موسموں کا الٹ پھیر مقرر کردیا گیا ہے۔ گرما رخصت ہورہا ہے۔ سب کو معلوم ہے آنے والے مہینے سرد، تند ہوائوں کے ہیں۔ جھکڑ چلیں گے۔ درختوں کے پتے گریں گے۔ زرد خشک پتے! زرد خشک پتوں کے ڈھیروں پر چلنے سے کھڑکھڑانے کی آوازیں آئیں گی۔ پھول نہیں کھلیں گے۔ یہ وہ موسم ہیں جب برفانی وسط ایشیا کے باشندے چرم کے موزے پہنتے ہیں اور گھٹنوں کو چھونے والے لمبے جوتے۔
مگر خزاں ہمیشہ نہیں رہتی۔ خلاق عالم نے موسموں کا الٹ پھیر طے کر رکھا ہے تاکہ مخلوق اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار رکھے۔ باغوں پر آئے ہوئے سختی کے دن بیت جائیں گے۔ بہار آئے گی، شگوفے پھوٹیں گے،کونپلیں نکلیں گی، صحنوں میں لگے ہوئے انار اور ریحان کے پودے گلبار ہوں گے۔ سبز گھنیرے پتوں سے لدی دھریکوں پر کاسنی رنگ کے پھول کھلیں گے۔ میرے گائوں کی دوشیزائیں کھنکھناتی چوڑیوں سے بھری باہوں سے گارا تیار کریں گی۔ پھر وسیع و عریض صحنوں میں گارا ڈال کر مٹی کا فرش بچھائیں گی۔ پھر گول پتھروں سے اسے یوں صیقل کریں گی کہ سنگ مر مر شرمائے گا۔ لکڑی کے نردبانوں پرکھڑی ہو کر دیواروں پر سفید پوچا ملیں گی۔ جھومتے درختوں سے پھل گریں گے، فصلیں لہلہائیں گی، کٹوروں میں چھلکتی سفید براق لسّی سیال چاندی جیسی ہوگی۔ شام کو ڈھور ڈنگر قریے کی طرف پلٹیں گے تو خوبصورت گردنوں کے ساتھ لٹکے گھنگھرئوں کی آوازیں بشاشت کی نوید سنائیں گی۔
موسم ایک سے نہیں رہتے۔ خزاں کا لمبا دور سخت سہی، مگر یہ طے ہے کہ باد برشگال کے بعد بادصبا نے آنا ہی آنا ہے ؎
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ ہمیشہ ہی جھکڑوں طوفانوں میں آنکھیں بند کر کے کھڑا رہے اور تند ہوائوں میں سانسیں بے ترتیب ہوتی رہیں۔ نقب زنوں نے کیفرکردار کو پہنچنا ہے۔ رسی جتنی دراز ہو، ایک دن سمیٹ لی جاتی ہے۔
عمران خان غلطی پر غلطی کئے جا رہا ہے مگر ایک اطمینان ہر شخص کو ہے کہ وہ راہ زن نہیں، وہ قاطع الطریق نہیں۔ وہ گھات لگا کر نہیں بیٹھا ہوا کہ قومی وسائل گزریں تو جھپٹ پڑے۔ تاریخ غلطیوں کو معاف کردیتی ہے۔ غلطی کرنے والا اپنے آپ کو بدل لیتا ہے۔ مگر قافلوں کو لوٹنے والے کم ہی راہ راست پر آتے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت زنجیرپا بن جاتی ہے۔ اسے بچانے کے لیے نقب زنی کی مزید وارداتیں کرنا پڑتی ہیں۔
حیرت ہے ان بزرجمہروں پر جوضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر شہنائیاں بجانے پر اتر آئے ہیں۔ کیوں نہ اتریں، انہیں وہ شاداب چراگاہیں یاد آتی ہیں جن میں وہ بغیر روک ٹوک، بغیر حساب کتاب، رات دن، سبز میٹھی گھاس چرتے تھے۔ اڑن کھٹولوں پر حکمرانوں کے ساتھ سواری کرتے تھے۔ دربار تک ہمہ وقت رسائی تھی۔ الائچی کے پانی میں گندھے آٹے سے بنے ہوئے طلسمی داس کلچہ کھاتے تھے۔ شاہی دستر خوان پر شہد، دودھ اور بریاں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ان کی قابوں میں ڈالے جاتے تھے یا بیرونی دوروں سے لے کر ہیلی کاپٹروں کی اندرونی پروازوں تک۔ راتب خوروں کا ناپاک گروہ ساتھ ہوتا۔ کفش برداری کے اپنے مزے ہیں۔ یہ مزے خوب خوب لوٹے جاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اس کچی جمہوریت میں ارکان پر نظم مسلط نہیں کرسکتیں۔ ہرنشست پر امیدوار اپنا اپنا زور دکھاتے اور لگاتے ہیں۔ انتخاب جیتنے کی سائنس کا جو جتنا اطلاق کرسکے اتنا ہی کامیاب ٹھہرے۔ پھر نوزائیدہ حکومت کی اپنی پارٹی میں ابھرتے ہوئے اختلاف۔ کیا خبر، کتنوں نے ذاتی مایوسی سے مغلوب ہو کر پشت سے وار کر ڈالا۔
ضمنی انتخابات میں اونچ نیچ کچھ اور شے ہے۔ یہ پالیسیوں کو ماپنے والا بیرومیٹر نہیں۔ ابھی تو وادی سے راہزنوں کا صفایا کرنا ہے۔ یہ راہ زن، یہ نقب زن، اٹھائی گیروں کا یہ ٹولہ ادھر ادھر کے درّوں سے ہوتا، منظر نامے سے معدوم ہوگا، پھر بحالی ہوگی۔ بحالی میں وقت لگے گا۔ حکمران کی اپنی صنعتیں نہ ہوں، اپنی جاگیرنہ ہو، اپنا مفاد نہ ہو، اس کے اقربا اس کے گرد، کشکول اٹھائے، نہ کھڑے ہوں، سمندر پار محلات اور کارخانے کھڑے کرنے کا شوق نہ ہو تو جلد یا بدیر حالات درست ٹریک پر آ جاتے ہیں۔
مہاتیر کو سالہا سال لگے۔ تب جا کر ملائیشیا وہ ملک بنا جس نے دنیا میں عزت کمائی اور نام پیدا کیا۔ مہاتیر وزیراعظم بنے تو سلطان آف ملائیشیا کے اختیارات ترقی میں مانع تھے۔ متوازن بنانے میں وقت لگا۔ پھر نقصان اٹھاتے کاروبار کے سرکاری مراکز کو نجی شعبے کے سپرد کرنے میں مزید وقت لگا۔ ایئرلائنوں، یوٹیلیٹیز (Utilities)
اور مواصلات۔ سب نجی شعبے کو منتقل کردیئے۔ نجی شعبے نے پیداوار خوب بڑھائی۔ حالات بدلنا شروع ہوئے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ پھر کارسازی کی طرف توجہ دی۔ دس سال۔ پورے دس سال لگے کارسازی کی صنعت کو پائوں جمانے میں۔ یہاں تک کہ ملائیشیا خطے میں کاریں بنانے کے حوالے سے سرفہرست ہوگیا۔ پھر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو کنٹرول کیا۔
لی کوان یو کو دہائیاں لگ گئیں، تب کہیں جا کر مچھیروں کی گندی بستی نے موجودہ سنگاپور کی شکل دھاری۔ کئی برس لگ گئے لی اور اس کے ساتھیوں کو اس فیصلے پر پہنچنے میں کہ معیشت کو مہمیز لگانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ یہ فیصلہ بہار آفریں ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی، جاپانی اور یورپی کمپنیوں نے سنگاپور میں دفاتر بنا لیے۔ یہاں تک کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ الیکٹرانکس کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ بہت بڑا مالی مرکز بننے کے علاوہ سنگاپور کرپشن سے بالکل پاک صاف ہوگیا۔ پاکستانی اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے پر غوغا اٹھا ہے۔ کیا یہ کم جرم ہے ان اساتذہ کا کہ یہ نصاب سازی میں ملائیشیا اور سنگاپور کی ترقی کی داستان نہیں شامل کرتے۔ پاکستانی طلبہ یہ داستان پڑھتے تو معلوم ہوتاکہ ان دو ایشیائی ملکوں نے پسماندگی کے پہاڑ کو کس تیشے سے ریزہ ریزہ کیا۔
پتھر لعل بدخشاں بنتا ہے۔ کپاس کا بیچ معشوق کا گلوبند بنتا ہے اور شہید کا کفن۔ اون سے فقیر کی گدڑی تیار ہوتی ہے۔ بچہ شاعر بنتا ہے یا سکالر مگر حکیم سنائی کہتا ہے کہ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ مہینے، سال اور کبھی کبھی عشرے۔ اس ملک نے افق سے ستارہ بن کر ابھرنا ہے۔ کل نہیں تو پرسوں۔ ایک دن ضرور! رہزنی کے آثار کو مٹانا پہلا قدم ہے، گرد اٹھے گی، یہاں تک کہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ پھر گرد بیٹھے گی، مطلع صاف ہوگا۔ روشنی اس سرزمین کا مقدر ہے۔ لوح محفوظ پر نقش ہو جانے والا مقدر!!
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment