شکیب جلالی نے کہا تھا:
یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
کیا معلوم تھا کہ بہشت صرف چند فرسنگ کے فاصلے پر ہے
اےاہل پاکستان! تمہارے درد کے دن ختم ہونے کو ہیں، یہ جو تم اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، بیٹیوں کے فراق میں تڑپتے رہتے ہو، یہ جو تم ہفتے میں کئی بار سکائپ پر اور وٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر اور میسنجر پر سمندر پار رہنے والے عزیزوں سے باتیں کر کے جدائی کی پیاس بھڑکاتے رہتے ہو، اب اس کی ضرورت نہیں۔ انہیں کہو واپس آ جائیں، ان کے پاس امریکہ کی شہریت ہے یا یورپی ملکوں کی، جاپان کی یا آسٹریلیا کی، ان کے منہ پر ماریں، جہاز میں بیٹھیں اور اپنے وطن واپس آئیں۔ بہت ہو چکا سفید فام قوموں پرانحصار، قدرت نے ایک اور دروازہ کھولا ہے۔
قوم کے محسن، پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے سیاسی عبقری، مسلم لیگ ن کے عظیم اتحادی میاں نوازشریف کے جگری یار اور عالم بے بدل فاضل اجل حضرت مولانا کے جڑواں ساتھی خان محمود اچکزئی نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کی شہریت حاصل کریں۔ فرمایا ہے کہ لاکھوں پاکستانی دوسرے ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں تو پاکستان کے پشتون افغانستان کے شہری کیوں نہیں بن سکتے؟
پنجاب میں بسنے والے اور کاروبار کرنے والے لاکھوں پشتونوں کے لیے کتنی بڑی خوش خبری ہے کہ ظالم پنجابیوں سے انہیں نجات ملے گی۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی سے ہمارے پشتون بھائی قطار اندر قطار افغانستان جائیں گے اور وہاں شہریت لیں گے۔ کراچی سے بھی کروڑوں نہیں تو لاکھوں پشتون افغانستان جائیں گے۔ کیا ضرورت ہے انہیں کراچی کی دھوپ میں جلنے کی اور مرطوب آب و ہوا میں پھیپھڑوں کو زنگ آلود کرنے کی۔
صرف ایک التجا ہے محمود خان اچکزئی سے، گڑ گڑا کر التجا کرتے ہیں کہ خدارا یہ خوش خبری صرف پشتونوں تک محدود نہ رکھو۔ سارے پاکستانیوں کو افغانستان کی شہریت کا حقدار قرار دو۔ خدا تمہیں جزا دے۔ اچھی جزا، احسن الجزا۔
اب ہمارے بچے جو آکسفورڈ، ہارورڈ، کیمبرج، کولمبیا اور برکلے یونیورسٹیوں کے لیے پردیس کا بن باس کاٹتے ہیں، قندھار، خوست اور جلال آباد کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اتوار کے دن بس میں بیٹھے اور چند گھنٹوں بعد راولپنڈی، کراچی یا لاہور پشاور پہنچ گئے۔ اس سے زیادہ خوش بختی کیا ہوگی۔ پیر کے دن صبح واپس۔
حیرت اس پر ہے کہ یہ روشنی محمود خان اچکزئی نے پہلے کیوں نہ دکھائی۔ پاکستانی قوم کب سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کوئی راہ نجات نہ تھی، ہمارے پروفیسر، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے انجینئر، ہمارے آئی ٹی کے ماہرین، سفید فام ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر قطاریں باندھے کھڑے رہتے تھے۔ اب افغانستان کی شہریت کھلے گی تو دلدر سارے دور ہو جائیں گے۔ اے محمود خان اچکزئی! تمہارے منہ میں گھی شکر، قوم کا حقیقی محسن اگر کوئی ہے تو اے بطل جلیل، تم ہو، فقط تم۔
