Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 14, 2017

میٹھی لسی کے گلاس اور پیزا


ماش کی دال پکی تھی۔ دوپہر والے کریلے بھی حاضر تھے۔ مگر گیارہ سالہ بچی نے
کھانا کھانے سے انکار کردیا ’’نانا ابو میں نے پیزا کھانا ہے۔‘‘ نانا ابو کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ اس وقت پیزا کہاں سے اور کیسے آئے گا۔ بچی نے خود ہی مسئلہ حل کردیا۔ ’’سی سیکٹر والا ’’پیزا ہائوس‘‘ گھر میں پہنچا دے گا۔ بس آپ اسے فون پر بتادیجئے۔‘‘
یہ کالم نگار قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔ گویا تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی پہلی نسل ابھی زمین پر موجود ہے۔ اس نسل کی زندگی کے دوران ہی زمین و آسمان سب کچھ بدل گیا۔ اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی اوپر ہو گئی۔ وہ جو پیشگوئی تھی کہ ع
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
تو وہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔
تب ناشتے میں ڈبل روٹی کا کوئی تصور نہ تھا۔ کارن فلیکس بھی نہ تھے۔ صبح اٹھنے کے بعد سکول جانے تک‘ وقت اتنا فراخ ہوتا تھا کہ اباجی مجھے اور میری بہن کو قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے۔ اتنے میں امی جان ہمارے لیے پراٹھے پکالیتی تھیں۔ پراٹھے کے اوپر درمیان میں گوبھی یا پسے ہوئے شلغموں کا سالن یا دال رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ پراٹھے کا سب سے زیادہ مزیدار حصہ یہی ہوتا تھا۔ ساتھ ایک پیالے میں دودھ ہوتا تھا۔ ٹی بیگ یا کافی کا نام تک سننے میں نہ آیا تھا۔
سکول لے جانے کے لیے سکول بیگ تھا نہ لنچ بکس۔ کار تھی نہ وین لگوائی جاتی تھی۔ چوکور کپڑے کا ٹکڑا ہوتا تھا۔ درمیان میں کتابیں اور کاپیاں رکھی جاتی تھیں۔ دونوں طرف قلم اور پنسلیں‘ قلم سرکنڈے کے بنے ہوتے تھے۔ مثنوی کے پہلے دو شعروں میں جس سرکنڈے کا ذکر ہے‘ اسی کی نسل والے سرکنڈے سے قلم بنائے جاتے تھے ؎
بشنواز نے چون حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
ازنفیرم مرد و زن نالیدہ اند
بانسری سے سنو! جب وہ کہانی سناتی ہے اور جدائیوں کی شکایت کرتی ہے کہ جب سے مجھے سرکنڈوں کے جنگل سے کاٹ کر لائے ہیں‘ میرے نالہ و فریاد سے مرد و زن سب رو رہے ہیں۔
پھر آمنے سامنے کے کونوں کو آپس میں گرہیں لگا کر باندھ دیتے تھے۔ یہ تھا بستہ۔ اس کے نیچے تختی رکھی جاتی تھی۔ اسی کو بغل میں دبا کر سکول جاتے تھے۔ ’’سکیورٹی‘‘ کس بلا کا نام تھا‘ کبھی سننے میں نہ آیا۔ سکول اچھا خاصا دور تھا۔ پیدل جاتے تھے۔ کوئی چھوڑنے ساتھ کبھی نہیں آتا تھا۔ کلاس روم سردیوں میں باہر گرائونڈ میں منتقل ہو جاتے تھے۔ ڈیوٹیاں لگتی تھیں کہ ٹاٹ کس کس نے باہر بچھانے ہیں اور کس کس نے چھٹی کے وقت لپیٹ کر واپس کلاس روم میں رکھنے ہیں۔ استاد کے لیے کرسی بھی باہر لانا اور واپس رکھنا ہوتی تھی۔ ماسٹر سلطان صاحب کا چہرہ آج بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ کمال کے خوش خط تھے۔ لکڑی کی سیڑھی (نرد بان) پر چڑھ کر‘ سکول کی دیواروں پر قرآنی آیات اور اشعار لکھا کرتے۔ ان کے پاس ایک ہی کوٹ تھا۔ لمبا کالے رنگ کا! اردو کی ایک اضافی کتاب بھی ہوتی تھی جو زیادہ مشکل سمجھی جاتی تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب‘ جناب عبدالکریم‘ یہ کتاب پانچویں جماعت کو جو سب سے سینئر جماعت تھی‘ خود پڑھاتے تھے۔ کھانا واپس گھر آ کر کھایا جاتا۔ کھانا کھانے کے بعد فوراً سکول کا کام کرنے بیٹھ جاتے۔ تب ہوم ورک کو سکول کا کام ہی کہتے تھے۔ اس وقت تک گھر کے صحن کی مغربی دیوار کے دامن میں سایہ آ چکا ہوتا۔ پٹ سن کی بوری اس سائے پر‘ دیوار کے ساتھ بچھاتے اور کام کرتے۔ شام کو گھر سے ذرا دور کھیتوں کے درمیان ’’چوراہے‘‘ پر سب بچے کھیلتے۔ زیادہ تر گلی ڈنڈے کے میچ ہوتے یا ریڑھا چلایا جاتا۔ یہ ریڑھا کیا تھا‘ گول چکر ہوتا۔ ہاتھ میں لمبی تار رکھی جاتی۔ تار کا اگلا سرا یوں بنایا جاتا کہ چلتے ریڑھے کو اپنی گرفت میں لے لے۔
گھر میں جو کرائے پر تھا ایک بیٹھک تھی۔ دو کمرے تھے۔ ایک برآمدہ تھا۔ برآمدے کے اندر باورچی خانہ تھا۔ جسے رسوئی کہا جاتا۔ بچوں کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ سارے کھانے بیٹھ کر پکائے جاتے۔ رسوئی یعنی باورچی خانے میں کھڑے ہو کر کھانا پکانے کا کوئی تصور نہ تھا۔ سردیوں میں امی جان کے پاس ہی بوری یا چٹائی بچھا کر کھانا کھا لیتے۔ یہی ڈائننگ ٹیبل تھا۔
رمضان میں مزا آتا۔ محلے کی مسجد کے صحن میں بابا پھجا (فضل) ڈرم بجا کر افطار کے وقت کا اعلان کرتا۔ ہم سارے بچے جمع ہو جاتے۔ ڈرم بجنے کا سخت بے تابی سے انتظار ہوتا۔ ابا جی اور اماں جی ایک دو کھجوریں کھا کر فوراً کھانا کھالیتے۔ گرمیوں میں ہماری ڈیوٹی بازار سے برف لانے کی بھی ہوتی۔ برف والا‘ برف کے بڑے چٹان نما ٹکڑے کو پٹ سن کی بوری میں لپیٹ کر رکھتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا سؤا ہوتا۔ جسے وہ برف میں گھونپتا تو برف کا ٹکڑا الگ ہو جاتا۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ برف تول کر دی جاتی۔ ریفریجریٹر شاید ہی کسی گھر میں ہوتا۔ ہمارے محلے کے فرشتہ صفت حاجی عبداللہ صاحب ہر گھر سے صبح صبح پیسے لیتے۔ پھر قصاب کے پاس جا کر سب کے لیے گوشت خریدتے۔ ایک ایک بوٹی کے لیے قصاب سے جھگڑتے۔ قصاب کبھی کبھی اَڑ جاتا اور خوب تکرار ہوتی۔ نہ جانے کیسا طلسم تھا حاجی صاحب کے پاس کہ انہیں اچھی طرح یاد رہتا کہ کس گھر کا کتنا گوشت ہے۔ گوشت ہوتا بھی کتنا تھا۔ ایک پائو‘ ڈیڑھ پائو‘ زیادہ سے زیادہ آدھا سیر‘ جتنا بھی ہوتا اسی دن پکتا۔ باسی چیزیں کھانے کا رواج تو ریفریجریٹر آنے کے بعد پڑا۔
