Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 07, 2017

ناپختگی صرف سیاسی تو نہیں!


کتنے ہی سال ہو گئے تھے جان فرانسس کو نیویارک میں رہتے ہوئے۔ ایک سیٹ روٹین تھا۔ مقررہ معمولات تھے۔ بیگم خوش تھی۔ بچے دنوں اپنی اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔ ایک معتدل دوپہر تھی‘ سردی نہ گرمی‘ جب اسے اطلاع دی گئی کہ کمپنی نے اسے لاس اینجلز والے دفتر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گھر کا سامان اکٹھا کرنے اور پیک کرنے کا کام اس خاندان کے لیے ڈراﺅنا سپنا بالکل نہ ثابت ہوا۔ جان فرانسس ہمیشہ تین قمیضیں اور تین پتلونیں رکھتا۔ جب بھی چوتھی قمیض خریدتا‘ تین میں سے ایک ”سالویشن آرمی“ کو ہدیہ کردیتا۔ سالویشن آرمی بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے جسے چرچ چلاتا ہے۔ اسی طرح اس کی بیوی کے پاس بھی چار پانچ جوڑے تھے۔ کچھ کتابیں تھیں! ایک چھوٹا سا کارٹ (چھکڑا) انہوں نے اپنی گاڑی کے پیچھے باندھا۔ سامان رکھا اور چار ہزار کلومیٹر دور لاس اینجلز چل پڑے۔
ہاں! ان ملکوں میں یہ سہولت ہے کہ گھر جب کرائے پر لیتے ہیں تو اس میں ڈش واشر‘ کپڑے دھونے کی مشین‘ چارپائیاں اور دیگر ضروری سامان موجود ہوتا ہے۔ یوں بھی‘ سامان فروخت کرنا اور استعمال شدہ گھریلو سامان خریدنا چنداں مشکل نہیں۔ کچھ ماہ پہلے آسٹریلوی پارلیمنٹ کے حزب اختلاف کے رہنما نے ایک پرانا ریفریجریٹر اپنے گھر کے لیے خریدا۔ ”ایبے“ اور ”گم ٹری“ جیسی تنظیمیں سامان خریدنے اور فروخت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ آپ نے شہر چھوڑنا ہے۔ ایبے یا گم ٹری میں اشتہار دیجیے۔ دیکھتے دیکھتے سامان بک جائے گا۔ نئے شہر میں اتریں تو خرید لیجیے۔
آپ کا کیا خیال ہے اوسط درجے کے ایک پاکستانی خاندان کو لاہور سے کراچی منتقل ہونا پڑے تو کیا سماں اور کیسا منظر ہوگا۔ پریشانی کا وہ عالم ہو گا کہ میاں بیوی لرز رہے ہوں گے۔ بچوں کو الگ مصیبت کا سامنا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ گھر میں سامان ایک خاندان کے لیے نہیں‘ اتنا زیادہ ہے کہ کئی خاندانوں کی کفالت کے لیے کافی ہوگا۔ کراکری کے انبار‘ اکثر اب تک استعمال ہی نہیں ہوئے۔ میاں کے جوتوں کے سات تو بیوی کے دس بارہ پندرہ جوڑے۔ الماریاں ملبوسات سے بھری ہوئیں۔ پہلے تو نام نہاد سیل کی اطلاع اخبارات سے ملتی تھی اب خاتون خانہ کو ایس ایم ایس یا وٹس ایپ کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے اور خبر ملتے ہی وہ چل پڑتی ہے۔ وہاں ایک طویل قطار میں کھڑی ہو کر سیل سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ قطار میں آگے پیچھے سب وہ خواتین ہیں جنہیں مزید ملبوسات کی قطعاً ضرورت نہیں‘ مگر چونکہ سیل لگی ہوئی ہے اس لیے خریداری ضروری ہے۔ گھر کے کاٹھ کباڑ سے جان چھڑانے کا ہمارے ہاں رواج ہی نہیں۔ جو شے ٹوٹ جائے‘ اوپر ممٹی میں ذخیرہ کرلیجیے۔ ہو سکتا ہے سو دو سو برس بعد کام آ جائے۔ پلنگ پوشوں سے صندوق بھرے ہیں۔ فرنیچر زیادہ ہوتے ہوتے پورچ تک آ گیا ہے مگر کم نہیں ہوتا۔ دو تین صندوق تو جہیز کے سامان سے بھرے ہیں۔ نانی اور پرنانی کی چادریں یادگار پڑی ہیں۔ کیڑا لگ جائے یا وقت کی طوالت سے گل سڑ جائیں‘ کسی کو دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ہے وہ سٹائل جس کی وجہ سے گھر کی شفٹنگ ڈراﺅنا خواب لگتا ہے۔ ٹرکوں پر ٹرک آتے ہیں۔ تھکاوٹ‘ عدم اطمینان‘ سراسیمگی‘ عشروں کے جمع شدہ سامان کے ٹوٹنے اور گم ہو جانے کا ڈر۔ آلام و افکار سے جان ہلکان ہو جاتی ہے۔ نئے شہر جا کر مزید سازوسامان اکٹھا کرنے کا جوش از سرنو بیدار ہوتا ہے۔
اب جب بچے کالج یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو واویلا برپا ہوتا ہے کہ فیسیں زیادہ ہیں‘ تعلیم مہنگی ہے‘ کیا ہوگا‘ کمانے والا ایک ہے‘ اب وہ ٹانگے کے گھوڑے کی طرح ادھر ادھر دیکھے بغیر جت جاتا ہے۔ ڈبل شفٹ لگاتا ہے۔ بزنس میں ہے تو بزنس کو دوگنا کرنے کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ ملازمت میں ہے تو پارٹ ٹائم کچھ اور مصروفیات تلاش کرنے کے درپے ہے۔ بچت آپ نے کی نہیں‘ سیل کا اشتہار دیکھا تو چل پڑے۔ گھر میں ضرورت سے زیادہ سامان اتنا ہے کہ اس کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے تو کم از کم یونیورسٹی کی ساری پڑھائی جتنا ضرور ہوگا۔
چینی تمام ہی ایسے سگھڑ ہوں گے مگر کچھ دن ہانگ کانگ میں رہ کر دیکھا کہ وہاں کے چینی خاندان منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ہر منصوبے کے لیے بینک میں الگ اکاﺅنٹ کھول لیتے ہیں۔ مثلاً بچے کی تعلیم ایک پراجیکٹ ہے۔ اس کے لیے الگ اکاﺅنٹ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد کھول لیں گے۔ دنیا کی سیاحت (ورلڈ ٹور) کرنا ہے تو اس پراجیکٹ کاکاﺅنٹ الگ کھولا جائے گا۔ اپنا اپارٹمنٹ خریدنا ہے تو بیس سال پہلے منصوبہ بندی شروع کردیں گے۔ اس کے لیے الگ اکاﺅنٹ کھلے گا۔ پھرجیسے ہو سکا‘ جتنی استطاعت ہوئی‘ اس میں رقم ڈالتے گئے۔ قطرہ قطرہ بہم شود دریا۔
سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر کے بارے میں خبر چھپی تھی کہ جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال تک پہنچا۔ وضاحت نہیں تھی مگر تاثر خبر سے یہی ملا کہ ایک ہی جوڑا تھا۔ الہٰکم التکاثر کی عملی تفسیر جس قدر ہمارے ہاں نظر آتی ہے‘ کم ہی کہیں اور ہوگی۔ خواتین فخر سے بتاتی پھرتی ہیں کہ میرے گھر میں تو پچاس یا سو افراد کے کھانے کے برتن‘ کراکری اور سونے کے لیے بستر موجود ہیں۔ یہ پچاس یا سو لوگ زندگی میں کتنی بار اکٹھے ہوں گے؟ کسی بھی موقع کے لیے بازار سے کرائے پر ہر شے مل جاتی ہے۔ پہلے زمانوں میں براتیں آ کر رات کو قیام کرتی تھیں‘ اب وہ رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ تیز رفتار ذرائع آمدورفت نے اسی دن کی واپسی ممکن کردی ہے اور سہل بھی۔
تیس چالیس برس پہلے بچت کا اچھا خاصا رجحان تھا۔ بچے غلوں میں سکے اکٹھے کرتے تھے۔ مردوں پر کوئی افتاد پڑتی تھی‘ کوئی مقدمہ سر پر آ پڑتا تھا یا شادی کا موقع ہوتا تھا تو نانیاں دادیاں قرآن پاک کے غلاف سے جمع شدہ پونجی نکال کر مرد کے حوالے کردیتی تھیں جو اچھی خاصی ہوتی تھی۔ بچے اب اپنی ساری پاکٹ منی جَنک فوڈ پر ضائع کرتے ہیں۔ یہ شوق لڑکپن اور پھر جوانی میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ گھر میں روٹی بھی ہے اور سالن بھی‘ دال بھی ریفریجریٹر میں رکھی ہے اور چاول بھی‘ مگر پیزا کا آرڈر دیا جاتا ہے۔ رات کے بارہ ایک بجے گھنٹی بجتی ہے۔ ایک نوجوان موٹرسائیکل پر ”ڈیلیوری“ کرنے دروازے پر کھڑا ہے۔ بچت خاک ہوگی؟
دنیا کی سیر تو دور کی بات ہے‘ اپنے ملک کی سیاحت کا بھی کبھی خیال نہیں آتا۔ لاہور اور اسلام آباد کے کتنے بچوں نے سمندر دیکھا ہے؟ کراچی اور حیدرآباد کے کتنے بچوں نے شمالی علاقوں کے پہاڑوں کی سیر کی ہے؟ پانچ یا دس فیصد سے زیادہ قطعاً نہیں۔ یہ ہماری ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔ ساری زندگی اس فکر میں گُھل جاتی ہے کہ مکان عالی شان بنے اور گاڑی بڑی سے بڑی ہو۔
اپنے ملک کی سیاحت سے یہ جو غفلت ہے اس کی ذمہ داری کا بھاری حصہ حکومتوں اور حکومتی اداروں کے سر بھی پڑتا ہے۔ سیاحت وہ شعبہ ہے جس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ آپ مری ایبٹ آباد سے لے کر گلگت چترال تک کھوج لگا لیں‘ ڈھنگ کے ریستوران ہیں نہ ہوٹل نہ موٹل نہ وائی فائی کی سہولیات۔ نجی شعبہ بھی مردہ کا مردہ ہی رہا۔ کیا کبھی کوئی اشتہار کسی کمپنی کا نظر پڑا ہے؟ جس میں یہ ترغیب دلائی جا رہی ہو کہ کراچی آئیے‘ سمندر کی سیر کیجیے‘ شہر کے اہم مقامات دیکھیے‘ ٹھہرنے کے لیے فلاں فلاں سہولیات حاضر ہیں۔ کوئی ایک کمپنی بھی ایسی نہیں جس پر اعتماد کر کے سفر اور قیام کے جملہ انتظامات اسے سونپ دیئے جائیں اور بے فکری سے نکل کھڑے ہوں۔ بددیانتی‘ وعدہ خلافی اور دروغ گوئی کا یہ عالم ہے کہ مذہبی سفر بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ عمرے کے لیے یہاں جب پیشگی رقم لی جاتی ہے تو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ قیام و طعام اور حرم تک کا فاصلہ جو بتایا گیا تھا‘ حقیقت اس سے بالکل مختلف نکلی۔ احتجاج کریں تو کیسے؟ اور کس سے؟ شنوائی ہے نہ تلافی۔
یہ تو قدرت کا انعام ہے کہ سیاحت کے شعبے سے مکمل غفلت برتی گئی‘ مگر پھر بھی دنیا بھر سے کوہ پیما آتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ سربفلک چوٹیاں جن ملکوں میں پائی جاتی ہیں‘ ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر بھرپور توجہ دی جاتی‘ سیاحت کو انڈسٹری کا مقام دیا جاتا‘ حکومتی سطح پر منصوبہ بندی ہوتی‘ نجی شعبے کو رعایتیں دے کر ساتھ ملایا جاتا تو سیاحت ہمارے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہوتی۔ پاکستان کو شہرت اور عزت الگ ملتی۔
فرد ہے یا ادارہ‘ نجی شعبہ ہے یا حکومت‘ ہمارے رویے رجعت قہقری کا سبب ہیں۔ نظر دور تک دیکھنے سے قاصر ہے۔ ترجیحات طے کرتے وقت دوراندیشی سے کام لیا جاتا ہے نہ ہی وژن ہے۔ لگتا ہے سیاسی پختگی کی طرح سماجی پختگی کی منزل بھی دور ہے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com