لڑکا بگڑا ہوا تھا۔ برسوں کا بگڑا ہوا، کھیل کود کا عادی، پڑھائی سے متنفر، کبھی گھر سے بھاگ جاتا، کبھی مکتب سے، کبھی کسی لڑائی میں ملوث، کبھی کسی کو پیٹ کر آتا، کبھی آتا تو سر پر پٹی بندھی ہوئی۔
ماں باپ کا بخت اچھا تھا۔ استاد وہ ملا جو حکومت پر نہیں حکمت پر یقین رکھتا تھا۔ اُس نے لڑکے پر رعب جمایا نہ کوئی سزا دی۔ اصلاح کا آغاز اُس نے لڑکے سے شطرنج کی بازی کھیل کر کیا۔ دوستی ہو گئی تو اس کے مشاغل کی تفصیل معلوم کرنے لگا۔ پھر وہ دن آیا کہ لڑکا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گزارنے لگا۔ چند ہفتوں بعد اس میں تبدیلی آنے لگی۔ اس نے لڑائی جھگڑے والے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ محلے والوں نے حیرت سے اسے کتابیں خریدتے اور پڑھتے دیکھا۔ اب وہ سکول میں باقاعدہ آنے لگا۔ پھر یہ وہی لڑکا تھا جس نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا اور تقریری مقابلوں میں سب سے زیادہ انعامات حاصل کیے۔ ایک طرزِ اصلاح متبادل بھی تھا۔ یہ کہ اسے زبردستی پڑھائی پر مجبور کیا جاتا۔ سارا کام سزا سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے طلبہ کے سامنے اس کی تذلیل کی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ ایسا بھاگتا کہ کسی کے ہاتھ نہ آتا۔ اور ظاہر ہوتا تو عادی، سزا یافتہ مجرم بن کر۔
یہ واقعہ ایک خبر پڑھ کر ذہن میں تازہ ہوا۔ لاہور میں کل سے ان افراد کے لیے بھی ہیلمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو موٹر سائیکل چلانے والے کے پیچھے بیٹھیں گے یعنی دوسری سواری کے لیے بھی۔
اس میں کیا شک ہے کہ ٹریفک کے معاملے میں ہم مہذب دنیا سے پیچھے ہیں۔ کوسوں پیچھے۔ شاہراہوں پر قتلِ عام یوں ہو رہا ہے جیسے خانہ جنگی برپا ہو۔ موٹر سائیکل سوار کسی نظم کے پابند نہیں۔ وہ ٹکر مارتے ہیں اور اٹھائی گیروں کی طرح بھاگ پڑتے ہیں۔ سانپ کی طرح دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں رینگتے ہیں۔ ’’زرعی‘‘ گاڑیوں یعنی ٹریکٹروں، ٹرالیوں اور ڈمپروں نے الگ حشر برپا کر رکھا ہے۔ ان پڑھ، غیر تربیت یافتہ وحشی ان ٹریکٹروں، ڈمپروں اور ٹرالیوں کو چلاتے ہیں۔ لوگوں کو کچل دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بڑی شاہراہوں پر، شہروں کے درمیان، ویگنوں، ٹرکوں اور بسوں نے ریاست کے درمیان ریاست الگ قائم کر رکھی ہے۔
شریفوں کی حکومت کو ان پہلوئوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے خواب و خیال میں بھی پاکستان کو مہذب ملک بنانے کا نصب العین نہیں تھا۔ شاہراہوں، پلوں اور انڈر پاسوں سے ان کی حکومت شروع ہوتی تھی اور منی لانڈرنگ پر ختم ہوتی تھی خواہ اس کے لیے پاکستانی بنک کی نیویارک برانچ بند ہی کیوں نہ کرنی پڑتی۔
عمران حکومت کی خواہش ہے کہ پاکستانی ایک قانون پسند قوم بن کر دنیا کے نقشے پر از سرنو ابھریں، یہاں ہر کام ضابطے کے مطابق ہو۔ تعمیرات قانون کے مطابق ہوں مگر نئی حکومت کا طریقِ کار حکمت سے خالی نظر آ رہا ہے۔ حکومت کا طرزِ عمل اُس استاد کی طرح ہے جو اصلاح کا عمل ڈنڈے تھپڑ اور پائوں کی ٹھوکر سے شروع کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے اردگرد جو لوگ حصار باندھے کھڑے ہیں وہ حکمت سے کم اور حکومت سے کام زیادہ لے رہے ہیں۔ کچھ تو شفقت محمود صاحب کی طرح بالکل ہی سو رہے ہیں اور ان کی قلمرو میں آلِ شریف کے وفادار راتب خور اسی طرح مسندوں پر براجمان ہیں جیسے پہلے تھے اور کچھ اتنا تیز بھاگ رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل ضرور گریں گے۔
کوئی ہے جو انہیں بتائے کہ ستر برس پر پھیلی ہوئی برائیاں اچانک اصلاح پذیر نہیں ہوں گی۔ ہیلمٹ ہی کی مثال لے لیجیے۔ پیچھے بیٹھنے والی سواری کے لیے ہیلمٹ پہننا اس کی اپنی سلامتی کے لیے ضروری ہے مگر مسئلہ مالیات کا ہے۔ پہلے انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کا عہد ہے۔ آسانیاں حکومت کے لیے بہت ہیں۔ کم از کم تین ماہ کا عرصہ تشہیر کے لیے رکھنا چاہیے۔ اخبارات میں اشتہارات دیجیے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے لوگوں کے ذہن بدلیے۔ انہیں مسلسل بتائیے کہ تین ماہ کے بعد یہ پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اکثریت اس عرصہ سے فائدہ اٹھائے گی اور ہیلمٹ کا انتظار کر لے گی۔ جب یہ عرصہ گزر جائے تو پھر آپ بے شک قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیے۔ سزا دیجیے مگر اچانک پچھلی سواری پر ہیلمٹ کی پابندی لگائیں گے تو ردّعمل شدید ہو گا اور سخت منفی!
اسی طرح جرمانہ کی رقم بتدریج بڑھائیے۔ مہم کم جرمانے سے شروع کیجیے تا کہ عوام کو احتجاج کی ضرورت نہ پڑے۔ دو تین سو روپے کا جرمانہ ایک رکشے والے کے لیے، ایک موٹر سائیکل سوار کے لیے بہت ہے۔ اتنی رقم کا جرمانہ تین چار بار ہو گا تو وہ اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گا۔ یکدم جرمانہ اس کی بساط سے باہر ہو گا تو وہ خودسوزی کا تماشہ بھی لگائے گا۔ جلوس بھی نکالے گا اور حکومت کو گالیاں بھی دے گا۔ووٹ تو خیر وہ ایسی نامہربان حکومت کو کبھی بھی نہیں دے گا۔
غیر قانونی تعمیرات گرانے میں بھی حکومت نے عاجلانہ اقدام اٹھایا ہے۔ زیریں طبقے کو یا تو مستثنیٰ قرار دیا جاتا یا ان کی بات سنی جاتی۔ جس شخص کے پاس خریداری کی رجسٹری موجود ہے، اس نے رقم دے کر قطعۂ زمین خریدا پھر خون پسینے کی کمائی سے ایک چھوٹا سا ٹھکانہ تعمیر کیا، اسے گرا دینا دانش مندی نہیں ظلم کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے کہ دارالحکومت کی ایک نواحی آبادی میں ایک با اثر مقامی شخصیت نے پہاڑ اور ٹیلے کاٹ کر زمین ’’تیار‘‘ کی۔ پھر چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنا کر فروخت کیے۔ اصل مجرم سرکاری پہاڑ اور ٹیلے کاٹنے والے افراد تھے۔ پلاٹ خریدنے والے کا مکان گرانا غیر منطقی ہونے کے علاوہ ناروا بھی ہے۔ ایک معروف کالم نگار الگ رو رہے تھے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے۔
تبدیلی حکمت اور تدبر سے آتی ہے۔ جبر اور دھونس کا طریقہ کارگر ہوتا تو سوویت یونین کی ایمپائر کبھی ختم نہ ہوتی۔ پہلے عوام کی ذہن سازی کیجیے۔ ان کی سوچ بدلیے۔ انہیں قائل کیجیے کہ چند ماہ کے بعد ہم یہ قانون نافذ کرنا چاہتے ہیںسو، ہماری مدد کیجیے۔ دشمنوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیجیے۔ عشروں کا کام برسوں میں، برسوں کا مہینوں میں اور مہینوں کا دنوں میں کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ پالیسیاں نافذ کرنے والی نوکر شاہی میں کالے رنگ کی بھیڑیں اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment