تبلیغی جماعت کے ایک ستر سالہ رکن کو سوتے میں پھاوڑے سے قتل کردیاگیاہے۔دوسرا شدید زخمی ہے۔
تبلیغی جماعت کے طریقہ کار میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر گھر جاکر تبلیغ کی جائے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے میں مصروفِ عمل اس جماعت کے ارکان کا تعلق کراچی سے تھا۔میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے پروگرام کی رُو سے اس نے سیالکوٹ سے اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا اور چنیوٹ پہنچی تھی،غالباً پروگرام یہ تھا کہ شمال سے روانہ ہو کر،سال بھر میں جنوب تک پہنچا جائے گا۔
گھر گھر دستک دینے کے طریقے کار کے مطابق یہ جماعت اس مکان پر پہنچی جہا ں دو بھائی اکرام اور عمران رہتے تھے۔یہ دونوں بھائی کسی مدرسہ میں پڑھتے تھے۔ یا وہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔بہر طور یہ طے ہے کہ ان کا تعلق دوسرے مسلک سے تھا۔ گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے تبلیغی جماعت کو دیکھ کر ان سے بحث مباحثہ شروع کردیا۔ بات بڑھ گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیو ں نے اپنے کسی عالم سے بات کی، پھر دونوں نے رات کو آکر حملہ کردیا۔ ایک کو قتل کر دیا دوسرے کو زخمی۔
ہم جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا آغاز شمالی ہند کے علاقے میوات سے ہوا تھا۔ میواتی برائے نام مسلمان تھے اور اسلام کے بنیادی ارکان کلمہ نماز تک سے نابلد تھے۔یہ لوگ اکھڑ،درشت اور کھردرے بھی تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس مرحوم نے انہی سے کام کا آغاز کیا۔اس وقت جو طریقہ کار وضع کیا گیا تھا،اس میں یہ بھی تھا کہ گھر گھر جاکر دستک دی جائے گی۔ لوگوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی جائے گی۔اس دعوت میں تبلیغ کے مخصوص طریقہ کار کی جانب مدعو کیا جائے گا۔
چنانچہ جماعت کی تاسیس سے لے کر اب تک وہی طریقہ کار چلا آرہا ہے۔پاکستان میں جماعت کا مرکز رائے ونڈ ہے۔اور ڈھاکہ میں ککریل۔۔۔ یہ کالم نگار ڈھاکہ کی ککریل مسجد میں تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرتا رہا۔۔اور رائے ونڈ بھی حاضر ہوتا رہا ہے۔ جو گروپ تبلیغ کے لیے بھیجا جاتا ہے،اسے "تشکیل کرنا " کہا جاتا ہے۔طویل دروں والی جماعتوں کی تشکیل جیسے چھ ماہ،ایک سال،دوسال،بیرون ممالک کے دورے،رائے ونڈ یا ککریل میں کی جاتی ہے۔دس دن کے دورے یا سہ روزہ دورے علاقائی مراکز میں تشکیل پاتے ہیں۔جیسے راولپنڈی میں علاقائی مرکز و ویسٹرج میں واقع زکریا مسجد۔
ہر جماعت کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے، جماعت کے ارکان نظم و ضبط میں اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں جاکر جماعت اترتی ہے وہاں کسی نہ کسی مسجد میں قیام کرتی ہے۔عام طور پر دوسرے مسالک کی مساجد ان کے قیام کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔چنانچہ وہ اپنے ہی مسلک کی مسجد میں قیام کرتے ہیں۔اس کے بعد" گشت "کا مرحلہ آتا ہے۔مقامی افراد مدد کرتے جس"نصرت "کہا جاتا ہے۔ گشت پر روانہ ہونے سے پہلے امیر جماعت مفصل ہدایات دیتے ہیں۔اور تلقین کرتے ہیں کہ نظر کی حفاظت کرنی ہے،اور ذکر کرتے رہنا ہے۔پھر گھر گھر،ڈور ٹو ڈور بیل بجا کر گھر والے کو باہر بلایا جاتا ہے،مختصر تعارف کے بعد دعوت دی جاتی ہے، کہ محلے کی مسجد میں عصر،مغرب یا عشاکی نماز کے بعد بیان ہوگا، اس میں شرکت کیجئے اور دین کے لیے اس محنت میں ہاتھ بٹائیے، بیان ایک تفصیلی تقریر ہوتی ہے۔