کیا لڑکیاں‘ کیا لڑکے‘ کیا سٹاف‘ کیا عام شہری‘ سب پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کوئی دوسری یونیورسٹی اس معاملے میں سبقت نہ لے جائے۔یہ یونیورسٹی کی عزت اور روایت کا معاملہ تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے تعلیم سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات، دریافت ہر میدان میں اپنی برتری کے جھنڈے گاڑے تھے۔ اب یہ معاملہ جو آن پڑا تھا‘ اس معاملے میں کیوں پیچھے رہے!
یہی صورت حال کیمبرج یونیورسٹی میں تھی وہ بھی اس معاملے میں پیچھے رہنے کو کسی صورت تیار نہ تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک بہت ہی سینئر پروفیسر ‘ جب آکسفورڈ کے میئر کے ہمراہ جہاز میں بیٹھا تو اُسے یہ دیکھ کر زبردست دھچکا لگا کہ چند نشستیں چھوڑ کر‘ کیمبرج یونیورسٹی کا رجسٹرار بھی اسی جہاز میں بیٹھا تھا۔
یہی ہلچل‘ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار‘ دنیا کی عظیم الشان امریکی درس گاہ ہارورڈ میں برپا تھی۔ وہ تمام دوسری یونیورسٹیوں سے اس معاملے میں بازی لے جانا چاہتی تھی۔ جان ہاپکن یونیورسٹی ایم آئی ٹی(میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) ییل یونیورسٹی ‘ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے‘ کولمبیا یونیورسٹی‘ یونیورسٹی آف شکاگو‘ سب اس مسابقت میں شریک تھیں۔ ہر یونیورسٹی کا فیصلہ یہی تھا ک اپنے سینئر ترین پروفیسر کو یا رجسٹرار کو نمائندہ بنا کر بھیجے گی۔ جہازوں کی نشستیں محفوظ کرائی جا رہی تھیں۔ سب کی منزل ایک تھی۔ سب کا مشن ایک تھا۔
یہ تو زمین کے معاملات تھے۔ عالم بالا میں ایک اور منظر تھا۔ فرشتوں کو درخواستوں کے پلندے موصول ہو رہے تھے۔ سقراط سے لے کر گیلی لیو تک‘ ارسطو سے لے کر افلاطون تک ابن رشد سے لے کر بوعلی سینا تک‘ ہر ایک کی عرضی آئی ہوئی تھی۔ جس فرشتے نے درخواستیں چھانٹنا تھیں‘ اسے ملنے کے لئے کارل مارکس بنفس نفیس‘ اس کے دفتر کے باہر دو دن سے بیٹھا تھا۔ مارکس کے ساتھ ‘ ادب سے ہاتھ باندھے لینن بھی موجود تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مارکس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا‘ پھر ہاتھ چومتا ۔مارکس نے لینن سے وعدہ کیا کہ اگر اسے کرۂ ارض پر دوبارہ جانے کی اجازت مل گئی تو وہ لینن کو ضرور ساتھ لے جائے گا۔ یہ سن کر لینن خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا یہ اس کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اس عظیم الشان تاریخی موقع پر‘ وہ اپنے مرشد‘ مربی اور رہنما مارکس کے ساتھ ہو گا۔
اس معاملے میں ٹراٹسکی کیوں پیچھے رہتا۔ جو نہیں جانتے ان کے لیے مختصراً بتائے دیتے ہیں کہ ٹراٹسکی انقلاب روس کے ضمن میں کمیونسٹ پارٹی کا بہت بڑا لیڈر تھا۔ سٹالن کا دور آیا تو اس نے سٹالن کی مخالفت کی۔ اسے جلاوطن کر دیا گیا پھر اسے سٹالن نے مروا ہی دیا۔ مگر روس کی اشتراکی تحریک اور 1917ء کے بالشیوک انقلاب کی تاریخ میں ٹراٹسکی کا اپنا مقام ہے۔ اس نے بھی درخواست دے رکھی تھی کہ ایک دن۔ صرف ایک دن کے لیے اسے کرۂ ارض پر واپس بھیجا جائے تاکہ وہ اس عظیم الشان موقع کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔
فرشتوں نے کیس تیار کیا۔ سمری بنائی۔ فائل اوپر بھیجی۔
اجازت دے دی گئی مگر فائل پر لکھا گیا کہ ابھی انتظار کر لیا جائے اور یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ اعزاز کس یونیورسٹی کے حصے میں آتا ہے۔ اس کے بعد درخواست دہندگان کو اُس یونیورسٹی میں جانے کے لیے ایک دن کی رخصت دی جائے۔ ہر ایک کے ہمراہ ایک خصوصی فرشتہ بطور گارڈ جائے گا تاکہ اس تاریخی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد درخواست دہندہ کو فوراً واپس عالمِ بالا میں لے آئے۔
واپس کرۂ ارض پر آتے ہیں۔ بالآخر قسمت کی شہزادی نے فیصلہ کیا کہ یہ اعزاز ہارورڈ یونیورسٹی کے حصے میں آئے گا۔ ہارورڈ میں اس دن جشن کا سماں تھا۔ رات کو چراغاں کیا گیا آتش بازی کا ایسا زبردست مظاہرہ کیا گیا کہ تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا ہو گا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی کا سب سے بڑا ہال بھی چونکہ اس موقع پر چھوٹا ثابت ہو گا اس لیے باہر کھلے میدان میں تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔ سجاوٹ کے لیے دنیا کے نامی گرامی آرٹسٹ بلائے گئے۔ اصل مشکل باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے استقبال اور رہائش کے انتظام کی تھی تقریب کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ کوئی ملک ایسا نہ تھا جہاں سے دانشور‘ مورخ‘ مصنف‘ فلسفی‘ صحافی‘ اساتذہ نہ آ رہے ہوں۔ یورپ سے تو جہازوں پر جہاز آ رہے تھے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی اورآسٹریا کی تمام یونیورسٹیوں نے جہاز چارٹرڈ کرا لیے تھے۔ پائپ پیتے‘ ہیٹ پہنے پروفیسر‘ جہازوں سے اترتے اور ہارورڈ کی آغوش میں سماتے جاتے۔
پھر عالم بالا سے قافلے آنے شروع ہوئے افلاطون’ سقراط‘ ابن رشد‘ بوعلی سینا ‘ البیرونی‘ جمال الدین افغانی‘ سعد زاغلول‘ محمد عبدہ‘مارکس‘ لینن‘ ٹراٹسکی‘ لارڈ کینز‘ آدم سمتھ‘ ڈارون‘ برٹرنڈرسل‘ سب آ رہے تھے۔ فرشتے ساتھ تھے۔
بالآخر وہ دن آ گیا جس کا سب انتظار کر رہے تھے۔ پاکستان سے چلا ہوا جہاز ہارورڈ اترا۔ اس موقع کے لیے خصوصی ایئر پورٹ بنایا گیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف جہاں سے اترے اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ امریکی صدر اور ہارورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے آگے بڑھ کر استقبال کیا۔ بچوں نے پھول پیش کئے، عالم بالا سے آئے ہوئے عظیم فلسفیوں ‘ دانشوروں مصنفوں میں سے ہر ایک نے آگے بڑھ کر پہلے میاں صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا‘ پھر ادب سے مصافحہ کیا۔ پھر اپنے خوش قسمت ہاتھوں کو چوما اور
احتراماً اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتے گئے۔ وہ یہ نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ
میاں صاحب کی طرف ایک لمحہ کے لیے بھی ان کی پیٹھ آئے۔
اس عظیم الشان اجتماع میں میاں صاحب نے اپنا ’’تصورِ انقلاب ‘‘ پیش کرنا تھا۔ جب سے انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا تھا‘ دانشور اور فلسفی اس انقلاب کے خدوخال ان سے براہ راست سننا چاہتے تھے۔ تاریخ عالم میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی پروفیسر ‘ کسی فلسفی‘ کسی مصنف نے نہیں‘ بلکہ ایک معزول وزیر اعظم نے انقلاب کا تصور دنیا کو دیا تھا۔
میاں صاحب نے تقریر کا آغاز کیا۔ سامنے ہزاروں مائک تھے۔ کیمرے لاکھوں کی تعداد میں تھے۔اگلی صفوں میں ہم عصر سربراہان مملکت تھے۔ دائیں بائیں خصوصی نشستوں پر فلسفی اور دانشور تشریف فرما تھے۔ میاں صاحب نے تقریر شروع کی۔
’’میں پوچھتا ہوں مجھے کیوں نکالا گیا۔کیوں نکالا گیا مجھے؟ اب انقلاب لانا ہو گا! انقلاب‘ انقلاب‘‘
دائیں طرف کی دوسری صف سے مارکس کھڑا ہوا۔
میاں صاحب! اس انقلاب کے اجزا کیا ہوں گے؟ اس کے سماجی، تاریخی اور سیاسی اسباب کیا ہوں گے۔؟
پھر لینن کھڑا ہوا۔
’’میاں صاحب! آپ اور آپ کا خاندان ماشاء اللہ سالہا سال سے برسر اقتدار ہے۔ آپ نے تعلیمی اورزرعی میدانوں میں کون کون سی انقلابی اصلاحات کیں؟
مگر سب سے زیادہ گستاخانہ سوال روسی ادیب ٹالسٹائی نے پوچھا۔
’’میاں صاحب! آپ اس نکتے کی وضاحت ضرور فرمائیں کہ انقلاب کا نعرہ آپ نے معزول ہونے کے بعد کیوں لگایا؟کیا آپ کے تصورِ انقلاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آپ اور صرف آپ وزیر اعظم ہوں!‘‘
اتنے میں مشہور مورخ ٹائن بی اٹھا اور پوچھا ’’میاں صاحب! اس انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا آپ نے اپنی پارٹی کے موجودہ حکمران شاہد خاقان عباسی کو ضروری ہدایات دے دی ہیں؟‘‘
میاں صاحب بدقسمتی سے کسی سوال کا جواب نہ دے سکے۔ ہاسا پڑ گیا‘ لمبا ہاسا! تقریب مذاق ثابت ہوئی میاں صاحب نے گھبراہٹ میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے معاون غائب ہو چکے تھے اور تو اور عزیزان گرامی طلال اوردانیال بھی دکھائی نہ دیے۔
تقریب ناکام ہوئی مکمل طورپر ناکام! ہر طرف بدنظمی اور ہڑ بونگ کا عالم پھیل گیا۔ میاں صاحب کو پولیس نے پچھلے دروازے سے بمشکل حفاظت سے نکالا۔
سب سے زیادہ پریشانی عالمِ بالا سے آنے والوں کو ہوئی۔ فرشے ان کو ہانکتے تھے اور ڈانٹتے تھے۔
کیا یہ تھی وہ تاریخی عظیم الشان تقریب جس کے لیے تم نیچے واپس آنے پر اصرار کر رہے تھے؟‘‘


Wednesday, August 16, 2017

”مجھے تو یہی بتایا گیا تھا“


”انہوں نے مجھے ایک شام وزیراعظم ہاﺅس میں بلا لیا۔ وزیراعظم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور انہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ وضاحت پیش کردی کہ میں بڑا نظریاتی آدمی ہوں۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ میری حکومت نے مشرف کو سپریم کورٹ حکم پر ملک چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ میں نے وزیراعظم صاحب سے اختلاف کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کو برقرار تو رکھا لیکن اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ وفاقی حکومت مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مقدمہ جاری رکھنے اور ان کی نقل و حرکت کے با رے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم صاحب نے حیرانی ظاہر کی تو میں نے عرض کیا کہ جناب سپریم کورٹ کا فیصلہ منگوا لیں۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ آ گیا جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا۔ میں نے وزیراعظم کو یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنا پڑے گا۔“
یہ پیرا گراف ایک معروف صحافی کے کالم کا حصہ ہے جو سات اگست کو شائع ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا‘ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے مطالعے سے محروم رہا۔ جنرل مشرف نے ان کے اقتدار کو ختم کر کے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ پھر میاں صاحب معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے گئے تو اس نے انہیں واپس نہیں آنے دیا۔ آئے تو ایئرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا۔ اگر میاں صاحب دشمنوں کی فہرست بنائیں تو کیا عجب‘ جنرل پرویز مشرف کا نام کئی دوسرے ناموں سے اوپر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ نام بھی‘ جن کا میاں صاحب جی ٹی روڈ پر ذکر کرتے رہے‘ جنرل صاحب کے نام کے نیچے ہی جگہ پائیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اتنے بڑے دشمن کے حوالے سے عدالت عظمیٰ فیصلہ دیتی ہے۔ فیصلہ سینکڑوں نہیں‘ صرف دو صفحوں پر مشتمل ہے۔ مگر میاں صاحب یہ دو صفحے بھی نہیں پڑھتے۔
آخر وجہ کیا تھی؟ کیا وہ پڑھنے سے قاصر تھے‘ یا پڑھنا کسر شان سمجھتے تھے؟ بہرطور وجہ کوئی بھی ہو‘ یہ طے ہے کہ وہ پڑھتے لکھتے کچھ نہیں تھے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ وہ فائلیں خود پڑھتے تھے نہ ان پر کچھ لکھتے تھے۔ تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ ایک زبردست موضوع ہے۔ وزارت عظمیٰ کے تین ادوار میں کتنی فائلوں پر ان کے لکھے ہوئے نوٹ یا احکام ان محققین کو ملیں گے؟ طریق کار‘ جو سننے میں آیا ہے یہ تھا کہ ان کے میر منشی‘ جو ڈپٹی پرائم منسٹر تھے‘ ان سے فائلیں
 ”Discuss“ 
کرتے تھے اور پھر فائلوں پر خود ہی احکام لکھتے تھے۔
میاں صاحب کے اس ”طرز حکومت“ کی ایک اور مثال اس وقت نمایاں ہوئی جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ای سی سی کی صدارت اسحاق ڈار صاحب سے لے کر اپنے آپ کو سونپی۔
یہاں تھوڑی سی وضاحت ای سی سی کے بارے میں ضروری ہے تاکہ قارئین کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے۔ اس کا پورا نام ”اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی“ ہے۔ یہ حکومت کی اہم ترین کمیٹی ہے جو معیشت اور معاشی ترقی کے ضمن میں بنیادی فیصلے کرتی ہے۔ اقتصادی پالیسیاں‘ مالی استحکام کے لیے اقدامات‘ صنعت و تجارت‘ زراعت‘ درآمدات و برآمدات‘ ٹیرف‘ دیگر محصولات توانائی‘ غرض تمام مسائل جو ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں‘ ای سی سی میں زیربحث آتے ہیں اور فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ اس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ کلیدی محکموں کے انچارج وزرا اس کے اجلاس بطور ممبر اٹنڈ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز بطور وزیراعظم اس کے اجلاسوں کی صدارت بنفس نفیس کرتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی بھی خود ہی کرتے رہے۔ گیلانی صاحب کے عہد کے اواخر میں شوکت ترین وزیر خزانہ تعینات ہوئے تو وہ کرنے لگے۔ تاہم جب تک میاں نوازشریف وزیراعظم رہے‘ چار سال میں انہوں نے ملک کے اس اہم ترین ادارے کے کسی ایک اجلاس کی صدارت بھی نہ کی۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ وہی وجہ ہے جس کی بنا پر انہوں نے دو صفحوں کا فیصلہ نہ پڑھا اور کسی فائل کو شرف التفات نہ بخشا۔ یعنی بے نیازی اور قبائلی طرزِ حکومت۔ وہ کسی ایسے جھنجھٹ میں پڑنا پسند ہی نہ کرتے تھے جس میں دماغ پر زور ڈالنا پڑے۔ حکومت اسحاق ڈار صاحب کرتے تھے۔ وزیراعظم مری‘ لاہور اور بیرون ملک آمدورفت میں مشغول رہتے تھے۔
ایسا شخص جو دو صفحے بھی نہیں پڑھتا‘ فائل بھی نہیں دیکھتا‘ کسی اہم اجلاس کی‘ جس میں اعداد و شمار اور اقتصادی پیچیدگیاں ہوں‘ صدارت بھی نہیں کرتا‘ اس نے زندگی میں کوئی کتاب کیا پڑھی ہوگی؟ کوئی کتاب رسالہ دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں۔ یہ جو جاتی امرا کے قریب پہنچ کر انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا ہے تو وہ صرف اور صرف وزیراعظم ہاﺅس میں اپنی واپسی کو انقلاب سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو چار سال میں انہوں نے کسی انقلاب کا نام کیوں نہ لیا؟ ان کے دہنِ مبارک سے کبھی کسی تعلیمی‘ زرعی یا معاشی پالیسی کی وضاحت نہیں سنی۔ ترقی سے مراد ان کی شاہراہیں ہیں اورانقلاب سے مراد یہ ہے کہ وزیراعظم بنیں اور رہیں۔
پرانے زمانوں میں جب بادشاہ شکار کھیلتے تھے تو ایک جم غفیر لشکریوں اور درباریوں کا ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ پورے جنگل پر قبضہ کرلیا جاتا تھا۔ شکار کو ہر طرف سے گھیر گھار کر بادشاہ کے نرغے میں لایا جاتا تھا۔ یوں جہاں پناہ شیر یا چیتے یا ہاتھی کا ”شکار“ کرتے تھے۔ سابق وزیراعظم بھی درباریوں کا جم غفیر لے کر نکلے۔ دو ہزار کی نفری تو اس انقلاب کے لیے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے ہی نے مہیا کردی۔ سات سو گاڑیاں بھی۔ پورے وفاقی حکومت‘ اس حکومت کے جملہ وسائل‘ پوری پنجاب حکومت‘ پنجاب حکومت کی افرادی قوت‘ گاڑیاں اور مالی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ ان سب نے انقلاب کے گرد گھیرا تنگ کیا اور لاہور پہنچ کر وہ میاں صاحب کے مکمل نرغے میں آ گیا۔ اسی انقلاب کا اعلان وہاں یا اس کے قریب پہنچ کر کیا گیا۔
اس انقلاب کے اجزا کیا ہے؟ اڑھائی تین کروڑ کی گھڑی‘ کروڑوں اربوں کے فلیٹ‘ درجنوں کارخانے‘ جائیدادیں‘ محلات‘ سرکاری خزانے کا بے تحاشا استعمال۔
انقلاب آیا تو پہلا ہدف اس انقلاب کا وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں ہوں گی۔ انقلاب تبدیلی لے کر آتا ہے۔ میاں صاحب ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وفاق میں انہی کی پارٹی کی حکومت ہے۔ وہ ایسا انقلاب چاہتے ہیں جس میں وہ اور صرف وہ و زیراعظم ہوں۔
آپ دنیا کے واحد حکومتی سربراہ تھے جو فائل خود نہ پڑھتے تھے نہ اس پر کچھ لکھتے تھے۔ ای سی سی کے اجلاس بھی خود نہیں اٹنڈ کرتے تھے۔ دو صفحے کا فیصلہ پڑھنا ان کے لیے عذاب تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے وزارت خارجہ کی پالیسی کتنی فائلیں اپنوں نے دیکھی اور پڑھی ہوں گی؟ افغانستان‘ ایران‘ سعودی عرب اور بھارت کے معاملات میں انہوں نے کیا کچھ ان فائلوں پر تحریر کیا ہوگا؟ آپ ان کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سعودی عرب میں جس اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو دہشت گردی کا شکار قرار دیا اور پاکستان کا ذکر تک نہ کیا‘ اس میں وہ بنفس نفیس شریک تھے۔ انہوں نے پاکستان کی اس سبکی پر چوں تک نہ کی۔ کوئی اور ہوتا تو سٹیج پر جا کر وضاحت کرتا۔ میزبان حکومت سے احتجاج کرتا۔
جب ہم قبائلی طرز حکومت کہتے ہیں تو یوں ہی نہیں کہتے۔ قبائلی طرز حکومت میں قبیلے کا سردار ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ کسی ادارے‘ وزارت یا محکمے کے مشورے کا پابند نہیں ہوتا۔ وزارت خارجہ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں اور ملک کا وزیراعظم جندال سے ملاقات کررہا ہے۔ وزارت خارجہ کو علم ہی نہیں اور بھارتی وزیراعظم جاتی امرا پہنچ جاتا ہے۔ وزارت خارجہ بے خبر ہے اور قطر سے وفد آ جاتا ہے۔ مہینوں لندن رہتے ہیں اور کوئی قائم مقام وزیراعظم ملک میں نہیں ہوتا۔ قبیلے کے سردار کی صاحبزادی عملاً سرداری سنبھال لیتی ہے۔
امید واثق ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو‘ جس کی بنا پر آپ نااہل ہوئے آپ نے ابھی تک نہیں پڑھا۔ کالم کے شروع میں معروف صحافی کے کالم کا جو اقتباس دیا گیا ہے اس کی رُو سے ”وزیراعظم صاحب نے یہ سن کر حیرانی ظاہر کی۔“ اب بھی انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ آپ نے تنخواہ نہیں لی۔ اس لیے نااہل قرار دیئے گئے۔ کوئی جا کر انہیں پورا فیصلہ سنائے تو وہ یقینا حیرت سے کہیں گے۔ ”مجھے تو یہی بتایا گیا۔“
اکبر اعظم ناخواندہ تھا مگر ہر کتاب‘ ہر فائل‘ ہر کاغذ پڑھواتا تھا اور فیصلے لکھواتا تھا۔ اعظم اس کے نام کا پیدائشی حصہ نہ تھا۔ پچاس برس دن رات کام کر کے یہ لقب کمایا۔ ایک ایک گھوڑا اس کے سامنے داغا جاتا تھا۔ میاں صاحب ناخواندہ نہیں۔ ماشاءاللہ تعلیم یافتہ ہیں مگر جو اسلوب حکومت کرنے کا انہوں نے دکھایا اس سے یہ قطعاً معلوم نہیں ہوتا کہ تعلیم یافتہ ہیں۔ کسی سے معاشی ترقی ہی کی تعریف پوچھ لیتے۔ معلوم ہو جاتا کہ صرف سڑکوں کو ترقی نہیں کہتے۔ اس میں صحت‘ تعلیم‘ صنعت‘ زراعت‘ افرادی قوت اور بہت کچھ اور بھی شامل ہے۔
چار سال میں انہوں نے ملک میں کتنی یونیورسٹیوں‘ کتنے کالجوں‘ کتنے ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ زرعی پالیسی میں کیا حصہ ڈالا اور تو اور سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی مہینوں نہیں گئے۔ کابینہ کے وزرا ملاقات کے لیے ترستے رہتے تھے اور صحافیوں کی مدد لینے کے لیے مجبور تھے۔
انقلاب جاتی امرا سے چل پڑا ہے۔ بس پہنچنے ہی والا ہے۔ بیوی بہت دیر سے کہہ رہی ہے کہ پکانے کے لیے گھر میں کچھ نہیں۔ سبزی لا کر دو۔ میں اس ڈر سے دکان پر نہیں جا رہا کہ پیچھے سے انقلاب نہ آ جائے۔


Monday, August 14, 2017

میٹھی لسی کے گلاس اور پیزا


ماش کی دال پکی تھی۔ دوپہر والے کریلے بھی حاضر تھے۔ مگر گیارہ سالہ بچی نے
کھانا کھانے سے انکار کردیا ’’نانا ابو میں نے پیزا کھانا ہے۔‘‘ نانا ابو کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ اس وقت پیزا کہاں سے اور کیسے آئے گا۔ بچی نے خود ہی مسئلہ حل کردیا۔ ’’سی سیکٹر والا ’’پیزا ہائوس‘‘ گھر میں پہنچا دے گا۔ بس آپ اسے فون پر بتادیجئے۔‘‘
یہ کالم نگار قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔ گویا تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی پہلی نسل ابھی زمین پر موجود ہے۔ اس نسل کی زندگی کے دوران ہی زمین و آسمان سب کچھ بدل گیا۔ اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی اوپر ہو گئی۔ وہ جو پیشگوئی تھی کہ ع
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
تو وہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔
تب ناشتے میں ڈبل روٹی کا کوئی تصور نہ تھا۔ کارن فلیکس بھی نہ تھے۔ صبح اٹھنے کے بعد سکول جانے تک‘ وقت اتنا فراخ ہوتا تھا کہ اباجی مجھے اور میری بہن کو قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے۔ اتنے میں امی جان ہمارے لیے پراٹھے پکالیتی تھیں۔ پراٹھے کے اوپر درمیان میں گوبھی یا پسے ہوئے شلغموں کا سالن یا دال رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ پراٹھے کا سب سے زیادہ مزیدار حصہ یہی ہوتا تھا۔ ساتھ ایک پیالے میں دودھ ہوتا تھا۔ ٹی بیگ یا کافی کا نام تک سننے میں نہ آیا تھا۔
سکول لے جانے کے لیے سکول بیگ تھا نہ لنچ بکس۔ کار تھی نہ وین لگوائی جاتی تھی۔ چوکور کپڑے کا ٹکڑا ہوتا تھا۔ درمیان میں کتابیں اور کاپیاں رکھی جاتی تھیں۔ دونوں طرف قلم اور پنسلیں‘ قلم سرکنڈے کے بنے ہوتے تھے۔ مثنوی کے پہلے دو شعروں میں جس سرکنڈے کا ذکر ہے‘ اسی کی نسل والے سرکنڈے سے قلم بنائے جاتے تھے ؎
بشنواز نے چون حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
ازنفیرم مرد و زن نالیدہ اند
بانسری سے سنو! جب وہ کہانی سناتی ہے اور جدائیوں کی شکایت کرتی ہے کہ جب سے مجھے سرکنڈوں کے جنگل سے کاٹ کر لائے ہیں‘ میرے نالہ و فریاد سے مرد و زن سب رو رہے ہیں۔
پھر آمنے سامنے کے کونوں کو آپس میں گرہیں لگا کر باندھ دیتے تھے۔ یہ تھا بستہ۔ اس کے نیچے تختی رکھی جاتی تھی۔ اسی کو بغل میں دبا کر سکول جاتے تھے۔ ’’سکیورٹی‘‘ کس بلا کا نام تھا‘ کبھی سننے میں نہ آیا۔ سکول اچھا خاصا دور تھا۔ پیدل جاتے تھے۔ کوئی چھوڑنے ساتھ کبھی نہیں آتا تھا۔ کلاس روم سردیوں میں باہر گرائونڈ میں منتقل ہو جاتے تھے۔ ڈیوٹیاں لگتی تھیں کہ ٹاٹ کس کس نے باہر بچھانے ہیں اور کس کس نے چھٹی کے وقت لپیٹ کر واپس کلاس روم میں رکھنے ہیں۔ استاد کے لیے کرسی بھی باہر لانا اور واپس رکھنا ہوتی تھی۔ ماسٹر سلطان صاحب کا چہرہ آج بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ کمال کے خوش خط تھے۔ لکڑی کی سیڑھی (نرد بان) پر چڑھ کر‘ سکول کی دیواروں پر قرآنی آیات اور اشعار لکھا کرتے۔ ان کے پاس ایک ہی کوٹ تھا۔ لمبا کالے رنگ کا! اردو کی ایک اضافی کتاب بھی ہوتی تھی جو زیادہ مشکل سمجھی جاتی تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب‘ جناب عبدالکریم‘ یہ کتاب پانچویں جماعت کو جو سب سے سینئر جماعت تھی‘ خود پڑھاتے تھے۔ کھانا واپس گھر آ کر کھایا جاتا۔ کھانا کھانے کے بعد فوراً سکول کا کام کرنے بیٹھ جاتے۔ تب ہوم ورک کو سکول کا کام ہی کہتے تھے۔ اس وقت تک گھر کے صحن کی مغربی دیوار کے دامن میں سایہ آ چکا ہوتا۔ پٹ سن کی بوری اس سائے پر‘ دیوار کے ساتھ بچھاتے اور کام کرتے۔ شام کو گھر سے ذرا دور کھیتوں کے درمیان ’’چوراہے‘‘ پر سب بچے کھیلتے۔ زیادہ تر گلی ڈنڈے کے میچ ہوتے یا ریڑھا چلایا جاتا۔ یہ ریڑھا کیا تھا‘ گول چکر ہوتا۔ ہاتھ میں لمبی تار رکھی جاتی۔ تار کا اگلا سرا یوں بنایا جاتا کہ چلتے ریڑھے کو اپنی گرفت میں لے لے۔
گھر میں جو کرائے پر تھا ایک بیٹھک تھی۔ دو کمرے تھے۔ ایک برآمدہ تھا۔ برآمدے کے اندر باورچی خانہ تھا۔ جسے رسوئی کہا جاتا۔ بچوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ سارے کھانے بیٹھ کر پکائے جاتے۔ رسوئی یعنی باورچی خانے میں کھڑے ہو کر کھانا پکانے کا کوئی تصور نہ تھا۔ سردیوں میں امی جان کے پاس ہی بوری یا چٹائی بچھا کر کھانا کھا لیتے۔ یہی ڈائننگ ٹیبل تھا۔
رمضان میں مزا آتا۔ محلے کی مسجد کے صحن میں بابا پھجا (فضل) ڈرم بجا کر افطار کے وقت کا اعلان کرتا۔ ہم سارے بچے جمع ہو جاتے۔ ڈرم بجنے کا سخت بے تابی سے انتظار ہوتا۔ ابا جی اور اماں جی ایک دو کھجوریں کھا کر فوراً کھانا کھالیتے۔ گرمیوں میں ہماری ڈیوٹی بازار سے برف لانے کی بھی ہوتی۔ برف والا‘ برف کے بڑے چٹان نما ٹکڑے کو پٹ سن کی بوری میں لپیٹ کر رکھتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا سؤا ہوتا۔ جسے وہ برف میں گھونپتا تو برف کا ٹکڑا الگ ہو جاتا۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ برف تول کر دی جاتی۔ ریفریجریٹر شاید ہی کسی گھر میں ہوتا۔ ہمارے محلے کے فرشتہ صفت حاجی عبداللہ صاحب ہر گھر سے صبح صبح پیسے لیتے۔ پھر قصاب کے پاس جا کر سب کے لیے گوشت خریدتے۔ ایک ایک بوٹی کے لیے قصاب سے جھگڑتے۔ قصاب کبھی کبھی اَڑ جاتا اور خوب تکرار ہوتی۔ نہ جانے کیسا طلسم تھا حاجی صاحب کے پاس کہ انہیں اچھی طرح یاد رہتا کہ کس گھر کا کتنا گوشت ہے۔ گوشت ہوتا بھی کتنا تھا۔ ایک پائو‘ ڈیڑھ پائو‘ زیادہ سے زیادہ آدھا سیر‘ جتنا بھی ہوتا اسی دن پکتا۔ باسی چیزیں کھانے کا رواج تو ریفریجریٹر آنے کے بعد پڑا۔
سرِشام لالٹین کا شیشہ صاف کیا جاتا۔ شیشہ ٹوٹتا تو اسے (شاید آٹا لگا کر) جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ دسویں تک اسی لالٹین کی روشنی میں پڑھا۔ سرما کی لمبی راتوں میں بان کی چارپائی سے گدا ہٹا دیتے کہ نیند نہ آ جائے۔ پوزیشن حاصل کرنے کا جنون ہمیشہ دامن گیر رہا۔ اکثر و بیشتر یہ خواہش پوری ہوتی رہی۔ سکول کے لیے ملیشیا کی شلوار قمیض کا یونیفارم تھا۔ استری میں جلتے ہوئے کوئلے ڈالے جاتے۔ تب ہر کام کے لیے الگ الگ جوتوں کا رواج نہ تھا۔ کھیلنے اور بھاگنے کے لیے جاگر ضروری نہ تھے۔ پشاوری چپل پہن کر کوسوں چل لیتے۔ پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتے‘ دوڑ بھی لیتے۔ سرما کی صبح سکول جاتے
ہوئے کبھی کبھی گہری دھند سے پالا پڑتا۔ اسے ہم مقامی زبان میں کُہیڑ کہتے۔
ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا۔ سردیوں میں ہمارے علاقے میں افغانستان سے پاوندے آتے۔ ہماری گلی میں قافلے گزرتے۔ گھنٹوں کھڑے ہو کر انہیں دیکھتے۔ پٹھان بچے اونٹوں اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر رسیوں سے بندھے ہوتے۔ پٹھانیاں‘ کھلے کھلے گھگھرے (غرارے) پہنے ہوتیں۔ انہی دنوں یہ گیت سنا ؎
پٹھانیے‘ پٹھان کدے گیا
ادھی روٹی کھا کے پواندی، ستا پیا
رمضان کا ذکر کیا تو ایک بات یاد نہ رہی۔ تراویح کی نماز ہم بچوں اور لڑکوں کے لیے تفریح کا سامان ہوتی۔ صفوں کے آخر میں سب سے پیچھے بیٹھتے۔ باتیں کرتے رہتے۔ امام رکوع میں جاتا تو دوڑ کر رکعت میں شامل ہو جاتے۔ ہمارا ایک دوست ریاض جو اللہ کو پیارا ہو گیا‘ تشہد میں شہادت کی انگلی اٹھاتا تو اتنی اوپر لے جاتا کہ دائیں طرف بیٹھے ہوئے لڑکے کی آنکھوں کے پاس لے آتا۔ ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا۔ کبھی کبھی نمازیوں سے ڈانٹ بھی پڑتی۔ مگر ان دنوں برداشت کا مادہ عام تھا۔ آج کی طرح عنقا نہ تھا۔ بڑوں کو خوب احساس تھا کہ وہ خود بھی ان مراحل سے گزرے ہیں۔ اس زمانے میں نمازیں آسانی سے ٹوٹتیں نہ نکاح۔ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے باہر نکالنے کا رواج بہت بعد میں پڑا۔
گرمیوں کی دو اڑھائی ماہ کی تعطیلات آتیں تو خوشی سے جھوم جھوم اٹھتے کہ گائوں جائیں گے۔ ساری چھٹیاں گائوں گزارتے۔ کچھ ددیال‘ کچھ ننھیال۔ بس سے اترتے تو دادا جان کا ملازم گھوڑی کے ساتھ انتظار کر رہا ہوتا۔ گھوڑی کی قدروقیمت اس زمانے میں وہی تھی جو ان دنوں ٹیوٹا کرولا کی ہے۔ گھر پہنچتے تو دادی جان بہت دیر تک بسم اللہ‘ جی آیاں نوں‘ مینڈے بچے آ گئے اور نہ جانے کیا کیا‘ کہتی رہتیں۔ میٹھی لسی کے گلاس دیئے جاتے۔ تنور میں پیاز بھری روٹیاں پکتیں‘ سویاں عورتیں ہاتھوں سے بناتیں جنہیں جَولے کہا جاتا۔ ان میں شکر اور گھی ڈالا جاتا۔ ننیال والے گھر میں ایک مشین تھی‘ بڑی سی، جس میں گوندھا ہوا میدہ ایک طرف سے ڈالا جاتا۔ پھر دو افراد اسے گھماتے‘ دوسری طرف سے سویاں نکلتیں جنہیں سکھایا جاتا۔ اس مشین کو گھوڑی کہا جاتا تھا۔ گائوں کا تقریباً ہر گھرانہ مانگ کر لے جاتا۔ جس گھر میں جاتی‘ وہاں بچے جمع ہو جاتے اور سویاں بننے کا تماشہ دیکھتے۔ مغربی پنجاب کے اضلاع میں تب مونگ پھلی کی فصل متعارف نہ ہوئی تھی۔ اس کی جگہ دیسی خربوزوں کی فصل ہوتی۔ یہ خربوزے رنگ رنگ کے ہوتے اور ڈھیروں کے حساب سے یا گدھوں کے حساب سے خریدے جاتے۔ یعنی ایک گدھا جتنا وزن خربوزوں کا اٹھا سکتا۔ روٹی بھی خربوزوں کے ساتھ کھالی جاتی۔
جون جولائی کی دوپہریں کڑکتی اور سلگتی ہوتیں۔ بڑے سو جاتے ہمیں سخت تلقین کی جاتی کہ دھوپ میں نہیں پھرنا۔ لمبی دوپہریں‘ درختوں کی چھائوں میں کھیلتے گزرتیں۔ بڑے بڑے چیونٹے لمبی لمبی ٹانگوں کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے۔ ایک دوپہر کو جب لُو چل رہی تھی‘ الطاف نے کہا کہ فلاں ڈھوک میں کبوتروں نے انڈے دیئے ہیں۔ آتش شوق بھڑک اٹھی۔ ڈھوک گائوں سے کافی دور تھی مگر دھوپ کا احساس ہوا نہ پیاس کا۔ واپس آئے تو ابا گلی میں کھڑے تھے۔ الطاف فوراً فرار ہوگیا۔ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
مجھے سر پر ایک چپت پڑی اور کتاب ’’فارسی آموز‘‘ دے کر بٹھا لیا گیا۔ یوں بھی گائوں میں تعطیلات گزارنے کی شرط یہ عائد کی جاتی کہ دادا جان سے فارسی پڑھنی ہے۔ یہ سلسلہ جماعت اول سے بی اے تک جاری رہا۔ شمار کیا جائے تو یہ اٹھائیس مہینے بنتے ہیں۔ یعنی دو سال اور چار ماہ۔ یوں دادا جان سے گلستان سعدی‘ بوستان سعدی‘ جامی کی یوسف زلیخا اور نظامی گنجوی کا سکندر نامہ سبقاً سبقاً پڑھ لیا۔ یہی اس دور کا فارسی کا نصاب تھا۔ بعد میں اپنے شوق سے مطلع الانوار کے کچھ ابواب ان سے پڑھے۔ ایسی ہی تعطیلات تھیں جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ بستیوں اور قریوں میں قاصد بھیجے گئے۔ ہر جگہ پیغام دیا گیا کہ ’’بیٹھے ہو تو اٹھ پڑو اور کھڑے ہو تو چل پڑو۔‘‘ ان علاقوں میں موت کی خبر انہی الفاظ کے ساتھ دی جاتی تھی۔ دادا جان چلے گئے۔ کتابوں سے بھری ہوئی حویلیوں کے کمرے اور زینیں چھوڑ گئے۔ یہ زینیں اور ان کی برچھی آج بھی چوتھی نسل نے محفوظ رکھی ہوئی ہے اور کچھ کتابیں بھی۔ زیادہ تو دست برد زمانہ کا شکار ہو گئیں۔ اپنے نام کو انہوں نے ایک شعر میں یوں استعمال کی ؎
من گرچہ کم تر از ہمہ اولادِ آدمم
فخرم ہمین بس است غلام محمدم
میں اگرچہ تمام اولاد آدم سے کم تر ہوں مگر یہی فخر کافی ہے کہ ’’غلام محمدؐ‘‘ ہوں۔ 
گائوں میں اکثر لوگوں نے کبوتر پال رکھے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی انوارالحق مرحوم بھی انہی لوگوں میں تھا۔ کھائے جانے والے کبوتر الگ ہوتے۔ ایک کبوتر سوا روپے میں ملتا تھا۔ اب تو خربوزے بھی شیور کے دکھائی دیتے ہیں۔ تب مرغی بھی شیور کی نہیں ہوتی تھی۔
مگر ٹھہریئے! کیسا کبوتر اور کون سی میٹھی لسی کے گلاس ؟ باہر گھنٹی ہوئی ہے۔ شاید زینب کا پیزا پہنچ گیا ہے۔


Friday, August 11, 2017

کتنے میجر علی سلمان؟کتنے سپاہی عبدالکریم؟


روشیں لہو سے بھر گئی ہیں! سفید گلاب کے تختے سرخ ہو گئے ہیں! باغ کے درمیان چلتی نہر کی تہہ میں سنگِ مر مر نہیں‘ گوشت کے لوتھڑے نظر آتے ہیں۔
ماتم کر کر کے تھک گئے ہیں! ہمارے نوجوان ہیں کہ شہید ہوئے جا رہے ہیں! مسلسل! مادرِ وطن لہو مانگے جا رہی ہے! مسلسل! خاک ہے کہ سرخ سے سرخ تر ہونا چاہتی ہے!
میجر علی سلمان کا جنازہ پرسوں شام اُس کے  دلگیر باپ نے پڑھا اور الحمد للہ کہا! حوالدار غلام نذیر‘ حوالدار اختر‘ سپاہی عبدالکریم کے بچے یتیم ہو گئے! مائیں کلیجوں پر پھول کاڑھ رہی ہیں! سہاگ اپر دیر کی مٹی میں مل گئے‘ شفق سرخ تھی۔ پھر یہ سرخی غائب ہو گئی۔افق پر زمین اور آسمان ایک ہو گئے۔ خاکِ وطن کی نہ مٹنے والی پیاس نے چار جوان عورتوں کو آن کی آن میں بوڑھا کر دیا! یہ سب کیوں؟ یہ سب کس لیے؟
کارگل اور سیاچین کی چوٹیوں پر‘ ان برفانی مقتلوں میں جہاں موت اپنا پرچم لہرائے کھڑی ہے‘ سفید برف کو دیکھ کر آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔ ہاتھ جھڑ جاتے ہیں! راتوں کو قیامت خیز طوفانی ہوائیں خیمے اکھاڑ لے جاتی ہیں! جوان وہاں قائم ہیں! پتھر کی سلوں کی طرح! خیرہ ہوتی آنکھوں اور جھڑے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ!کس لیے؟
وادی ¿ نیلم کے ساتھ‘ سرحدی مورچوں میں‘ آگ اور خون کے بستر بچھے ہیں جن پر بیٹے باپ‘ شوہر اور بھائی آرام کرتے ہیں! پتھروں کے تکیے ہیں۔ سلوں کے گدّے ہیں! غبار صورتیں تبدیل کر دیتا ہے! گولیوں کی بوچھاڑیں ہیں! کیوں؟کس کے لیے۔؟
اپردیر سے لے کر میران شاہ تک مہمند کی سرحد سے لے کر جنوبی وزیرستان کے سیاہ بنجر پہاڑوں تک سینے تنے
 ہوئے ہیں۔ گرد کے مرغولے اٹھتے ہیں! بگولے چکّی کی طرح گھومتے ہیں! دنیا کی پیچیدہ ترین‘ صعوبتوں سے بھری سرحد پر پاک فوج کے جوان زندگیاں بے آب و گیاہ پہاڑوں کے دامن میں بچھائے‘موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کب سے کھڑے ہیں! پاﺅں میں لرزش نہیں! آنکھیں جھپکتی نہیں! ثابت قدم! چٹانوں میں مل کر چٹان ہو گئے! بارود پھٹتا ہے! جسم گرتے ہیں! سبز پرچم خون مانگتا ہے! خون حاضر ہے! کیوں؟ کس کے لیے؟۔
ستر ہزار سے زیادہ عفت مآب خواتین مشرقی پنجاب میں رکھ لی گئیں! بیل گاڑیوں پر رینگتے قافلے لٹ گئے ٹرینیں لاشوں سے اٹ گئیں! بچے ماﺅں سے‘ بیویاں شوہروں سے‘ بچھڑ گئیں! کراچی کی بغل میں ماڑی پور کے ریتلے ٹیلوں کے پاس‘ مہاجرین کی حالت دیکھ کر قائد اعظمؒ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے! جاگیروں کے مالک ‘ زمینوں کے آقا ‘ نواب زادہ لیاقت خان نے آخری ہچکی لی۔ پنڈی کے کمپنی باغ میں پاکستان کو خدا کی حفاظت میں سونپا تو ملکیت میں مکان کوئی نہ تھا! اس شخص نے جس کی دیانت پر پٹیل جیسا خونخوار دشمن بھی انگلی نہ رکھ سکا‘ ایک ایک پائی کی حفاظت کی اپنی جان کو قوم خزانے سے الگ رکھا! کیوں؟ آخر کس لیے؟
پولیس کے سپاہی فرنٹ لائن پر ہیں! دہشت گردی کے سامنے تنی ہوئی فرنٹ لائن پر ! شہادتوں کا شمار مشکل ہے! ہمارے سکول بھک سے اڑ گئے، ہمارے مزار مٹ گئے‘ ہماری مسجدیں شہید ہو گئیں! ہمارے شہریوں کے پرخچے اڑ گئے! کیوں؟ کس کے لیے؟
قوم قربانیاں دے رہی ہے! دیئے جا رہی ہے! مگر کیوں؟کس کے لیے؟
کیا اس لیے کہ مورچوں کے اس طرف ‘ ملک کے اندر‘ لوٹ مار کا بازار گرم رہے؟ حکمران دبئی میں اقامت پذیر ہوں؟ مری میں نظاروں سے لطف اندوز ہوں‘ پھر لندن چلے جائیں ایک عید بھی خاک میں اٹے ہوئے جوانوں کے ساتھ نہ منا سکیں! ایک بھی شہید کی بیوہ کے سر پر ایک بھی یتیم بچے کے رخسار پر ہاتھ نہ رکھ سکیں! دولت کے شمار سے فرصت نہ ہو! آف شور کمپنیوں کے ڈھیر ! لندن! جدہ! نیو یارک! دبئی کے محلات!! ایک ایسا پُر تعیش طرزِ زندگی جسے مغربی ملکوں کے حکمران خواب میں بھی نہ دیکھ سکیں!!

بٹ چکا ہے۔ یہ ملک بٹ چکا ہے۔ قوم دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے! ایک طرف فوج کے جوان ہیں جو نپی تلی تنخواہ پر اپنے کنبوں کو پال رہے ہیں، ایک طرف شہیدوں کے خاندان ہیں جو محدود پنشنوں پر زندگی کی سیاہ رات کو پار کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ کسان ہیں جو ان فصلوں کا بھی لگان دے رہے ہیں جو ابھی کٹی نہیں ہیں! بھٹوں پر کام کرنے والے کنبے ہیں جو نسل در نسل قرضوں میں بندھے ہوئے غلام ہیں! سرکاری سکولوں کے اساتذہ ہیں، مدارس میں پڑھانے والے علماءہیں جو قوتِ لایموت پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ ذہین و فطین طلبہ ہیں جو وسائل نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم کے خواب آنکھوں میں بسائے کلرک لگ جاتے ہیں! ایک اوسط پاکستانی کی ساری عمر۔ جی ہاں۔ ساری زندگی‘ ایک مکان۔ صرف ایک مکان بنانے کا سوچ سکتی ہے زندگی بھر کی کمائی اسی کی نذر ہو جاتی ہے!
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ اس طبقے میں سیاست دان اور حکمران سر فہرست ہیں! ایک ایک وزیر‘ ایک ایک منتخب نمائندہ قوم کو کروڑوں میں پڑتا ہے۔ سرکاری رہائش گاہیں! علاج معالجہ‘ اندرون ملک‘ اور بیرون ملک جہازوں کے ذریعے آمدو رفت‘ ہزاروں گاڑیاں ان میں جلنے والا ایندھن! سب کچھ سرکاری خزانے سے !! ایک ایک کی حفاظت پر متعین کئی کئی پولیس کے جوان اور ان کی موبائل گاڑیاں! ہر زوجہ کے لیے الگ محل‘ ہر محل کو سرکاری رہائش گاہ کا درجہ! پورے پورے خاندان قومی خزانے پر پرورش پا رہے ہیں! بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے سرکاری پروٹوکول ! زکام ہوتا ہے تو چیک اپ کے لیے لندن کا رُخ کرتے ہیں! خدا کا اتنا خوف نہیں کہ بچوں کا نکاح حرم میں کرواتے ہیں تب بھی سرکاری جہازوں کے رُخ موڑ لیتے ہیں! ریاست اور ذات کے درمیان کوئی لکیر نہیں! یہاں تک کہ ایک مدہم مٹتی لکیر تک نہیں نظر آتی!
سابق وزیر اعظم نے ریلی میں چار حکومتوں کے وسائل جھونک دیئے ہیں۔ وفاق پر ان کے حلقہ بگوشوں کا قبضہ ہے۔ پنجاب اپنے خاندان کی مٹھی میں ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر وفاداروں کے پاس ہے!
میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ صرف دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے دو ہزار ملازمین اور سات سو گاڑیاں ریلی میں شامل ہیں۔ دوسرے وفاقی اور صوبائی محکموں کی خدمات کا اسی سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے! بازار بند کرا دیئے گئے ہیں۔ میٹرو بس معطل ہے! ملک کی عدلیہ کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے! آئین اور قانون کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں!
زرداری صاحب پانچ برس ایوانِ صدارت میں متمکن رہے۔ ایوان سے باہر دھماکے ہوتے رہے۔ جسموں کی بوٹیاں اُڑتی رہیں‘ خون بہتا رہا‘ ایک بار بھی باہر نہ نکلے۔ اندر بیٹھ کر ”سیاست“ کرتے رہے۔ سیاست کیا تھی‘ فلاں کو ساتھ ملا لو‘ فلاں کو دور کر دو‘ اس سے پہلے شوکت عزیز‘ پلاسٹک کا وزیر اعظم شہیدوں کے لہو پر پلتا رہا۔ بہادری کا یہ عالم تھا کہ سرکاری محل سے دارالحکومت پولیس کے سربراہ کو فون کیا کہ ایک ایسی پہاڑی بھی محل سے دکھائی دے رہی ہے جس پر بندوق بردار محافظ نہیں ہے! منصوبہ کراچی کا بھی ہوتا تو افتتاح ایوان وزیر اعظم میں کرتا! خاندانی ”وقار“ کا پاس اتنا تھا کہ ملک سے بھاگتے وقت وہ تحائف بھی ساتھ لے گیا جو سرکاری توشہ خانے کی ملکیت تھے!
کتنے علی سلمان‘ کتنے غلام نذیر‘ کتنے اختر کتنے سپاہی عبدالکریم خون دیں گے؟ کس کے لیے؟

Monday, August 07, 2017

ناپختگی صرف سیاسی تو نہیں!


کتنے ہی سال ہو گئے تھے جان فرانسس کو نیویارک میں رہتے ہوئے۔ ایک سیٹ روٹین تھا۔ مقررہ معمولات تھے۔ بیگم خوش تھی۔ بچے دنوں اپنی اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔ ایک معتدل دوپہر تھی‘ سردی نہ گرمی‘ جب اسے اطلاع دی گئی کہ کمپنی نے اسے لاس اینجلز والے دفتر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گھر کا سامان اکٹھا کرنے اور پیک کرنے کا کام اس خاندان کے لیے ڈراﺅنا سپنا بالکل نہ ثابت ہوا۔ جان فرانسس ہمیشہ تین قمیضیں اور تین پتلونیں رکھتا۔ جب بھی چوتھی قمیض خریدتا‘ تین میں سے ایک ”سالویشن آرمی“ کو ہدیہ کردیتا۔ سالویشن آرمی بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے جسے چرچ چلاتا ہے۔ اسی طرح اس کی بیوی کے پاس بھی چار پانچ جوڑے تھے۔ کچھ کتابیں تھیں! ایک چھوٹا سا کارٹ (چھکڑا) انہوں نے اپنی گاڑی کے پیچھے باندھا۔ سامان رکھا اور چار ہزار کلومیٹر دور لاس اینجلز چل پڑے۔
ہاں! ان ملکوں میں یہ سہولت ہے کہ گھر جب کرائے پر لیتے ہیں تو اس میں ڈش واشر‘ کپڑے دھونے کی مشین‘ چارپائیاں اور دیگر ضروری سامان موجود ہوتا ہے۔ یوں بھی‘ سامان فروخت کرنا اور استعمال شدہ گھریلو سامان خریدنا چنداں مشکل نہیں۔ کچھ ماہ پہلے آسٹریلوی پارلیمنٹ کے حزب اختلاف کے رہنما نے ایک پرانا ریفریجریٹر اپنے گھر کے لیے خریدا۔ ”ایبے“ اور ”گم ٹری“ جیسی تنظیمیں سامان خریدنے اور فروخت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ آپ نے شہر چھوڑنا ہے۔ ایبے یا گم ٹری میں اشتہار دیجیے۔ دیکھتے دیکھتے سامان بک جائے گا۔ نئے شہر میں اتریں تو خرید لیجیے۔
آپ کا کیا خیال ہے اوسط درجے کے ایک پاکستانی خاندان کو لاہور سے کراچی منتقل ہونا پڑے تو کیا سماں اور کیسا منظر ہوگا۔ پریشانی کا وہ عالم ہو گا کہ میاں بیوی لرز رہے ہوں گے۔ بچوں کو الگ مصیبت کا سامنا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ گھر میں سامان ایک خاندان کے لیے نہیں‘ اتنا زیادہ ہے کہ کئی خاندانوں کی کفالت کے لیے کافی ہوگا۔ کراکری کے انبار‘ اکثر اب تک استعمال ہی نہیں ہوئے۔ میاں کے جوتوں کے سات تو بیوی کے دس بارہ پندرہ جوڑے۔ الماریاں ملبوسات سے بھری ہوئیں۔ پہلے تو نام نہاد سیل کی اطلاع اخبارات سے ملتی تھی اب خاتون خانہ کو ایس ایم ایس یا وٹس ایپ کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے اور خبر ملتے ہی وہ چل پڑتی ہے۔ وہاں ایک طویل قطار میں کھڑی ہو کر سیل سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ قطار میں آگے پیچھے سب وہ خواتین ہیں جنہیں مزید ملبوسات کی قطعاً ضرورت نہیں‘ مگر چونکہ سیل لگی ہوئی ہے اس لیے خریداری ضروری ہے۔ گھر کے کاٹھ کباڑ سے جان چھڑانے کا ہمارے ہاں رواج ہی نہیں۔ جو شے ٹوٹ جائے‘ اوپر ممٹی میں ذخیرہ کرلیجیے۔ ہو سکتا ہے سو دو سو برس بعد کام آ جائے۔ پلنگ پوشوں سے صندوق بھرے ہیں۔ فرنیچر زیادہ ہوتے ہوتے پورچ تک آ گیا ہے مگر کم نہیں ہوتا۔ دو تین صندوق تو جہیز کے سامان سے بھرے ہیں۔ نانی اور پرنانی کی چادریں یادگار پڑی ہیں۔ کیڑا لگ جائے یا وقت کی طوالت سے گل سڑ جائیں‘ کسی کو دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ہے وہ سٹائل جس کی وجہ سے گھر کی شفٹنگ ڈراﺅنا خواب لگتا ہے۔ ٹرکوں پر ٹرک آتے ہیں۔ تھکاوٹ‘ عدم اطمینان‘ سراسیمگی‘ عشروں کے جمع شدہ سامان کے ٹوٹنے اور گم ہو جانے کا ڈر۔ آلام و افکار سے جان ہلکان ہو جاتی ہے۔ نئے شہر جا کر مزید سازوسامان اکٹھا کرنے کا جوش از سرنو بیدار ہوتا ہے۔
اب جب بچے کالج یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو واویلا برپا ہوتا ہے کہ فیسیں زیادہ ہیں‘ تعلیم مہنگی ہے‘ کیا ہوگا‘ کمانے والا ایک ہے‘ اب وہ ٹانگے کے گھوڑے کی طرح ادھر ادھر دیکھے بغیر جت جاتا ہے۔ ڈبل شفٹ لگاتا ہے۔ بزنس میں ہے تو بزنس کو دوگنا کرنے کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ ملازمت میں ہے تو پارٹ ٹائم کچھ اور مصروفیات تلاش کرنے کے درپے ہے۔ بچت آپ نے کی نہیں‘ سیل کا اشتہار دیکھا تو چل پڑے۔ گھر میں ضرورت سے زیادہ سامان اتنا ہے کہ اس کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے تو کم از کم یونیورسٹی کی ساری پڑھائی جتنا ضرور ہوگا۔
چینی تمام ہی ایسے سگھڑ ہوں گے مگر کچھ دن ہانگ کانگ میں رہ کر دیکھا کہ وہاں کے چینی خاندان منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ہر منصوبے کے لیے بینک میں الگ اکاﺅنٹ کھول لیتے ہیں۔ مثلاً بچے کی تعلیم ایک پراجیکٹ ہے۔ اس کے لیے الگ اکاﺅنٹ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد کھول لیں گے۔ دنیا کی سیاحت (ورلڈ ٹور) کرنا ہے تو اس پراجیکٹ کاکاﺅنٹ الگ کھولا جائے گا۔ اپنا اپارٹمنٹ خریدنا ہے تو بیس سال پہلے منصوبہ بندی شروع کردیں گے۔ اس کے لیے الگ اکاﺅنٹ کھلے گا۔ پھرجیسے ہو سکا‘ جتنی استطاعت ہوئی‘ اس میں رقم ڈالتے گئے۔ قطرہ قطرہ بہم شود دریا۔
سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر کے بارے میں خبر چھپی تھی کہ جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال تک پہنچا۔ وضاحت نہیں تھی مگر تاثر خبر سے یہی ملا کہ ایک ہی جوڑا تھا۔ الہٰکم التکاثر کی عملی تفسیر جس قدر ہمارے ہاں نظر آتی ہے‘ کم ہی کہیں اور ہوگی۔ خواتین فخر سے بتاتی پھرتی ہیں کہ میرے گھر میں تو پچاس یا سو افراد کے کھانے کے برتن‘ کراکری اور سونے کے لیے بستر موجود ہیں۔ یہ پچاس یا سو لوگ زندگی میں کتنی بار اکٹھے ہوں گے؟ کسی بھی موقع کے لیے بازار سے کرائے پر ہر شے مل جاتی ہے۔ پہلے زمانوں میں براتیں آ کر رات کو قیام کرتی تھیں‘ اب وہ رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ تیز رفتار ذرائع آمدورفت نے اسی دن کی واپسی ممکن کردی ہے اور سہل بھی۔
تیس چالیس برس پہلے بچت کا اچھا خاصا رجحان تھا۔ بچے غلوں میں سکے اکٹھے کرتے تھے۔ مردوں پر کوئی افتاد پڑتی تھی‘ کوئی مقدمہ سر پر آ پڑتا تھا یا شادی کا موقع ہوتا تھا تو نانیاں دادیاں قرآن پاک کے غلاف سے جمع شدہ پونجی نکال کر مرد کے حوالے کردیتی تھیں جو اچھی خاصی ہوتی تھی۔ بچے اب اپنی ساری پاکٹ منی جَنک فوڈ پر ضائع کرتے ہیں۔ یہ شوق لڑکپن اور پھر جوانی میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ گھر میں روٹی بھی ہے اور سالن بھی‘ دال بھی ریفریجریٹر میں رکھی ہے اور چاول بھی‘ مگر پیزا کا آرڈر دیا جاتا ہے۔ رات کے بارہ ایک بجے گھنٹی بجتی ہے۔ ایک نوجوان موٹرسائیکل پر ”ڈیلیوری“ کرنے دروازے پر کھڑا ہے۔ بچت خاک ہوگی؟
دنیا کی سیر تو دور کی بات ہے‘ اپنے ملک کی سیاحت کا بھی کبھی خیال نہیں آتا۔ لاہور اور اسلام آباد کے کتنے بچوں نے سمندر دیکھا ہے؟ کراچی اور حیدرآباد کے کتنے بچوں نے شمالی علاقوں کے پہاڑوں کی سیر کی ہے؟ پانچ یا دس فیصد سے زیادہ قطعاً نہیں۔ یہ ہماری ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔ ساری زندگی اس فکر میں گُھل جاتی ہے کہ مکان عالی شان بنے اور گاڑی بڑی سے بڑی ہو۔
اپنے ملک کی سیاحت سے یہ جو غفلت ہے اس کی ذمہ داری کا بھاری حصہ حکومتوں اور حکومتی اداروں کے سر بھی پڑتا ہے۔ سیاحت وہ شعبہ ہے جس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ آپ مری ایبٹ آباد سے لے کر گلگت چترال تک کھوج لگا لیں‘ ڈھنگ کے ریستوران ہیں نہ ہوٹل نہ موٹل نہ وائی فائی کی سہولیات۔ نجی شعبہ بھی مردہ کا مردہ ہی رہا۔ کیا کبھی کوئی اشتہار کسی کمپنی کا نظر پڑا ہے؟ جس میں یہ ترغیب دلائی جا رہی ہو کہ کراچی آئیے‘ سمندر کی سیر کیجیے‘ شہر کے اہم مقامات دیکھیے‘ ٹھہرنے کے لیے فلاں فلاں سہولیات حاضر ہیں۔ کوئی ایک کمپنی بھی ایسی نہیں جس پر اعتماد کر کے سفر اور قیام کے جملہ انتظامات اسے سونپ دیئے جائیں اور بے فکری سے نکل کھڑے ہوں۔ بددیانتی‘ وعدہ خلافی اور دروغ گوئی کا یہ عالم ہے کہ مذہبی سفر بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ عمرے کے لیے یہاں جب پیشگی رقم لی جاتی ہے تو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ قیام و طعام اور حرم تک کا فاصلہ جو بتایا گیا تھا‘ حقیقت اس سے بالکل مختلف نکلی۔ احتجاج کریں تو کیسے؟ اور کس سے؟ شنوائی ہے نہ تلافی۔
یہ تو قدرت کا انعام ہے کہ سیاحت کے شعبے سے مکمل غفلت برتی گئی‘ مگر پھر بھی دنیا بھر سے کوہ پیما آتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ سربفلک چوٹیاں جن ملکوں میں پائی جاتی ہیں‘ ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر بھرپور توجہ دی جاتی‘ سیاحت کو انڈسٹری کا مقام دیا جاتا‘ حکومتی سطح پر منصوبہ بندی ہوتی‘ نجی شعبے کو رعایتیں دے کر ساتھ ملایا جاتا تو سیاحت ہمارے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہوتی۔ پاکستان کو شہرت اور عزت الگ ملتی۔
فرد ہے یا ادارہ‘ نجی شعبہ ہے یا حکومت‘ ہمارے رویے رجعت قہقری کا سبب ہیں۔ نظر دور تک دیکھنے سے قاصر ہے۔ ترجیحات طے کرتے وقت دوراندیشی سے کام لیا جاتا ہے نہ ہی وژن ہے۔ لگتا ہے سیاسی پختگی کی طرح سماجی پختگی کی منزل بھی دور ہے۔

 

powered by worldwanders.com