Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, October 25, 2018

بھیڑیں!کالے رنگ کی بھیڑیں!



لیڈروں کو ناکامی سے دوچار کرنے والوں کے دوسر اور تین ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ وہ اسد عمر جیسے ہی ہوتے ہیں۔ 

رئوف کلاسرہ نے جو کچھ بتایا ہے اگر وہ سچ ہے تو وزیر اعظم پر لازم تھا کہ اب تک اسد عمر سے اس ’’بندہ پروری‘‘ کا سبب پوچھ چکے ہوتے ۔اگر غلط ہے تو اسد عمر کو رئوف کلاسرہ کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے تھا۔ اور غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر شے ریکارڈ پر ہے -

سوئٹزر لینڈ پڑے ہوئے اربوں ڈالر کے ساتھ چوہے بلی کا جو کھیل سٹیٹ بنک کا گورنر کھیلتا رہا ہے اور کھیل رہا ہے، اس کی ایک ایک تفصیل ظاہر ہو چکی ہے۔ اپنی ہی بھیجی ہوئی ٹیم کو موجودہ گورنر سٹیٹ بنک نے جس طرح جونیئر افسر کہہ کر بے وقعت کیا‘ جس طرح سوئٹزر لینڈ سے کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا، پھر جس طرح اسحاق ڈار نے اسے سٹیٹ بنک کا گورنر تعینات کیا اور پھر جس طرح اس سارے معاملے کو یہ صاحب اب ’’غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر، جو ردّعمل اسد عمر کا ہے، اس کے بعد دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ یا تو اسد عمر کو اس پورے معاملے کی سنجیدگی کا ادراک نہیں، یا وہ کالی بھیڑوں پر اپنا سایۂ عاطفت ڈال کر، خود ایک بڑی کالی بھیڑ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ 

حکومت کرنے کے جو اصول دانش ور بتا گئے ان میں اب تک تو یہی سرِ فہرست تھا کہ

’’محال است کہ ہنر منداں بمیرند و بی ہنراں جائی ایشاں گیرند‘‘ 

کہ مشکل ہے کہ ہنرمند رخصت ہو جائیں اور ان کی جگہ بے ہنر متمکن ہو جائیں۔ 

مگر جو نیا اصول نظر آ رہا ہے یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ بے ہنروں کو فارغ کیا جائے اور ان کی جگہ ہنر مندوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ جو شخص ڈار صاحب کا دستِ راست تھا وہی عمران خان اور اسد عمر کے عہدِ حکومت میں پاکستانی بنکاری کے باپ اور ملک کے خزانچی، سٹیٹ بنک، کا سربراہ ہے۔ انّا للہ وانا الیہ راجعون!! یہ حماقت ہے یا فکری بددیانتی؟ دونوں صورتوں میں وزیر خزانہ اُس منصب کے لیے نا اہل ٹھہرتے ہیں جس پر بے نیاز گردشِ زمانہ نے انہیں فائز کردیا ہے۔ 

کراچی کے جس معروف تعلیمی ادارے سے اسد عمر نے ایم بی اے کیا، اس ادارے کا ایک اور ایم بی اے اس سے پہلے اس ملک کو بازیچۂ اطفال کے طور پر ’’استعمال‘‘ کرنے کے بعد ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ یہ کراچی کا وہی ادارہ ہے جسے ڈاکٹر عشرت حسین جیسے طالع آزما چلاتے رہے ہیں۔ ایم بی اے کر کے کمپنیوں کو چلانا اور شے ہے، ملک کی وزارت خزانہ چلانا اور عمل! دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس ملک کی بھی عجیب قسمت ہے۔ پہلے جاگیر رہا، پھر یہ شریفوں کا کارخانہ بنا اور اب اسد عمر کے لیے کمپنی سے زیادہ نہیں۔ 

تاریخ میں جو کچھ پڑھتے رہے‘آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان چیتا سہی، ان کے اردگرد گیدڑ ہیں اور لومڑیاں۔ گورخر اور شغال! عمران خان ٹھنڈی آہ بھر کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ؎ 

میرا دُکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں 

اس لیے کہ یہ ہارا ہوا لشکر انہوں نے خود اپنے اردگرد اکٹھا کیا ہے۔ یہ اسد عمر، یہ بُزدار، یہ عشرت حسین، امریکہ نے یا اقوامِ متحدہ نے یا اپوزیشن یا پارلیمنٹ نے ان پر مسلّط نہیں کیے ع 

اے بادِ صبا این ہمہ آوردۂ تُست 

بادِ صبا نے خود ہی یہ سارے پھول کھلائے ہیں۔ ؎ 

میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے، زاغ ہے مرے ہاتھ میں

کہاں وہ دعوے کہ لوٹا ہوا اور باہر ذخیرہ کیا ہوا ایک ایک پیسہ واپس لے کر آئیں گے اور کہاں اتنا مجرمانہ رویہ کہ سوئٹزرلینڈ جس معاہدے پر راضی ہو چکا تھا اور جس کے نتیجہ میں سوئٹزر لینڈ میں چھپائی ہوئی دولت کے درست اعدادوشمار حکومت پاکستان کو مہیا کیے جانے تھے، اس معاہدے کو دنیا میں آنے سے پہلے، ماں کی کوکھ ہی میں قتل کر دیا گیا اور قتل کرنے والا عمران خان کی حکومت میں کسی معمولی عہدے پر نہیں، سٹیٹ بنک کا گورنر ہے ؎ 

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے 
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 

تو پھر احد چیمہ، فواد حسن فواد اور توقیر شاہ کو ان کے مناصب سے ہٹانے کی کیا منطق تھی؟ اگر گزشتہ حکومت کا ستون، آپ کی حکومت میں بھی ستون ہی ہے اور آپ کا یہ گھانس پھونس کا چھپر اُسی کے سر پر کھڑا ہے تو پھر انصاف کیجیے اور بتائیے کہ پچھلی حکومت کے دیگر فدائیوں میں کیا برائی تھی ؟ ؎ 

کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا! 
مگر ایک میرِ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا؟ 

حیرت ہے کہ اب تک عدالت عظمیٰ نے بھی اس معاملے کا نوٹس نہیں لیا۔ جناب چیف جسٹس ملک کو درپیش ہر معاملے کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ مجرمانہ اور مضحکہ خیز واقعہ سے بھی ان کی توجہ چاہتا ہے! ذرا گورنر سٹیٹ بنک کو بلا کر پوچھیں کہ معاہدے کا ڈرافٹ کہاں گیا؟ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑی ہوئی دولت کو شریفوں اور زرداریوں نے تو کیا چھیڑنا تھا، انصافیوں کے دورِ زریں میں بھی عہدِ شریفی کا خاص کارندہ، ملکی مالیات پر بدستور مسلط ہے! 

سچ ہے کہ حکومتوں کے اقدامات احمقانہ ہوتے ہیں۔ لکڑی کے جس گھوڑے میں دشمن کے سپاہی چھپے تھے، اس کو شہر کی حکومتی کونسل ہی فصیل کے اندر لائی تھی۔ تعلیمی اداروں سے لے کر بنکوں اور کارخانوں تک ہر سرگرمی کو قومیا لینے کی حماقت پاکستانی حکومت ہی سے ہوئی تھی۔ یہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہی تھا جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر آمر کو سہارا دیا۔ ہر آمر کا ساتھ دیا اور ہر آمر کے لیے حکمران خاندانوں کے یہ سیاستدان ڈھال بن گئے۔ آج بھی حکمران طبقہ حماقتوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایک بھائی گورنر سندھ رہا‘دوسرا اب خزانے کا امیر ہے! منہ میں سونے کے چمچ لے کر یہ لوگ پیدا ہوئے۔جرنیلی گھروں میں بے پناہ مراعات اور ان گنت سہولیات کے ساتھ پرورش پائی۔ پھر اپنے سوشل سٹیٹس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی قربت حاصل کی۔ ٹکٹ ملے۔ وزارتیں پائیں گورنریاں لیں! انہیں کیا پڑی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو کامیاب کرنے کے لیے کسی کو ہٹائیں۔ اپنا سماجی مرتبہ ان کا ہر حکومت میں ہمیشہ سے طے شدہ ہے۔ گورنری ہے یا وزارت رہے گی‘ جرنیلوں کے گھر میں ہی یا جاگیرداروں کے ڈیروں پر یا صنعت کاروں کے بنگلوںمیں۔ 

اسد عمر اپنی ذاتی کمپنی میں یا ذاتی انٹرپرائز میں گورنر سٹیٹ بنک جیسے کارندے رکھتے تو ہم دیکھتے! رہا پاکستان تو اس کے اداروں پر جو بھی مسلط رہے، اسد عمر کو کیا اور اس قبیل کے دیگر بخت آزمائوں کو کیا!! ؎ 

وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com