Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, September 30, 2016

خمسہ

اس طالب علم کو اگر غالب یا اقبال پر یا سعدی یا حافظ پر لکھنا ہو تو‘ معیار سے قطع نظر، کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جیتے جاگتے غالب‘ اقبال‘ سعدی یا حافظ تو دیکھے ہی نہیں! سروکار صرف ان کی تصانیف سے ہے! مگر ظفر اقبال پر لکھتے وقت معاملہ مشکل یوں ہو جاتا ہے کہ شاعر کی شخصیت اور شاعر کی شاعری، دونوں گڈمڈ ہو جاتی ہیں!
یہ 1966ء تھا۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اب اُس طالب علم کا نام یاد نہیں جو کالج میں ہم سے سینئر تھا۔ کینٹین میں ایک دن اس نے شاعری کی ایک نئی کتاب کا ذکر کیا۔ یہ ظفر اقبال کی گلافتاب تھی۔ اُس کے اور دوسرے سینئر طلبہ کے درمیان دھواں دھار بحث ہوئی۔ ایک طرف ظفر اقبال کی مخالفت تھی اور دوسری طرف موافقت! ہم جونیئر انتہائی دلچسپی اور انہماک سے یہ گفتگو سنتے رہے۔ غالباً یہی وہ دن تھا جب خلاقِ عالم نے یہ طے کر دیا کہ جہاں بھی اُردو شاعری کے دو پڑھنے والے ہوں گے‘ وہیں دو گروپ بن جائیں گے۔ ایک پرو ظفر اقبال اور دوسرا اینٹی ظفر اقبال۔ یہ تقسیم کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک، آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک، بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ہر جگہ، ہر گھر میں اور ہر ایج گروپ میں دیکھی‘ اور دیکھ رہے ہیں۔
گلافتاب بگولے کی طرح اٹھی اور آندھی کی طرح چھا گئی۔ جسے جدید اُردو شاعری میں رمق بھر بھی دلچسپی تھی، وہ اس سے تغافل نہ برت سکا۔ اس میں جو تجربہ تھا، اور جو تازگی تھی اور جو نئی تشبیہیں تھیں، اور پُرانے الفاظ کا جو نیا استعمال تھا‘ اس نے بہت سوں کے حواس گم کر دیے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سرسوں کی گندل اُردو شاعری میں در آئے گی؟  ؎  
لوہے کی لاٹھ بن کے اڑے عمر بھر تو ہم 
اب ٹوٹنے لگے تو سرہوں کی گندل ہوئے
کیا سرسوں کی گندل کو آپ نے انگوٹھے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کے درمیان رکھ کر کبھی ناخن سے کاٹنے کی کوشش کی ہے؟ کرکے دیکھیے اور پھر یہ شعر پڑھیے۔ کیا زندگی کی نزاکت کی اس سے بہتر تشریح ہو سکتی ہے؟
بد قسمتی سے یا خوش بختی سے‘ میں شاعری کا قاری ہوں، نقاد نہیں۔ ورنہ زنبیل سے ایسی ایسی اصطلاحات‘ اوزار اور ہتھیار نکالتا کہ ایک تو پڑھنے والے کے ہوش اُڑ جاتے دوسرے، وہ کسی بھی شاعر کی تخلیقات پر منطبق ہو جاتے۔ 
اور یہ جو لکھا ہے کہ شاعر کی شخصیت درمیان میں آ جاتی ہے، تو پھر وہ وقت بھی آیا کہ ظفر اقبال کو غریب خانے میں پایا! والد محترم جب اپنے دوسرے فرزند کے پاس کچھ دن گزارنے کے لیے پہلی بار امریکہ کے سفر پر جا رہے تھے تو ایئرپورٹ پر گمبھیر اداسی کے درمیان ایک جملہ کہا: انسان کی زندگی میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سو یہ عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا کہ جس شاعر کے مجموعہ ہائے کلام ’’آبِ رواں‘‘ اور ’’گلافتاب‘‘ کسی شعوری کوشش کے بغیر تقریباً حفظ ہو چکے تھے، وہ شاعر پاس بیٹھا تھا! ہم اُسے براہِ راست سُن سکتے تھے۔ باتیں کر سکتے تھے اور چُھو سکتے تھے!
شاعری نے تو حیران کیا ہی تھا، ظفر اقبال کی شخصیت نے اور بھی حیران کیا۔ یاخدا! یہ کیسا شاعر ہے جو سورج کی پہلی کرن سے بہت پہلے اُٹھ پڑتا ہے! شام چار بجے کا وقت طے ہوا کہ اسلام آباد راولپنڈی کے کچھ منتخب شاعر ادیب آئیں گے اور ظفر اقبال صاحب سے گفتگو کریں گے۔ ساڑھے تین بجے تک بہت سے احباب وفور اشتیاق میں آچکے تھے۔ اب ماتھا ٹھنکا۔ معلوم نہیں ظفر صاحب کہاں ہیں، پہنچتے بھی ہیں یا نہیں! اس ضمن میں دوسرے شعرا کے حوالے سے جتنے تلخ تجربات ہوئے تھے، ایک ایک کرکے یادداشت پر ہتھوڑے چلانے لگے۔ چار بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ ظفر اقبال ہمارے درمیان موجود تھے! یارِ دیرینہ شعیب بن عزیز نے اِس کالم نگار کے بارے میں کہا تھا کہ اتنی واجبی ذہانت کے ساتھ اتنی بڑی شاعری! سو حیرت ہوئی کہ اتنی غیر شاعرانہ عادات کے ساتھ ظفر اقبال نے اتنی عظیم شاعری کر ڈالی!
