Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, October 27, 2018

ہم جنگل میں رہ رہ رہے ہیں


اگر شہر میں باقی ساری یونیورسٹیاں، باقی تمام تعلیمی ادارے ختم ہو جائیں تب بھی اس جامعہ میں اولاد کو داخل کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا۔

خدا کی پناہ! ایک شوہر اپنی منکوحہ کو لینے کے لیے یونیورسٹی جاتا ہے۔ وہاں ایک تنظیم کے ارکان، جو طالب علم ہیں، اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ اس کی بیوی چیختی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے۔ بہت سے لوگ۔ بے حس لوگ۔ پاس کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔

اس تنظیم سے کوئی گلہ نہیں، مجرم کی منت سماجت کبھی نہیں کی جاتی، کوئی ہاتھ جوڑ کر مجرم سے یہ درخواست نہیں کرتا کہ بھائی جان! مہربانی فرمائیے، ازراہ لطف، ازراہ کرم، آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کیجئے گا۔ یوں بھی اس تنظیم کو اور اس کی سرپرست پارٹی کو قائل کرنا کارِ لاحاصل ہے۔ یہ حضرات اپنے جس عمل کو درست سمجھتے ہیں، اسے کیوں نادرست قرار دیں؟ ان کا اپنا موقف ہے۔ ان کے طرز عمل اور طرز فکر میں تضادات کے پلندے سہی، وہ بہرحال اس معاملے میں ایک فریق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی اتھارٹی ایسی ہے جو اس نام نہاد سرپرستی کو، اس مداخلت کو، اس ٹھیکیداری کو ختم کرسکے؟ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں، ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں، دن دیہاڑے، بے شمار لوگوں کی موجودگی میں، ایک شوہر کو اس لیے زدوکوب کیا جاتا ہے کہ وہ ایک لڑکی کے ساتھ کھانا کیوں کھا رہا ہے یا باتیں کیوں کر رہا ہے یا اس کے قریب کیوں بیٹھا ہوا ہے۔ لڑکی چلا چلا کر کہتی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے مگر مارپیٹ جاری رہتی ہے۔ بیسیوں تاویلیں کی جا رہی ہیں۔ گارڈ نے اونچا بولنے سے منع کیا۔ گارڈ کے ساتھ جھگڑا ہوا۔ یہ ہوا، وہ ہوا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ایک خاص طلبہ تنظیم کا نام اس واقعے کے حوالے سے پورے میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے -اور بھی کئی تنظیمیں ہوں گی۔ آخر اس قبیل کے معاملات میں اسی طلبہ تنظیم کا نام ہی کیوں آتا ہے۔ 

اس طلبہ تنظیم کی اپنی اخلاقیات کیا ہیں، اس کی سرپرست پارٹی تقویٰ اور زید کی کس بلندی پر فائز ہے، اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ناقابل تردید شواہد کے ساتھ، مگر اس سے سارا مقدمہ کمزور ہو جائے گا، وہی بات جو اوپر کی گئی کہ مجرم سے کچھ کہنا سننا فضول ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ جرم کس کا ہے، سب جانتے ہیں کہ فسطائیت کا ذمہ دار کون ہے، اس پر کیا بات کی جائے، اس پر کچھ کہنا ریگزار میں پانی بہانے کے برابر ہے۔ 

طرفہ تماشا دیکھیے کہ یہ معاملہ یونیورسٹی ہی کی ڈسپلنری کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ بھائی اگر یہ کمیٹی کسی کام کی ہوتی تو کیا یونیورسٹی میں ڈسپلن کا یہ عالم ہوتا؟ جس کمیٹی کی موجودگی میں ریاست در ریاست کی صورت حال پہلے ہی برپا ہے، وہ اس بکھیڑے کو کیسے حل کرے گی؟ کمیٹی نے مبینہ طور پر شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔ فرض کیجئے، کچھ مقوی ادویات کھا کرکمیٹی میں اتنی جان آ بھی جاتی ہے کہ زدوکوب میں ملوث طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دے، تب بھی اصل مسئلہ تو جوں کا توں رہے گا۔ ایک بڑی، جہازی سائز کی تنظیم سے دو تین یا چند ارکان کو خارج کرنا اور تنظیم کو جوں کا توں یونیورسٹی کے اندر رکھنا، یا رہنے دینا، کہاں کی چارہ گری ہے؟ کنویں سے بیس یا سو یا پانچ ہزار ڈول نکالیں پھر بھی مسئلہ تو حل نہ ہوگا، پانی ناپاک ہی رہے گا۔ 

