Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 02, 2017

شُوہارن… 2


شُوہارن‘ وہ چمچ نما آلہ ہے جس کی مدد سے پائوں جوتے میں آسانی سے ڈالا 
جا سکتا ہے۔ یہ ایڑی والی سائڈ سے استعمال ہوتا ہے۔ بچپن میں ہم نے بزرگوں سے اس کا نام چمچ ہی سنا۔ یہ حضرات اس جیب میں ضرور رکھتے تھے۔ جوتا پہنتے وقت جیب سے نکالا۔ استعمال کیا۔ ایڑی جوتے کے اندر داخل ہوگئی۔ ’’چمچ‘‘ کو جیب میں  واپس ڈال لیا۔
اس تحریر کا عنوان شو ہارن (2) اس لے رکھا گیا ہے کہ چند برس پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان شُوہارن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک پر جرنیل صاحب کی حکومت تھی۔ ان کی جیب میں ایک نہیں‘ کئی شُوہارن تھے۔ کچھ مذہبی تھے۔ کچھ سیاسی اور کچھ مذہب اور سیاست کا مرکب۔ مختلف وقتوں میں مختلف شوہارن استعمال کرتے۔ کچھ شوہارن تو ایک طرف سے جوتے کے لیے اور دوسری طرف سے کھجلی کرنے کے لیے استعمال ہوتے۔ انہیں ’’کُھرکو‘‘ بھی کہا جاتا۔ جرنیل صاحب کا اقتدار ختم ہوا تو یہ شوہارن ان کی جیب سے نکل آئے۔ ان شوہارنوں نے چلنا شروع کیا۔ ادھر ادھر دیکھا اور میاں نوازشریف کی جیبوں میں گھس گئے۔ ایک شوہارن جو مذہب اور سیاست کا مرکب ہے‘ کمال کا شوہارن ہے۔ یہ ہر مقتدر شخص کی جیب میں پہنچ جاتا ہے۔ بوقت ضرورت پیٹھ بھی کھجلاتا ہے۔ ایڑی کے لیے تو استعمال ہونے کا ماہر ہے۔ اس شوہارن کا مقابلہ کوئی ماں کا لعل نہیں کر سکتا۔ یہ شوہارن سیاست‘ چالاکی‘ چابکدستی‘ چستی‘ موقع شناسی‘ موقع پرستی‘ ابن الوقتی کا باکمال مرکب ہے۔ یہ ایڑی پر گھوم جانے میں زبردست مہارت رکھتا ہے۔ مذہب کا استعمال‘ گزشتہ چودہ صدیوں میں جن درباری حضرات نے کیا ان میں اس کا نام نمایاں لکھا جائے گا۔
دنیا میں پہلا شوہارن کب وجود میں آیا؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا! تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے 1560ء کے لگ بھگ اپنے موچی سے اٹھارہ شوہارن بنوائے۔ سات سال بعد اس نے مزید چار کا آرڈر دیا۔ قیاس ہے کہ گھر کے سب افراد ان سے متمتع ہوتے تھے۔ پھر شوہارنوں پر ان کے مالکوں کے نام کھدوانے کا رواج پڑ گیا۔ ڈیزائن‘ پھول پتے بھی کاڑھے جانے لگے۔
آج کے عہد میں جس شخص کے پاس شوہارنوں کی کثیر تعداد موجود ہے اس کا تعلق نیدر لینڈ (ہالینڈ) سے ہے! اس کا نام مارٹن توتاف ہے۔ مارٹن نے تقریباً سولہ سو شوہارن اکٹھے کئے ہیں۔ یہ شوق اسے 1977ء میں لاحق ہوا۔ شروع میں وہ صرف تین عدد شوہارنوں کا مالک تھے۔ پھر شوق کو مہمیز لگتی گئی۔ اس نے معلومات اکٹھی کیں۔ اس موضوع پر کتابیں پڑھیں۔ معلوم ہوا کہ شوہارن مختلف میٹریل سے بنائے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً لکڑی‘ چمڑا‘ ہاتھی دانت‘ پلاسٹک اور کئی قسم کی دھاتیں! اس کے حلقہ احباب میں اس کا شوق مشہور ہوا تو دوستوں رشتہ داروں نے شوہارن تحفے میں دینے شروع کردیئے۔ پھر ایک مقامی اخبار نے اس پر فیچر لکھا۔ اب وہ جدھر سے گزرتا لوگ اسے شوہارنوں کے حوالے سے پہچان لیتے۔ شادی کی پچیسویں سالگرہ پر‘ اس کی بیگم نے چاندی کا شوہارن پیش کیا جو اسے سب سے زیادہ عزیز ہے!
یاد نہیں اس کالم نگار کو شوہارن جمع کرنے کا عارضہ کب لاحق ہوا۔ ایک حقیر سی تعداد بہرطور ملکیت میں ہے۔ جملہ حقوق اس کے محفوظ ہیں۔ 2007ء میں واشنگٹن سے چرچ کے جوتوں کا جوڑا سیل میں مل گیا۔ دکاندار نے ساتھ مفت میں شوہارن دیا۔ یہ سفید چمکدار سٹیل کا تھا۔ پھر ایک خوبصورت شوہارن لندن میں قدرے سستا مل گیا۔ میلبورن کی ایک گفٹ شاپ میں سٹیل کا ایک شوہارن پڑا ہے۔ جو تقریباً ایک فٹ لمبا ہے۔ قیمت پوچھی تو دو سو ڈالر سن کر ٹھٹھک گیا۔ بہرحال جب بھی وہاں سے گزر ہوتا اسے باہر سے ضرور دیکھتا اور اطمینان ہوتا کہ موجود ہے۔ ایک دن وہاں سیل کا بورڈ لگا تھا مگر چند ڈالر ہی کی تخفیف تھی۔ اس لیے بھی ضبط سے کام لے کر خریدنے سے گریز کیا کہ پہلے کی کتابیں اور فائونٹین پین خریدنے اور جمع کرنے کے شوق سے گھر والے‘ بیزار ہیں۔ ہمارے جیسا روایت پسند جب بھی ’’گھروالے‘‘ کہتا ہے تو مراد گھر والی ہی ہوتی ہے۔ کتابوں کی وجہ سے گھر میں نظم و ضبط کا مکمل فقدان ہے کیوں کہ احتجاج کے باوجود وہ ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ کھانے والی میز سے لے کر چارپائیوں تک‘ صوفوں سے لے کر کرسیوں تک‘ سیڑھیوں سے لے کر الماریوں تک! اس بدنظمی پر احتجاج تین نسلوں سے تو خود اپنے کانوں سے سن رہا ہوں۔ دادی جان کتابوں اور رسالوں کو حقارت سے اور تمسخر سے ’’پھڑکے‘‘ کہتی تھیں ’’بھاگوان! جدھر سے آتا ہے‘ مزید پھڑکے لیے آتا ہے‘ پہلے ہی جگہ نہیں۔‘‘ پھر والدہ کا زمانہ آیا۔ ان کا احتجاج نسبتاً نرم تھا۔ اب کالم نگار کی اہلیہ کا فتویٰ یہ ہے کہ گھر میں ہزار الماریاں ہوں تب بھی ان میں کتابیں ہی نظر آئیں گی! فائونٹین پین جگہ تو نہیں گھیرتے مگر نسبتاً مہنگا شوق ہے۔ اس پر تفصیلی تحریر پھر کبھی!
ایک دن میلبورن کے آئکیا (Ikea) سٹور میں آوارہ گردی کر رہا تھا کہ پلاسٹک کے بنے ہوئے خوبصورت‘ شوہارن نظر آئے۔ تقریباً سوا فٹ لمبے۔ قیمت پوچھی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ ایک ڈالر! بعد میں ان کی قیمت بڑھی تو تین ڈالر ہو گئی۔ پاکستان میں ڈھونڈیں تو اصلی چمچ کی لمبائی کے بہت مل جاتے ہیں۔ مگر لمبے نہیں ملتے جو طویل قامت افراد کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔ چند دن پہلے دوست گرامی جنرل کمال اکبر نے‘ جو آئی سپیشلسٹ ہیں اور تینوں مسلح افواج کے سرجن جنرل بھی رہے ہیں‘ لکڑی کا بنا ہوا خوبصورت شوہارن عطا کیا۔ یہ برما (میانمار) کا بنا ہوا ہے۔ لکڑی بھی قیمتی ہے ساگوان ہے یا آبنوس! لمبائی ایک فٹ سے کہیں زیادہ ہے!
مگر غور کریں تو کیا ہے بے وقوفی ہے! کتابیں اور فائونٹین پین جمع کرنا۔ یا سازوسامان میں زیادہ سے زیادہ شوہارن۔ دو تین آبائی زمینیں! ایک آبائی برچھی!    ؎
کتاب اور شمشیر‘ زین اور عصا
یہی کچھ ہمارے مکانوں میں تھا
ہم جیسوں کو عقل ہوتی تو باپ دادا کی کتابیں‘ 
مسودے اور محظوطات سنبھالنے کے بجائے ان کی پیروی کرتے جن کا طوطی 
بول رہا ہے! کیا حماقت ہے کہ حکیم محمدسعید مرحوم نے گھڑی انعام میں دی تھی‘ ہزار دو ہزار روپے کی ہوگی‘ وہی حرز جاں بنا کر رکھی ہوئی ہے کہ حکیم صاحب کے دست شفقت سے ملی تھی! عقل ہوتی تو اڑھائی کروڑ روپے کی گھڑی کا بندوبست کرتے لندن سے لے کر جدہ تک اور قطر سے لے کر پاکستان تک فیکٹریاں محلات اپارٹمنٹ کاروبار‘ حصص‘ اقامے ہوتے! اور اتنے ہوتے کہ وکیلوں کے جمگھٹ بھی گن نہ پاتے۔ چار دانگ عالم میں شہرت ہوتی! جو بچے پیدا نہیں ہوئے‘ وہ بھی کھرب پتی ہوتے۔ طنطنہ ہوتا‘ جاہ و حشمت ہوتی‘ تزک و احتشام ہوتا۔ باقر خانیاں بنانے کے باورچی الگ ہوتے۔ ہریسہ پکانے والے الگ اور پلائو بنانے والے الگ۔
گوجرانوالہ کے ایک نواحی گائوں کوٹلی میں شہنشاہ اکبر کے قاضی القضاۃ شیخ عبدالنبی کا مقبرہ ہے جو پانچ ساڑھے پانچ سال پہلے لاکھوں کے اخراجات سے تعمیر کیا گیا تھا۔ سنگ مرمر بے تحاشا استعمال کیا گیا۔ دروازے جنوبی ہند کی بیش قیمت لکڑی سے بنوائے گئے تھے۔ تعمیر میں چونا‘ ماش کی دال اور کیمیائی مادوں کا آمیزہ لگا تھا۔ گنبدوں اور میناروں پر سونے چاندی کے کلس لگے تھے۔ یہ بھی مشہور تھا کہ زیریں حصے میں خزانے مدفون ہیں۔ یہ تین سال پہلے کی بات ہے کچھ لوگ اس بستی میں آئے اور بتایا کہ وہ محکمہ اوقاف کے افسر اور ملازمین ہیں اور مقبرے کی تعمیر نو اور آرائش کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے سریے اور ریت کی ٹرالیاں بھی منگوائیں۔ مگر پھر تمام منقش دروازے نقش و نگار والی ٹائلیں‘ گنبدوں اور میناروں کے کلس اور دیگر بیش قیمت سامان اتارا اور غائب ہو گئے۔ شیخ کی قبر بھی انہوں نے پائنتی کی طرف سے کھودی۔ جانے کچھ ملایا نہیں۔
مگر یہ چور‘ بہت سے دوسرے چوروں اور ڈاکوئوں سے بہتر تھے۔ کم از کم انہوں نے زندہ مخلوق کے حق پر تو ڈاکہ نہیں ڈالا۔ یہ چور ان ڈاکوئوں سے بہتر ہیں جو لاکھوں کروڑوں مریضوں کا حق مار کر‘ چھینک کا علاج بھی لندن سے کراتے ہیں۔ جو لاکھوں دختران وطن کا مال چرا کر اپنی بیٹیوں کو سونے چاندی سے لاد دیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ سونے چاندی کا بوجھ اوپر لاد کر‘ ان بیٹیوں کی بدصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بھارت کی فلم ایکٹریس جے للیتا سیاست میں آئی۔ چیف منسٹر بنی۔ دولت کے انبار اکٹھے کئے۔ امیلدا مارکوس کی طرح اس کے پاس بھی جوتوں کے ہزاروں جوڑے تھے۔ ہزاروں ساریاں تھیں‘ تعجب یہ ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے دنیا سے گئی تو جوتوں کا ایک جوڑا اور ایک ساری تک ساتھ نہ لے کر گئی۔ گاڑیوں کی بھی شوقین تھی۔ بنگلے اور فارم بھی بہت تھے مگر چتا میں اکیلی گئی۔
چتا میں جلنا ہو یا پھر لحد میں مدفون ہونا‘ ساتھ کچھ نہیں جاتا‘ پیچھے اگر کتابیں چھوڑی جائیں اور فائونٹین پین اور زیادہ سے زیادہ چند درجن شو ہارن‘ تو پس ماندگان جھگڑا کرنا چاہی

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com