وہ بوڑھا یاد آ رہا ہے جو بہرا تھا۔ مگر اپنے مطلب کی بات ‘ کتنی ہی آہستہ کیوں نہ ہو‘ سن لیتا تھا!
اہلِ سیاست کو بوڑھے کی یہ ادا اس قدر بھائی کہ اسے اپنا ہی لیا۔ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑواکڑوا تُھو، ایک سیاست دان نے باقاعدہ آہ و فغاں کی ہے کہ پارلیمنٹ سب سے کمزور ادارہ ہے اور یہ کہ جس کا دل چاہتا ہے پارلیمان پر چڑھ دوڑتا ہے!
ہنسی آتی ہے! معصومیت پر نہیں! اس بہرے پن پر جو خوب موقع شناس ہے! سبحان اللہ! کیا انصاف ہے آپ کا! پاناما کا ہنگامہ ملک سے باہر شروع ہوا۔ عدالت نے وکیلوں کو سنا اور آرام و اطمینان سے سنا! پھر دو ججوں نے فیصلہ سنایا‘ تین نے مزید وقت دیا۔ اتنا وقت دیا کہ وکیلوں کے پاس مزید بات کرنے کو کچھ نہ رہا۔ پھر قانون کے مطابق نااہل قرار دیا۔ اس میں پارلیمان کی حق تلفی ہو گئی! کس طرح؟؟
ایک عرصہ سے جمہوریت اور پارلیمان کے لیے بزعمِ خود ”جہاد“ کر رہے ہیں۔ مگر وزیر اعظم آٹھ آٹھ ماہ پارلیمان میں نہ آئیں اور سینیٹ کو ایک برس سے بھی زیادہ عرصہ تشریف آوری سے نہ نوازیں تو بوڑھا بہرہ بنا رہتا ہے۔ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ‘ صوبائی اسمبلی کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتا۔ سال میں شاید ایک آدھ بار اُدھر کا رُخ کرتا ہے منتخب اداروں کی یہ توہین‘ یہ ناقدری‘ یہ عملی تضحیک کبھی نہیں نظر آتی۔ عدلیہ ایک مجرم کو سزا سنائے تو پارلیمان کی عصمت خطرے میں پڑ جاتی ہے!
کون سا اہم فیصلہ پارلیمان میں ہوا ہے؟ کیا پارلیمان کو معلوم ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں 35ارب ڈالر کا قرضہ ملک کی کُبڑی پیٹھ پر لاد دیا گیا ہے؟ کتنی دفعہ پارلیمان نے اس قرضے کی تفصیلات مانگی ہیں؟ نو ارب ڈالر اس میں سے مبینہ طور پر مل ہی نہیں رہے کہ کہاں گئے ہیں؟ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ کتنی بار پارلیمان میں موضوعِ بحث بنا ہے؟ خارجہ پالیسی پر پارلیمان نے گزشتہ ایک برس میں کتنی بار بحث کی ہے؟ سی پیک کا منصوبہ‘ اس کی اصل دستاویزات ‘ چین کے ساتھ معاہدہ‘ کیا یہ سب پارلیمان میں پڑھا اور دیکھا گیا؟ کیا اس پر شق وار بحث ہوئی۔ پارلیمان کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ اورنج ٹرین لاہور کا منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے یا نہیں؟ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ‘ جب ملک کے وزیر اعظم کے ہمراہ ملکوں ملکوں پھرتا رہا اور باقی وزرائے اعلیٰ کو گھاس تک نہ ڈالی گئی تو پارلیمان کہاں تھی؟ کیا کبھی سینیٹ نے‘ جس کے چیئرمین صوبوں کے حقوق کے بزعم خود‘ سب سے بڑے چیمپئن بنتے ہیں اس دھاندلی پر احتجاج کیا؟
کیا پارلیمان کو قطر کے ساتھ گیس کے کیے گئے معاہدے کا علم ہے؟ کیا پارلیمان میں اس پر بحث کی گئی ؟ کیا پارلیمان کو جرا ¿ت ہوئی کہ حکومت سے یہ معاہدہ مانگتی اور اس کی شفافیت یا کثافت پر گفتگو کرتی؟
اور یہ بھی بتا دیجیے کہ پارلیمان کے کتنے فیصد ارکان سال میں کتنی بار بولتے ہیں؟ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ملکی بجٹ پر دو فقرے ڈھنگ سے نہیں بول سکتے!جنہیں کیپیٹل اور ریونیو کا فرق نہیں معلوم!جنہیں یہ نہیں پتہ کہ گرانٹ کس چڑیا کو کہتے ہیں اور ترقیاتی بجٹ کون سا بجٹ ہے؟ یہ وہ حضرات ہیں جو یہ بجٹ”پاس“ کرتے ہیں!!
ان سے ذرا پوچھا جائے کہ زرعی اصلاحات اور زرعی آمدنی پر ٹیکس نہ لگائے جانے پر پارلیمان نے گزشتہ دو یا چار برس میں کتنی بار بحث کی ہے؟ آج آپ کو نظر آنے لگا ہے کہ ”ہر کوئی پارلیمان پر چڑھ دوڑتا ہے“ ! حکومت کا وزیر اعظم اور اس کے عمائدین کی ترجیحات میں پارلیمان کا لفظ ہی موجود نہیں! مگر یہ سب کچھ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ بہرے ہیں!
آپ صوبوں کے حقوق کے مجاہد ہیں! آپ پارلیمنٹ میں جمہوریت کی خاطر روپڑنے کے لیے مشہور ہیں! آپ کا اپنا تعلق جس صوبے سے ہے‘ اس کا صدر مقام تو دبئی میں ہے! کیا اس پر آپ کو کچھ دُکھ نہیں ہوا؟ ابھی تو کل کے اخبارات نے بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو دبئی میں طلب کیا گیا ہے؟کیا یہ صوبائی خود مختاری ہے؟ کیا آپ اپنی مقدس پارلیمان کے ذریعے یہ استفسار کرنا پسند فرمائیں گے کہ گزشتہ چار برسوں میں دبئی آنے جانے پر حکومتی عمائدین نے صوبے کے خزانے سے کتنا روپیہ خرچ کیا ہے؟ کیا آپ میں اتنی ہمت اور جرا ¿ت ہے؟ کیا آپ ایک قرار داد میں اس ناروا خرچ کی مذمت کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کی پارلیمان حکم جاری کرے گی کہ صوبے کے معاملات غیر ملک سے نہیں‘ صوبے ہی کے کسی شہر سے چلائے جائیں؟ نہیں! آپ ایسا نہیں کریں گے؟ آپ ایسے تمام مواقع پر منقار زیر پر رہتے ہیں!
پوپ مسلمان ہونے کی آرزو کر سکتا ہے! ٹرمپ‘ اوباما کے ہاتھ پر بیعت کر سکتا ہے! بھارت مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہو سکتا ہے! کراچی کے ساحلوں سے ٹکرانے والا سمندر‘ اُٹھ کر‘ ہمالیہ سے ہوتا ہوا‘ سائبیریا کا رُخ کر سکتا ہے مگر ان کے دہن مبارک سے کرپشن کے خلاف ایک جملہ تو دور کی بات ہے‘ ایک لفظ تو معجزہ ہے‘ ایک اُونہہ بھی نہیں سنی جا سکتی! جب حجاج کے جسموں سے احرام نوچے گئے‘ جب ایفی ڈرین کے معاملات نے افق سے افق تک منظر نامے کو ڈھانپ لیا‘ جب ترکی کی خاتون اول کا سیلاب کے لیے دیا ہوا ہار ہڑپ کر لیا گیا اور ملک پر گھڑوں پانی پڑ گیا‘ تو یہ حضرت بہرے بنے رہے! پھر جب کرپشن کا منبع و مخرج ملتان سے گوجر خان منتقل ہوا اور سکینڈلوں سے اخبارات کے صفحے سیاہ ہو گئے اور الیکٹرانک میڈیا کی آوازوں سے فضائیں بھر گئیں تو اس جمہوریت کے رسیا سیاست دان نے کچھ سنا ہی نہیں!
جمہوریت’ اللہ اللہ! کیا یہ جمہوریت ہے کہ باپ کے بعد پارٹی وراثت میں بیٹی کو ملی انکل فارغ کر دیئے گئے۔ پھر یہ ورثہ داماد کو منتقل ہوا۔ داماد نے بہن کو آل اِن آل قرار دیا‘ اب سفید سروں اور سفید مونچھوں داڑھیوں والے عمر رسیدہ سیاست دان ایک طفلِ نوخیز کے سامنے دست بستہ ہیں! یہ حقیقت تاریخ میں ریکارڈ پر ہے کہ اس نو آموز بچے نے دبئی میں طلب کیا تو عمریں سیاست میں پگھلا دینے والے اور پارٹی کی خدمت کر کرکے کمر جُھکا دینے والے سیاست دان دُبئی چل پڑے! عالی جاہ! خدا کا نہیں تو خلقِ خدا ہی کا خیال کر لیجیے! جمہوریت ! صوبوں کے حقوق! پارلیمان کا تقدس!
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصہ ¿ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
کس کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں آپ جب فرماتے ہیں کہ پارلیمان پر ہر کوئی چڑھ دوڑتا ہے؟تین دن پہلے جب دو ہزار غیر متعلقہ افراد‘ بغیر کسی پاس‘ کسی اجازت نامے کے‘ پارلیمان پر چڑھ دوڑے تو جناب کہاں تھے؟
پارلیمنٹ کی حرمت کے سلسلے میں آپ اتنے حساس ہیں تو برطانیہ‘ امریکہ اور دوسرے جمہوری ملکوں کے پارلیمنٹرین جیسے ارکان پیدا کریں۔ ایک ایک رکن پارلیمنٹ کا ریسرچ کا اپنا سیٹ اپ ہے جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان رات دن‘ محنت شاقہ سے‘ مسائل کی جڑیں کھودتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان تعلیم و صحت سے لے کر بجٹ اور بچت تک اور خارجہ امور سے لے کر داخلی سکیورٹی تک‘ ہر موضوع پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ملک کے صدر یا وزیر اعظم کو قانون کے خلاف ایک قدم نہیں چلنے دیتے!
کیا بات ہے ہماری پارلیمان کی!جس دن مراعات میں اضافے کا بِل پیش ہو‘ جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے! ہاں!جس دن زرعی آمدنی پر ٹیکس کا سوال اُٹھے یا غیرت قتل کے خلاف کوئی مسودہ پیش ہو جائے تو اُس دن بھی غیرت بیدار ہو جاتی ہے۔
1 comment:
السلام علیکم سر جی اس کالم کے بعد جو دو کالم لکھے گئے تھے " نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقئ " اور " ناپختگی صرف سیاسی تو نہیں " اور آج کا کالم " اگر وریدوں میں پانی نہ ہو، خون ہو " پلیز یہ بھی اسی طرح اپ لوڈ کر دیں
Post a Comment