Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, August 25, 2017

انسانوں کی ایک قسم۔


خراسانی جب بھی عمرے یا زیارت پر جاتا تو عراقی دوست کے ہاں بغداد میں ضرور ٹھہرتا۔عراقی خوب خاطر مدارت کرتا،دعوتیں منعقد کرتا۔بغداد کی سیر کراتا۔شام کو کشتی میں دجلہ کے نظارے کراتا،خراسانی ہفتوں اس کے ہاں قیام کرتا۔وہ اکثر اپنے دوست کو کہتا کہ کبھی خراسان آنا ہو تو مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیجئے۔مگر افسوس!اس علاقے میں نہ آپ کا کاروبار ہے،نہ مقدس مقامات ہیں،تاہم حسرت ہے کہ کبھی آپ غربت کدے پر تشریف لائیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی خوشنودی ء طبع کے لیے کیا کیا کرتا ہوں۔ رَے سے خربوزے منگواؤں گا،نیشا پور کے انگور،سبحان اللہ!بلخ کے بازار وں میں سمرقند کے سیب بکتے ہیں،بہشتی مٹھاس والے۔ہرات سے ایرانی کھجوریں خصوصی طور پر منگواکر پیش کروں گا۔۔برس ہابرس بیت گئے۔عراقی کے لیے خراسان بارہ پتھر باہرتھا۔خراسانی ہر سال آتا رہا،قیام کرتا رہا۔خاطر تواضح ہوتی رہی،اس کے گھوڑے کا بھی خیال رکھا جاتا۔
قسمت نے سمت بدلی،عراقی کو سفر درپیش ہوا،خراسان سے گزر کر اس نے ماوراالنہر کے علاقے میں جانا تھا۔ قافلے سے جدا ہوگیا کہ کچھ روز اپنے دوست خراسانی کے ہاں ٹھہرے گا،آخر کتنی بار حسرت سے خراسانی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کبھی وہ اس کے ہاں ورودکرے۔بالآخر وہ خراسانی کے شہر میں اور پھر ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ صحن کے درمیان میں ایک تخت بچھا تھا۔جیسے خراسان اور وسطی ایشیاکے گھروں میں ہوتے ہیں۔ او پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے خراسانی نیم دراز تھا ۔ارد گرد چارپائیوں پر اس کے دوست احباب اور ملاقاتی بیٹھے تھے۔گپ شپ ہو رہی تھی۔عراقی نے جاکر اسے سلام کیا تو خراسانی اسے دیکھ کر مسکرایا،نہ تپاک دکھایا۔ وہ تو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔سلام کا جواب بھی اس انداز میں دیا کہ صاف محسوس ہو رہاتھا کہ اس نے نہیں پہچانا۔
عراقی کو خیال آیا کہ یہ جو میں نے اونچی دیواروں والی ٹوپی پہنی ہوئی ہے،ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ پہچان پایا ہو، اس نے ٹوپی اتار دی اور پھر اس کے پاس گیا ۔اب بھی اس نے پہچاننے کا کوئی تاثر نہ دیا۔کوئی لفٹ نہیں دی،اور مسلسل اپنے ملاقاتیوں سے مصروفِ گفتگو رہا۔عراقی نے اب اپنے بھاری بھرکم لمبے چوغے کو موردِ الزام ٹھہرایا، اس خیمہ نما چوغے میں آخر وہ کیسے پہچان سکتا ہے۔۔چوغہ اتارا،پھر جاکر خراسانی کو سلام کیا۔ اب کے خراسانی نے شرم وحیا بالائے طاق رکھی اور صاف صاف کہا کہ اے عراقی تو ٹوپی اور چوغہ تو کیا،اپنی کھال بھی اتار ڈالے تو میں نہیں پہچانوں گا۔
یہ انسانوں کی ایک قسم ہے بدترین قسم!ارزل الخلائق!کنجوسی،بخل،سفلہ پن،حرص،زر پرستی،خود غرضی ہوس،طمع،لالچ،اور کم ظرفی۔سب ایک ذات میں جمع ہوجاتے ہیں۔کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔معاشرے میں ان کی تعداد،خدا کا شکر ہے زیادہ نہیں ہوتی مگر اتنی کم بھی نہیں کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ہاں!یہ ہے کہ ان اصلیت دیر سے کھلتی ہے۔ جیسے خراسانی کی اصلیت دیر سے کھلی۔ اگر عراقی کو شمال مشرق کی طرف سفر نہ کرنا پڑتا تو ہوسکتا ہے کہ مرتے دم تک اس پر خراسانی کا کھوکھلا پن ظاہر نہ ہوتا۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔؟ایک بات تو طے ہے کہ علاقوں کے حساب سے یہ تعمیم
 Generalisation
نہیں کی جاسکتی۔ہرگز نہیں!
خراسان ہی کی مثال لیجئے۔کم و بیش اسی علاقے کو اب افغانستان کہتے ہیں۔اگرچہ ایران کے تین صوبوں کے نام خراسان پر ہیں۔شمالی خراسان،خراسان رضوی،اور جنوبی خراسان!مگر چاہے ایرانی خراسان ہو یا افغانستان،مہمان نوازی یہاں کا عام وصف ہے۔عربوں کی مہمان نوازی معروف ہے،مگر دوسری طرف عربی ادب بخیلوں،کنجوسوں،مفت خوروں اور طفیلیوں کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
غور کریں تو اس رویے کے تین اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔سب سے پہلا موروثی اثر ہوگا۔یعنی Genes-سفلہ پن خون میں رواں ہوگا۔دوسراسبب خاص مزاج،خاص کیمسٹری،جو وہ پیدائش سے لے کر آیاہے۔ تیسرا سبب اٹھان،ماحول،گھر کی تربیت، اور گھر کا مخصوص رسم و رواج، مگر یہ اسباب سب آپس میں غلط ملط ہوجاتے ہیں،ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے سگے بہن بھائی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک فضول خرچ،دوسرا پائی پائی سینت کر رکھنے والا۔ایک فیاض،دوسرا کنجوس،ایک دعوتوں پر دعوتیں کرنے والا دوسرا چائے کی پیالی بھی مشکل سے پلانے والا۔ ایک ڈھیروں ملبوسات اکٹھے لینے والا۔ دوسرا ایک پرانی پتلون میں برس ہابرس گزار دینے والا۔انسان ایک عجیب مشینری ہے۔ کوئی سے دو انسان دنیامیں شاید ہی ایک دوسرے کا مثالیہ ہوں۔جون ایلیاء نے کہا تھا۔ 
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ پیش
اب کئی ہجر ہوگئے،اب کئی سال ہوگئے!
اس ضمن میں کوئی فارمولا ہے نہ قائدہ کلیہ، برمکی خاندان کے تمام افراد فیاض تھے،اور حد درجہ سخی۔دادو دہش میں مشہور!خالد برمکی تھا یا جعفر برمکی یا یحییٰ برمکی،کسی کے دروازے سے کوئی خای ہاتھ کبھی نہ لوٹا۔مگر انہی کا ایک بھائی حد درجہ کنجوس تھا۔ نام اس کا اس وقت یاداشت میں نہیں دکھائی دے رہا۔ایک شاعر نے اس کی خِست سے تنگ آکر ہجو لکھی۔ہجو کیا لکھی،قلم توڑ کر رکھ دیا۔ لکھا کہ اگر اس کے پاس بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات کی قطار ہو اور ہر محل کا ہر کمرہ سوئیوں سے بھرا ہو اور اس سے یعقوب علیہ السلام ایک سوئی مانگیں کہ یوسف کی قمیض سینی ہے اور تمام پیغمبر سفارش کریں اور تمام فرشتے گارنٹی دیں کہ سوئی واپس کردی جائے گی،مگر وہ پھر بھی نہیں دے گا اور صاف انکار کردے گا۔ 
ایسے افراد سے ہر کسی کو واسطہ پڑتا ہے۔ایک بار باہر دستک ہوئی،دیکھا تو دو تین لیبر نما اشخاص کھڑے تھے، کہنے لگے پانی پینا ہے،انہیں پانی پلایا، پوچھا کہاں سے آئے ہو۔۔تو سٹریٹ کے ایک محل نما مکان کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ائیر کنڈیشنر نصب کررہے ہیں۔ کئی بار پانی مانگا مگر کسی نے بھی نہیں دیا۔ خدا کی قدرت پر حیر ت ہوئی۔ 
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں،
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے!
چائے کا ایک ایک کپ پلایا، کھانے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک سا تھی کھانا لانے بازار گیا ہے۔
ان دنوں یہ کالم نگار سٹاف کالج لاہور میں تربیتی کورس کر رہا تھا۔ جمعہ کی نماز باغِ جناح میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی مسجد میں ادا کی جاتی۔ایک جمعہ کے دن نماز پڑھ کرواپس آرہا تھاکہ ایک دوست سے ملاقات ہوگئی،کھانے کا وقت تھا،انھیں ساتھ لے آیا،کھانا کھایا،خوب گپ شپ ہوئی،ایک بار ان کے ہاں جانا ہوا۔ساتھ غالباً معروف شاعر اور بنکار ملک فرح یار تھے۔ سرِ شام پہنچے،گھنٹو ں بیٹھے رہے،وہ اٹھنے بھی نہ دیتے، ساڑھے دس بج گئے،کھانا تو کیا چائے کا کپ بھی نظر نہ آیا، بالآخر اجازت لی اور ایک ریستورا ن میں شکم کی آگ بجھائی۔
