Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, October 20, 2018

سال درکار ہیں یا نوری سال ؟



جرم کا علم اس کے گھر والوں کو دوسرے دن ہی ہو گیا تھا۔

قتل کے دوسرے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ چھوٹے بھائی نے فوٹیج دیکھ کر اسے پہچان لیا، گھر والوں کو بھی بتا دیا۔ یہ انکار کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اس کا کوئی ہم شکل ہے جو فوٹیج میں نظر آ رہا ہے، تاہم اس نے ماں کو دودن بعد ساری بات بتا دی۔ ماں نے ٹوپی اور جیکٹ اتروا کر چھپا دی۔ رفتہ رفتہ بات رشتہ داروں تک پہنچ گئی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پکڑوا کر ایک کروڑ روپے کا انعام لیں اور خاندان کے غربت زدہ حالات سنوارلیں مگر ماں سب کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی پھر محلے میں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آ گئے۔ اس نے بھی ٹیسٹ کروایا اور پاک پتن بھاگ گیا۔ واپس آیا تو ماں نے کئی دن تک گھر سے نہ نکلنے دیا

آٹھ معصوم بچیوں کی آبرو ریزی کرنے والے اور پھر قتل کر دینے والے مجرم کو پھانسی تو چند روز پہلے دے دی گئی ہے مگر ایک سوالیہ نشان فضائوں میں تیر رہا ہے۔ زینب اس کا آخری نشانہ تھی۔ زینب کا والد پھانسی گھاٹ کے پاس مجرم کا انجام دیکھ رہا تھا۔ یہ اور بات کہ باقی بچیوں کے والدین وہاں نہیں تھے۔

یہ قوم عجیب و غریب ہے۔ سارا زور تقریروں پر ہے اوراپنی تاریخ سے بار بار واقعات سن سنا کر فخر کرنے پر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا واعظ خطیب، استاد، دانشور، لکھاری اور مبلغ ہو جس نے رسالت مآبﷺ کا یہ قول مبارک نہ سنایا ہو کہ فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ مگر عمل کا احوال یہ ہے کہ ہر خاندان، ہر قبیلہ، ہر گروہ، ہر صوبہ، ہر لسانی اکائی، ہر محکمہ، ہر ادارہ، مجرموں کو پناہ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ ماں بچے کو قانون سے بچا رہی ہے۔ باپ بیٹے کو چھپائے ہوئے ہے۔ بہن بھائی کے جرم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اہل مذہب اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنے پر آمادہ نہیں۔ جب بھی کسی واعظ کا جرم سامنے آتا ہے، ’’بزرگ‘‘ یا ’’اکابر‘‘ جمع ہو کر کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ ایک معروف مذہبی شخصیت کی بیگم نے میاں پر سنگین الزامات لگائے مگر وہ اب بھی منبر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل دارالحکومت میں پیش آیا تھا۔ ایک مسجد کے امام نے اوراق کی توہین کی تھی۔ اسے کیا سزا ملی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔

سب سے ابتر صورت حال سیاسی جماعتوں کی ہے۔ ایان علی ہو یا ڈاکٹر عاصم، شہباز شریف ہو یا جہانگیر ترین یا کوئی اور، کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ قانون کا رخ اس کی صفوں کی طرف ہو۔ سب کو معلوم ہے کہ فلاں فلاں نے کرپشن کی ہے اور اتنی کی ہے مگر آہ و فغاں کیے بغیر سب مزے میں ہیں۔

زینب کے قاتل کی ماں ایک ان پڑھ یا مشکل سے نیم خواندہ عورت ہوگی۔ اسے کیا مطعون کیا جائے اور اس سے کیا شکوہ کیا جائے۔ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور طبقہ بالا کے ارکان مجرموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کے ڈیرے پولیس کے دائرہ اختیار سے کوسوں باہر ہیں۔ اشتہاری مجرم برسوں وہاں مقیم رہتے ہیں۔ سر پر کسی نہ کسی وڈیرے یا منتخب نمائندے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ گائوں کے، تحصیل بھر کے اور ضلع بھر کے عوام کے علم میں ہوتا ہے کہ مجرم یہاں موجود ہے مگر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

مجرموں کو پناہ دینے کا عمل دوطرفہ ہے۔ اگر مجرم کسی مفلوک الحال محلے میں رہنے والا غریب انسان ہے، جیسے زینب کا قاتل، تو اس کی ماں یا باپ یا رشتہ دار اسے چھپاتے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچاتے ہیں۔ مجرم اگر امرا کے طبقے سے ہے تو پولیس خود تجاہل عارفانہ برتتی ہے، کبھی ڈر کے مارے، کبھی لالچ کے زیر اثر اور کبھی ’’تعلقات‘‘ قائم کرنے کے لیے۔

یہ چند برس پہلے کی بات ہے۔ ایک اہم ادارے میں ملازمت کرنے والے بڑے افسر کی کار چوری ہو گئی۔ اس کا جواں سال فرزند ایک دن بازار میں تھا کہ اسے اپنی گاڑی نظر آئی۔ اس نے فوراً والد کو فون کیا۔ والد نے کہا میں پہنچتا ہوں تم گاڑی پر نظر رکھو۔ ابھی گاڑی کا مالک یعنی جواں سال لڑکے کا باپ پہنچا نہیں تھا کہ کار چل پڑی۔ لڑکے نے فوراً باپ کو فون پر بتایا کہ ایک آنٹی کار ڈرائیو کرکے جا رہی ہیں۔ باپ نے ہدایت کی کہ پیچھا کرو۔ لڑکا تعاقب کرنے لگ گیا۔ گاڑی بازار سے باہر نکلی اور سڑکوں سے ہوتی ایک گھر کے سامنے رکی۔ بقول لڑکے کے آنٹی اتری اور گھر میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد باہر آئی، گاری میں بیٹھی اور قریب ہی ایک اور گھر میں چلی گئی۔ وہاں سے وہ باہر نہ نکلی۔ لڑکے کو جب یقین ہو گیا کہ یہ ’’آنٹی‘‘ کا گھر ہی ہوگا تو وہ پلٹا اور باپ کو لے آیا۔ باپ نے دیکھا تو یہ اسی کی غائب شدہ گاڑی تھی۔ خاتون سے بات کی تو اس نے دعویدار کو اندر آ کر گاڑی چیک کرنے کی اجازت ہی نہ دی۔ پھر ایک تیسرا شخص درمیان میں ڈالا گیا۔ اس نے مالک کی بتائی ہوئی نشانیوں کی مدد سے تصدیق کی کہ گاڑی وہی ہے۔ لوگ بااثر تھے۔ بہت زیادہ بااثر۔ خاتون پہلے جس گھر میں گئی تھی وہ اس کے انتہائی قریبی عزیز تھے اور بہت بڑی، بہت بڑی شخصیت تھے۔ خاتون بھی معروف کاروباری شخصیت تھی۔ گاڑی کے مالک نے بڑی شخصیت سے رابطہ کیا تو ان کا موقف واضح تھا کہ میرا اس معاملے سے کیا تعلق۔ رہی خاتون تو وہ بات کم کرتی تھی دھونس زیادہ جماتی تھی۔ بے بس مالک نے پولیس سے لے کر پریس تک ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہر تعلق آزمایا جو دوڑ دھوپ گریڈ بیس کے اس افسر سے ہو سکی کی، مگر نام سن کر ہر کوئی ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ پھر پریس کے ایک رکن نے اسے بتایا کہ ہم کیمرہ لے کر ابھی تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ تصویر چھاپیں گے اور خبر بھی۔ مگر یہ جان لو کہ ہوگا کچھ نہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ گاڑی اس گھر میں نہیں تھی۔

یہ ایک مثال ہے جو اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے۔ اگر نام افشا کئے جائیں تو بھونچال تو شاید نہ آئے مگر بھونچال سے کم بھی نہ ہو۔ کالم نگار کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر وہ احمقانہ بہادری سے کام لیتے ہوئے نام لکھ بھی ڈ الے تو گاڑی کا مظلوم مالک منقار زیر پر ہو جائے گا۔ بھائی لوگو!

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔

کب پہنچیں گے ہم اس اخلاقی بلندی پر جب ماں مجرم بیٹے کو پولیس کے حوالے کرے گی۔ پارٹی کے ارکان ووٹ کے ذریعے اپنی صفوں میں موجود مجرموں کو پارٹی سے نکال باہر کریں گے۔ جب پولیس موم کی نہیں پتھر کی ہوگی جسے موڑنا ممکن نہ ہوگا۔ ایسا کب ہوگا! کچھ نہیں معلوم! کتنے ہی سال درکار ہوں گے! کیا عجب کتنے ہی نوری سال درکار ہوں۔ اس وقت تو اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ قاتل ہوں یا حرام کھانے والے، معاشرے میں ڈٹ کر، کھلے عام، ڈنکے کی چوٹ رہ رہے ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا جب مجرم چھپتے پھرتے تھے۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com