Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, October 28, 2018

ایک اور سفید ہاتھی


کیسا بدقسمت بیمار ہے۔ پڑا کراہ رہا ہے‘ گردے میں درد ہے۔ آنکھوں سے دکھائی کچھ نہیں دے رہا۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ کوئی نہیں جو اسے کسی شفاخانے پہنچائے۔ 

ہاں‘ ایک کام لواحقین زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اس کی جائیداد ‘مال و دولت کا بٹوارہ ابھی سے کر رہے ہیں۔ ایک صاحب شہر والے مکان پر قبضہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ دوسرا رشتہ دار زرعی زمین پر حق جتا رہا ہے۔ ایک اور بینک بیلنس کے پیچھے پڑا ہے۔ 

یہ بیمار کون ہے؟ ایسے کئی بیمار پاکستانی ریاست کے دالان میں‘ بان کی ٹوٹی ہوئی‘ جھولتی چارپائیوں پر پڑے‘ پانی‘ پانی کہہ رہے ہیں مگر یہ نوحہ جو ہم لکھ رہے ہیں‘ بطور خاص پاکستان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی حالت زار کا ہے۔ 

حکومت اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن ملازمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ ملازمین نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ ان کی یونین نے مذاکرات کی کامیابی کی خوش خبری دی تو دھرنا ختم کیا گیا۔ حکومت نے مان لیا کہ تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوگا۔ پچاس فیصد ہائوس رینٹ (غالباً تنخواہ کا پچاس فیصد) اور چند دیگر مراعات کا اعلان بھی کیا گیا۔ ملازمین نے یونین قائدین کے حق میں نعرے لگائے۔ دھیاڑی پر رکھے گئے ملازمین کا کچھ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت بھی حکومت کو ازراہِ لطف و کرم عنایت کیا گیا۔ خبر میں تو یہ بات نہیں ہے مگر اندازہ ہے کہ اس زبردست فتح کے بعد کچھ خوشیاں دستر خوان پر بھی لوٹی گئی ہوں گی۔ 

اب بدبخت مریض کا حال سنیے۔ جنوری 2018ء میں قومی اسمبلی کے ارکان کو بتایا گیا کہ اس کارپوریشن کو 2013-14ء میں بیس کروڑ بیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ ایک سال بعد یہ نقصان دو ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اگلے دو سالوں میں دو ارب روپے سے بڑھ کر نقصان چار ارب روپے ہوگیا۔ اس اثنا میں کرپشن کے پچاس کیس منظر عام پر آئے۔ کارپوریشن کو اجناس مہیا کرنے والے سپلائر پیچھے ہٹتے گئے کیونکہ انہیں وقت پر ادائیگیاں نہیں ہورہی تھیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آتے ہی اس ادارے پر ٹیکس بڑھا دیا اور امداد (سبسڈی) روک دی۔ نئی حکومت نے مزید مال کی خریداری روک دی۔ کارپوریشن کی پانچ ہزار سے زیدہ شاخیں یعنی سٹورز ہیں۔ ملازمین کی تعداد 14 ہزار سے کم نہیں۔ مگر یہ سٹور اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں‘ ایک ماہ پہلے کے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق کچھ اشیاء کی قیمت بازار کے برابر ہے اور کچھ میں فرق برائے نام ہے۔ کچھ دکانداروں نے پریس کو بتایا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے بہت سے گاہک ان کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ 

ایک اور ذریعہ بتاتا ہے کہ روزانہ کا نقصان کارپوریشن کا ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ 5327 سٹورز میں سے 4470 برانچیں نقصان میں جا رہی ہیں۔ 

یہ ہے وہ صورت حال جس میں ادارے کی صحت کا سوچے بغیر ملازمین نے دھرنا دیا۔ حکومت کے گلے پر پائوں رکھ کر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرایا۔ رہا ادارہ! تو کسی کی بلا سے نفع میں جائے یا خسارے میں۔

ہبنیادی سوال اور ہے۔ کیا ریاست کا کام کاروبار کرنا ہے؟ نہیں‘ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں‘ کاروبار کرنے والوں کو کنٹرول کرنا ہے‘ قوانین بنانے ہیں۔ تاجروں کو ان قوانین کا پابند کرنا ہے۔ 

ریاست کا کاروبار کرنا نفع آور ہوتا تو سوویت یونین کا شیرازہ نہ بکھرتا۔ تاریخ بالخصوص اقتصادیات کی تاریخ سے نابلد‘ جذباتی‘ سطحی سوچ رکھنے والے پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ افغان ’’جہاد‘‘ نے اور مرد مومن مرد حق نے سوویت یونین کو توڑا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ یہ تابوت میں آخری کیل تو ہوسکتی ہے‘ تابوت بہرطور پہلے سے تیار تھا۔ کاروبار حکومتی کارندوں کے ہاتھ میں تھا۔ کرپشن کا دور دورہ تھا۔ رشوت عام تھی۔ رشوت ستانی کے اس کلچر کی چند جھلکیاں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد‘ اس کالم نگار نے ازبکستان میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ سوویت یونین میں وزیروں اور بڑے بڑے افسروں کی دیہی قیام گاہیں (ڈاچے) تھے۔ دریائوں کے کنارے عیش و عشرت کے مراکز تھے۔ عام روسی اور ملحقہ ریاستوں کے باشندے پہروں گھی کے ایک ایک ڈبے‘ چاول کے ایک ایک پیکٹ‘ ایک ایک ڈبل روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ خوراک کی کوالٹی بدترین تھی۔ اس ڈبل روٹی کا ذائقہ اس کالم نگار نے چکھا ہے۔ میلے رنگ کے سوکھے ہوئے ٹکڑے‘ اکثریت ترکستانی ریاستوں میں ‘نان کے خشک‘ سخت نوالے قہوے میں بھگو بھگو کر کھاتے تھے۔ شکست و ریخت کے علاوہ سوویت یونین کا انجام مختلف ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ 

انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ منافع کے لیے کاروبار کرتا ہے۔ تاجر گھاٹے میں جارہا ہو گا تو دکان کا سائز چھوٹا کرلے گا‘ ملازمین کی تعداد کم کرے گا۔ اپنی گاڑی بڑی ہے تو بیچ دے گا۔ چھوٹی گاڑی رکھے گا۔ پیدل چلنا پڑا تو وہ بھی کرے گا مگر کاروبار کو نقصان سے ہر حال میں بچائے گا۔ جب ریاست کاروبار کرے گی تو وہی ہوگا جواب یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے کارندے کر رہے ہیں۔ ہر روز ڈیڑھ کروڑ کا نقصان۔ مگر تنخواہوں میں اور ہائوس رینٹ میں اضافہ۔ ملازمین کی تعداد کم کرنے کے بجائے دھیاڑی والے عارضی ورکروں کو بھی مستقل کرنے کا پروگرام۔ 

ریاست کاروبار میں تھوتھنی ڈالتی ہے تو کاروبار نہیں چلتا ہاں! ملازمین گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ سٹیل ملز کو دیکھ لیجئے۔ ناسور کی طرح ریاست کے جسم میں پڑی‘ کب سے رِس رہی ہے۔ اس لیے کہ زور‘ بیوروکریسی کا مراعات پر تھا۔ ایسے ایسے سربراہ سٹیل ملز نے دیکھے کہ چارج لینے کے بعد بیلنس شیٹ (اثاثوں‘ نفع اور نقصان کا حساب کتاب) دیکھنے کے بجائے پہلا یہ سوال کرتے کہ انہیں گاڑی کون سی ملے گی؟ گھر کے لیے کیا مراعات ہوں گی۔ کتنے ہی چیئرمینوں نے جیل کی ہوا کھائی۔ 

پی آئی اے کے ایک چیئرمین نے ماضی قریب میں سرعام دہائی دی کہ یونینیں کچھ نہیں کرنے دیتیں۔ پائلٹوں کی الگ یونین‘ انجینئروں کی اپنی یونین‘ فلاں شعبے کی الگ‘ فلاں کی الگ۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتے۔ کسی کوسزا دے سکتے ہیں نہ نوکری سے برخواست کرسکتے ہیں۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد کے حوالے سے ہماری قومی ایئرلائن بدترین حالت میں ہے۔ جونکیں چمٹی ہوئی ہیں‘ خون پئے جا رہی ہیں۔ ہر حکومت نے سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں پرشاد کی طرح بانٹیں۔ آج یہ ایئرلائن شرمندگی کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ؎ 

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو 
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے 
داغِ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی 
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

عدلیہ کارول بھی تباہی کے اس سفر میں محل نظر ہے۔ متعلقہ محکمے سے پوچھے بغیر حکم امتناعی جاری کردیا جاتا ہے۔ بارہا اس کالم نگار کو سرکاری ملازمت کے دوران اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ ملازمین کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ معمول کی کارروائی ہے مگر ملازمین تبادلے کے احکام پائوں تلے روند کر‘ سامنے آ کر‘ پوری رعونت کے ساتھ حکم امتناعی دکھا دیتے ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپویشن کی یونین نے بھی حکم امتناعی حاصل کرلیا ہے جس کی رو سے انتظامیہ کسی ملازم کو برخواست نہیں کرسکتی۔ یعنی ؎ 

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com