سرِشام لالٹین کا شیشہ صاف کیا جاتا۔ شیشہ ٹوٹتا تو اسے (شاید آٹا لگا کر) جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ دسویں تک اسی لالٹین کی روشنی میں پڑھا۔ سرما کی لمبی راتوں میں بان کی چارپائی سے گدا ہٹا دیتے کہ نیند نہ آ جائے۔ پوزیشن حاصل کرنے کا جنون ہمیشہ دامن گیر رہا۔ اکثر و بیشتر یہ خواہش پوری ہوتی رہی۔ سکول کے لیے ملیشیا کی شلوار قمیض کا یونیفارم تھا۔ استری میں جلتے ہوئے کوئلے ڈالے جاتے۔ تب ہر کام کے لیے الگ الگ جوتوں کا رواج نہ تھا۔ کھیلنے اور بھاگنے کے لیے جاگر ضروری نہ تھے۔ پشاوری چپل پہن کر کوسوں چل لیتے۔ پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتے‘ دوڑ بھی لیتے۔ سرما کی صبح سکول جاتے
ہوئے کبھی کبھی گہری دھند سے پالا پڑتا۔ اسے ہم مقامی زبان میں کُہیڑ کہتے۔
ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا۔ سردیوں میں ہمارے علاقے میں افغانستان سے پاوندے آتے۔ ہماری گلی میں قافلے گزرتے۔ گھنٹوں کھڑے ہو کر انہیں دیکھتے۔ پٹھان بچے اونٹوں اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر رسیوں سے بندھے ہوتے۔ پٹھانیاں‘ کھلے کھلے گھگھرے (غرارے) پہنے ہوتیں۔ انہی دنوں یہ گیت سنا ؎
پٹھانیے‘ پٹھان کدے گیا
ادھی روٹی کھا کے پواندی، ستا پیا
رمضان کا ذکر کیا تو ایک بات یاد نہ رہی۔ تراویح کی نماز ہم بچوں اور لڑکوں کے لیے تفریح کا سامان ہوتی۔ صفوں کے آخر میں سب سے پیچھے بیٹھتے۔ باتیں کرتے رہتے۔ امام رکوع میں جاتا تو دوڑ کر رکعت میں شامل ہو جاتے۔ ہمارا ایک دوست ریاض جو اللہ کو پیارا ہو گیا‘ تشہد میں شہادت کی انگلی اٹھاتا تو اتنی اوپر لے جاتا کہ دائیں طرف بیٹھے ہوئے لڑکے کی آنکھوں کے پاس لے آتا۔ ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا۔ کبھی کبھی نمازیوں سے ڈانٹ بھی پڑتی۔ مگر ان دنوں برداشت کا مادہ عام تھا۔ آج کی طرح عنقا نہ تھا۔ بڑوں کو خوب احساس تھا کہ وہ خود بھی ان مراحل سے گزرے ہیں۔ اس زمانے میں نمازیں آسانی سے ٹوٹتیں نہ نکاح۔ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے باہر نکالنے کا رواج بہت بعد میں پڑا۔
گرمیوں کی دو اڑھائی ماہ کی تعطیلات آتیں تو خوشی سے جھوم جھوم اٹھتے کہ گائوں جائیں گے۔ ساری چھٹیاں گائوں گزارتے۔ کچھ ددیال‘ کچھ ننھیال۔ بس سے اترتے تو دادا جان کا ملازم گھوڑی کے ساتھ انتظار کر رہا ہوتا۔ گھوڑی کی قدروقیمت اس زمانے میں وہی تھی جو ان دنوں ٹیوٹا کرولا کی ہے۔ گھر پہنچتے تو دادی جان بہت دیر تک بسم اللہ‘ جی آیاں نوں‘ مینڈے بچے آ گئے اور نہ جانے کیا کیا‘ کہتی رہتیں۔ میٹھی لسی کے گلاس دیئے جاتے۔ تنور میں پیاز بھری روٹیاں پکتیں‘ سویاں عورتیں ہاتھوں سے بناتیں جنہیں جَولے کہا جاتا۔ ان میں شکر اور گھی ڈالا جاتا۔ ننیال والے گھر میں ایک مشین تھی‘ بڑی سی، جس میں گوندھا ہوا میدہ ایک طرف سے ڈالا جاتا۔ پھر دو افراد اسے گھماتے‘ دوسری طرف سے سویاں نکلتیں جنہیں سکھایا جاتا۔ اس مشین کو گھوڑی کہا جاتا تھا۔ گائوں کا تقریباً ہر گھرانہ مانگ کر لے جاتا۔ جس گھر میں جاتی‘ وہاں بچے جمع ہو جاتے اور سویاں بننے کا تماشہ دیکھتے۔ مغربی پنجاب کے اضلاع میں تب مونگ پھلی کی فصل متعارف نہ ہوئی تھی۔ اس کی جگہ دیسی خربوزوں کی فصل ہوتی۔ یہ خربوزے رنگ رنگ کے ہوتے اور ڈھیروں کے حساب سے یا گدھوں کے حساب سے خریدے جاتے۔ یعنی ایک گدھا جتنا وزن خربوزوں کا اٹھا سکتا۔ روٹی بھی خربوزوں کے ساتھ کھالی جاتی۔
