روشیں لہو سے بھر گئی ہیں! سفید گلاب کے تختے سرخ ہو گئے ہیں! باغ کے درمیان چلتی نہر کی تہہ میں سنگِ مر مر نہیں‘ گوشت کے لوتھڑے نظر آتے ہیں۔
ماتم کر کر کے تھک گئے ہیں! ہمارے نوجوان ہیں کہ شہید ہوئے جا رہے ہیں! مسلسل! مادرِ وطن لہو مانگے جا رہی ہے! مسلسل! خاک ہے کہ سرخ سے سرخ تر ہونا چاہتی ہے!
میجر علی سلمان کا جنازہ پرسوں شام اُس کے دلگیر باپ نے پڑھا اور الحمد للہ کہا! حوالدار غلام نذیر‘ حوالدار اختر‘ سپاہی عبدالکریم کے بچے یتیم ہو گئے! مائیں کلیجوں پر پھول کاڑھ رہی ہیں! سہاگ اپر دیر کی مٹی میں مل گئے‘ شفق سرخ تھی۔ پھر یہ سرخی غائب ہو گئی۔افق پر زمین اور آسمان ایک ہو گئے۔ خاکِ وطن کی نہ مٹنے والی پیاس نے چار جوان عورتوں کو آن کی آن میں بوڑھا کر دیا! یہ سب کیوں؟ یہ سب کس لیے؟
کارگل اور سیاچین کی چوٹیوں پر‘ ان برفانی مقتلوں میں جہاں موت اپنا پرچم لہرائے کھڑی ہے‘ سفید برف کو دیکھ کر آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔ ہاتھ جھڑ جاتے ہیں! راتوں کو قیامت خیز طوفانی ہوائیں خیمے اکھاڑ لے جاتی ہیں! جوان وہاں قائم ہیں! پتھر کی سلوں کی طرح! خیرہ ہوتی آنکھوں اور جھڑے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ!کس لیے؟
وادی ¿ نیلم کے ساتھ‘ سرحدی مورچوں میں‘ آگ اور خون کے بستر بچھے ہیں جن پر بیٹے باپ‘ شوہر اور بھائی آرام کرتے ہیں! پتھروں کے تکیے ہیں۔ سلوں کے گدّے ہیں! غبار صورتیں تبدیل کر دیتا ہے! گولیوں کی بوچھاڑیں ہیں! کیوں؟کس کے لیے۔؟
اپردیر سے لے کر میران شاہ تک مہمند کی سرحد سے لے کر جنوبی وزیرستان کے سیاہ بنجر پہاڑوں تک سینے تنے
ہوئے ہیں۔ گرد کے مرغولے اٹھتے ہیں! بگولے چکّی کی طرح گھومتے ہیں! دنیا کی پیچیدہ ترین‘ صعوبتوں سے بھری سرحد پر پاک فوج کے جوان زندگیاں بے آب و گیاہ پہاڑوں کے دامن میں بچھائے‘موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کب سے کھڑے ہیں! پاﺅں میں لرزش نہیں! آنکھیں جھپکتی نہیں! ثابت قدم! چٹانوں میں مل کر چٹان ہو گئے! بارود پھٹتا ہے! جسم گرتے ہیں! سبز پرچم خون مانگتا ہے! خون حاضر ہے! کیوں؟ کس کے لیے؟۔
ستر ہزار سے زیادہ عفت مآب خواتین مشرقی پنجاب میں رکھ لی گئیں! بیل گاڑیوں پر رینگتے قافلے لٹ گئے ٹرینیں لاشوں سے اٹ گئیں! بچے ماﺅں سے‘ بیویاں شوہروں سے‘ بچھڑ گئیں! کراچی کی بغل میں ماڑی پور کے ریتلے ٹیلوں کے پاس‘ مہاجرین کی حالت دیکھ کر قائد اعظمؒ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے! جاگیروں کے مالک ‘ زمینوں کے آقا ‘ نواب زادہ لیاقت خان نے آخری ہچکی لی۔ پنڈی کے کمپنی باغ میں پاکستان کو خدا کی حفاظت میں سونپا تو ملکیت میں مکان کوئی نہ تھا! اس شخص نے جس کی دیانت پر پٹیل جیسا خونخوار دشمن بھی انگلی نہ رکھ سکا‘ ایک ایک پائی کی حفاظت کی اپنی جان کو قوم خزانے سے الگ رکھا! کیوں؟ آخر کس لیے؟
پولیس کے سپاہی فرنٹ لائن پر ہیں! دہشت گردی کے سامنے تنی ہوئی فرنٹ لائن پر ! شہادتوں کا شمار مشکل ہے! ہمارے سکول بھک سے اڑ گئے، ہمارے مزار مٹ گئے‘ ہماری مسجدیں شہید ہو گئیں! ہمارے شہریوں کے پرخچے اڑ گئے! کیوں؟ کس کے لیے؟
قوم قربانیاں دے رہی ہے! دیئے جا رہی ہے! مگر کیوں؟کس کے لیے؟
کیا اس لیے کہ مورچوں کے اس طرف ‘ ملک کے اندر‘ لوٹ مار کا بازار گرم رہے؟ حکمران دبئی میں اقامت پذیر ہوں؟ مری میں نظاروں سے لطف اندوز ہوں‘ پھر لندن چلے جائیں ایک عید بھی خاک میں اٹے ہوئے جوانوں کے ساتھ نہ منا سکیں! ایک بھی شہید کی بیوہ کے سر پر ایک بھی یتیم بچے کے رخسار پر ہاتھ نہ رکھ سکیں! دولت کے شمار سے فرصت نہ ہو! آف شور کمپنیوں کے ڈھیر ! لندن! جدہ! نیو یارک! دبئی کے محلات!! ایک ایسا پُر تعیش طرزِ زندگی جسے مغربی ملکوں کے حکمران خواب میں بھی نہ دیکھ سکیں!!
بٹ چکا ہے۔ یہ ملک بٹ چکا ہے۔ قوم دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے! ایک طرف فوج کے جوان ہیں جو نپی تلی تنخواہ پر اپنے کنبوں کو پال رہے ہیں، ایک طرف شہیدوں کے خاندان ہیں جو محدود پنشنوں پر زندگی کی سیاہ رات کو پار کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ کسان ہیں جو ان فصلوں کا بھی لگان دے رہے ہیں جو ابھی کٹی نہیں ہیں! بھٹوں پر کام کرنے والے کنبے ہیں جو نسل در نسل قرضوں میں بندھے ہوئے غلام ہیں! سرکاری سکولوں کے اساتذہ ہیں، مدارس میں پڑھانے والے علماءہیں جو قوتِ لایموت پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ ذہین و فطین طلبہ ہیں جو وسائل نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم کے خواب آنکھوں میں بسائے کلرک لگ جاتے ہیں! ایک اوسط پاکستانی کی ساری عمر۔ جی ہاں۔ ساری زندگی‘ ایک مکان۔ صرف ایک مکان بنانے کا سوچ سکتی ہے زندگی بھر کی کمائی اسی کی نذر ہو جاتی ہے!
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ اس طبقے میں سیاست دان اور حکمران سر فہرست ہیں! ایک ایک وزیر‘ ایک ایک منتخب نمائندہ قوم کو کروڑوں میں پڑتا ہے۔ سرکاری رہائش گاہیں! علاج معالجہ‘ اندرون ملک‘ اور بیرون ملک جہازوں کے ذریعے آمدو رفت‘ ہزاروں گاڑیاں ان میں جلنے والا ایندھن! سب کچھ سرکاری خزانے سے !! ایک ایک کی حفاظت پر متعین کئی کئی پولیس کے جوان اور ان کی موبائل گاڑیاں! ہر زوجہ کے لیے الگ محل‘ ہر محل کو سرکاری رہائش گاہ کا درجہ! پورے پورے خاندان قومی خزانے پر پرورش پا رہے ہیں! بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے سرکاری پروٹوکول ! زکام ہوتا ہے تو چیک اپ کے لیے لندن کا رُخ کرتے ہیں! خدا کا اتنا خوف نہیں کہ بچوں کا نکاح حرم میں کرواتے ہیں تب بھی سرکاری جہازوں کے رُخ موڑ لیتے ہیں! ریاست اور ذات کے درمیان کوئی لکیر نہیں! یہاں تک کہ ایک مدہم مٹتی لکیر تک نہیں نظر آتی!
سابق وزیر اعظم نے ریلی میں چار حکومتوں کے وسائل جھونک دیئے ہیں۔ وفاق پر ان کے حلقہ بگوشوں کا قبضہ ہے۔ پنجاب اپنے خاندان کی مٹھی میں ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر وفاداروں کے پاس ہے!
میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ صرف دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے دو ہزار ملازمین اور سات سو گاڑیاں ریلی میں شامل ہیں۔ دوسرے وفاقی اور صوبائی محکموں کی خدمات کا اسی سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے! بازار بند کرا دیئے گئے ہیں۔ میٹرو بس معطل ہے! ملک کی عدلیہ کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے! آئین اور قانون کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں!
زرداری صاحب پانچ برس ایوانِ صدارت میں متمکن رہے۔ ایوان سے باہر دھماکے ہوتے رہے۔ جسموں کی بوٹیاں اُڑتی رہیں‘ خون بہتا رہا‘ ایک بار بھی باہر نہ نکلے۔ اندر بیٹھ کر ”سیاست“ کرتے رہے۔ سیاست کیا تھی‘ فلاں کو ساتھ ملا لو‘ فلاں کو دور کر دو‘ اس سے پہلے شوکت عزیز‘ پلاسٹک کا وزیر اعظم شہیدوں کے لہو پر پلتا رہا۔ بہادری کا یہ عالم تھا کہ سرکاری محل سے دارالحکومت پولیس کے سربراہ کو فون کیا کہ ایک ایسی پہاڑی بھی محل سے دکھائی دے رہی ہے جس پر بندوق بردار محافظ نہیں ہے! منصوبہ کراچی کا بھی ہوتا تو افتتاح ایوان وزیر اعظم میں کرتا! خاندانی ”وقار“ کا پاس اتنا تھا کہ ملک سے بھاگتے وقت وہ تحائف بھی ساتھ لے گیا جو سرکاری توشہ خانے کی ملکیت تھے!
کتنے علی سلمان‘ کتنے غلام نذیر‘ کتنے اختر کتنے سپاہی عبدالکریم خون دیں گے؟ کس کے لیے؟
No comments:
Post a Comment