چانسلر نے یعنی صوبے کے گورنر نے نوٹس لیا بھی تو کیسا نوٹس۔ گورنر صاحب نے رپورٹ وائس چانسلر سے مانگی، یعنی اس چرواہے سے رپورٹ مانگی جا رہی ہے جس نے گوسفند خوروں کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ آئو، ریوڑ کے اندر آئو تم پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ چراگاہ تمہاری اپنی ہے، جو بھیڑ پسند آتی ہے، کھالو۔ واہ گورنرصاحب واہ۔ واہ چانسلر صاحب واہ۔ حضور! آپ پورے صوبے کے بادشاہ ہیں۔ ایک کمزور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں، یوں بھی گورنری اس وقت نمایاں تر ہے۔ آپ یونیورسٹی کے باہر کے افراد سے تفتیش کرائیے۔ یہ تو سادگی کے باوجود میر صاحب کو بھی معلوم تھا کہ جس کے سبب بیمار ہوا جائے، اس سے دوا نہیں لیتے۔ 

فرض کیجئے، اس جامعہ میں بے حیائی عام ہے۔ اخلاقی عیوب زیادہ ہیں، اگر خدانخواستہ، ایسی صورت حال ہے بھی، تو کیا ایک مخصوص پارٹی کی ذیلی تنظیم کو تطہیر کی، تبلیغ کی اور لوگوں کو زدوکوب کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ ؟ اگر دعوت اسلامی والے بھی یہی کام شروع کردیں؟ اگر تبلیغی جماعت والے بھی ڈنڈے اٹھالیں؟ ایک تنظیم لال مسجد والوں کی بھی اگر جامعہ میں پہنچ جائے؟ ایک گروہ تحریک لبیک کی نمائندگی کرتے ہوئے اگر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش شروع کردے؟ اگر اب تک ایسا نہیں ہوا تو یہ محض اتفاق ہے۔ حق تو پھر ان کا بھی اتنا ہی بنتا ہے۔ 

لطیفہ۔ درد ناک لطیفہ۔ یہ ہے کہ ان صالح حضرات کے اپنے نجی تعلیمی اداروں میں اس تطہیر کی قطعاً اجازت نہیں۔ وہاں کسی طلبہ تنظیم کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ ’’اپنی‘‘ طلبہ تنظیم کو بھی نہیں۔ 

مگر والدین کہاں ہیں؟ ان چند والدین کو چھوڑ کر، جو اس طوائف الملوکی کے حامی ہیں، والدین کی اکثریت اس صورت حال پر کسی صورت میں مطمئن نہیں ہوسکتی۔ والدین کی اکثریت اس سے ناخوش ہے اور خائف بھی۔ تو کیا وہ بیٹھے رہیں؟ ان میں سے جو اتنے آسودہ حال ہیں کہ دوسری، خاص طور پر، نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اس یونیورسٹی نما جنگل سے فوراً نکال لیں۔ کل زدوکوب کی اور بے حرمتی کی، باری ان کی بھی آ سکتی ہے۔ آج شوہر پٹا ہے تو کل کسی طالبہ کا باپ بھی اس مکروہ فسطائیت کانشانہ بن سکتا ہے۔ 

رہے وہ والدین جو نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ تمام والدین، چانسلر یعنی گورنر اور وزیراعظم کی خدمت میں درخواست پیش کریں کہ طلبہ تنظیموں کو یونیورسٹیوں سے باہر نکالا جائے، یوں کہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ کسی بھی طلبہ تنظیم کو، خواہ وہ مذہبی ہے یا سیاسی، لسانی ہے علاقائی، کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ چہ جائیکہ ایسی تنظیمیں طاقت کا مظاہرہ کریں اور دہشت پھیلائیں۔ 

بدقسمتی سے اساتذہ میں بھی طلبہ تنظیموں کے ہمدرد موجود ہیں۔ ان اساتذہ کو فوراً ان نجی یونیورسٹیوں میں بھیج دینا چاہیے جو “ صالحین” خود چلا رہے ہیں۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com