جماعت کے ہر رکن نے اپنی باری پر یہ بیان یعنی تقریر کرنا ہوتی ہے، ا س کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں،نا خواندہ یا نیم خواندہ شخص کو بھی یہ کام کرنا پڑتا ہے،تفصیلی بیان کے بعد ایک شخص کاپی قلم لے کر کھڑا ہوتا ہے۔اور حاضرین کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ اپنا نام لکھوائیں،یعنی سہ روزہ کے لیے یا چالیس د ن یا چار ماہ کے چلّے کے لیے یادس دن کے دورے کے لیے خود کو پیش کریں۔اس موقع پر اصرار کیا جاتا ہے اور تلقین،ترغیب اور تحریص کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاضرین میں سے کچھ،اپنی نظریں مسلسل نیچی رکھتے ہیں،اور بیان کرنے والے یا کاپی پینسل والے شخص کی نظروں سے نظریں ملانے سے گریز کرتے ہیں۔"تشکیل"،"گشت"اور بیان کے علاوہ ایک اورآئٹم "تعلیم "کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے تبلیغی جماعت کی واحد نصابی کتاب "فضائل ِ اعمال"سے حاضرین کو کچھ پڑھ کر سنانا۔ارکان کو تلقین کی جاتی ہے کہ اہل ِ خانہ کو بھی "تعلیم"دیا کریں۔
تبلیغی جماعت کی بنیاد ایک نیک بزرگ نے خوش نیتی سے رکھی تھی۔یوں بھی گزشتہ صدی کے اوائل میں ہندوؤں کی شدھی اور سنگھٹن جیسی بنیاد پرست تحریکوں لے مقابلے میں ایسی جماعت کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔المیہ یہ ہوا کہ ایک صدی ہونے کو ہے،اس جماعت کے طریقہ کار میں رمق بھر کا بھی تغیر نہیں ہوا۔ جماعت کے کارکنان قضاو قدر جو"بزرگ" کہلاتے ہیں ،مکالمے پر یقین نہیں رکھتے،کسی سوال کا جواب نہیں دیا جاتا،کسی شبے یا اعتراض کی تسلی نہیں کی جاتی ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ اسی مسلک کے کئی بلند پایہ علماء کرام نے "بزرگوں "کو کئی بار ترمیم اور نظر ثانی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔
جس زمانے میں ہانیانِ جماعت نے گھر گھر دستک دے کر تبلیغ کرنے کا اسلوب اختیار کیا اور کرایا تھا،وہ زمانہ اور تھا۔نوے سال گزر چکے ہیں،تب مصروفیت اتنی نہیں تھی۔رہنے کا انداز سادہ تھا۔دفتری،کاروباری،خاندانی،معاشرتی مکروہات اس قدر زیادہ نہ تھیں۔کوئی دستک دیتا تھا تو اجنبی ہونے کے باوجود اندر بٹھایا جاتا تھا۔چائے پانی پوچھتے تھے،اب وقت کا پہیہ بہت آگے جاچکاہے۔اب عالم یہ ہے کہ گاؤں جائیں تو وہاں بھی مصروفیت کا رونا سننے میں آتا ہے،ضروریاتِ زندگی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گئیں ہیں،یا کرلی گئیں ہیں۔گرانی نے اعصاب شل کردیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے دور افتادہ قریوں کے رہنے والے بھی شادیاں قصبوں کے ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں منعقد کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم تقریباً تین چوتھائی نجی شعبے کو منتقل ہوچکی ہے۔جس کے اخراجات مرتا کیا نہ کرتا کے حساب سے سوہانِ روح بن گئے ہیں۔بالائی طبقہ چڑھتے ہوئے زرمبادلہ کی وجہ سے پریشان ہے۔مڈل کلاس زندگی کو موم بتی کے دونوں سِروں کی طرح جلا رہی ہے،زیریں طبقہ ایک وقت میں تین تین نوکریاں کررہا ہے،اس صورتحال میں گھر کے باہر دستک ہوتی ہے یا گھنتی بجتی ہے،صاحب ِ خانہ باہر نکلتا ہے،چار پانچ متشرع اصحاب کو دیکھ کر پوچھتا ہے کیا بات ہے،نجانے وہ اندر کس حال میں تھا،حمام میں تھا یا کو ئی ضروری کام کررہا تھا،ایسے میں اسے کھڑا کرلیا جاتا ہے،اور وقت بے وقت تبلیغ کا ہدف بنایا جاتا ہے،مذہب کے احترام کی وجہ سے وہ صبر اور ضبط سے کام لیتا ہے مگر جھنجھلایاہوا ہوتا ہے۔ یہی وہ ذہنی حالت ہے جس میں وہ اعتراض کرتا ہے بحث شروع کردیتا ہے،اختلاف کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں وہ اس وقت اس حالت میں نہیں تھا کہ مہمانوں کو خوش آمدیدکہتا۔
جس شخص کو قتل کیا گیا وہ بھی اپنے گروپ کے ساتھ ایک شام گھر گھر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکال کر تبلیغ کررہا تھا،اس دورا ن یہ صاحب عمران اور اکرام کے گھر بھی گئے،مسلک کا اختلاف تو تھا ہی،عین ممکن ہے باہر بلائے جانے پر وہ مزید چِڑ گئے ہوں،اور جھنجھلاہٹ میں بحث شروع کردی ہو۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بحث و مناظرہ،مجادلہ کی صورت تب اختیار کرتاہے جب طبعیت میں چڑچڑا پن ہو اور مخاطب کسی اور وجہ سے برا لگ رہا ہو۔ کیا نوے سال گزرنے کے بعد بھی،معاشرے کی مکمل کایا کلپ کی وجہ سے گھر گھر دستک دینے کی پابندی ہٹائی نہیں جاسکتی۔؟
دلیل یہ دی جائے گی کہ ہزاروں لوگوں میں سے ایک کیس ایسا نکل آیا تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ گھر گھر دستک دینا ہی اس حادثے کی وجہ بنا،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک انسانی جان کی قیمت بھی خالق کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اسے پوری انسانیت کا قتل کہاگیا ہے۔انگریزی عہد میں ایک ہندوستانی نے شکایت کی تھی کہ وہ رفع حاجت کررہا تھا کہ ٹرین چل پڑی، اس پر ریل کے ڈبوں میں بیت الخلاء بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ستر سالہ بزرگ کے درد ناک قتل پر بھ اگر"برزگ"سر جوڑ کر نہ بیٹھیں اور زمانہ بدل جانے کی وجہ سے جو تبدیلیاں ناگزیر ہو گئیں ہیں،وہ وجود میں نہ لائیں تو افسوس،ہزار افسوس ہے!اب عہد وہ آچکا ہے کہ جس میں قریبی اعزہ بھی ٹیلی فون پروقت طے کرکے گھر آتے ہیں۔
اس کالم نگار نے کچھ عرصہ قبل ایک تفصیلی تحریر بعنوان "با احترام فراواں "ان حضرات کی خدمت میں پیش کی تھی۔بعد میں یہی مضمون ماہنامہ الشریعہ میں بھی شائع ہوا،مگر جہاں بڑے بڑوں کی تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں گردانا جاتا،وہاں ایک گمنام کھیت کی مولی کیا کر پائے گی۔
مثلاً اسی بات پر غور فرمائیے کہ چار ماہ کے جس عرصہ میں دنیا اور ماحول سے کاٹ کر دین کی "محنت"سکھائی جاتی ہے،اس میں حقوق العباد کی تربیت صفر ہے۔ چار ماہ کی رہبانیت کے بعد جب دنیا اور کارِ دنیا میں واپسی ہوتی ہے تو کاروبار،دفتر،فرائض،اعزہ واقربا،احباب سب کھلنے لگتے ہیں۔اور "محنت "کے خلاف لگتے ہیں۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ ان پر یقین نہیں آتا مگر مبنی بر حقیقت ہیں،اور افسوسناک ہیں،امیرالمومنین عمر فاروقؓ کا حکم تھا کہ مجاہد جہاد میں مصروف ہو تب بھی چار ماہ بعد( یا غالباً چھ ماہ بعد) اپنے اہلِ خانہ میں ضرور واپس آئے۔یہاں مردوں کو دودو سال کے لیے باہر بھیج دیا جاتاہے۔کوئی نہیں جو ان محروم توجہ کنبوں اور خاندانوں کی حالتِ زار پر توجہ دے،بوڑھے اور بے کس والدین کو چھوڑ کر چلے جانے کی مثالیں تو عام ہیں۔
یہ ایک دردناک قتل ہے،اس کے اسباب و علل پر غور ہونا چاہیے،اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہییں کہ تدارک ہو!
No comments:
Post a Comment