کوئی تختِ حکومت پر ہو یا تختۂ دار پر رُت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ وقت بے نیاز ہے۔ اسے کیا پرواہ کہ ؎
کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
جاڑے کی آمد آمد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
پھر جاڑے کی رُت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
کبھی خلاقِ عالم کی صناعی پر غور کرو،
بچھاتا ہے سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر
کڑکتی دوپہر میں سر پہ چادر تانتا ہے
باغ میں ہر طرف پیلے، خشک پتے! ہوا چلے تو یہ اُڑتے ہیں۔ کھڑ کھڑاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎
خشک پتے مرے عمروں کے رفیق
خشک پتے مری تنہائی کے پھول
ٹنڈ منڈ درخت۔ حدِنظر تک زرد سبزے کا اداس فرش! مگر پھر رُت بدلتی ہے۔ موسم گدراتا ہے۔ مردہ زمین میں جان پڑتی ہے۔ سوکھی شاخیں ہری ہونے لگتی ہیں۔ پھر پتوں سے لد جاتی ہیں۔ پتے ہلتے ہیں چھائوں بُنتے ہیں۔ پھر بور لگتا ہے۔ شجر ثمردار ہونے لگتے ہیں۔ کذَالِکَ النَشُورْ! جو مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرتا ہے، وہ حشر بھی برپا کر سکتا ہے۔
وسط ایشیائی دوست، مغل بادشاہوں کو سرما کے لیے اڑھائی اڑھائی سو اونٹ خشک میووں سے لدے بھیجتے تھے۔ مغل حکومت ہندوستان میں کرتے رہے اور آہیں فرغانہ اور کابل کی وادیوں کو یاد کر کے بھرتے رہے۔ کہاں نمنگان اور سمر قند کا سرما! باہر برف باری، اندر مشروبات، افیون اور معجون، لاتعداد اقسام کے خشک اور تازہ پھل، بادام، اخروٹ، لبوں کو باہم پیوست کرتے خربوزے، مالٹے جتنے انجیر، شہتوت اور سیب، تین سو قسموں کے شفتالو اور کہاں دلی، آگرہ اور لاہور کا سرما۔ برف نہ خشک پھلوں کے انبار، ہاں! آم سے تلافی ضرور ہوئی۔ وہ بھی گرمیوں میں۔ فارسی میں آم انبہ ہو گیا۔ نظیری سے لے کر فیضی تک سب نے انبہ کی شان میں شاعری کی اور قصیدے اس کے ذکر سے مزین کیے۔ کچھ کمی وسط ایشیائی عیاشی کی پان نے پوری کی۔ پان اور آم، ہر دو کا تعلق برصغیر سے اور صرف برصغیر سے ہے۔ کچھ دوسرے ممالک آم پیدا کرتے ہیں مگر وہ آم کم اور سبزی زیادہ ہے۔
مغل پان کے خوگر ہوئے اور ایسے ہوئے کہ پان کی جگالی درباری زندگی کا جزو لاینفک بن گئی۔ بیٹیوں کی شادیاں نہ کرنا صرف آج کے وڈیروں کا طریق نہیں۔ سارے ظالم یہی کرتے آئے ہیں۔ مغل شہنشاہوں کی صاحبزادیاں بھی محلات میں چہل قدمی کرتے کرتے زلفوں میں چاندی بھر لیتی تھیں۔ شاہ جہان کے عمائدین میں وجیہہ شخصیت کا مالک ایک ایرانی جرنیل تھا۔ شہنشاہ کو شبہ ہوا کہ شہزادی سے ربط رکھتا ہے ؎
کنیزِ شاہ پسِ نسترن ملی تھی مجھے
حرم کے خاص اشارے مرے موافق تھے
بھرے دربار میں اپنے ہاتھ سے پان کھلایا۔ شہنشاہ کے ہاتھ سے پان کھانا عزت و توقیر کی انتہا تھی۔ انکار کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر سب جانتے تھے کہ گلوری موت کا نوالہ ہے۔ شاہی حرم میں عشق کی نقب زنی ناقابلِ معافی تھی۔ جرنیل انجام کو پہنچا۔
وفاقی دارالحکومت سرما کے دوران کبھی خیوا اور بلغراد کی یاد دلاتا تھا۔ پارک اور باغ ہر طرف تھے۔ گرین ایریا کے وسیع و عریض قطعات جا بجا یوں چمکتے اور لَو دیتے جیسے کم خواب کی عبا پر موتی ٹانکے گئے ہوں۔ ہر طرف درخت تھے۔ صبح شاہراہوں پر منجمد پانی کے صاف شفاف سفید براق ٹکڑے عام دکھائی دیتے تھے۔ شاہراہوں کے کنارے لہورنگ، پودے تھے۔ ان کے سرخ پتے شہر کو بے مثال حسن سے مالا مال کر دیتے۔ سیرگاہوں میں سنہری دھوپ ہرطرف جگمگاتی۔
پھر یہی دارالحکومت زمین کی لالچ(جُوع الارض) کا شکار ہو گیا۔ اسلام کا لبادہ اوڑھے ایک حکمران آیا اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان کو تاخت و تاراج کر دیا۔ اُردن میں قیام کے دوران، کوئی پاس سے بھی گزرا تھا، تو اسے پلاٹ مل گیا۔ زرعی فارموں اور نرسریوں کی تقسیم یوں ہوئی جیسے جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ گرین ایریا کے خوبصورت ٹکڑے ایک ایک کر کے ہڑپ ہونے لگے۔ اس کے بعد آنے والوں نے بد ذوقی سے بھرے اس ظلم کو انتہا تک پہنچا دیا۔ کیا سول، کیا خاکی! سب نے محلات بنائے اور پارک، باغ، شاہراہیں، قلاش ہو گئیں۔ آج حال یہ ہے کہ ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
شہر غلاظت کا گڑھ ہے۔ جناح سپر اور سپر مارکیٹ، جو کبھی یورپی بازاروں کی طرح تھیں، آج یوں لگتی ہیں جیسے راجہ بازار، گنج منڈی اور نرنکاری بازار کا حصہ ہیں۔ کھوکھے ہی کھوکھے، دکانوں کے سامنے کوڑے کے ڈھیر۔ کہیں بہتا ہوا گندا پانی۔ پائوں دھرنے کی جگہ نہیں۔ پارکنگ کا نظام مفقود۔ گاڑیاں یوں کھڑی ہیں جیسے مویشی منڈی میں گائے بکریاں کھڑی ہوں۔ کسی کا منہ اِس طرف تو کسی کا اُدھر!۔
شہر کے وسط میں، بڑا مرکز جو میلوڈی مارکیٹ کہلاتا ہے۔ گندگی میں گوجرانوالہ کو مات کرے۔ نام نہاد فوڈ پارک میں داخل ہونے کے لیے تعفن اور غلاظت سے بھرے بازار میں سے گزرنا ہوتا ہے۔ کہیں ریستوران کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ اور ساتھ ماشاء اللہ جلیبیاں تلی جا رہی ہیں۔ سموسے بن رہے ہیں۔ یوں، جو شہر جاڑوں میں عاشق کا دل کھینچتا تھا اور شاعر کا دامن، آج شرمندگی کی چادر اوڑھے، سر جھکائے، پراگندہ حال کھڑا ہے۔
ہم کیسے لوگ ہیں! اپنے قاتل خود ہیں، اجتماعی خود کشی ہماری منزلِ مقصود لگتی ہے۔ ہم سے کوئی کام سیدھا نہیں ہوتا۔ گاڑی چلائیں گے تو رات کو پوری لائٹ سامنے سے آنے والے کی آنکھوں میں خنجر کی طرح اتاریں گے۔ کل ایک موٹر سائیکل چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر تیز رفتاری سے، اِدھر اُدھر دیکھے بغیر چڑھ گیا۔ بڑی شاہراہ پر ٹرک جا رہا تھا۔ ذرا سا کونہ لگا اور موٹر سائیکل والا دھڑام سے گرا۔ بخت نے یاوری کی بچ گیا۔ اٹھا تو جاتے، دھواں چھوڑتے ٹرک کو پیچھے سے بے نقط سنانے لگ گیا۔ اس کالم نگار نے کہا کہ بیٹے! آپ کی غلطی ہے۔ بڑی شاہراہ پر چڑھنے سے پہلے رُکنا لازم ہے۔ مگر اس کا خیال تھا کہ وہ فرشتہ ہے اور ٹرک والا شیطان! قصور اُس کا بھی نہ تھا۔ آج تک ٹیلی ویژن پر یا اخبارات میں پولیس نے(یعنی ریاست نے) عوام کو یہ سبق ہی نہیں سکھایا کہ صرف دو باتیں اکثر ٹریفک حادثات کا باعث ہیں ایک بائیں طرف سے اوورٹیک کرنا دوسرے رُکے بغیر چھوٹی سے بڑی سڑک پر چلے جانا۔
ہم کیسے لوگ ہیں۔ اپنی گلیوں، میدانوں، باغوں، پارکوں، بازاروں، راستوں کو کوڑے کرکٹ سے خود اپنے ہاتھوں سے بھرتے ہیں۔ مکان کے منظور شدہ نقشے سے تجاوز کرنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ شکریہ ادا کرتے ہیں نہ سلام کا جواب دیتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ قطار کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ دروغ گوئی کو معمول جانتے ہیں اور پھر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ اور یہودوہنود کو قرار دیتے ہیں۔
سرما کا ہر موسم ہماری بے حسی پر نوحہ پڑھتا ہے۔
No comments:
Post a Comment