اب ہمارے ماہرین امراض قلب، یعنی کارڈیالوجسٹ، ہمارے سرجن، ہمارے آئی سپیشلسٹ، اب ہیوسٹن، نیویارک لندن اور سڈنی کے ہسپتالوں کو خیرباد کہہ کر کابل کے اس بڑے ہسپتال میں کام کریں گے جوساری دنیا میں دل کے امراض کے لیے مشہور ہے۔ جہاں گردوں اور جگر کی پیوندکاری ہوتی ہے جہاں ہر روز ہزاروں مریضوں کے کامیاب آپریشن ہوتے ہیں۔ اور یہ ہمیں ٹیکنالوجی، لائف سیونگ ادویات، کاریں، ریفریجریٹر، ٹیلی ویژن سیٹ اور موبائل فون، دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اب ہم افغانستاان سے منگوائیں گے۔ مگ طیارے ہوں یا تھنڈر جنگی ہوائی جہاز، ہرات اور مزار شریف کے کاخانوں سے ان کے پرزے ہمیں محمود خان اچکزئی سستے داموں دلوائیں گے۔ ہمارے مزدوروں کو افغانستان کی صنعتوں میں روزگار ملے گا۔ یہ جو جلال آباد، غزنی، بامیان، ہرات اور غور میں اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں چل رہی ہیں، اب ہم پاکستانی، افغان شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں مزدوری کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔
بس ایک گزارش ہے محسن قوم جناب محمود اچکزئی سے کہ سب سے پہلے آپ خود افغان شہریت لیں اور وہاں جا کر مقیم ہو جائیں۔ یہ جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ آپ افغان پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں مگر نہیں بنوا سکتے اس لیے کہ آپ پاکستان میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو جان برادر، یہ کیا بات کی تم نے، پاکستانی انتخابات اور پاکستانی اسمبلی کی ممبری کی اوقات ہی کیا ہے۔ افغان شہریت کے سامنے، ارے بھائی، اچکزئی، کیوں ہیرے کے مقابلے میں انگار ےکو ترجیح دیتے ہو۔ دو حرف بھیجو پاکستانی انتخابات پر افغان شہریت لو، اس نعمت سے خدارا اپنے آپ کو محروم نہ کرو، وہاں جا کر ان پاکستانیوں کا استقبال کرو جو یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے، ہسپتالوں میں علاج کرانے اور افغانستان کی صنعتوں میں روزگار تلاش کرنے پاکستان سے جوق در جوق پہنچیں گے۔ آپ کی وہاں سنہری موجودگی کا فائدہ پاکستانی نوواردوں کو بے حدو بے حساب ہوگا۔ چونکہ افغانستان کی محبت آپ کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے، اس لیے آپ کے طفیل افغان قوم اور افغان حکومت پاکستانی ضرورت مندوں کو بہتر اسلوب میں خوش آمدید کہے گی۔
ایک کرم اور اس مفلوک الحال ملک پر کیجئے کہ جب آپ دنیا کے اس امیر ترین اور سب سے زیادہ پرامن ملک میں جائیں تو مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔ ایک تو ان کا آپ کے بغیر دل نہیں لگے گا، دوسرے، انتخابات میں جس دھاندلی کا رونا آپ رو رہے ہیں اس میں آپ کے پارٹی ارکان کے مقابلے میں مولانا کی ایم ایم اے کے ممبران ہی تو جیتے ہیں۔ دونوں بھائی یہاں ساتھ ہیں تو وہاں بھی ساتھ ہی رہیے۔
اور ہاں آخری گزارش! جب آپ اپنی ارض موعود
(Promised Land)
میں جائیں تو ان ذات شریف کو بھی ساتھ لے جائیے جو آپ کے نظریہ کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں اور جنہوں نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ
’’اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے۔ میری سیاست اسی نظریے پر چلے گی اور یہ کہ خان عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی۔‘‘
سوچیے! آپ اپنے پسندیدہ جنت نظیر ملک کو سدھار جائیں گے تو ان ذات شریف کا دل آپ کے بغیر کیسے لگے گا؟ ازراہ عنایت! انہیں ساتھ لے جائیے۔ انہیں بھی افغانستان کی شہریت دلوا دیجئے اور انہیں کہیے کہ لندن کی جائیدادیں فروخت کرکے وہیں، آپ کے ساتھ مقیم ہو جائیں۔
   
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment