نوجوان آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھا رہا تھا۔
فلمیں یاد آ گئیں جن میں سلطان راہی یا مصطفی قریشی اسی انداز میں چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ، گردن اوپر کر کے! صرف بازو آگے پیچھے، متکبرانہ انداز میں ہلانے کی کسر باقی تھی۔
آج لکھنا تو اُس زبردست ’’کامیابی‘‘ پر تھا جو عالمِ اسلام کے مقدس ترین ملک کو حال ہی میں نصیب ہوئی ہے مگر صبح صبح ٹیلی ویژن دیکھ کر یہ نیا سیاپا آڑے آ گیا! سو، سوچاکہ قارئین کو اِس بے کنار ’’مسرت‘‘ میں شامل کر لیا جائے۔
نوجوان کا تعلق کسی شاہی خاندان کے ساتھ نہیں، مگر عملاً وہ شہزادہ ہے۔ شہزادہ کسے کہتے ہیں؟ کیا اس کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟ کیا وہ آسمان سے براہِ راست نیچے اترتا ہے؟ کیا پیدائش کے وقت ایک غیبی آواز اعلان کرتی ہے کہ شہزادہ تولّد ہوا ہے۔ نہیں! ایسی کوئی بات نہیں! شہزادہ وہ ہوتا ہے جسے اقتدار وراثت میں ملے۔ اسے اس کے لیے جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ اردگرد اُن مصاحبین، امرا اور غلاموں کا حصار کھنچا ہو جو اس کے والد، دادا، والدہ، نانا کے زمانے سے شاہی خاندان کے وفادار رہے ہوں۔ گویا ؎
لہ
یہ کوٹھی ہے صاحب! ترے عشق کی
ملازم ہیں ہم خاندانی یہاں
بابر اور ہمایوں شہزادے ہی تو تھے۔ فرغانہ سے بابر کو نکلنا پڑا تو ساری جدوجہد کے دوران یہ پشتینی وفادار ساتھ رہے۔ ہمایوں کا جب شیر شاہ سوری تعاقب کر رہا تھا تو اس کے ساتھ چند خاندانی وفادار ہی تھے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ وہ خود کبھی بادشاہ نہیں بن سکتے۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا اور ہمایوں کے بعد اس کا فرزند اقتدار سنبھالیں گے۔ ادب کے طالب علم کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ پر بات کرتے کرتے شاعری کی طرف جانکلتا ہے۔ بابر اور ہمایوں بھٹکتے رہے۔ کبھی فرغانہ سے سمرقند کبھی کابل کی طرف۔ ہمایوں پنجاب سے بھاگا۔ سندھ آیا۔ عمر کوٹ کے مقام پر اکبر پیدا ہوا۔ پھر ایران گیا۔ اس سارے عرصہ میں خاندانی وفادار ساتھ رہے۔ معین نظامی نے کیا دل آویز نظم کہی ہے ؎
مرا میمنہ میسرہ/بادو بارانِ بے اعتنائی کے طوفان میں/اک زمانہ ہوا قلب سے کٹ چکا ہے/ان ایام خانہ بدوشی میں/میرے جلو میں، مرے قلب کے/صرف کچھ جاں نثارانِ مجروح باقی بچے ہیں/جو سانسوں کی ڈوری کے کٹنے تلک/میرے ہم راہ ہوں گے/مجھے ازم گاہوں کے آداب آتے نہیں ہیں/مرے خیمۂ دشتِ غربت میں مرتے ہوئے/باپ دادا کے جنگ آزما/احتراماً مجھے کچھ سکھاتے نہیں ہیں/جو شہ مات میری بساطِ تشخص کو درپیش ہے/اس سے کیسے بچوں/کچھ بتاتے نہیں ہیں!!
شہزادہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔ کیمرے والوں کا ہجوم تھا۔ شاہانہ سبک خرامی کی تصویریں لینے کے لیے فوٹو گرافر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کڑی جدوجہد کر رہے تھے۔ پرانے خاندانی وفادار ساتھ تھے۔ کچھ تو پیچھے پیچھے یوں سمجھیے لڑھکتے چلے آ رہے تھے جیسے تارڑ صاحب کے بقول اُبلا ہوا انڈا لڑھکتا ہے! طمطراق اور تزک و احتشام اس قدر تھا جیسے عدالتِ عالیہ کی سمت عالی ترین عدالت چلی آ رہی ہے۔
مروّت، خوف فیوڈلزم اور شاہ پرستی سے چھلکتے ہوئے اس معاشرے میں فقط سوچ آزاد ہے۔ جو اُڑ کر، کہیں بھی، کسی بھی منڈیر پر بیٹھ سکتی ہے۔ شہزادے کو دیکھا، اس کے پشتینی فدائیوں کی وابستگی دیکھی۔ پھر فوٹو گرافروں کی جدوجہد دیکھی تو سوچ سارے بندھن توڑ کر پوچھنے لگی، شہزادے کے
Credentials
کیا ہیں؟ کیا اس نے جماعت کی شریک سربراہی تک پہنچنے کے لیے طویل سیاسی سفر طے کیا ہے؟ کیا اس نے سیاست سب سے نچلی سطح سے شروع کی؟ کیا پارٹی نے اسے اس منصب کے لیے کسی کے مقابلے میں منتخب کیا؟ نہیں! کچھ بھی نہیں! واحد وجہ اس سیاسی امارت کی شہزادگی ہے۔
Credentials
صرف اور صرف یہ ہیں کہ والدہ پارٹی کی سربراہ تھیں۔ وہ اس لیے تھیں کے ان کے والد سربراہ تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد والد محترم نے سربراہی سنبھالی۔ اگر بے نظیر کے بجائے مرتضیٰ بھٹو پارٹی کے سربراہ بنتے تو آج مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا یا بیٹی اس میراث کے مالک ہوتے۔
نصرت بھٹو کا یہ قول مشہور ہے کہ بھٹو خاندان کے افراد حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔
Bhuttos are Born to rule
نوجوان جب چل رہا تھا اور کیمرے جب اسے چلتے ہوئے دکھا رہے تھے تو نانی جان کا یہ قولِ فیصل فضا پر پوری طرح چھایا ہوا تھا۔ یہی صورت حال دیگر بڑی جماعتوں کی ہے۔ مسلم لیگ نون جمہوریت کی اِس ’’رُوح‘‘کو برقرار رکھنے میں پیپلزپارٹی سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں۔ دختر نیک اختر کا اعتبار بھی صرف اور صرف شہزادگی ہے۔ حمزہ شہباز کے والد صوبے کے بادشاہ تھے تو شہزادے کے سامنے وزیروں اور پارٹی کے سفید ریش ارکان کی حیثیت ملازموں سے زیادہ نہیں تھی۔ مفتی محمود کی وفات ہوئی تو پوری جماعت میں کوئی اہل نہ تھا۔ سوائے مفتی محمود کے فرزند کے جس کے سر پر پارٹی سربراہی کا تاج رکھا جاتا۔ اب مفتی صاحب کا پوتا ولی عہد کے عہدے پر فائز ہے۔ اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی کو بھی یہ سربراہیاں ورثے میں ملی ہیں۔ رضا ربانی ہوں یا اعتزاز احسن یا کائرہ صاحب یا شیری رحمن، خواجہ آصف ہوں یا راجہ ظفر الحق یا احسن اقبال، یا حافظ حسین احمد، یہ اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ قیامت تک نہیں بن سکتے۔ ان کے مقدر میں فقط شہزادوں اور شہزادیوں کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ہے۔ ان کے بخت میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کو تخت پر بٹھانے کے لیے انہوں نے جدوجہد کرنی ہے۔ ماریں کھانی ہیں، جیلوں میں جانا ہے۔ نعرے لگانے اور لگوانے ہیں! اور بس!!
کسی نے جمہوریت کا اصل ’’چہرہ‘‘ دیکھنا ہو تو سندھ کی اقلیم میں جا کر شہزادے کی تام جھام دیکھے۔ پروٹوکول کی گاڑیاں گنے۔ سفید سر اور سفید ریش ارکانِ جماعت کو حالتِ رکوع میں دیکھے۔ پنجاب کے شہزادے اور وفاق کی شہزادی کے گاڑیوں کے جلوس ابھی کل کی بات ہے۔ چالیس چالیس گاڑیاں، یہ منظر بھی دیکھنے والے نہیں بھولے کہ شہزادی سرخ قالین پر چل رہی تھی اور سپیکر، ساتھ ساتھ یوں چل رہا تھا کہ قدم سرخ قالین پر نہ آئے۔ سبحان اللہ! کیا احتیاط تھی! اس نظریاتی اسلامی مملکت میں صرف ولدیت ہے جو اہم ہے۔ ابھی ہم عوام نے مزید پوتوں اور نواسوں کو بھگتنا ہے۔ ابھی ہم نے مزید دامادوں کے سایۂٔ اقتدار میں بیٹھنا ہے۔
پارٹیوں کے اندر اصلی اور حقیقی انتخابات کا کوئی امکان دور دور تک نہیں دکھائی دے رہا۔ کس میں ہمت ہے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کے حقِ وراثت کو چیلنج کرے۔
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے!
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment