…………یہ کل تیرہ اکتوبر کا واقعہ ہے۔
اسلام آباد کے ایک مرکزی سیکٹر کا رہائشی علاقہ ہے۔ دونوں طرف مکان ہیں۔ درمیان میں سڑک ہے۔ صبح آٹھ بجے ایک مکان کی گھنٹی بجتی ہے۔ مکین باہر نکلتا ہے۔ پولیس کا اہلکار گیٹ پر کھڑا ہے۔
’’یہ گاڑیاں ہٹائیے! رُوٹ لگنے لگا ہے۔‘‘
گاڑیاں سڑک پر کھڑی تھیں نہ فٹ پاتھ پر! فٹ پاتھ اور مکان کے درمیان‘ خالی جگہ تھی جو مکان کا حصہ تھی۔ گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔
’’گاڑیاں سڑک پر ہیں نہ فٹ پاتھ پر‘‘۔ آپ کو ان سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’بس حکم ہوا ہے کہ کوئی گاڑی سڑک پر نہ ہو‘‘
’’گزرنا کس نے ہے؟‘‘
’’یہ نہیں معلوم! مگر کوئی بڑا وی وی آئی پی ہے۔‘‘
’’لیکن نئے پاکستان میں تو یہ وی آئی کلچر۔ یہ روٹ سسٹم سب کچھ سنا تھا ختم ہو رہا ہے‘‘
اس پر پولیس اہلکار بے بسی سے ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گھر کے مکین نے زیادہ بحث کی کہ گیٹ کے اندر جگہ نہیں‘ تو اہلکار نے دور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے‘ عاجزانہ درخواست کی کہ وہاں کھڑی کر دیجیے۔ اس نے کہا کہ ’’ہماری مجبوری ہے۔ ہم تو خود بے بس ہیں‘‘
کل کے اس واقعہ میں‘ جو وفاقی دارالحکومت کے قلب میں واقع ہوا‘ ایک رمق بھر مبالغہ نہیں! مکین کو پولیس کے اہلکار پر رحم آیا۔ اس نے سوچا کہ یہ غریب‘ نہ جانے کس کس کی منتیں کر کے آیا ہو گا! اس نے دونوں گاڑیاں اس جگہ جا کر پارک کر دیں۔ جہاں اہلکار چاہتا تھا۔
دوسری طرف وزیر اطلاعات نے صاف بتا دیا ہے کہ بیورو کریسی کو حکومتی احکام پر عمل کرنا پڑے گا! گویا پرنالہ وہیں پر ہے جہاں تھا اور ’’جتھوں کی کھوتی اوتھے ای جا کھلوتی‘‘ یعنی گدھی جہاں کی تھی وہیں پہنچ گئی ہے!
چلیے !مان لیا کہ اقتصادی اشاریے تبدیل کرنے میں وقت لگے گا۔ آبادی بڑھنے کی شرح‘ سالانہ ترقی کی شرح ‘ ڈیمو ں کی تعمیر‘ تعلیمی نظام میں تبدیلی اور کئی دوسرے مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لیے دن ‘ ہفتے اور مہینے نہیں‘ سال اور کبھی کبھی عشرے درکار ہوتے ہیں۔ مگر وی آئی پی کلچر اور پولیس میں مداخلت کا سدباب تو ایک حکم سے ہو سکتا ہے!
اب یہ طے ہے کہ ایسا نہیں کیا جا رہا ! انہی صفحات پر رویا جا چکا ہے‘ دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ پر وی آئی پی کلچر شدومد سے مسلسل جاری ہے۔ نہ جانے اس پر کیا ایکشن ہوا۔ اگرچہ لگتا نہیں کہ ہوا ہو گا۔ اس لیے کہ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
باغ کودیکھ کر معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ بہار کس رنگ کی ہے!! وزیر اعظم نے اپنے سارے دعوئوں کے باوجود‘ عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کے ایشو پر ہتھیار ڈال چکے ہیں! اگر وہ ہتھیار نہ ڈالتے تو معاملہ سپریم کورٹ تک جاتا ہی کیوں؟ ان کی خاموشی اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ آئی جی پولیس کو ایک سائڈ پر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا پولیس افسروں کو طلب کرنا اور غیر متعلقہ شخص کو اس سارے معاملے میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے درمیان میں ڈالنا۔ وزیر اعظم یہ سب قبول کر چکے ہیں۔ اقبال نے تو بہت پہلے وارننگ دے دی تھی ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
یہ تو حکومت کا رویہ ہے! عوام کا رویہ اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن ہے! جب بھی کسی کو جرم کے حوالے سے پکڑا جاتا ہے تو اس کے حمایتی اس کی خدمات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ رہا جرم تو اُس کی بات ہی نہیں کرتے!میں اگر ڈاکٹر یا انجینئر ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جرم میں نہیں پکڑا جائے گا؟ آخر میں نے اتنے مریضوں کا علاج کیا ہے۔ اتنی شاہراہیں اور اتنے پُل بنائے ہیں! جُرم جو بھی ہے اس پر گرفت نہیں ہونی چاہیے!
مانا کہ پروفیسروں کو ہتھکڑی نہیں لگانی چاہیے تھی مگر جو الزامات ان پر لگے ہیں‘ ان کی چھان بین کیوں نہ کی جائے؟ عدالتوں میں انہیں طلب کیوں نہ کیا جائے! ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں کا بُرا حال ہے! اقربا پروری اور قانون شکنی عروج پر ہے! گروہی سیاست یونیورسٹیوں کے کلاس روموں تک سرایت کر چکی ہے! اساتذہ قوم کے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ اگر وہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو ان کے شاگرد کل عملی زندگی میں کیا گل کھلائیں گے؟ اگر وہ استاد ہیں‘ اگر وہ عمر رسیدہ ہیں‘ اگر وہ عصادر دست ہیں تو ان کا احترام واجب ہے۔ ہتھکڑی نہیں لگنی چاہیے‘ پولیس کارویہ مودبانہ ہونا چاہیے۔ مگر خدارا انہیں فرشتہ تو نہ ثابت کیجیے۔ آخر کار وہ انسان ہیں یہ اور بات کہ انسان سازی پر مامور تھے! ایمرجنسی اختیارات کو 2175بار استعمال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ منظور شدہ فیس طلبہ سے 62کروڑ‘ منظور شدہ سے زیادہ وصول کرنا‘ پرائیویٹ سب کیمپسز کو اتنی کھلی چھٹی دینا کہ وہ کروڑوں کی واجب الادا رقم ادا ہی نہ کریں۔ ایسے پروگراموں میں داخلے دے دینا جو یونیورسٹی میں پڑھائے ہی نہیں جا رہے۔ ایسے منصوبے شروع کر دینا جن میں فائدے کے بجائے نقصان کا احتمال ہے۔ ساری کاغذی کارروائی ایک ہی دن میں مکمل کر کے من مانے کام کرنا‘ بغیر اشتہار کے سینکڑوں ملازمتیں بانٹ دینا اور اس کے علاوہ کئی غیر قانونی کام کرنا اور پھر حواریوں کا اور ہم خیال ساتھیوں کا احتجاج کرنا۔ یہ تعلیم یافتہ اور قانون پسند لوگوں کا رویہ نہیں!
ایک عالی منصب ’’استاد‘‘ کے بارے میں ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ ایک ہی تقریر من و عن‘ لفظ بہ لفظ ‘ ہر جگہ کرتے ہیں! اہل علم کی شان ایسی نہیں ہوتی!ایسی حرکتیں اساتذہ نہیں دغل کار اور حیلہ گر کرتے ہیں!
یوں بھی حیلہ گری بہت کچھ کر دکھاتی ہے! سرکاری یونیورسٹی ہو تو اُس پر مافیا کی طرح چھا جائیے۔ پورے نظام کو یرغمال بنا لیجیے۔ اساتذہ کو بے بس کر دیجیے! کچھ کو حواری بنا لیجیے کیمپس کو سیاسی جماعت کا گڑھ بنا لیجیے۔ مگر نجی یونیورسٹی ہو اور اپنی ہو تو رویہ مکمل طور پر بدل لیجیے۔ یہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ دیجیے۔ جب زمینوں کا کاروبار کرنے والے اور پراپرٹی ڈیلر مصلحین کا روپ دھار لیں گے تو حیلہ گری اور دوغلے پن کے علاوہ کیا نظر آئے گا!! ؎
ان ظالموں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment