Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 28, 2017

ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا۔


پہلے چند سطروں پر مشتمل انگریزی میں لکھا ہؤا یہ خط پڑھیے 
‏Respected sir,
‏I am arrive by passenger train,Ahmadpur station and my belly is too much swelling with jackfruit.I am therefore went to privy.Just i doing the nuisance that guard making whistle blow and train to go off and i am running with lotaah in one hand and dhoti in the next.When i am fall over and expose all my shocking to man and female women on platform.I am got leaved at Ahmadpur station.This too much bad,if passenger go to make dung that damn guard not wait train five minutes for him.i am there fore pray your honor to make big fine on the guard for public sake.Otherwise i am making big report to paper.
‏Your faithful Servent,
‏Okhil Chandra Sen.
زبردست انگریزی میں لکھا ہوا یہ خط اوکھیل چند کا ہے جو اس نے جولائی 1909میں ریلوے حکام کو لکھا تھا،اس نے یہ رونا رویا ہے کہ وہ احمد پور ریلوے اسٹیشن پر حوائج ضروریہ کے لیے اترا،ابھی اس کا کام ادھورا تھا کہ ریل چل پڑی،اس نے ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑا،دوسرے سے دھوتی سنبھالتا دوڑا مگر ریل کو نہ پکڑ سکا۔ سب کے سامنے اس کا ستر بھی کھل گیا۔روایت یہ ہے کہ اس خط پر انگریز بہادر نے پورا ایکشن لیا۔اور یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ ہر ڈبے میں بیت الخلاء ہوگا۔یہ نادر ِ روزگار خط بھارت کے ریلوے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
یہ دلچسپ واقعہ جناب فضل الرحمٰن قاضی کی تصنیف "رودادریل کی "میں بیا ن کیا گیا ہے۔ فضل الرحمٰن صاحب نے یہ عجیب کتاب تصنیف کی ہے جوریل کی تاریخ بھی ہے۔ برِ صغیر کی بھی اس عرصہ کی تاریخ ہے اس حساب سے آپ بیتی بھی ہے۔تاریخی تصاویر بھی ہیں۔واقعات بھی ہیں۔دلچسپ اس قدر کہ شروع کریں تو آخر تک اپنے آپ کو پڑھوا کر ہی دم لے۔
ریلورے ہماری تاریخ اور ثقافت کا جزو لاینفک ہے۔اس سے رومان وابستہ ہے۔1854سے لے کر اب تک یعنی ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ ریل کی موجودگی پر محیط ہے۔ہوائی جہاز تو بہت بعد میں آیا۔ کار بھی بیسویں صدی میں آئی،خاندانوں کے خاندان ریل سے مستفید ہوئے۔ ساتھ سامان،لوٹا اور بستر۔
گھر سے کھانے کا سامان ساتھ لیے ہوئے 
ریلوے اسٹیشنوں پر خوانچے والوں کی آوازیں،
ریل روانہ ہونے کی سیٹی
،سفر کرنے والوں اور رخصت کرنے والوں کے غم زدہ چہرے،
آنسوؤں سے لبریز آنکھیں 
اور گیلے ہوتے رخسار۔۔اپنا شعر یاد آگیا۔
وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے،
وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھلنے لگے!
منیر نیازی کا لازوال شعر غضب کا ہے۔۔۔
صبح صادق کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا!
"روداد ریل کی " میرے خیال میں اردو میں ریلوے پر لکھی ہوئی پہلی تفصیلی کتاب تھی مگر کتاب کے پبلشر شاہد اعوان صاحب نے تصحیح کی کہ یہ تیسری کتاب ہے۔شاہد اعوان سے مل کر انسان ایک بار ضرور حیران ہوتا ہے کہ اعوان اور پھر پبلشر۔۔۔۔معاملہ دو آتشہ ہونا چاہیے تھا مگر کیا نرم گفتار شخص ہے۔یعنی لازم نہیں کہ ہر اعوان میری طرح کھردرا ور کرخت ہو۔
دونوں عالم گیر جنگوں کے حوالے سے بے شمار ایسے لوک گیت ہماری ثقافت کا حصہ بنے جن میں ریل کا ذکر ہے۔ ریل جدائی کی علامت بن گئی۔ لوک گیتوں میں مائیں روئیں کہ ان کے پھول سے بچے ٹرین اٹھا کر لے گئی۔پھر یہی ٹرین جب مسافروں کو واپس لاتی ہے تو وصال کا سبب بنتی ہے ۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا گیت۔۔"متاں اِسی گڈی تے آجاویں "۔۔۔۔اس ہجر و وصال ہی کی داستاں ہے۔جسے موسیقی نے اور بھی دردناک کردیا ہے۔
ریل پر اسرار الحق مجاز کی طویل نظم بھی اردو ادب کا حصہ ہے۔قاضی فضل الرحمٰن نے اس نظم کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ 
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی 
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی 
ڈگمگاتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں 
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
رینگتی،مڑتی،مچلتی،تلملاتی،ہانپتی
اپنے دل کی آتش ِ پنہاں کو بھڑکاتی ہوئی 
منہ میں جا گھستی سرنگوں کے یکایک دوڑ کر
دندناتی چیختی،چنگھاڑتی،گاتی ہوئی!
چالیس اشعار پر مشتمل یہ نظم دلکش اور سحر انگیز ہے مگر ریل کا اصل اثر نفوذ انگریزی ادب پر ہے۔ویلز،سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے میدانوں میں دندناتی،پہاڑوں میں گھستی ریل نے انگریز شاعروں کے دلوں پر قبضہ کیا۔کمال کی شاعری ہوئی ریل کے بارے میں۔غالباً ڈبلیو ایچ آڈن کی نظم "نائٹ میل"اس شاعری میں نمایاں ترین مقام رکھتی ہے۔دل گرفتگی سے ان محبت ناموں کا ذکر شاعر کرتاہے،جو "نائٹ میل"لا رہی ہے۔یہ محبت نامے گلابی،بنفشی،نیلے اور سفید،ہر رنگ کے کاغذوں پر لکھے گئے ہیں۔۔۔اور ان کابے تابی سے انتظار ہورہاہے۔
رومان کے ساتھ ریلوے سے کچھ تلخیاں بھی وابستہ ہیں،پہلی تلخی تو انگریز حکومت کا وہ ظلم ہے جو اس نے ہندوستان پر اور اہلِ ہندوستان پر ریلوے شروع کرنے کے حوالے سے کیا۔یہا ں ایک بات اور ہوجائے۔۔ہم میں سے کچھ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ریل،تاربرقی اور دیگر جدید سہولیات فراہم کرکے احسان کیا ہے۔ورنہ ہمارا حال بھی افغانستان جیسا ہوتا۔یہ ایک خوش فہمی ہے۔ریل پوری دنیا میں موجود ہے،کیاہر جگہ برطانوی استعمار نے یہ احسان کیا ہے؟کیا برازیل،جاپان،اور کوریا پر انگریوزوں کی حکومت رہی؟ رہی یہ بات کہ افغانستان اس لیے ترقی نہ کر سکا کہ انگریزی استعمار کی "نعمت"سے محروم رہا- ۔تو معروف صحافی اظہر سہیل مرحوم سے منسوب ایک لطیفہ نما واقعہ مشہور ہے۔کہ وہ کسی افسر کے پاس ایک کام سے گئے،افسر بہت اچھی طرح پیش آیا،اور اظہارِ مسرت کے طور پر کہا کہ "خوشی ہے کہ آپ بھی ہمارے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں "اس پر اظہر سہیل نے جواب دیاکہ نہیں!میرا اس فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔یہ جو نحوست میرے چہرے پر نظر آرہی ہے اس کا سبب کچھ اور ہے۔تو افغانستان کی وحشت،قدامت اور اقتصادی ویرانی کا سبب کچھ اور ہے،یہ نہیں کہ وہاں انگریز ی حکومت قائم نہ ہوسکی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب برصغیر میں ریلوے کے قیام کا ارادہ کیا تو اس کی تہہ میں کوئی فلاحی عزم نہ تھا۔بلکہ یہ منصوبہ صرف اور صرف اس لیے بنا کہ ہندوستان بھر سے خام مال اکٹھا کرکے بندرگاہوں تک لایا جائے۔تاکہ جہازوں میں بھر کر برطانیہ بھیجا جائے۔پھر وہاں سے مصنوعات بندرگاہوں سے اتریں تو ریل کے ذریعے پورے برصغیر کو ان مصنوعات کی منڈی بنا دیا جائے۔1843میں لارڈ ہارڈنگ اور پھر دس سال بعد لارڈ ڈلہوزی نے صاف صاف کہا کہ ہم برطانیہ کی اقتصادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ریل کو متعارف کرائیں گے،مشہور مصنف ٖ وِل ڈیورانٹ کے بقول ہندوستان میں ریل صرف دو مقاصد کے لیے قائم ہوئی،برطانوی فوج اور برطانوی منڈی!
یہ ریل اہلِ ہندستان کو ازحد مہنگی پڑی۔انجنوں سے لے کر ڈبوں تک،دروازوں سے لے کر فرش تک ہر شے برطانیہ سے آئی،برطانوی سرمایہ کاروں کو اس میں لگائے گئے سرمایہ پر پانچ فیصد منافع کی گارنٹی دی گئی جو بہت بلند شرح تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان،میں ریلوے قائم کرنے کی لاگت فی میل اٹھارہ ہزار پونڈ آئی۔جبکہ اسی زمانے میں امریکہ میں لاگت فی میل دو ہزار پونڈ آئی۔یہ ساری لاگت ہندوستان نے بھری۔پھر ریلوے کی ملازمتیں صرف اور صرف سفید چمڑی والوں کے لیے مخصوص تھیں۔گارڈ سے لے کر اسٹیشن ماسٹر تک سب انگریز تھے۔بعد میں مقامی افراد بھی لیے جانے لگے،مگر تنخواہوں کے سکیل الگ الگ!انگریز گارڈ کی تنخواہ ہزاروں روپوں میں تھی اور "کالے"گارڈ کی سو ڈیڑھ سو روپے۔انیسویں صدی کے آخرمیں بارہ سو انجینئروں میں سے صرف چھیاسی مقامی تھے۔
رہا سفر تو محکموں کے لیے "تیسرا ڈبہ"مخصوص کیا گیا تھا۔اس میں لکڑی کے سخت،جانکاہ بنچ تھے۔مسافروں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح اس میں بھر دیا جاتا،جبکہ فرسٹ کلاس صرف گورے صاحب کے لیے مخصوص ہوتی تھی!حادثات کی انکوائری ہوتی تو نچلے ردجے کا مقامی ملازم دھر لیا جاتا۔اور انگریز افسروں کو بچا لیا جاتا۔
تقسیم کے وقت انگریزی حکومت ریلوے کا جو سسٹم اور اثاثے چھوڑ کر گئی ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے۔ہماری ناکامی اس ضمن میں واضح اور تسلیم شدہ ہے۔اس موضوع پر میرے چند تفصیلی کالم شائع ہو چکے ہیں۔جن میں سے ایک جناب فضل الرحمان قاضی نے ازراہِ لطف اپنی کتاب میں بھی شامل کیا ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ اس میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر نہ سہی،کم از کم ہمیں بھارت کے برابر تو ہونا ہی چاہیے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com