ایک بہت بڑے محکمے میں یہ کالم نگار ان دنوں سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر کام کر رہا تھا، ایک دن ادارے کے سربراہ نے بلایا، کہا کہ سول سروس کے جس حصے سے ہمارا تعلق ہے اس کی انگریزی عہد سے کچھ روایات چلی آرہی ہیں،ان میں ایک یہ ہے کہ تعلق صرف دفتروں اور فائلوں تک محدود نہیں رہتا۔ہم ہر ماہ ایک دعوت کیا کریں گے جس میں سب اکٹھے ہوا کریں گے۔پہلی دعوت انہوں نے کہا کہ وہ کریں گے کیوں کہ وہ سب سے زیادہ سینئر ہیں،چنانچہ ا نہوں نے دعوت منعقد کی،پھر اس شخص نے،سنیارٹی کے اعتبار سے جس کا نمبر آتا۔چھ سات ماہ یہ سلسلہ جاری رہا،اس کے بعد رک گیا۔دو تین ماہ بعد انہوں نے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا؟بتایا گیا کہ فلاں صاحب کی باری ہے،وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے، دلچسپ بات یہ تھی کہ جن صاحب کی بار ی پر آکر معاملہ اٹک گیا تھا،وہ ہر دعوت میں جوش و خروش سے شریک ہوتے تھے،تاریخ کا تعین کرانے میں پیش پیش رہتے -کبھی کبھی تو فرمائش بھی کرتے تھے کہ بھائی فلاں پکوان ضرور ہونا چاہیے،تین ماہ کے بعد چھ ماہ بھی گزر گئے،ان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی، ایک بار ایک منچلے نوجوان افسر نے پوچھ ڈالا سر!آپ کے بعد فلاں کی باری ہے،وہ دعوت کرنا چاہتے ہیں،اس پر انہو ں نے بہت دھیمے لہجے میں اطلاع دی کہ نہیں باری ان کی ہے،تو وہی کریں گے۔اس کے دو تین ماہ بعد،ان کے ہا ں مدعو ہوئے ایک سال گزر چکا تھا-
کارپوریٹ سیکٹر کے ایک سینئر ٹیکنوکریٹ جو اتنے غیر معروف بھی نہیں،ایک زمانے میں بہت گرم جوشی سے راہ ورسم رکھے ہوئے تھے،جب کراچی سے آتے ضرور ملنے آتے۔ایک مشترکہ دوست بھی اکثر وبیشتر ساتھ ہوتے۔دارالحکومت کے جن سرکاری اداروں،محکموں اور دفتروں میں ان کے کام پھنسے ہوتے۔ان کا بھرپور تذکرہ کرتے۔کوئی مشترکہ ریفرینس مل جاتا تو اسے خوب بروئے کار لاتے،ایک عرصہ اسی طرح ملتے رہے۔یہ کالم نگار اکثر وبیشتر کراچی جاتا مگروقت کی اتنی تنگی ہوتی کہ ان سے رابطہ کرنے کا خیال ہی نہ آتا،یوں بھی شام اپنی شاعر برادری میں گزرتی جس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایک بار قیام نسبتاً لمبا ہوگیا۔آواری ہوٹل میں قیام تھا۔دفعتاً وہ صاحب یاد آئے فون کیا یوں لگا جیسے کوئی اور ہی شخص ہو،شدید مصروفیت کا ذکر اتنے دلگیر لہجے میں کیا کہ ترس ہی آگیا مگر خیر،پتھر کی آنکھ میں اتنی شرم تھی کہ اس کے بعد کبھی شکل نہ دکھائی۔
معروف ادیب اور ڈرامہ نگارمرحوم احمد داؤدکا یہ حال تھا کہ ایک بار مہمان آئے تو گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔جیب بھی خالی تھی!مہمانوں کو بیٹھک میں بٹھایا کتابیں اکٹھی کیں۔موٹر سائیکل پر رکھ کر اولڈ بک شاپ آیا،فروخت کیں پھر بازار سے بہترین مرغن اور پرتکلف کھانا خریدا، اور مہمانوں کو پیش کیا!افسوس۔۔۔احمد داؤد عین شباب میں دنیاسے رخصت ہوا اور دوستوں کو مستقل رنج و محن میں چھوڑ گیا۔
یہ ایک طویل موضوع ہے اور دلچسپ بھی۔ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو فیاض اور کشاد ہ دل افراد کی قدر کون کرے۔بہت سے واقعات یاد آرہے ہیں۔مگر جلدی ہے اس لیے کہ جانا ہے،آپاکشور ناہید کے گھر دعوت ہے۔مہمانوں کو اکٹھا کرنے اور ضیافت کرنے کی بیماری آپا کو بری طرح لاحق ہے۔اب صحت پہلے جیسی نہیں رہی مگر اب بھی بیس بیس تیس تیس مہمانوں کا کھانا اپنے ہاتھ سے تیار کرتی ہیں۔شب دیگ ضرور ہوتی ہے،پودینے والی روٹی دستر خوان کا لازمی جزو ہے۔کیا لوگ ہیں جو دوسروں کو کھلا کر سرور حاصل کرتے ہیں۔یہ وہ مسرت ہے جس کا ذکر الفاظ میں ممکن نہیں۔یہ خدائی وصف ہے جو خدا کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک شخص کو کھانا کھلا رہے تھے،اس دوران گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا وہ آتش پرست ہے،دستر خوان کھینچ لیا،وحی آئی کہ واہ!ابراہیم واہ!اس آتش پرست کو ستر سال سے کھانا کھلا رہا ہوں،تم ایک وقت بھی نہ کھلا سکے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com