احاطے کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ احاطہ قطعوں میں تقسیم ہے۔ ہر قطہ کو پلاٹ
کہتے ہیں۔ پلاٹ قبروں میں منقسم ہیں۔ قبروں پر کتبے ہیں۔ چھوٹے بڑے۔ گول،چوکور، مستطیل۔ کتبوں پر نام ہیں۔ کہیں اشعار، کہیں دعائیہ کلمات۔ گائوں کا قبرستان یاد آ جاتا ہے۔ جنازہ جس کی طرف آہستہ آہستہ رواں دواں ہے۔ جنازے میں شریک لوگ، لَے میں لَے ملا کر، دلکش لحن میں پڑھ رہے ہیں۔
پڑھ لا الٰہ الااللہ
محمدؐ پاک رسول اللہ
کالی قبر تے گھپ ہنیرا اے
جتھے کیڑے مکوڑیاں دا ڈیرا اے
ایہہ کلمہ نور سویرا اے
پڑھ لا الٰہ الااللہ
نصف صدی پیشتر جب دارالحکومت کا قبرستان بنا تھا تو بنانے والوں کا عزم تھا کہ یہ ان دیہی اور قصباتی قبرستانوں جیسا ہولناک قبرستان نہیں ہو گا جہاں جھاڑ جھنکار کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ درختوں پر کپڑوں کے چیتھڑے لٹک رہے ہوتے ہیں اور اندر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ چنانچہ دارالحکومت کے قبرستان کو پلاٹوں میں تقسیم کیا گیا۔ درمیانی راستوں کو فٹ پاتھوں کی طرح پختہ کیا گیا۔ اندر سڑکیں بنائی گئیں۔ سینکڑوں مالی اور ملازم رکھے گئے جو خود رو گھاس کو ٹھکانے لگاتے تھے اور قبروں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
مگر پھر وہی ہوا جو اِس تیرہ بخت ملک میں ہوتا ہے وہی جو ہر شعبے، ہر محکمے، ہر میدان میں ہوا۔ کوئی کرنے والا نہ پوچھنے والا!لاوارث قوم! لاوارث قبرستان!
احاطے میں داخل ہوتا ہوں۔ وحشت نے چاروں طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں ؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ویرانی ہر سو برس رہی ہے۔ قبریں خود رو خاردار گھاس میں لپٹی ہوئی ہیں۔ پلاٹوں کے درمیان جو پختہ روشیں تھیں، شکست وریخت کے نرغے میں ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی قبروں کے سرہانے، بدنما، کُبڑے، پستہ قد درخت ہولناک منظر دکھا رہے ہیں۔ سینکڑوں ملازمین، جن کا کام صفائی، کٹائی ہے، کہیں نہیں دکھائی دیتے۔
اُس قبر پر پہنچتا ہوں جس پر پہنچنا ہے۔ کتبے کو رومال سے صاف کرتا ہوں۔ نہ جانے کہاں سے ایک شخص ظاہر ہوتا ہے۔ اس وقت دیکھتا ہوں جب بالکل قریب آ چکا ہے۔ لباس بوسیدہ، پھٹا پرانا، ہاتھ میں درانتی۔ پوچھتا ہے قبر ٹھیک کر دوں؟ میں کہتا ہوں نہیں! یہاں ایک مالی مخصوص کیا ہوا ہے، وہی کرتا ہے۔
مگر وہ قبر کو صاف کرنے لگ جاتا ہے۔ گھاس کاٹ ڈالتا ہے۔ ’’جی کوئی بات نہیں! ابھی تو میں ہی کر دیتا ہوں‘‘۔
نام محمد جان بتاتا ہے۔ وہ ’’پرائیویٹ‘‘ مالی ہے۔ یعنی حکومت کے ترقیاتی ادارے کا تنخواہ دار ملازم نہیں۔ یہاں کا سسٹم معلوم ہے مگر پھر بھی پوچھتا ہوں۔
’’محمد جان! کتنی قبریں ہیں تمہارے چارج میں
’’بس جی ہیں دس بارہ!‘‘
’’ماہوار کتنا کتنا دے دیتے ہیں؟‘‘
’’الحمدللہ، کوئی پانچ سو، کوئی تین سو‘‘
’’تو مہینے بعد کتنا ہو جاتا ہے؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔ پانچ ہزار کبھی سات آٹھ ہزار!‘‘
’’بال بچے کہاں ہیں؟‘‘
’’پیچھے گائوں میں۔‘‘
’’تو انہیں کتنے بھیجتے ہو؟‘‘
’’جی سارے ہی، جتنے بھی بنیں، کبھی پانچ کبھی کچھ زیادہ‘‘
’’تو یہاں کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’جی، ساتھ ہوٹل میں‘‘
ہوٹل سے اس کی مراد وہ کھوکھا نما جھونپڑا تھا جو قبرستان کے ایک کنارے پر تھا۔
’’اور تمہارا کھانا پینا؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے! یہاں کوئی نہ کوئی ہر روز چاول وغیرہ لا کر تقسیم کرتا ہے۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟‘‘
حیرت لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پانچ یا آٹھ ہزار روپے، اس گرانی کے زمانے میں اور محمد جان مجسم شکر ہو کر بار بار الحمدللہ کہتا ہے!
تین عشرے سیاہ و سفید کی ملکیت رکھنے والے حکمرانوں نے محمد جان اور محمد جانوں کے لیے کیا کیا؟ محمد جان سے زیادہ خوش بخت تو وہ جانور تھا جو فرات کے کنارے تھا اور جس کی فکر خلیفۂ وقت کو تھی کہ اس کے بارے میں بھی پوچھ گچھ ہو گی۔
خواب دیکھتا ہوں! خواب دیکھنے پر تادمِ تحریر کوئی پابندی نہیں۔ خواب دیکھتا ہوں کہ قبرستان کے بڑے گیٹ پر ایک گاڑی رکتی ہے۔ وزیر اعظم اترتا ہے۔ ڈرائیور کو ساتھ آنے سے منع کر دیتا ہے۔ قبرستان کے فٹ پاتھوں پر چلتا ہے۔ ادھر اُدھر، جھاڑ جھنکار دیکھتا ہے۔ قبریں چھپی ہوئی ہیں۔ کتبے تک ڈھک گئے ہیں۔ ؎
وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہارؔ
نہ جانے آرزوئیں اپنی دفن کی تھیں کہاں
اُسے محمد جان ملتا ہے۔ درانتی گردن سے لٹکائے، پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹے ہوئے جوتے! وزیر اعظم اس سے پوچھتا ہے گزارا کیسے کرتے ہو۔ محمد جان بتاتا ہے تو وزیر اعظم کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ اب وہ فون پر متعلقہ وزیر کو اور ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو طلب کرتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ پہنچ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم دونوں کو سامنے کھڑا کر کے پوچھتا ہے۔
’’تم نے یہاں، کس پلاٹ میں دفن ہونا ہے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری قبریں بھی اِسی بے آباد، وحشت کدے میں ہوں؟ خود رَو لمبی گھاس میں چھپی ہوئی؟ تمہارے پس ماندگان کو ڈھونڈنے سے نہ ملیں؟ اور یہ بتائو کہ تم یہاں آخری بار کب معائنہ کے لیے آئے تھے؟
پھر وزیر اعظم کی آواز بلند ہوتی ہے۔
’’میں کسی بھی وقت یہاں آ سکتا ہوں۔ اگر یہ منظر دوبارہ دیکھا تو تم دونوں کو نہ صرف نکال دوں گا بلکہ کارِسرکار میں غفلت کی بنا پر جیل میں ڈالوں گا۔ قبرستان کے سرکاری تنخواہ دار مالی جن جن مفت خوروں کے گھروں میں بیگار کاٹ رہے ہیں، وہاں سے انہیں واپس بلائو اور اس ڈیوٹی پر لگائو جس کی تنخواہ لے رہے ہیں اور سنو! ہر ماہ، آزاد میڈیا کو بلا کر قبرستان کا معائنہ کرائو۔‘‘
پھر وزیر اعظم اپنے دوسرے سٹاف کو طلب کرتا ہے۔ ’’میرے بیرون ملک دوروں کے بجٹ میں سے ایک کروڑ کاٹ کر قبرستان کے کنارے مالیوں اور ملازمین کے رہائشی کمرے بنوائو، صبح شام کھانا ریاست کی طرف سے ملے۔ اس کا بل صدرِ مملکت کے بیرونی دوروں کو کم کر کے ادا کیا جائے…‘‘
لمبی، خود رو گھاس میں سے ایک کیڑا نکل کر میرے پائوں پر چڑھتاہے اور پنڈلی پر کاٹتا ہے تو میں ہڑبڑاتا ہوں۔ خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ وزیر اعظم ہے نہ متعلقہ وزیر نہ ترقیاتی ادارے کا سربراہ! میں ہوں اور محمد جان ہے۔ درانتی گردن سے لٹکائے!
کبھی درانتی انقلاب کی علامت تھی۔ آج بے چارگی کی۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں ؎
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہَل کی یہ الّہڑ، جوان، نورِ نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت اٹھے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
زمیں پہ خلدِ بریں کا جو اب کاٹیں گے
ایک طرف محمد جان ہے۔ طمانیت سے چھلکتا محمد جان! ایک بار بھی نہیں کہا کہ صاحب! بہت مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہے۔ حیرت سے گنگ کر دیتا ہے جب کہتا ہے، ’’الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے، پانچ سات ہزار ہو جاتے ہیں!‘‘ کھوکھے پر سو جاتا ہے۔ خیراتی چاول کھا کر پیٹ بھر لیتا ہے۔ دوسری طرف محمد جان کے حکمران ہیں جو کروڑوں اربوں قومی خزانے کے اپنی ذات اپنے کنبے اور اپنے خاندان پر لٹا کر بھی طمانیت سے محروم ہیں۔ چہروں پر پریشانی کی کثافت ہے۔ ماتھے شکنوں سے بھرے ہوئے۔ سرکاری محل کے باہر بی ایم ڈبلیو کی قطاریں ہیں۔ ایک ارب روپے اِس بدبخت ملک کے خزانے سے دوروں پر حرام کر دیئے گئے۔ ہر روز کا ایوانِ وزیر اعظم اور ایوانِ صدر کا خرچ لاکھوں میں ہے اور تو اور مڈل کلاس سے اٹھا ہوا صدر بھی اب فیوڈل ذہنیت کا ہو چکا ہے کہ ہوائی جہاز میں بیٹھے ہوئے مسافر انتظار کر رہے ہیں کہ صدر صاحب آئیں تو جہاز اُڑے اور صدر صاحب اس ملک کے ’’بڑوں‘‘ کی روایت کے عین مطابق، مسافروں کو انتظار کرا کے، تشریف لاتے ہیں۔ حکمرانی کی کوئی نشانی بھی تو ہو۔ عام لوگوں کا کیا ہے؟ یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ انتظار کر لیں گے تو کیا موت پڑ جائے گی؟
لیکن محمد جان نے کبھی کسی کا کفن نہیں بیچا۔ کبھی کوئی قبر فروخت نہیں کی۔ اس نے توقبروں کی حفاظت کی۔ کفن چور تو دوسرے ہیں جن کی گردنوں کے ساتھ درانتیاں نہیں، تکبر کے سانپ لپٹے ہیں اور پھنکار رہے ہیں۔ سننے والوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ پھنکار سانپ کی ہے یا اُس متکبر گردن بلند کی جس کے گلے میں سانپ ہے! اقبال نے ’’مجلسِ اقوام‘‘(لیگ آف نیشتر) کے بارے میں کہا تھا ؎
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدان چند
بہرِ تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ چند کفن چوروں نے قبریں آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے۔
پچاس وزیروں کی انجمن! کابینہ! بھارت کی آبادی ایک ارب بتیس کروڑ ہے۔ مرکز میں وزرا اور وزرائِ مملکت کی کل تعداد 75ہے۔ اس حساب سے بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے تیرہ وزراء ہونے چاہئیں۔ مگر یہاں تو ڈاکخانے کا بھی الگ، مکمل وزیر ہے۔ ہر وزیر کے لیے گاڑیاں، سٹاف، رہائشی محل، دفتری ٹھاٹھ باٹھ پر کروڑوں کا خرچ ہے۔ ہر وزارت کا سیکرٹری ہے۔ اس کی الگ سلطنت ہے۔ یہ سارا بوجھ رینگ رینگ کر چلنے والے محمد جانوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ آٹھ ہزار روپے سے محمد جان کا خاندان جو شے بھی خریدتا ہے۔ اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ ٹیکس وہ دکاندار کو دیتا ہے۔ دکاندار اُوپر بھیجتا ہے۔ ٹیکس کا یہ روپیہ جمع ہو کر وزیروں کا شاہانہ طرزِ زندگی چلاتا ہے۔
میں واپس جنازے کو پلٹتا ہوں۔ سب مل کر پڑھ رہے ہیں۔
پڑھ لا اِلٰہ اِلااللہ
محمدؐ پاک رسول اللہ
No comments:
Post a Comment