اپنی نو سو سالہ تاریخ میں یونیورسٹی نے اتنی سراسیمگی نہیں دیکھی تھی!
صرف سراسیمگی نہیں‘ جوش و خروش بھی تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا کوئی کالج‘ کوئی شاہراہ کوئی ہوسٹل ایسا نہ تھا جہاں یہی موضوع زیر بحث نہ ہو۔ کیا اساتذہ‘ کیا طلبہ‘ کیا لڑکیاں‘ کیا لڑکے‘ کیا سٹاف‘ کیا عام شہری‘ سب پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کوئی دوسری یونیورسٹی اس معاملے میں سبقت نہ لے جائے۔یہ یونیورسٹی کی عزت اور روایت کا معاملہ تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے تعلیم سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات، دریافت ہر میدان میں اپنی برتری کے جھنڈے گاڑے تھے۔ اب یہ معاملہ جو آن پڑا تھا‘ اس معاملے میں کیوں پیچھے رہے!
یہی صورت حال کیمبرج یونیورسٹی میں تھی وہ بھی اس معاملے میں پیچھے رہنے کو کسی صورت تیار نہ تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک بہت ہی سینئر پروفیسر ‘ جب آکسفورڈ کے میئر کے ہمراہ جہاز میں بیٹھا تو اُسے یہ دیکھ کر زبردست دھچکا لگا کہ چند نشستیں چھوڑ کر‘ کیمبرج یونیورسٹی کا رجسٹرار بھی اسی جہاز میں بیٹھا تھا۔
یہی ہلچل‘ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار‘ دنیا کی عظیم الشان امریکی درس گاہ ہارورڈ میں برپا تھی۔ وہ تمام دوسری یونیورسٹیوں سے اس معاملے میں بازی لے جانا چاہتی تھی۔ جان ہاپکن یونیورسٹی ایم آئی ٹی(میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) ییل یونیورسٹی ‘ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے‘ کولمبیا یونیورسٹی‘ یونیورسٹی آف شکاگو‘ سب اس مسابقت میں شریک تھیں۔ ہر یونیورسٹی کا فیصلہ یہی تھا ک اپنے سینئر ترین پروفیسر کو یا رجسٹرار کو نمائندہ بنا کر بھیجے گی۔ جہازوں کی نشستیں محفوظ کرائی جا رہی تھیں۔ سب کی منزل ایک تھی۔ سب کا مشن ایک تھا۔
یہ تو زمین کے معاملات تھے۔ عالم بالا میں ایک اور منظر تھا۔ فرشتوں کو درخواستوں کے پلندے موصول ہو رہے تھے۔ سقراط سے لے کر گیلی لیو تک‘ ارسطو سے لے کر افلاطون تک ابن رشد سے لے کر بوعلی سینا تک‘ ہر ایک کی عرضی آئی ہوئی تھی۔ جس فرشتے نے درخواستیں چھانٹنا تھیں‘ اسے ملنے کے لئے کارل مارکس بنفس نفیس‘ اس کے دفتر کے باہر دو دن سے بیٹھا تھا۔ مارکس کے ساتھ ‘ ادب سے ہاتھ باندھے لینن بھی موجود تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مارکس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا‘ پھر ہاتھ چومتا ۔مارکس نے لینن سے وعدہ کیا کہ اگر اسے کرۂ ارض پر دوبارہ جانے کی اجازت مل گئی تو وہ لینن کو ضرور ساتھ لے جائے گا۔ یہ سن کر لینن خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا یہ اس کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اس عظیم الشان تاریخی موقع پر‘ وہ اپنے مرشد‘ مربی اور رہنما مارکس کے ساتھ ہو گا۔
اس معاملے میں ٹراٹسکی کیوں پیچھے رہتا۔ جو نہیں جانتے ان کے لیے مختصراً بتائے دیتے ہیں کہ ٹراٹسکی انقلاب روس کے ضمن میں کمیونسٹ پارٹی کا بہت بڑا لیڈر تھا۔ سٹالن کا دور آیا تو اس نے سٹالن کی مخالفت کی۔ اسے جلاوطن کر دیا گیا پھر اسے سٹالن نے مروا ہی دیا۔ مگر روس کی اشتراکی تحریک اور 1917ء کے بالشیوک انقلاب کی تاریخ میں ٹراٹسکی کا اپنا مقام ہے۔ اس نے بھی درخواست دے رکھی تھی کہ ایک دن۔ صرف ایک دن کے لیے اسے کرۂ ارض پر واپس بھیجا جائے تاکہ وہ اس عظیم الشان موقع کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔
فرشتوں نے کیس تیار کیا۔ سمری بنائی۔ فائل اوپر بھیجی۔
اجازت دے دی گئی مگر فائل پر لکھا گیا کہ ابھی انتظار کر لیا جائے اور یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ اعزاز کس یونیورسٹی کے حصے میں آتا ہے۔ اس کے بعد درخواست دہندگان کو اُس یونیورسٹی میں جانے کے لیے ایک دن کی رخصت دی جائے۔ ہر ایک کے ہمراہ ایک خصوصی فرشتہ بطور گارڈ جائے گا تاکہ اس تاریخی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد درخواست دہندہ کو فوراً واپس عالمِ بالا میں لے آئے۔
واپس کرۂ ارض پر آتے ہیں۔ بالآخر قسمت کی شہزادی نے فیصلہ کیا کہ یہ اعزاز ہارورڈ یونیورسٹی کے حصے میں آئے گا۔ ہارورڈ میں اس دن جشن کا سماں تھا۔ رات کو چراغاں کیا گیا آتش بازی کا ایسا زبردست مظاہرہ کیا گیا کہ تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا ہو گا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی کا سب سے بڑا ہال بھی چونکہ اس موقع پر چھوٹا ثابت ہو گا اس لیے باہر کھلے میدان میں تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔ سجاوٹ کے لیے دنیا کے نامی گرامی آرٹسٹ بلائے گئے۔ اصل مشکل باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے استقبال اور رہائش کے انتظام کی تھی تقریب کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ کوئی ملک ایسا نہ تھا جہاں سے دانشور‘ مورخ‘ مصنف‘ فلسفی‘ صحافی‘ اساتذہ نہ آ رہے ہوں۔ یورپ سے تو جہازوں پر جہاز آ رہے تھے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی اورآسٹریا کی تمام یونیورسٹیوں نے جہاز چارٹرڈ کرا لیے تھے۔ پائپ پیتے‘ ہیٹ پہنے پروفیسر‘ جہازوں سے اترتے اور ہارورڈ کی آغوش میں سماتے جاتے۔
پھر عالم بالا سے قافلے آنے شروع ہوئے افلاطون’ سقراط‘ ابن رشد‘ بوعلی سینا ‘ البیرونی‘ جمال الدین افغانی‘ سعد زاغلول‘ محمد عبدہ‘مارکس‘ لینن‘ ٹراٹسکی‘ لارڈ کینز‘ آدم سمتھ‘ ڈارون‘ برٹرنڈرسل‘ سب آ رہے تھے۔ فرشتے ساتھ تھے۔
بالآخر وہ دن آ گیا جس کا سب انتظار کر رہے تھے۔ پاکستان سے چلا ہوا جہاز ہارورڈ اترا۔ اس موقع کے لیے خصوصی ایئر پورٹ بنایا گیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف جہاں سے اترے اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ امریکی صدر اور ہارورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے آگے بڑھ کر استقبال کیا۔ بچوں نے پھول پیش کئے، عالم بالا سے آئے ہوئے عظیم فلسفیوں ‘ دانشوروں مصنفوں میں سے ہر ایک نے آگے بڑھ کر پہلے میاں صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا‘ پھر ادب سے مصافحہ کیا۔ پھر اپنے خوش قسمت ہاتھوں کو چوما اور
احتراماً اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتے گئے۔ وہ یہ نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ
میاں صاحب کی طرف ایک لمحہ کے لیے بھی ان کی پیٹھ آئے۔
اس عظیم الشان اجتماع میں میاں صاحب نے اپنا ’’تصورِ انقلاب ‘‘ پیش کرنا تھا۔ جب سے انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا تھا‘ دانشور اور فلسفی اس انقلاب کے خدوخال ان سے براہ راست سننا چاہتے تھے۔ تاریخ عالم میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی پروفیسر ‘ کسی فلسفی‘ کسی مصنف نے نہیں‘ بلکہ ایک معزول وزیر اعظم نے انقلاب کا تصور دنیا کو دیا تھا۔
میاں صاحب نے تقریر کا آغاز کیا۔ سامنے ہزاروں مائک تھے۔ کیمرے لاکھوں کی تعداد میں تھے۔اگلی صفوں میں ہم عصر سربراہان مملکت تھے۔ دائیں بائیں خصوصی نشستوں پر فلسفی اور دانشور تشریف فرما تھے۔ میاں صاحب نے تقریر شروع کی۔
’’میں پوچھتا ہوں مجھے کیوں نکالا گیا۔کیوں نکالا گیا مجھے؟ اب انقلاب لانا ہو گا! انقلاب‘ انقلاب‘‘
دائیں طرف کی دوسری صف سے مارکس کھڑا ہوا۔
میاں صاحب! اس انقلاب کے اجزا کیا ہوں گے؟ اس کے سماجی، تاریخی اور سیاسی اسباب کیا ہوں گے۔؟
پھر لینن کھڑا ہوا۔
’’میاں صاحب! آپ اور آپ کا خاندان ماشاء اللہ سالہا سال سے برسر اقتدار ہے۔ آپ نے تعلیمی اورزرعی میدانوں میں کون کون سی انقلابی اصلاحات کیں؟
مگر سب سے زیادہ گستاخانہ سوال روسی ادیب ٹالسٹائی نے پوچھا۔
’’میاں صاحب! آپ اس نکتے کی وضاحت ضرور فرمائیں کہ انقلاب کا نعرہ آپ نے معزول ہونے کے بعد کیوں لگایا؟کیا آپ کے تصورِ انقلاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آپ اور صرف آپ وزیر اعظم ہوں!‘‘
اتنے میں مشہور مورخ ٹائن بی اٹھا اور پوچھا ’’میاں صاحب! اس انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا آپ نے اپنی پارٹی کے موجودہ حکمران شاہد خاقان عباسی کو ضروری ہدایات دے دی ہیں؟‘‘
میاں صاحب بدقسمتی سے کسی سوال کا جواب نہ دے سکے۔ ہاسا پڑ گیا‘ لمبا ہاسا! تقریب مذاق ثابت ہوئی میاں صاحب نے گھبراہٹ میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے معاون غائب ہو چکے تھے اور تو اور عزیزان گرامی طلال اوردانیال بھی دکھائی نہ دیے۔
تقریب ناکام ہوئی مکمل طورپر ناکام! ہر طرف بدنظمی اور ہڑ بونگ کا عالم پھیل گیا۔ میاں صاحب کو پولیس نے پچھلے دروازے سے بمشکل حفاظت سے نکالا۔
سب سے زیادہ پریشانی عالمِ بالا سے آنے والوں کو ہوئی۔ فرشے ان کو ہانکتے تھے اور ڈانٹتے تھے۔
کیا یہ تھی وہ تاریخی عظیم الشان تقریب جس کے لیے تم نیچے واپس آنے پر اصرار کر رہے تھے؟‘‘
No comments:
Post a Comment