Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 23, 2017

ٹشو پیپر


آپ ریستوران میں کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں،بیرا کپڑے کا بنا ہوا نیپکن لاتا ہے، آپ کھاتے ہوئے اس نیپکن کو اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں۔ تاکہ کھانے کے ٹکڑے یا سالن کے قطرے آپ کی پوشاک پر نہ گریں۔ 
پھر بیرا ایک پلیٹ میں چند کاغذی رومال لاتا ہے،ان سے آپ ہاتھ پونچھتے ہیں۔
آپ کی گاڑی میں ٹشو پیپر کا ایک ڈبہ پڑا ہے، کچھ کھانے کے بعد آپ ڈبے سے ایک ٹشو کھینچتے ہیں،ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں، پسینہ آئے تو ایک اور ٹشو نکالتے ہیں،پیشانی پونچھتے ہیں اسے بھی پھینک دیتے ہیں۔ 
آپ کا اس نیپکن سے،اس کاغذ ی رومال سے،اس ٹشو پیپر سے کیا رشتہ ہے،کتنی دیر کا تعلق ہے؟ پھینک دینے کے بعد کیا آپ فکرکرتے ہیں،کہ اس کا کیا بنا؟کون سا خاکروب لے گیا؟کوڑے کرکٹ کے کس ڈھیر پر پہنچا؟نہیں!آپ کا تعلق اس نیپکن سے اس کاغذی رومال سے،اس ٹشو سے محض چند لمحوں کا ہے،استعمال کیا،پھینک دیا۔
غور کیجئے کہ نیب نے شریف خاندان کے افراد پیش ہونے کے لیے حکم نامے بھیجے۔کوئی بھی نہ پیش ہوا۔۔ایسا ہی ایک حکم نامہ نیب نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھیجا،سعید احمد کی وہ اہمیت،وہ شان و شوکت،وہ جاہ وجلال وہ حیثیت نہ تھی جو میاں محمد نواز شریف اور ان کے بیٹوں کی تھی۔ سعید احمد نیب کے حکم نامے کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرسکتے تھے جو شریف خاندان نے کیا ۔سعید احمد کو پیش ہونا پڑا،انہیں گھنٹوں گرِل کیا گیا، پہروں بٹھایا گیا، پانچ رکنی ٹیم نے نچوڑا، پوچھ گچھ کی، سعید احمد کے پانچ بینک اکاؤنٹس تھے،جن سے بھاری رقوم باہر منتقل ہوئیں،انہی کے اکاؤنٹس سے اسحاق ڈار کی کمپنیوں کو رقوم گئیں۔ 
فرض کیجئے،میں صاحب بیرون ملک چلے جاتے ہیں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، جنرل پرویز مشرف بیرون ملک براجمان ہیں، رول آف لاء کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، مگر نیب سعید احمد کو نہیں چھوڑے گا، اس سے پہلے ٹی وی پر کروڑوں لوگوں نے بار ہا دیکھا کہ ایس ای سی کے چیئر مین عدالتوں میں آجا رہے ہیں، منہ پر ماسک رکھا ہے،کبھی حوالات سے نکالا جا رہا ہے،کبھی پیشی کے لیے لے جایا جا رہا ہے،
یہ بیوروکریٹ نوکر شاہی کے ارکان،یہ اہلکار کیاہیں؟یہ وہ نیپکن ہیں جنھیں بڑے لوگ کھانا کھاتے وقت اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیتے ہیں، تاکہ روٹی کے ٹکڑے اور سالن کے قطرے گرنے ہوں تو ان پر نہ گریں۔ یہ وہ کاغذی رومال ہیں،یہ وہ ٹشو ہیں جن سے ہاتھ پونچھ کر،ماتھے کا پسینہ صاف کرکے نیچے پھینک دیتے ہیں، اب ان کے ساتھ نیب کیا کرتی ہے،یا ایف آئی اے،یا عدالتیں،یہ ہاتھ پونچھنے والوں کا مسئلہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ پڑھے لکھے افراد اپنے آپ کو تر نوالہ کی حیثیت سے بڑے لوگوں کے دستر خوان پر کیوں پیش کرتے ہیں،؟اس کی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بھی بڑے لوگوں کے طبقے میں شمار ہو گئے ہیں، وزیراعظم بلا کر بات کرتے ہیں،حکمران پیغام مات بھیجتے ہیں،محل میں بلایا جاتا ہے،خدام جھک کر سلام کرتے ہیں،سرگوشیوں میں بات کی جاتی ہے،پروٹوکول ملتا ہے،صاحب آتے وقت اٹھ کر ملتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے ہی مطلب پورا ہوا حکمران انہیں بھول جائیں گے اور کاغذی رومال کی طرح ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ 
بیوروکریٹ کی چار اقسام ہیں۔
اول: وہ سر پھرا جو غلط حکم ملنے پر صاف بلند آواز سے "نہیں "کہتا ہے۔سچ بات سامنے کرتا ہے،اور لفظوں کو چبائے بغیر بلند اورواضح انداز میں کرتا ہے۔ایسے سر پھروں کی فوراً ٹرانسف کردی جاتی ہے،اوایس ڈی بنا دیا جاتا ہے،کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے،یا کسی ایسی مصیبت میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں،
دوم: دیانتدار مگر نسبتاً ڈرپوک یا حد سے زیادہ محتاط۔یہ غلط کام کرنے سے صاف انکار نہیں کرتے، خاموش ہوجاتے ہیں،مگر غلط حکم نہیں مانتے،چھٹی لے لیتے ہیں،بیمار ہوکر بستر پر لیٹ جاتے ہیں،بھاگ دوڑ کر تبادلہ کروا لیتے ہیں،مگر اپنے آ پکو بچا لیتے ہیں،
سوم: ایسے ڈرپوک جو غلط حکم خوف کی وجہ سے مانتے ہیں،ان کا اپنا مفاد اس میں شامل نہیں ہوتا،مگر پھنس جاتے ہیں،فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی،رات بھرجاگتے ہیں،سوچتے ہیں کس طرح جان بچائی جائے،صبح دفتر جا کر،سب کچھ کردیتے ہیں،
چہارم: وہ جن کی ہڈیوں اور ہڈیوں کے گودے میں بدنیتی بھری ہوتی ہے،یہ غلط کام ڈھونڈ ڈھونڈ کرکتے ہیں، حکمرانوں کا قرب حاصل کرنا ان کا نصب العین ہوتا ہے، یہ دوکروڑ اوپر بھیجتے ہیں تو ایک کروڑ اپنی جیب میں رکھتے ہیں، افتاد پڑے تو دے دلا کر بچ جاتے ہیں، یہ اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ 
ؔ"لے کر رشوت پھنس گیا،دے کر رشوت چھوٹ جا"
محمود احمد لودھی ایک سول سرونٹ تھے، سرپھرے،لاہور میں محکمہ تعمیرات(پی ڈبلیو ڈی وغیرہ)کے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ تھے۔گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سائیکل پر آتے جاتے،محکمہ تعمیرات سے اپنی رہائش گاہ پر چونا تک نہ پھروایا،جو اہلکار اور افسر عرصے سے ایک ہی جگہ متمکن تھے،انہیں اکھاڑ پھینکا،راشی افسروں اور اہلکاروں کو "خشک"سیٹوں پر بٹھا دیا۔
متعلقہ وزیر کا فون آیا کہ فلاں کو نہ چھڑیے،وہیں رہنے دیجیے،لودھی صاحب نے معذرت کی کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔وزیر صاحب ناراض ہو گئے۔ فون دھماکے کے ساتھ بند کیا، لودھی صاحب چھٹی کے بعد گھر پہنچے تو گھر والوں سے کہا کہ سامان پیک کرنا شروع کرو،آج کل میں تبادلہ ہونے والا ہے۔ خدا کی قدرت،دوسری صبح اخبار کھول کر دیکھا تو وزیر صاحب کی رخصتی کی خبر تھی۔
یہ تو خبر ایک استثنائی واقعہ تھا، ہر بار معجزہ نہیں برپا ہوتا۔ دیانت اور سچ کی سزا بھگتنا ہوتی ہے۔یہ اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔اس پر پریشانی یا پشیمانی کیسی؟
دو بھائیوں کا قصہ مشہور ہے ۔ایک مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا،دوسرا بادشاہ کے حلقہ ملازمین میں شامل تھا،ایک دن وہ مزدور سے کہنے لگا،تم بھی چاکری کرلو۔مزدوری کی مشقت سے بچ جاؤ گے۔
مزدور نے جواب دیا کہ تم محنت مزدوری کو شعار بناؤتاکہ نوکری کی ذلت سے رہائی پاؤ،اس لیے عقل مندوں نے خوب کہا ہے،روکھی سوکھی کھا نا اور بیٹھنا،سنہری پیٹی کمر کے ساتھ باندھ کر کھڑا ہونے سے بہتر ہے۔ہاتھوں سے لوہا کوٹنا حکمرانوں کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا رہنے سے بہتر ہے۔انتخاب خود کرنا ہوتا ہے۔ایک روٹی بہتر ہے یا جی حضوری میں کمر دہرا کرنا۔دہرا کرنے سے یاد آیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک انگریز کپتان کی خودنوشت پڑھنے کا اتفاق ہوا،اسے کمپنی بہادر نے رجنیت سنگھ کے دربار میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا،رنجیت سنگھ اے شکار یا کسی دوسری مہم پر لے جاتے ہوتے ہوئے ساتھ لے جاتا تھا، وہ آنکھوں دیکھا واقعہ لکھتا ہے کہ۔۔
سفر کے دوران پڑاؤ ہوا،خیمے نصب کیے گئے،رنجیت سنگھ نے کھانا کھانا تھا،ایک نوکر اس کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ،حالت رکوع میں ہوگیا۔اس کی پشت کو مہاراج نے تپائی کے طور پر استعمال کیا اور اس پر کھانا رکھ کر کھایا،اس سارے عرے میں وہ بے حس و حرکت جھکا رہا۔
یہ کہنا یا سمجھنا کہ افسر شاہی کی اکثریت بدعنوان ہے،قرین انصاف نہیں،اکثریت دیانتدار ہے اور خدا ترس،محب وطن ہے اور اپنے بچوں کے منہ میں حرام کی چوگ ڈالنے سے ڈرتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ منہ پر واشگاف الفاظ میں "نہیں "کہنے والے کم ہیں۔ زیادہ وہ ہیں جو حکمت سے ڈپلومیسی سے کام لے کر غلط کام سے جان چھڑا لیتے ہیں، اور قومی خزانے کی بھی حتی المقدور حفاظت کرتے ہیں۔ مگر ہر انسان کی بہادری اور دیانت داری کی ایک حد ہوتی ہے،وہ اس حد تک ہی جا سکتا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں ہوتا،معاشرے کا ہی حصہ ہوتا ہے،اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نعرہ لگا کر سولی چڑھ جائے گا،صحیح نہیں۔۔۔توقع رکھنے والے خود کبھی ایسا نہیں کرتے۔ 
یہاں کرپٹ بیوروکریٹ اسے سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کی نظر میں آجائے اور اقتدار کے برآمدوں میں آنا جانا شرو ع کردے مگر یہ کوتا ہ نظری ہے،کامیاب بیوروکریٹ وہ ہے جو اپنے حکمرانوں کی نظروں سے بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ اپنے فرائض و قوانین کے مطابق،حدود کے اندر رہ کر سرانجام دے،مرکزِ نگاہ نہ بنے،اپنے آپ کو آزمائش میں نہ ڈالے، اتنا اونچا نہ اڑے کہ پرواز جاری رکھنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑے، ورنہ گر ہی جائے۔
اخلاقیات میں ایسے افراد کی تحسین کی گئی ہے جو دربار میں،یا مجلس میں حاضر ہوں تو نمایاں نہ ہوں اور غیر حاضر ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو محسو س نہ کیا جائے،یہ خلقِ خدا کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عزتِ نفس رکھتا ہے، اور اپنی تشہیر سے بچتاہے،شاید ایسے لوگوں ہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 
تری بندہ پروری سے میرے د ن گزر رہے ہیں۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا،نہ شکایتِ زمانہ!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com