Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 30, 2017

ناقہ سوار کی آنکھوں میں ریت پڑ چکی

سینے میں پھانس ہے۔سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔پانی جوں جوں نزدیک ہوتا دکھائی دے رہا ہے سراب کا خوف دامن گیر ہو رہا ہے۔
ناقہ سوار جو عدالت عظمیٰ سے نکلا تھااس کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ،کچھ دیکھ نہیں پا رہا -ایک تنگ سی پگڈنڈی نخلستان کو جا رہی ہے دوسرا راستہ صحرا کی اس وسعت کی طرف لے جا رہا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں ہیں اور ہڈیاں!ناقہ سوار اس دوراہے پر،اونٹنی کو بٹھائے،آنکھیں مل رہا ہے،خلقِ خدا اوپر کا سانس اوپر رکھے نیچے کا نیچے ناقہ سوار کو دیکھ رہی ہے کہ کدھر کا رخ کرتا ہے!
زوال کا زمانہ بھی اتنا بے حیا نہ تھا۔میر نے کہا تھا ؎
نیزہ بازانِ مثرہ میں دل کی حالت کیا کہوں 
ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا 
جنوب کے مرہٹوں کے لیے ،جو ڈاکوؤں کی طرح شمالی ہند میں دندناتے پھر رہے تھے میر صاحب نے دکھنیوں کا لفظ استعمال کیا ہے،ہم مغربی پنجاب والے جنوب کو دکھن کہتے ہیں اسی سے دکن نکلا۔ بدامنی تھی اتنی کہ شرفا،مرہٹوں کو 'جومانگتے 'دے کر جان چھڑاتے۔ اس ابتری اور حد درجہ پراگندگی کے عہدِ سیاہ میں بھی لچے لقندرے،شرفا کے منہ پڑتے تو کوئی نہ کوئی ٹوکنے والا ہوتا۔مگر،آہ! اس دورِ ظلمات میں عدالت عظمٰی پر اور عدالت عظمٰی میں تشریف فرما عزت دار منصفوں پر کیا کیا تبرا نہ کیا گیا۔ کیا کیا تضحیک نہ ہوئی،کوئی نہ تھا جو ان دولت مندوں کو آگے بڑھ کر روکتا اور ٹوکتا۔قاضیوں نے فیصلہ دیا۔اس فیصلے کو رگیدا گیا،پرخچے اڑائے گئے،ہاہاکار مچی،ستم بالائے ستم یہ کہ فیصلہ پرخچے اڑانے والے نے پڑھا تھا نہ ان عامیوں نے جو ہانک کر لائے گئے اور ہجوم بنائے گئے -
تکبر کی انتہا ہوگئی۔ہم چوتھی بار وزیراعظم بنائیں گے۔ تو کیا یہ بیس کروڑ عوام مزارع ہیں اور آپ کی جاگیر ہیں؟کیا آپ نے یہ ملک بٹائی پر دیا ہوا ہے،؟کیا وزارتِ عظمیٰ خاندان کی وراثت میں لکھ دی گئی ہے۔؟کوئی رجل رشید ہے جو انھیں خدا کا خوف دلائے؟َنصرت بھٹو نے نخوت کے پہاڑ پر چڑھ کر کہا تھا۔۔۔
ؓؓBhuttos are born to rule.
کہ ہم تو پیدائشی حکمران ہیں۔استکبار کا یہ عالم تھا کہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں تو ناک بھوں چڑھاتیں کہ ہمیں تو گلاب سے الرجی ہے۔ آج نشان بھی باقی نہیں،ایک بھٹو بھی اقتدار کے لیے میسر نہیں۔پوری کی پوری پارٹی دوسرے خانوادے کو منتقل ہو چکی۔ بچپن میں اپنے قریے میں دیکھتے تھے کہ دوسرے کے گھر سے عید شبرات پر بھاجی آئی،اس پر ایک پلیٹ اوندھے منہ رکھی گئی،پھر نیچے کی پلیٹ اوپر اوراوپر والی نیچے کی گئی تو پوری کی پوری بھاجی دوسری پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ خدا کی قسم!دستِ قدرت نے پیپلز پارٹی کی پلیٹ پر زرداری خاندان کی پلیٹ الٹی رکھی۔ پھر دونوں پلیٹو ں کو پکڑ کر الٹ دیا۔یوں کہ ساری کی ساری بھاجی زرداریوں کی پلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ صفائی کے ساتھ،پوری کی پوری،جی ہاں۔۔"بھٹو پیدائشی حکمران ہوتے ہیں "۔کون سے بھٹو؟برس بعد غنویٰ بھٹو کی نحیف تنہا آواز سنائی دیتی ہے۔
ابدی خاموشی کی آندھی میں 
جیسے کوئی پر ِ مگس گزرے!
فاطمہ بھٹو میں ٹیلنٹ ہے،مگر لکھنے کی حد تک۔جن میں کوئی ٹیلنٹ نہیں،لکھنے کانہ پڑھنے کا وہ سنگھاسن پر ہیں۔
دجل ہے اور تلبیس!دھوکہ، کھلا دھوکہ،عیاری اور حیلہ سازی،غلط بیانی کی انتہا،عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی حکمرانی،ساتھ اقامہ برادری،ملازمت،رقم بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی مگر مسلسل استفسار کہ کیوں نکالا گیا۔ 
معزولی کے بعد ا س صوبے میں جہاں بھائی حکمران ہے،صوبائی اجلاس کی صدارتکی۔ کس برتے پر؟کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟یہ شغل جب وفاق میں خود حکمران تھے تو کبھی نہ فرمایا،ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کبھی نہ کی۔ کوئی سنجیدہ اور ثقیل (presentation)شروع سے آخر تک مکمل کبھی نہ برداشت ہوئی۔فائلیں میر منشی سنبھالتا،حکمرانی کے سارے اجلاس سمدھی کے سپرد تھے۔مرزا یار صرف ٹہلا کرتا۔
اب چچا جان نے وسائل اور افرادی قوت سب برادر زادی کو سونپ دیے کہ انھیں استعمال کرو اور مادرِ مہربا ں کو فتح سے ہمکنار کرو۔بیوروکریسی سامنے دست بستہ کھڑی ہے۔کوتوالی دائیں طرف ہے۔ الیکشن کمیشن جمہور ی دنیا کا ضعیف ترین الیکشن کمیشن ہے۔ووٹ شمار کرنیوالی الیکڑانک مشینری راس آرہی ہے نہ بائیو میٹرک کا سائنسی نظام۔اس سے بہتر تھا کہ چوکوں چوراہوں پر عوام کو کھڑا کرکے ہاتھ اٹھواتے۔ماتحت پولیس اٹھے ہوئے ہاتھ گنتی اور فتح کا اعلان کردیتی۔
زرداری صاحب کو بری کرکے نظیر قائم کردی گئی۔سانچہ بن گیا ہے۔آنے والے مقدمے اس سانچے میں فِٹ کردیے جائیں گے۔ نا اہلی؟کون سی نااہلی؟۔۔۔۔نیا وزیراعظم سعادت مند ہے،کابینہ کے ارکان باقاعدگی سے زمین بوسی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔وفاق بھی اور سب سے بڑا صوبہ بھی قدموں میں پڑے ہیں۔نہیں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ناقہ سوار خورجین میں فیصلے کے کاغذ رکھ کر عدالتِ عظمیٰ سے نکلا تھا،مگر رک کر آنکھیں مَل رہا ہے۔ ریت ہے کہ رڑک رہی ہے۔ رخ اس کا اس بے آب و گیاہ لق و دق دشت کی طرف ہے جہا ں سراب ہیں،اور ٹوٹی طنابیں،دم بہ دم جگہ بدلتے ریت کے ٹیلے اور راہ گم کردہ بدبخت مسافروں کی ہڈیاں جنھیں لحد بھی نصیب نہ ہوئی۔۔ وسطی پنجاب سے مقتدر جماعت نے جیتنا ہی جیتنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سڈول جسم کی گولائیاں بتا رہی ہیں،کچھ نہیں کرسکتا۔۔ عمران خان کچھ نہیں کر سکے گا۔ حکومتی مشینری کی تنظیم کا مقابلہ کوئی جماعت نہیں کر سکتی۔
ہوائیں ان کی،فضائیں ان کی،سمندر ان کے،جہاز ان کے،
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر؟بھنور ہے تقدیر کا بہانہ۔۔۔!
ابھی تو حکمران جماعت نے مہم شروع ہی نہیں کی اور طبیبہ یاسمین راشد تھانے میں جاکر ایک بار فریاد بھی کرچکی ہیں۔جب زبردستوں کی مہم زوروں پر ہوگی تو زیرِ دست کیا کریں گے؟۔۔۔روز کوتوالی جاکر انصاف کی بھیک مانگیں گے؟ناقہ سوار کے عدالتِ عظمٰی سے نکلتے ہی سب کچھ بدل گیا۔پچیس ارب ساحلی اتحادی کو مل گئے۔ اربوں اپنی پارٹی کے منتخب نمائندؤں کی زنبیلوں میں رکھے گئے۔عمران خان ان اشرفیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے ۔پاکستان کی مخالفت کرنے والے تمام فیل اور پیادے حکمران جماعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ساحل والوں کو ابھی اور بھی بہت کچھ ملے گا۔ کون جانے لندن میں کون کس کو ملتا ہے۔۔اور پکائی جانے والی کھچڑی میں کیا کیاڈالا جاتا ہے۔باہر جو ہوائیں سائیں سائیں کر رہی ہیں وہ بھی حکومتی طائفے سے موافقت رکھتی ہیں۔بھارت کو معلوم ہے کس کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ ہے،امریکہ بنیے کی مُٹھی میں ہے۔ دھوتی اڑس کر جب بھی بنیے نے اوقیانوس کو پار کیا۔ قصرِ سفیدمیں اس کی پذیرائی ہوئی۔ ہمارے صاحب گئے بھی تو ملاقات کے وقت کاغذ کی چِٹوں کو ہی الٹا سیدھا کرتے رہے۔ باورچی ہمراہ لے کر گئے تھے،خور و نوش پہلے،نظمِ مملکت بعد میں۔۔۔چائے بیچنے والا تن من دھن سے اپنے ملک کے لیے بھاگ دوڑ کرتا پھرتا ہے۔ اس نگوڑے کے باہر کے ممالک میں صنعتی یونٹ،نہ اپارٹمنٹ،نہ اقامے،نہ محلات،نہ شرقِ اوسط کی ملازمتیں۔میکسکو تک جا پہنچا،چین گیا تو وہاں کے صدر اسے اپنے آبائی قصبے لے گئے۔ سینٹ پیٹرز برگ میں منعقدہ انٹر نیشنل اکنامک فورم میں شریک ہوا تو مہمانِ اعزاز ٹھہرا۔ یومِ جمہوریہ آیا تو عرب امارات کے ولی عہد نے تقریب کو زینت بخشی۔چائے بیچنے والے،بنیے کے بیٹے نے وہ سرگرمی دکھا ئی،وہ دوڑ دھوپ کی کہ آج امریکہ اس کی مٹھی میں ہے۔امریکی صدر برملا،علی الاعلان اسے افغانستان میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔عالم ِ اسلام کے عین مرکز میں امریکی صدر بنیے کے ملک کا ذکر کرتا ہے اور ہمارا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ہمارے صاحب وہاں بیٹھے سنتے ہیں،بولتے کچھ نہیں۔ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم۔
کیا ردالفساد اور کیا ضربِ عضب،جو کیا ہماری افواج قاہرہ نے کیا،ہاں اس کو سول مقتدرہ کی پوٹلی میں باندھا جائے تو ماناکہ افواج حکومت کے ماتحت ہیں۔مگر سب جانتے ہیں کہ حکمتِ عملی کس کی تھی۔پہل ان آپریشنز کی کس نے کی،کہاں سے ہوئی اور دہشتگردوں کا مقابلہ کس نے کیا۔آج جب ہمیں دھمکایا جا رہا ہے،کہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان بیٹھے ہیں،تو ہے کوئی جو تاریخ متعین کرکے کابل کو اطلاع دے کہ فلاں وقت تک مہاجرین سرحد کے پار بھیج دیے جائیں گے کہ اگر طالبان ہیں تو انہی میں چھپتے ہیں،لاکھوں مہاجرین کی میزبانی بھی کریں او ر طعنے اور دھمکیاں بھی سنیں۔ پاکستان راہداری بند کردے تو افغانستان میں مورچہ ء زن سفید فام لشکری پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں۔۔اس لیے کہ ان کا بس چلے تو آکسیجن بھی امریکہ سے منگوائیں۔مگر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھمکیوں کا جواب ہم تب دیتے جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے دامن چھڑاتے۔سب کچھ سمدھی پر چھوڑ دینے والے سابق بادشاہ کو معلوم ہی کہاں ہوگا کہ چا ر سالوں میں پینتیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔کشکول توڑ دینے کا وعدہ تھا۔وعدہ پورا کیا۔کشکول توڑا اور ایک نیا کشکول ا س سے بڑا بنایا۔حضرت جب ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں تو صرف دو کلمات اد اکرتے ہیں،"سڑکیں بن رہی ہیں،روشنیاں آرہی ہیں۔،"درآمدات،برآمدات،شرح مبادلہ،قرضوں کا گراف،بیروز گاری کی شرح،پتیلے مانجھتے اور گاڑیوں کے نیچے دراز ہوکر پھولوں جیسے ہاتھ کالے کرتے بچوں کی تعداد۔۔۔یہ سب کچھ تو تب معلوم ہوتاجب فائلیں پڑھتے،اقتصادیات سے متعلق اجلاسوں میں بنفس نفس بیٹھتے اور آسودگی کے عادی ذہن کو مشقت میں ڈالتے
تبدیلی؟۔۔ کون سی تبدیلی؟ پنجے گوشت میں پیوست ہیں۔کیسے جان چھوٹے؟مصطفیٰ زیدی یاد آرہا ہے۔۔
ابھی تاروں سے کھیلو،چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com