Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 02, 2018

کچھ سیاست سے ہٹ کر



دادی عالمِ اضطراب میں کبھی اِدھر جاتی کبھی اُدھر!

بیرون ملک سے تعطیل پر آئے ہوئے چھ سالہ پوتے کے لیے دادا نے ٹیوٹر لگوا دیا تھا کہ اردو پڑھنے لکھنے کی کچھ مشق ہو جائے۔ ابھی بیس پچیس منٹ مشکل سے ہوئے تھے۔ بچے کا والد بھی وہیں بچے کے پاس بیٹھا تھا۔ مگر دادی کا خیال تھا کہ پوتا تھک گیا ہو گا۔

دادی جان کی خدمت میں عرض کیا کہ بچہ آرے سے پیڑ تو نہیں کاٹ رہا کہ تھک گیا ہے! دادی کا استدلال یہ تھا کہ بچہ تعطیلات گزارنے آیا ہے! بالآخر بیٹھک میں جا کر ٹیوٹر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اسے چھٹی دے دیجیے دادی کی جان پر بنی ہے!!

ذہن میں نصف صدی سے زیادہ پہلے کی فلم چلنے لگی۔ دادا نے یعنی اس کالم نگار نے پہلی جماعت کا آغاز گائوں کے پرائمری سکول سے کیا تھا۔ ماسٹر صاحب کا نام منشی نور حسین تھا جو دادی جان کے دور پار کے رشتہ دار تھے۔ ان کے گائوں کا نام گلی جاگیر تھا۔ وہاں سے سائیکل پر آتے۔ کبھی کبھی‘ چھٹی کے بعد ہمارے گھر تشریف لاتے۔ کھانا کھاتے‘ چائے پیتے اور گھنٹوں دادا جان اور دادی جان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے۔ یہاں یہ یاد دلا نامناسب نہ ہو گا کہ دیہاتی زندگی میں’’مخلوط‘‘ محفلوں پر پابندی نہ تھی سب ایک دوسرے کے بھائی بہن‘ چاچے‘ مامے‘ بیٹیاں‘ بیٹے تھے۔ ہاں تعزیتی نشستیں الگ الگ ہوتیں۔ نہ صرف یہ کہ مرد عورتیں مل کر بیٹھتے بلکہ عورتیں روزی کمانے میں مردوں کا ساتھ دیتیں-

آج جو حضرات خواتین کی ملازمتوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کی ساٹھ ستر فیصد خواتین ‘ بستیوں اور قریوں میں کھیتوں کا کام نمٹاتی ہیں‘ فصل کاٹتی ہیں‘ مویشیوں کو پانی پلانے تالابوں دریائوں تک لے جاتی ہیں! ساتھ بچے بھی سنبھالتی ہیں۔ مہمان داری بھی کرتی ہیں‘ کھانا پکانا بھی کرتی ہیں‘ مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہیں‘ گوبر ٹھکانے لگاتی ہیں۔ شہر میں بھی عورت ملازمت کر لے تو کوئی آفت نہیں آتی۔ روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ایک خاتون ہی کو مدینہ کے بازار کی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔ یہ اور بات کہ بچے چھوٹے ہوں تو شہر کی عورت ملازمت کو بے شک کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر دے یہاں تک کہ بچے بڑے ہو جائیں! جوائنٹ فیملی(مشترکہ خاندان) کی جو سہولت گائوں کی عورت کو میسر ہے شہر کی عورت‘ کم و بیش‘ اس سے محروم ہے! وہاں تو جب وہ کھیتوں میں کام کر رہی ہو تو بچوں کو دادی یا نانی یا چچی یا خالہ یا پھوپھو سنبھال لیتی ہے۔

اب اس بات سے تو کشور ناہید آپا بھی اتفاق کریں گی کہ شہر کی عورت کا ملازمت کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کھانا اکثر و بیشتر باہر سے منگوایا جائے۔ یہ جو نئی افتاد آن پڑی ہے کہ فون کیجیے اور آدھے گھنٹے میں اَدھ پکا پِزا یا وحشت ناک برگر گھر پر پہنچا دیا جائے گا‘ اس افتاد نے پورے گھر کے کھانے پینے کی ثقافت کو ایک نیا ہی رُخ دے دیا ہے!

پہلے ریفریجریٹر آئے اور ہم تازہ کھانوں سے محروم ہو گئے۔ پھر یہ ہوا کہ شوہر یا بیٹے کو فون کھڑکائو کہ آتے ہوئے بازار سے بریانی یا چکن ہانڈی لیتا آئے۔اب خواتین اور بچے لانے والوں کے بھی محتاج نہیں رہے۔ انٹرنیٹ پر فون تلاش کیجیے اور کھانا گھر منگوائیے۔ ایسی کمپنیاں وجود میں آ چکی ہیں جن کا کاروبار ہی یہی ہے کہ کھانا ریستوران سے لے کر گھروں میں پہنچائیں اور پہنچانے کا معاوضہ کھڑے کھڑے وصول کر لیں۔