جون جولائی کی دوپہریں کڑکتی اور سلگتی ہوتیں۔ بڑے سو جاتے ہمیں سخت تلقین کی جاتی کہ دھوپ میں نہیں پھرنا۔ لمبی دوپہریں‘ درختوں کی چھائوں میں کھیلتے گزرتیں۔ بڑے بڑے چیونٹے لمبی لمبی ٹانگوں کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے۔ ایک دوپہر کو جب لُو چل رہی تھی‘ الطاف نے کہا کہ فلاں ڈھوک میں کبوتروں نے انڈے دیئے ہیں۔ آتش شوق بھڑک اٹھی۔ ڈھوک گائوں سے کافی دور تھی مگر دھوپ کا احساس ہوا نہ پیاس کا۔ واپس آئے تو ابا گلی میں کھڑے تھے۔ الطاف فوراً فرار ہوگیا۔ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
مجھے سر پر ایک چپت پڑی اور کتاب ’’فارسی آموز‘‘ دے کر بٹھا لیا گیا۔ یوں بھی گائوں میں تعطیلات گزارنے کی شرط یہ عائد کی جاتی کہ دادا جان سے فارسی پڑھنی ہے۔ یہ سلسلہ جماعت اول سے بی اے تک جاری رہا۔ شمار کیا جائے تو یہ اٹھائیس مہینے بنتے ہیں۔ یعنی دو سال اور چار ماہ۔ یوں دادا جان سے گلستان سعدی‘ بوستان سعدی‘ جامی کی یوسف زلیخا اور نظامی گنجوی کا سکندر نامہ سبقاً سبقاً پڑھ لیا۔ یہی اس دور کا فارسی کا نصاب تھا۔ بعد میں اپنے شوق سے مطلع الانوار کے کچھ ابواب ان سے پڑھے۔ ایسی ہی تعطیلات تھیں جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ بستیوں اور قریوں میں قاصد بھیجے گئے۔ ہر جگہ پیغام دیا گیا کہ ’’بیٹھے ہو تو اٹھ پڑو اور کھڑے ہو تو چل پڑو۔‘‘ ان علاقوں میں موت کی خبر انہی الفاظ کے ساتھ دی جاتی تھی۔ دادا جان چلے گئے۔ کتابوں سے بھری ہوئی حویلیوں کے کمرے اور زینیں چھوڑ گئے۔ یہ زینیں اور ان کی برچھی آج بھی چوتھی نسل نے محفوظ رکھی ہوئی ہے اور کچھ کتابیں بھی۔ زیادہ تو دست برد زمانہ کا شکار ہو گئیں۔ اپنے نام کو انہوں نے ایک شعر میں یوں استعمال کی ؎
من گرچہ کم تر از ہمہ اولادِ آدمم
فخرم ہمین بس است غلام محمدم
میں اگرچہ تمام اولاد آدم سے کم تر ہوں مگر یہی فخر کافی ہے کہ ’’غلام محمدؐ‘‘ ہوں۔ 
گائوں میں اکثر لوگوں نے کبوتر پال رکھے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی انوارالحق مرحوم بھی انہی لوگوں میں تھا۔ کھائے جانے والے کبوتر الگ ہوتے۔ ایک کبوتر سوا روپے میں ملتا تھا۔ اب تو خربوزے بھی شیور کے دکھائی دیتے ہیں۔ تب مرغی بھی شیور کی نہیں ہوتی تھی۔
مگر ٹھہریئے! کیسا کبوتر اور کون سی میٹھی لسی کے گلاس ؟ باہر گھنٹی ہوئی ہے۔ شاید زینب کا پیزا پہنچ گیا ہے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com