Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, October 21, 2018

2082ء



وہ رات کروٹیں بدلتے گزری آنکھ لگتی تو ایک آنسو نظر آتا۔ آنکھ سے ٹکپتا ہوا‘ رخسار پر گرتا ہوا۔

کمپیوٹر پر فیس ٹائم لگا کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ناراض ہو کر جب بُت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھ جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں پکوڑا بنی ہوئی ہے۔اس وقت وہ پکوڑا بنی ہوئی تھی۔ ہزاروں میل دور بیٹھا‘ میں اسے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مشکل کے بعد وہ ایک ثانیے کے لیے ہنسی مگر عین اسی وقت آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور گال پر گرا۔ ایک ٹکڑا میرے کلیجے سے کٹ کر میرے حلق میں آ گیا۔ پوچھا کیوں رو رہی ہے۔ بتایا گیا کھانا نہیں کھارہی تھی۔ ابا نے ڈانٹا۔ اب میرا اندازہ یہ تھا کہ ابا نے ایک ہلکا پھلکا ہاتھ بھی ٹکا دیا ہو گا!

پانچ دس منٹ بعد وہ سب کچھ بھول کر کھیل میں مصروف ہو گئی ہو گی مگر میں اپنی افتاد طبع کا کیا کروں کہ وہ آنسو دل میں جیسے چھید کر گیا۔ رات تک بارہا تصور میں اسی آنسو کو ٹپکتے دیکھا۔ زہرا کا چہرہ سامنے آ جاتا۔ پھر نم آنکھیں۔ چھلکتی ہوئی! پھر گرتا ہوا آنسو! آنکھ لگتی! پھر کھلتی! پھر لگتیٖ پھرکھل جاتی! یہ خیال بھی آیا کہ ویزا تو لگا ہوا ہے۔ سیٹ بُک کرا کر چلا جاتا ہوں۔ پھر وہ مصروفیات یاد آئیں جو آنے والے دنوں اور ہفتوں کے لیے طے ہو چکی ہیں۔ یوں بھی اچانک جانے کا پروگرام بناتا تو سب گھر والوں نے کہنا تھا کہ بچے روتے رہتے ہیں! اس میں ایسی کیا بات ہے کہ مسئلہ بنایا ہوا ہے! پھر ایک ڈھارس بندھی کہ دو ماہ بعد ان لوگوں نے پاکستان چھٹی آنا ہے! کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا! مگر ایک بے کلی چھائی رہی! ایک پژمردگی تھی جو اندر‘ دل کے صحن میں ٹہلتی رہی! ادھر سے اُدھر۔ ہاتھ پیچھے باندھے۔ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک!!

گزشتہ برس آئی تو پانچ برس کی تھی۔ ایک دن جانے کیا خیال آیا‘ کپڑا لیا اور صفائی پر کمر باندھ لی۔ پہلے لائونج کے صوفے صاف کئے ۔ پھر کچن کا کائونٹر اور الماریوں کے دروازے۔ پھر ریفریجریٹر ۔ پھر کھیلنے کے لیے کاغذ کی وہ چٹیں مانگیں جن پر ایک طرف گوند لگی ہوتی ہے اور دیوار پر یا کسی بھی جگہ فوراً چسپاں ہو جاتی ہیں۔ ساری دیواریں چٹوں سے بھر دیں۔ پھر جہاز اُسے واپس لے گیا۔ اس کے جانے کے بعد دیکھا تو ایک چٹ خواب گاہ کی دیوار کے ساتھ لگی تھی۔ اس پر الٹی سیدھی لکیریں کھنچی ہیں -صفائی کرنے والے لڑکے کو زہرہ کی دادی نے اور میں نے بیک وقت کہا کہ اس چٹ کو نہیں اتارنا۔ سال سے زیادہ عرصہ ہوا۔ اسی طرح لگی ہے۔ ان الٹی سیدھی لکیروں میں داستانیں چھپی ہیں اور کہانیاں! ان لکیروں میں اس کی معصوم باتیں ہیں! ان لیکروں میں ایک بچپن بھرا ہے! ہنستا مسکراتا ‘ کھلکھلاتا ‘ لہلہاتا ! فرشتوں جیسی باتیں!

ایک دن ماں یا دادی کی لپ سٹک اٹھائے اپنا میک اپ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے کہا مجھے بھی لگائیے، کہنے لگی‘ نہیں! اس واسطے کہ تُسی بوائے او! بیرون ملک جب تک رہتا ہوں‘ ساتھ ساتھ رہتی ہے گھر سے باہر جانے لگتا ہوں تو جیسے ہی دروازے کے پاس جا کر جوتے پہننے لگتا ہوں‘ نہ جانے کیسے اسے خبر ہو جاتی ہے۔ کہیں سے یک دم نمودار ہوتی ہے اور پوچھتی ہے تُسی کتھے وینے پَو(یہ آخر والا پَو۔ اس کی اپنی اختراع ہے) پھر کہتی ہے میں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ فوراً جوتے پہنے گی اور ساتھ ہو لے گی!

یاد نہیں یہ واقعہ کہاں پڑھا تھا۔ ایک امریکی تھا۔ دانشور یا مصنف یا شاید ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ! اسے وائٹ ہائوس سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ کہ امریکہ کے صدر اس اتوار کو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کسی معاملے پر مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ سو اتنے بجے تشریف لے آئیے! عمر رسیدہ شخص نے معذرت کی کہ میں اُس دن ایک طے شدہ پروگرام کی بنا پر مصروف ہوں۔ وائٹ ہائوس کے اہلکار نے تعجب سے پوچھا۔ حضور!امریکہ کے صدر کے ساتھ ملاقات سے زیادہ ضروری بھی کوئی مصروفیت ہو سکتی؟ جواب دیا! ہاں! یہ مصروفیت اس سے بھی زیادہ ضروری ہے! پوچھا کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ پوتی کو چڑیا گھر لے جانا ہے ! وائٹ ہائوس کا سیکرٹری ہنسا اور کہا سر! یہ بھی کوئی بات ہے بھلا! پوتی کو آپ اگلے اتوار کو لے جائیے۔ بوڑھے نے کہا نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! امریکی صدر اس قدر مصروف ہے کہ مجھ سے ملاقات کرنے کے ایک گھنٹہ بعد اُسے یہ ملاقات یاد ہی نہیں رہے گی۔ مگر پوتی چڑیا گھر کی اس سیر کو ساری زندگی یاد رکھے گی۔یہ اس کی یادداشت کا ایسا حصہ ہوگا جو ہمیشہ تروتازہ رہے گا!

وقت گزر جاتا ہے۔ مگر دادا دادی اور نانا نانی کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے ساعتیں‘ دن اور ہفتے ہمیشہ یاد رہتے ہیں! یہ آٹو بائیو گرافی ذہن کے صفحات پر لکھی ہوتی ہے دل کی آنکھیں اسے پڑھتی رہتی ہیں! پھروہ وقت آتا ہے جب اسے پڑھتے پڑھتے آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں! پھر بال چاندی ہونے لگتے ہیں! چہرے پر جھریوں کا قافلہ اترنے لگتا ہے! ایسے میں وہ وقت زیادہ شدت سے یاد آتا ہے جب پوتے یا نواسے کے طور پر‘ یا پوتی یا نواسی کی حیثیت سے شہزادوں اور شہزادیوں جیسی زندگی گزاری تھی! زمانہ‘ وقت کی شال اوڑھے سامنے کھڑا ہے! ایک انچ چلتا ہے تو برس گزر جاتے ہیں! پورا قدم اٹھاتا ہے تو ایک پوری زندگی افق کے اس پار اتر جاتی ہے!

2082
ء
 میں خدا اسے سلامت رکھے‘ زہرا ستر سال کی ہو گی! دادا کو زیر زمین منتقل ہوئے نصف صدی بیت چکی ہو گی! اس کے خوبصورت ‘ نرم‘ ریشمی بالوں میں نقرئی جھلک آ چکی ہو گی! وہ اپنے پوتوں اور نواسیوں کو بتایا کرے گی کہ بچو! تم کیا جانو! میں تو شہزادیوں کی طرح تھی! ایک آنسو بحرالکاہل کے کنارے‘ آنکھ سے ٹپکا تھا تو ہزاروں میل دُور‘ ہمالیہ کے جنوبی دامن میں‘ دادا رات بھر تڑپتا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اڑ کر میرے پاس پہنچ جائے! میرے ہاتھ سے کھینچی ہوئی بے معنی لکیریں اس کے لیے صحیفے کی حیثیت رکھتی تھیں ؎

یوں تھا کہ میں بھی چاند تھی‘ دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے

وہ میرے ننھے ننھے جوتوں کو سنبھال کر رکھتا تھا۔ میرے ایک ایک کھلونے کی حفاظت کرتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا تھا۔ میرے ابا نے جب مجھے ڈانٹنا ہوتا تو میرے دادا سے چُھپ کر‘ ڈانٹتا تھا۔ یہی کہانی ہمارے ہاں نسل درنسل چلی آ رہی ہے۔ اس لیے کہ جب ابا کو دادا نے ڈانٹنا تھا تو اسے لے کر بالائی منزل پر گئے۔ مڑ کر دیکھا تو ابا کے دادا بھی پیچھے پیچھے آ رہے تھے کہ پوتے کو ڈانٹ سے بچا سکیں!!

ہر شخص اتنا خوش بخت نہیں کہ اُسے یہ میوہ نصیب ہو! دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش اس لذت کے سامنے ہیچ ہے! اس آسمانی درخت کی چھائوں عام نہیں! خاص ہے! نصیب اچھا ہے تو میسر آئے گی! میسر آئے تو بخت پر ناز کیجیے کہ یہ نعمت زور سے اور زر سے نہیں ملتی! اس درخت کا تنا چاندی کا ہے۔ پتے لعل و جواہر ہیں! اس پر بہشتی پھل لگے ہیں۔ کیا خوبصورت پرندے ہیں جو اس کی سنہری شاخوں پر بیٹھے ہیں! پروردگار کا شکر ادا کیجئے جس نے آپ کو ایک خاص مراعات یافتہ 
Elite
کا رکن بنایا ہے
۔ ؎

پو توں نواسیوں کے چمن زار واہ!واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com