منشی نور حسین صاحب کے ہاتھ میں ہمہ وقت کالے رنگ کا ایک ڈنڈا رہتا تھا۔ سارا پرائمری سکول ایک ہی بڑے ہال نما کمرے میں واقع تھا۔ سب جماعتوں کے بچے وہیں بیٹھتے تھے۔ ایک ہی استاد سب کو پڑھاتا تھا۔ دادیاں اس وقت بھی دادیاں تھیں اور اس ماڈرن زمانے میں بھی دادیاں ہیں۔ دادی جان تنور سے روٹیاں اتارتیں تو دو منٹ کے پیدل فاصلے پر سکول پہنچ جاتیں اور منشی صاحب سے کہتیں’’بچے کو ذرا لیے جا رہی ہوں۔اس نے کھانا کھانا ہے!’’منشی صاحب کمال شفقت سے اجازت دے دیتے۔ شاید اس میں رشتہ داری کا بھی کردار تھا۔ گھر لا کر‘ تنور کی گرم روٹی پر ڈھیر سارا مکھن اور شکر ڈال کر دادی جان منہ میں نوالے ڈالتیں۔ ساتھ دودھ یا لسی ہوتی۔ کبھی کبھی میں واپس سکول جانے سے انکار کردیتا۔ دادی جان فوراً مان جاتیں مگر دادا جان ایسے میں جلال میں آ جاتے۔ دادی جان ہتھیار ڈال دیتیں اور بچے کو پھر سکول بھیج دیا جاتا۔

سکول یعنی کمرے کے باہر کھلا صحن تھا ایک طرف گڑھے میں ٹوٹا ہوا گھڑا گڑا تھا اس میں پانی ہوتا۔ یہیں ہم اپنی اپنی تختیاں دھوتے اور سکھانے کے لیے ہاتھ میں پکڑ کر تختی کو آگے پیچھے لہراتے جیسے جُھولا جُھلا رہے ہوں۔ خود کُشی کو خودکَشی کہنے پر جب دادا جان نے تھپڑ رسید کیا تھا اور کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کس کا پوتا ہے۔ تو دادی جان نے دادا جان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تھپڑ ایک بار اور بھی پڑا۔ دادا جان گھوڑی پر سوار ہو کر سفر پر جاتے تو ایک ملازم ساتھ ہوتا جس کا بنیادی کام گھوڑی کی دیکھ بھال ہوتا۔ اس ملازم کو نام لے کر بلایا تو تھپڑ پڑا کہ وہ چاچا ہے۔ نام لے کر نہیں بلانا!

دادیوں‘ نانیوں اور دادوں‘ نانوں سے بچوں کے ماں باپ ایک احمقانہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ

’’ہمیں تو آپ خوب کھینچ کر رکھتے تھے‘ انہیں کچھ نہیں کہنے دیتے۔‘‘

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب خوب کھینچ کر رکھتے تھے‘ اُس وقت ماں باپ تھے‘ وہ کردار ماں باپ کا تھا۔ اب دادا دادی یا نانا نانی ہیں۔ وقت نے کردار بدل ڈالا ہے! اب بچوں سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔ اپنے بچے چھوٹے تھے تو غمِ روزگار نے جکڑ رکھا تھا۔ سارا دن دفترمیں یا دکان پر گزرتا۔ شام کو تکان غالب آ جاتی!!

انگریزی کا محاورہ ہے کہ دادا دادی نانا نانی اِدھر دروازے سے گھر میں داخل ہوئے اُدھر ڈسپلن کھڑکی کے راستے باہر کود گیا۔ اب کہاں کا نظم و ضبط اور کہاں کی پابندی! جن دنوں چین میں وَن چائلڈ پالیسی عروج پر تھی یعنی صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی تو عجیب عجیب مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہفتہ ختم ہونے کو ہوتا تو اِدھر سے دادا دادی سکول پہنچ جاتے۔ اُدھر سے نانا نانی دونوں کی خواہش ہوتی کہ بچہ سنیچر اور ایتوار ان کے ساتھ گزارے۔ اس پر اچھے خاصے جھگڑتے ہوئے! ان بچوں کی دونوں گھروں میں خوب خاطر مدارت ہوتی کہ ایک ہی نواسا ہوتا اور وہی واحد پوتا بھی ہوتا۔یہ نسل جوان ہوئی تو جسمانی طور پر موٹی نکلی اور رویے میں بدتمیز اور گستاخ !لاڈ پیار نے یہ دن دکھایا!

غالباً کینیڈا کا ایک ریستوران تھا جہاں ایک سفید فام بڑھیا‘ انواع و اقسام کے ماکولات بچے کے سامنے رکھے کھلائے جا رہی تھی۔ پوچھا‘ نواسا ہے یا پوتا؟ کہنے لگی نواسا! کہا بچوں کے ماں باپ الزام لگاتے ہیں کہ ہم انہیں بگاڑ رہے ہیں۔ چمک کر بولی ہاں! ہم بگاڑتے ہیں اور بگاڑیں گے! میں نانی ہوں‘ لاڈ پیار نہیں کروں گی تو کیا ماروں گی؟ اور میں بھی لاڈ پیار نہ کروں تو کون کرے گا؟

بچپن انہی بچوں کا بھر پور گزرتا ہے جنہیں یہ نعمت میسرہو!!۔











Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com