پھر وہ وقت بھی آیا کہ جناب نے حکم صادر فرمایا کہ آبِ رواں کا نیا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے، تم اس کا فلیپ لکھو۔ یہ ایسے ہی تھا کہ چوہدری اپنے مزارع کو کہے کہ میرے ساتھ والی کرسی پر تشریف رکھو! حیرت سے گنگ ہو کر جسارت کی کہ یا حضرت! یہ کیسے ممکن ہے؟ کہنے لگے، میں اپنے جونیئرز کی آرا بھی لینا چاہتا ہوں۔ سو اس وقت آبِ رواں کا جو ایڈیشن مارکیٹ میں دستیاب ہے اور جو برادر محترم فرخ سہیل گوئندی صاحب نے شائع کیا ہے، اس کا فلیپ اِس طالب علم کا لکھا ہوا ہے۔ ظفر صاحب نے یہ اعزاز صرف مجھے ہی نہیں دیا، اپنے دوسرے جونیئرز کو بھی عطا کیا۔ اس وقت سامنے ان کی کلیات ’’اب تک‘‘ کا پانچواں حصّہ ہے۔ اس میں ابرار احمد، جاذب قریشی، گوہر نوشاہی، الیاس بابر اعوان، فاطمہ حسن، سرور جاوید، ظفرالنقی، اصغر ندیم سید، علی اکبر ناطق، حسین مجروح، سلیم کوثر، اختر عثمان، آفتاب حسین اور عابد سیال کے تبصرے، مضامین اور آرا شامل ہیں۔ جونیئرز کے حوالے سے ان کی ایک اور عادت بھی سینئر شعرا سے بالکل مختلف ہے! وہ اپنے بعد کے شعرا کو غور سے اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ اور یہ کہنا تو تحصیل حاصل ہے کہ رائے دیتے وقت لحاظ یا رعایت نہیں کرتے! اِس لکھنے والے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی نثری تصنیف لا= تنقید میں ایک مضمون اس کے حوالے سے بھی ہے جو دراصل ایک کالم پر کڑا تبصرہ ہے!
محبت پر جو شعر ظفر اقبال نے کہے ہیں‘ وہ تو کہے ہی ہیں، زندگی کی تلخیوں، معاشرے کی مکروہات، ہمارے متعفن گلے سڑے مائنڈ سیٹ اور عام آدمی کو درپیش روزمرہ کی بے حرمتی پر ظفر اقبال نے جو کچھ غزل میں کہا ہے، سچ یہ ہے کہ نظم کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے! ایک کالم اس کا کیا متحمل ہو سکتا ہے اور ایک مجھ سا طالب علم اس پر کیا لکھے گا! مگر اُردو شاعری کا پرو ظفر اقبال گروہ انگشت بدنداں ہے کہ غزل کو وہ کہاں سے کہاں لے گیا۔ یوں لگتا ہے اُردو غزل اس کے تھیلے میں ہے۔ تھیلا اس کے کندھے پر ہے۔ وہ جا رہا ہے۔ جہاں چاہتا ہے، رُکتا ہے، تھیلے کو کندھے سے اُتارتا ہے اُس سے غزل نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیرت سے گنگ رہ جاتے ہیں کہ ہر بار غزل کی ایک انوکھی ہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ رہا اُردو شاعری کا وہ گروہ جو اینٹی ظفر اقبال ہے، تو اصل میں وہ بھی پرو ظفر اقبال ہی ہے اس لیے کہ تیلی نے کہا تھا جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ، تو جاٹ نے جواب دیا تھا کہ تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو! تیلی نے طعنہ دیا کہ قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے کہا‘ قافیہ نہیں ملا تو کیا ہوا، کولہو تمہیں بھاری تو لگے گا نا! سو اینٹی ظفر اقبال گروہ کو ظفر اقبال کے شاعری پسند نہیں آرہی تو کیا ہوا! بھاری تو لگ رہی ہے! یوں بھی عربی کا محاورہ ہے مَنْ صَنَّفَ قَدِ اسْتَہْدَف جس نے بھی نئی راہ نکالی، تنقید اور ملامت کا ہدف بنا   ؎
ازان کہ پیروئی خلق گمرہی آرد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
خلق کے پیچھے چلنے سے گمراہی کے سوا حاصل ہی کیا ہؤا؟ اس لیے تو گزرے قافلے کے نقوشِ پا کو لائقِ التفات نہ سمجھا!
معاشرے کی مکروہات اور گلے سڑے مائنڈ سیٹ کی بات ہو رہی تھی۔ طوالت کی گنجائش نہیں مگر دو چار اشعار: 
گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی
کتے بلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا!
ہم وہی کمّی اور کمین
نون ٹوانے کھوسے تم
عزت ملی تو آخر اُسی سے ملی ظفر
بے غیرتی کے ساتھ جو پیسہ بنایا ہے
رہی محبت! تو محبت کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو بابے نے چھوڑا ہو۔ صرف ایک شعر   ؎
زندگی کے گھپ اندھیروں میں کہیں پر تھوڑی تھوڑی 
اس کے ہونٹوں کی چمک سے روشنی ہونے لگی ہے
ادب میں خمسے بہت مشہور ہیں۔ نظامی گنجوی 1130ء میں پیدا ہوئے۔ پانچ کتابوں پر مشتمل خمسہ لکھا اور بعد میں آنے والوں کو امتحان میں ڈال گئے۔ مخرنِ اسرار، خسرو شیریں، لیلیٰ مجنوں، سکندر نامہ اور ہفت پیکر۔ سکندر نامہ ہمارے مدارس میں پڑھایا جاتا رہا۔ امیر خسرو 1253ء میں پیدا ہوئے۔ نظامی کے جواب میں خمسہ لکھا۔ اس میں مطلع انوار معرکے کی تصنیف ہے۔ 1414ء میں جامی تشریف لائے۔ انہوں نے بھی خمسہ لکھا۔ تحفۃ الاحرار مشہور ہوئی۔ ان کی تصنیف یوسف زلیخا درس نظامی کا حصہ رہی۔ ظفر اقبال 1932ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا خمسہ ایک اور ہی طرز کا ہے۔ یہ جو پانچویں جلد کلیات کی اب آئی ہے‘ اس میں چھ کتابیں شامل ہیں مگر پانچ جلدیں خمسہ ہی تو ہیں اور ابھی تو اللہ اسے سلامت رکھے سِتہ سبع یہاں تک کہ تِسع اور عشرہ بھی آئے گا!

Wednesday, September 28, 2016

کوئی ہے سننے والا؟


ڈاکٹر ریحان جب بھی صبح گھر سے نکلتے، آدھ گھنٹے کا مارجن ضرور رکھتے تاکہ ٹریفک کا کوئی مسئلہ تاخیر کا سبب بنے تو وقت میں گنجائش ہو۔ اس دن انہوں نے یہ گنجائش چالیس منٹ کی رکھی‘ اس لیے کہ ایک نازک آپریشن کرنا تھا۔ مریض کو رات سے خالی پیٹ رکھا گیا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر سرجری کا آغاز ہونا تھا۔ وہ فیض آباد کے قریب پہنچے تو ٹریفک بلاک تھی۔ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی انتظار کرنا شروع کر دیا۔ خیال یہی تھا کہ دس پندرہ منٹ کی بات ہو گی۔ مگر آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر ڈیڑھ گھنٹہ‘ اور پھر دو گھنٹے۔ ان کا مریض، ان کا سٹاف، ان کے مریض کے لواحقین سب انتظار کر رہے تھے۔ وہ انہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ کیوں رُکی ہوئی ہے؟ یہ نہیں معلوم۔
اس رُکے ہوئے اژدہام میں ایک اور گاڑی بھی پھنسی ہوئی تھی‘ جس میں نصیر صاحب مسلسل قے کر رہے تھے۔ وہ دل کے مریض تھے۔ ان کے بیوی بچے رُکی ہوئی گاڑی میں آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے اور نصیر صاحب کا منہ اور چہرہ ہر قے کے بعد ٹشو پیپر سے پونچھ رہے تھے۔ گاڑی کے فرش پر ٹشو پیپروں کا ڈھیر بڑھتا جا رہا تھا۔ نصیر صاحب کی آنکھیں مُندی ہوئی تھیں۔ ان کی بیوی کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ مگر گاڑیوں کا ایک سمندر ان کی گاڑی کے آگے اور ایک سمندر ان کی گاڑی کے پیچھے موجزن تھا۔ دھوپ تیز ہو رہی تھی۔
اس سمندر میں، فیض آباد کے دوسری طرف ایک اور گاڑی میں چوہدری شریف دھاڑیں مارتی بیوی کو دلاسہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کے والد کا لاہور میں انتقال ہو گیا تھا‘ اور وہ جلد سے جلد اپنے باپ کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ تین گھنٹوں سے ٹریفک رُکی ہوئی تھی۔ بیوی کو غش پر غش آ رہے تھے اور چوہدری شریف اس کے چہرے پر پانی چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس نظر آ رہی تھی نہ ریاست!
ٹریفک کے اس بحرِ اوقیانوس میں ایک موٹر سائیکل سوار بھی تھا‘ جو مسلسل رو رہا تھا۔ اِس بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے انٹرویو کے لیے طلب کیا تھا۔ جوں جوں انٹرویو کا وقت قریب آ رہا تھا، اس کے دل کی دھڑکن اس کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اُمیدواروں کی کمی نہیں تھی اور اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ وہ اس کا انتظار کریں۔ پھر انٹرویو کا وقت آ گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر انٹرویو کا وقت گزر گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا۔ اسے بے بسی میں، اِس بے کسی میں، اس بیچارگی میں وہ اور کیا کرتا۔
تقریباً تین گھنٹے گزر چکے تو ٹریفک پولیس کی وردی میں ملبوس ایک اہلکار بھاگتا بھاگتا گزرا… ’’واپس چلو، آگے شاہراہ بند ہے۔ انہوں نے لاشیں ہائی وے پر رکھی ہوئی ہیں۔ کسی کو گزرنے نہیں دے رہے‘‘۔
اب ایک اور قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں گاڑیاں ریورس ہونے میں لگ گئیں۔ بہت سی ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ جھگڑے ہوئے۔ ایک خاتون ڈرائیور، دو نوجوانوں سے بحث کر رہی تھی‘ جو اُلٹا اُسے قصوروار ثابت کر رہے تھے۔
اورنج ٹرین، میٹرو بسوں اور کھلی شاہراہوں کا کیا فائدہ جب آپ یہ ضمانت نہ دے سکیں کہ وہ ٹریفک کے لیے ہمہ وقت میسر رہیں گی۔ دارالحکومت کی ایکسپریس ہائی وے ایک عرصہ سے ٹارگٹ بنی ہوئی ہے۔ جس کسی کا کوئی عزیز قتل ہوتا ہے، وہ لاش لا کر شاہراہ پر رکھ دیتا ہے۔ پھر پولیس اور انتظامیہ کے افسران آ کر اِن قانون شکنوں سے ’’مذاکرات‘‘ کرتے ہیں جیسے کوئی ٹریڈ یونین ہو یا دوسرے ملک کے نمایندے ہوں! یہ ریاست کی حد درجہ کمزوری ہے۔ یہ ’’مذاکرات‘‘ جو اصل میں منت سماجت ہوتی ہے‘ بعض اوقات گھنٹوں بلکہ پہروں جاری رہتے ہیں اور ٹریفک میں مریض، ڈاکٹر، مسافر، طالب علم، حاملہ عورتیں، سکولوں کے معصوم بچے، تھکے ماندے بوڑھے‘ سب اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کئی موت کا پیالہ پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بلیک میلنگ پورے ملک میں جاری ہے۔ حیدر آباد اور کراچی کے درمیان سپر ہائی وے بھی بلاک کر دی جاتی ہے۔ پنجاب کے تقریباً ہر قصبے اور ہر شہر میں شاہراہ بلاک کرنے کا ’’رواج‘‘ عام ہے۔ سیاسی جماعتیں الگ ظلم ڈھاتی ہیں۔ ان کے جلوس، احتجاج اور دھرنے عوام کو بے پناہ مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔
معمر حضرات کو یاد ہو گا کہ ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی میں جی ٹی روڈ پر ایک پولی ٹیکنک کالج بنا تھا۔ اس کے طلبہ آئے دن جی ٹی روڈ بلاک کر دیتے۔ اسی کالج کا طالب علم عبدالحمید ایک احتجاج کے دوران جی ٹی روڈ پر موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ بھٹو صاحب کی سیاست کا آغاز تھا۔ وہ مرحوم طالب علم کے آبائی قصبے پنڈی گھیب میں تعزیت کے لیے بھی گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو آئے دن کے اِس بکھیڑے کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ اُس کالج کو کہیں اور منتقل کر دیا اور یہاں ایک عسکری ٹیکنیکل ادارہ قائم کر دیا۔ اس کے بعد یہ شاہراہ کبھی نہ بلاک ہوئی۔ پولی ٹیکنک کالج کہاں منتقل ہوا؟ کم از کم اس کالم نگار کو اس کی خبر نہیں۔ مگر جو کچھ ہوا بالکل درست ہوا۔ 
ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں کیا کر رہے ہیں؟ امریکی قانون دیکھیے:۔
’’اگر آپ احتجاج کے دوران دوسروں کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں، تو آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جو احتجاج گاڑیوں کی آمد و رفت یا پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کرے وہ غیر قانونی ہے۔ آپ کسی عمارت کے اندر داخل ہونے کا راستہ بند نہیں کر سکتے‘ نہ ہی عوام کو ہراساں کر سکتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ آپ آزادیء تقریر کا حق کسی کی ذاتی جائداد پر، کسی شاپنگ مال پر، مالک کی اجازت کے بغیر نہیں استعمال کر سکتے۔ جب آپ کو پرائیویٹ پراپرٹی سے چلے جانے کا کہہ دیا جائے تو پھر آپ کو وہاں موجود رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کا احتجاج کرنے کا حق متاثر ہوا ہے تو قانونی چارہ جوئی کیجئے‘‘۔
امریکہ ہی میں کچھ عرصہ پہلے ایک احتجاج کے دوران گاڑیوں کا راستہ بند کر دیا گیا۔ یہ منی سوٹا ریاست کا واقعہ ہے۔ ایک گاڑی نہیں رکی اور ہجوم میں سے راستہ بناتی گزرتی گئی۔ اس کشمکش کے دوران ایک لڑکی کی ٹانگ گاڑی کے نیچے آ کر کچلی گئی مگر ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا نہ اُس پر کوئی الزام لگا۔
احتجاج کرنے والے یہ دلیل لا سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی آمد و رفت کے وقت بھی تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ یہ دلیل ضعیف ہے۔ اصولی طور پر حکمرانوں کے شاہی جلوسوں کے لیے ٹریفک بالکل بند نہیں ہونی چاہیے؛ تاہم اِس بیماری… کا وقفہ اب مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم لکھنے والوں کے پیہم احتجاج کے سبب ایسا ہوا ہو۔ اس سلسلے میں شدید ترین ظلم جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ہوتا رہا‘ جب پورا کراچی دن بھر کے لیے سیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے سبب اموات بھی ہوئیں۔ ایک بار موصوف کوئٹہ گئے تو مبینہ طور پر ایک دن کی سکیورٹی پر دو کروڑ روپے صرف ہوئے۔ لاہور کا نہیں پتہ مگر وفاقی دارالحکومت میں شاہی جلوس کے طویل قافلے کے لیے پندرہ بیس منٹ ہی عوام کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اس کا موازنہ لاشوں کے احتجاج کے ساتھ نہیں ہو سکتا جو کئی پہروں پر محیط ہوتا ہے۔ 
روزنامہ دنیا کی وساطت سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔
٭ اب وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون پاس کیا جائے کہ کسی بھی شاہراہِ عام کو بند کرنا شدید جرم سمجھا جائے گا اور شاہراہ واگزار کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭ اس کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس قانون کی بھرپور تشہیر ہونی چاہیے تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہو جائے۔
٭ کسی بھی شاہراہ عام کو بند کرنے والوں کو وہاں سے ہٹانے کے لیے آنسو گیس یا ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے متعلقہ قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭ سیاسی تقاریر کے لیے ہر شہر میں ایک جگہ مختص کی جائے۔ دارالحکومت میں ایف نائن پارک کا ایک گوشتہ اس کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی اور احتجاجی تقاریر اس مخصوص جگہ کے علاوہ کہیں بھی نہ کرنے دی جائیں۔
٭ سیاسی جماعتیں جلوس نکالنے کے لیے پرمٹ حاصل کریں اور ضمانت دیں کہ ٹریفک نہیں روکی جائے گی۔
٭ مذہبی نوعیت کے جلوسوں کا معاملہ حساس ہے‘ مگر یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے جلوس آدھی شاہراہ کو استعمال کریں اور بقیہ آدھی ٹریفک کے لیے کھُلی رہے۔

Monday, September 26, 2016

None Of Your Business


اس نے پلائو کی فرمائش کی۔ بیگم نے کہا آپ اچھا سا گوشت لے آئییِِ، میں پکا دیتی ہوں۔ میاں لے آیا۔ بیگم نے پکانا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دیگر گزری تھی کہ میاں باورچی خانے میں آیا۔ لُونکی سے دھنیا اور نمک نکال کر بیگم کو دیا کہ یہ بھی پلائو میں ڈالنا ہو گا۔ بیگم نے تعجب سے دیکھا تاہم خاموش رہی۔ پھر پوچھنے لگا پیاز کتنے ڈالو گی؟ گھی ڈال دیا ہے یا نہیں؟ یخنی کہاں ہے؟ بیگم نے ایک ہولناک تیوری اپنے ماتھے پر ٹانکی اور ڈانٹ کر کہا، آپ نکلیں باورچی خانے سے۔ آپ کو پلائو چاہیے نا؟ پسند نہ آیا تو گلہ کیجیے گا لیکن میرے کام میں مداخلت نہ کیجیے۔ اگر بیوی انگریز ہوتی تو ایک ہی فقرہ کہتی:
It is none of your dirty Business
معلوم نہیں گائودی میاں کو بات سمجھ میں آئی یا نہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ چپ کر کے باورچی خانے سے نکل گیا ہو گا۔ مگر یہ سادہ سا نکتہ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔
آج پاکستان جس حال کو پہنچا ہوا ہے، جس کھائی میں گرا ہوا ہے اور قوموں کی برادری میں جس عبرت ناک مقام پر کھڑا ہے، اس کا اصل سبب جاننا ہو تو صرف یہ دیکھ لیجیے کہ جمعہ کے دن وزیر اعظم آفس اور دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے درمیان کیا آنکھ مچولی کھیلی جاتی رہی۔
اس سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ ایک منتخب نمائندے کی کارکردگی اور نوکر شاہی کے ایک رکن کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کی مزید وضاحت تحصیل حاصل ہو گی۔ منتخب میئر کو ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کا قلم دان سونپا گیا۔ اس کے بعد اسے کام کرنے دیا جائے گا تو وہ کچھ کر کے دکھا سکے گا۔ کسی دوسرے محکمے سے ادھار پر مانگے گئے ایک افسر کی مدت تمام ہو چکی تھی۔ ترقیاتی ادارے نے بہت پہلے توسیع کا مطالبہ کیا۔ وفاقی حکومت نے توسیع کا حکم نامہ جاری نہ کیا۔ میئر نے اسے ادارے سے فارغ کر دیا۔ یہ میئر کا اختیار تھا اور بات بھی منطقی تھی کیونکہ توسیع کے احکامات تھے ہی نہیںٖ!
وزیر اعظم کے دفتر نے مداخلت کی۔ فارغ کیا گیا افسر، تین چار گھنٹوں کے اندر، وفاقی حکومت سے اپنا توسیع نامہ لے کر آگیا۔
یہ ہے وہ مذاق جو اس ملک میں عرصہ سے چل رہا ہے۔ یہ مائیکرو لیول کی مداخلت، یہ 
House-Keeping 
یہ نمک اور دھنیا نکال کر پکانے والی کو ہدایت نامہ جاری کرنا، صرف اِسی حکومت پر موقوف نہیں۔ حسبِ توفیق یہ ظلم ہر حکومت نے کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو دو دن پہلے نیویارک میں گھڑی خریدتے پائے گئے، وفاقی حکومت میں ایک ڈائرکٹر جنرل اپنی مرضی سے لگایا حالانکہ یہ وزارتِ تعلیم کا کام تھا۔ پھر دوست نوازی کی ساری حدیں پار کر کے اسے پانچ بار توسیع دی۔ یہاں صوبے میں کسی کو پولیس کا سربراہ لگایا جاتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے فلاں کو تھانیدار لگائو۔ فلاں کو فلاں تھانہ دو۔ فلاں ایس پی کو فارغ کرو۔ سربراہ صاحب کا سارا ولولہ، سارا پلان، حسرت و یاس کی نذر ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ڈنگ پٹائو کام کرتا ہے۔ وقت پورا کرتا ہے۔ دفتر میں بیٹھ کر مکھیاں مارتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے کام میں توہین انگیز مداخلت کی جا رہی ہوتی ہے۔ عقل کا تقاضا ہے آپ پولیس کے صوبائی سربراہ کو صرف اتنا بتائیے کہ صوبے میں امن و امان قائم ہو، ڈاکو اور چور پکڑے جائیں۔ پھر اسے کام کرنے دیجیے۔ وہ جسے چاہے جہاں لگائے یا وہاں سے ہٹائے۔ آپ سال بعد، یا چھ ماہ بعد نتائج کا جائزہ لیجیے۔ اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہ ہو تو گلہ کیجیے، سرزنش کیجیے، سزا دیجیے مگر خدا کے لیے اس کے کام میں لُچ نہ تلیں۔
یہی ظلم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ ہو رہا ہے اور ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ ایک عام قاری کی اطلاع کے لیے یہ بتانا مناسب ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وفاقی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو پوری بیورو کریسی کا انچارج ہے۔ پولیس، ڈپٹی کمشنر، سب کی ترقیاں وہاں سے ہوتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ہی فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں پولیس افسر یا فلاں انتظامیہ کا افسر صوبہ سندھ میں یا پنجاب میں یا کے پی یا بلوچستان میں تعینات ہو گا۔ مہذب ملکوں میں ایسے ادارے ہر اہلکار کا کیریئر چارٹ تعمیر کرتے ہیں۔ یعنی یہ طے کر لیتے ہیں کہ یہ اتنا عرصہ ضلع میں رہے گا، اتنا عرصہ وفاق میں رہے گا تا کہ ہر شعبے کا، ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوتا رہے۔ مگر آج تک یہ ڈویژن ڈاکخانہ بنا رہا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ناقابلِ بیان حد تک مداخلت کی جاتی ہے۔ کون سی منصوبہ بندی اور کون سا کیریئر چارٹ؟؟ اِن دنوں سید طاہر شہباز اس ڈویژن کے سیکرٹری ہیں۔ نیک نام، دیانت دار اور حد درجہ محنتی شخص۔ فرض کیجیے طاہر شہباز ایک منظم طریقے سے ترقیوں اور تعیناتیوں کی منصوبہ بندی شروع کرتے ہیں۔ ہر شخص کی کیریئر پلاننگ کرتے ہیں۔ کمپیوٹر پر کلک کرنے سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ مسٹر الف چار سال سے صوبے میں کام کرتا رہا ہے۔ اب اسے وفاق میں آ کر اتنا ہی عرصہ خدمات سرانجام دینی چاہئیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، شاہ صاحب کو یہ کام آزادی سے کرنے دیا جائے گا؟ نا ممکن! مداخلت جاری رہے گی۔ صوبائی حکمرانوں نے اسمبلی کے ممبروں کو خوش کرنا ہے۔ اگر ایم این اے کہتا ہے کہ اِس ایس پی کو دیانت داری کا ہیضہ ہے، یہ مجھے نہیں منظور تو کیا صوبائی حکمران ایم این اے کو کہے گا کہ 
It is none of your dirty business ،
 نہیں۔ ہرگز نہیں۔ مکروہ مفادات آڑے آئیں گے۔ دیانت دار افسر کو صوبے سے فارغ کر کے وفاق کا راستہ دکھایا جائے گا کہ جائو، میکے جائو۔ شاہ صاحب کی ساری کیریئر پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی!
وزیر اعظم نے ترقیاتی ادارہ منتخب میئر کی تحویل میں دیا۔ خوش آئند اقدام ہے۔ انقلابی تبدیلی ہے۔ مگر اب خدا را اسے کام کرنے دیجیے۔ وزیر اعظم کے دفتر میں جو ازکار رفتہ ریٹائرڈ حضرات بیٹھے ہیں وہ ماضی میں رہ رہے ہیں۔ منتخب میئر ان کے لیے ایک انوکھی چیز ہے۔ وہ ایسی لکڑیاں ہیں جو فروختنی ہیں نہ سوختنی! عین ممکن ہے کہ میئر نے جن صاحب کو فارغ کیا ہے، وہ لائق ہوں، دیانت دار ہوں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادارے کے سربراہ کو بے بس کر کے رکھ دیا جائے اور اس کی پوزیشن خراب کی جائے۔
منتخب سربراہ اور نوکرشاہی کے درمیان فرق کو سمجھنا ہو تو جمہوریت اور مارشل لاء کے درمیان جو تفاوت ہے، اُس پر نظر ڈالیے۔ اِن کالموں میں بارہا ماتم کیا جا چکا ہے کہ ضلعی ناظم، ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او سے ہزار درجے بہتر تھے۔ انہوں نے ووٹروں کو بھی منہ دکھانا تھا اور مخالفین کو بھی! میئر اگر ترقیاتی ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے تو اس نے بھی کل ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ وہ عوام میں سے ہے۔ اس کا زاویۂ نظر ہی اور ہے۔ بیورو کریسی کے رکن کے سامنے صرف اپنی تعیناتی اور اپنا کیریئر ہے۔ میئر کچھ کر کے دکھائے گا تو سروخرو ہو گا۔ نوکرشاہی کا رکن کچھ بھی نہیں کرے گا تب بھی ترقی کا حقدار ٹھہرے گا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کالم نگار کا تعارف، ملاقات، میئر سے ہے نہ نوکرشاہی کے ہٹائے گئے رکن سے۔ تعارف یا ملاقات کا امکان ہے نہ خواہش!   ؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
ملک اس طرح نہیں چلتے کہ کسی ایک شہر، کسی ایک علاقے، کسی ایک برادری، کسی ایک سیاسی جماعت کے وابستگان کو میرٹ پر ترجیح دی جائے۔ پی آئی اے کا حال سب کے سامنے ہے۔ جیالوں کے گروہوں کے گروہ در آتے رہے۔ پھر متوالے اپنی باری لیتے رہے، آج ایئر لائن اُن ایئر لائنوں کے پاسنگ بھی نہیں جن کو اس نے گودوں کھلایا تھا۔
فوج میں جو شعبہ ترقیاں اور تعیناتیاں کرتا ہے اسے ملٹری سیکرٹری برانچ کہا جاتا ہے۔ اس کا سارا نظام کمپیوٹر میں نصب ہے۔ ایک ترتیب ہے جس سے سلسلہ چل رہا ہے۔ شاید ہی چوٹی سے مداخلت ہوتی ہو۔ کم و بیش ہر افسر کو معلوم ہے کہ اس نے اپنے موجودہ عہدے پر کتنا عرصہ رہنا ہے۔ کمانڈ اور سٹاف اسامیاں توازن سے دی جاتی ہیں۔ بجا کہ فوج اور سول کے درمیان مکمل مشابہت ممکن نہیں، مگر کچھ تو سیکھا جا سکتا ہے۔
حضور! پلائو پکانے دیجیے۔ باورچی خانے میں منہ نہ ماریے۔

Saturday, September 24, 2016

توازن

مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اور مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک میں خواتین کے لیے گھروں سے باہر عبایا پہننا لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبایا سیاہ رنگ کا ہو۔ حال ہی میں ایک عزیز وہاں سے واپس آئے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ شاپنگ مال میں تنہا مرد نہیں جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ پابندی سارے ملک میں ہے یا صرف دارالحکومت میں۔
فرض کیجیے ایک غیر ملکی خاتون کالے رنگ کا عبایا پہننے سے انکار کر دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا طرز عمل درست ہے؟ یقیناً نہیں! وہ جس ملک میں آئی ہے‘ اس کے اپنے قوانین ہیں۔ یہ قوانین جیسے بھی ہیں‘ زمینی حقیقت ہیں۔ یہ بحث تو کی جا سکتی ہے کہ غلط ہیں یا صحیح‘ مگر ان کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی خاتون انکار کرے گی تو اسے ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اور ہاں! یہ بھی کہا جائے گا کہ کیا ہم نے آپ کو بلانے کے لیے ہرکارہ بھیجا تھا؟ آپ عبایا کی پابندی گوارا نہیں کر سکتیں تو اس ملک میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟
فرض کیجیے‘ حکومتی قانون نہیں ہے، یہ صرف اس ملک کی ثقافت کا تقاضا ہے۔ تب بھی اس کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر وہاں کا رسم و رواج آپ کو نہیں پسند‘ تو وہاں رہنے کی کیا مجبوری ہے؟
یہ ستمبر کا وسط تھا۔ مغربی جرمنی کے شہر بیلا فیلڈ کے ایک ریستوران میں ایک خصوصی تقریب تھی۔ ہال‘کمرے اور بیرونی باغ‘ سب گاہکوں سے بھرے تھے۔ ایک خاتون وہاں آئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانکا ہوا تھا۔ صرف آنکھوں کا حصہ نظر آ رہا تھا۔ ریستوران کے منیجر نے خاتون سے کہا کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹائے تاکہ وہ اسے پہچان سکے۔ خاتون نے انکار کر دیا۔ اس پر منیجر نے اسے کہا کہ وہ ریستوران سے چلی جائے۔
اب ایک تنازعہ پیدا ہو گیا۔ چند گھنٹوں میں فیس بک پر پیغامات کے انبار لگ گئے۔ جو لوگ خاتون کے طرف دار تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ جرمنی میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کی رو سے چہرہ ڈھانکنا جرم ہو۔ دوسری طرف والوں کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایسا گاہک دیکھ کر باقی لوگ اگر اضطراب محسوس کرتے ہیں تو منیجر ایسے گاہک کو نکال سکتا ہے۔ تاہم منیجر  کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک صاحب کا کمنٹ تھا۔’’منیجر کا فیصلہ درست تھا۔ اسے کیا خبر نقاب کے پیچھے کون ہے! مرد یا عورت یا گن مین؟ آپ گھر میں جو چاہیں کیجیے مگر ایک غیر ملک میں آپ کو دوسروں کا کچھ تو خیال رکھنا ہی پڑے گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے لکھا ’’معاملہ بالکل سادہ ہے۔ جرمنی میں جرمن ثقافت کا احترام کرنا ہو گا۔ میں جب مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو غیر مسلم ہو کر بھی جوتے اتار دیتا ہوں۔ منیجر کا فیصلہ درست تھا‘‘۔
منیجر نے ایک معروف روزنامے کو بتایا کہ اس کے ریستوران میں گھانا‘ ترکی‘ مصر، یوکرائن ‘ پولینڈ‘ پاکستان اور پرتگال کے لوگ ملازم ہیں۔ کسی کے ساتھ رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ مہمانوں کی کثیر تعداد ایسے گاہک کی موجودگی میں نارمل نہیں محسوس کر رہی تھی۔
اب اس سارے معاملے کو ایک طرف رکھ کر ہم متحدہ عرب امارات کا رُخ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ توازن کس شے کو کہتے ہیں اور بین الاقوامی برادری میں نکِو بنے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ اسی سال جولائی میں متحدہ عرب امارات کا ایک باشندہ امریکہ میں سفر کر رہا تھا۔ اس نے اپنا روایتی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ پولیس نے سادگی کی وجہ سے یا بدنیتی کے سبب ‘ اسے داعش کا رکن سمجھا اور ہتھکڑی لگا لی۔ اگرچہ بعد میں چھوڑ دیا اور معذرت بھی کی!
آپ کا کیا خیال ہے متحدہ عرب امارات کا ردِعمل کیا ہونا چاہیے تھا؟ نہیں معلوم وہاں کی حکومت نے احتجاج کیا یا نہیں‘ مگر بہر طور یہ نہیں کہا کہ ’’یہ ہمارا لباس ہے۔ آپ کون ہیں اس لباس پر اعتراض کرنے والے؟ یہ ہمارے کلچر، ہماری تہذیب، ہمارے مذہب کا حصہ ہے‘‘۔ اس کے برعکس‘ بالکل برعکس‘ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اپنے شہریوں کو ایک ہدایت جاری کی۔ اس میں تلقین کی گئی کہ مغربی ملکوں میں جانے والے اپنے روایتی لباس سے احتراز کریں تاکہ انہیں کسی قسم کا خطرہ نہ لاحق ہو۔ خواتین کو خصوصی طور پر تلقین کی گئی کہ یورپی ملکوں میں جانا ہو تو چہرے کو نہ ڈھانپیں۔
متحدہ عرب امارات سو فیصد اسلامی ملک ہے، مسجدوں سے بھرا ہوا‘ ایک سے ایک جید عالم دین وہاں بیٹھا ہے۔ کسی نے حکومت کے اس فرمان پر تنقید نہ کی۔کسی نے نہیں کہا کہ یہ دین کا بنیادی رکن ہے۔ متحدہ عرب امارات کا یہی وہ Pragmatic
 اور حقیقت پسندانہ رویہ ہے جس کی بنا پر آج وہ واحد مسلم ملک ہے جہاں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں اور سفید فام مغربی بھی وہاں ملازمت پانے اور قیام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اب ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ کیا چہرے کوڈھانپنا اُس خاتون کا‘ جسے ریستوران سے نکال دیا گیا‘ حق نہیں تھا؟ تھا! بالکل تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اتنی ہی بے لچک ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ جرمنی میں ایسا کرنا تضحیک یا تو ہین کا سبب بنتا ہے تو اسے جرمنی میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے روایتی علماء صرف تین صورتوں میں غیر مسلموں کے ملک میں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اوّل‘ مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے۔ دوم، تحصیل علم کے لیے۔ سوم، اگر اپنے وطن میں اس حال کو پہنچ جائے کہ بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہو۔ آج جو کروڑوں مسلمان مغربی ملکوں (بشمول جاپان، آسٹریلیا) میں رہ رہے ہیں‘ ان میں سے بہت ہی کم تعداد ایسی ہے جو حصول علم کے لیے رہ رہی ہے۔ اور شاید ہی کسی کی ہجرت کا سبب یہ ہو کہ وہ اپنے وطن میں دو وقت کی روٹی سے محروم تھا!
یہاں یہ بے بحث بے کار ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا اس خاتون کا مذہبی فریضہ تھا۔ یہ دلیل بھی یہاں بے سود ہے کہ حج کے موقع پر خواتین چہرہ ڈھانپ ہی نہیں سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خاتون جس قسم کا لباس بھی پہننا چاہتی ہے‘ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ یہی دلیل کافی ہے کہ وہ چہرہ ڈھانپنا پسند کرتی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس پر اعتراض کرے یا اسے منع کرے۔ مگر ایسی صورت میں غیر مسلم ملکوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ شام اور عراق کے لاکھوں مہاجرین کو جرمنی نے پناہ دی۔ جرمنی کی چانسلر نے ساتھ جتا بھی دیا کہ مکہ اور مدینہ ان کے زیادہ قریب تھے بہ نسبت جرمنی کے۔ مگر ہم جب دینے والے نہیں بنتے‘ لینے والے بنتے ہیں تو سب کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے، سو یہ طعنہ سننا پڑا۔
2010ء کا واقعہ ہے۔ آسٹریلیا کی ریاست (غالباً نیو سائوتھ ویلز میں) ایک ممبر اسمبلی نے بل پیش کیا کہ مسلمان خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کر دیا جائے۔ یہ بل ناکام ہوا۔ خود سفید فام آسٹریلوی ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود‘ سڈنی کے مسلمان علاقے لکھمبا میں خواتین نے احتجاجی جلسہ کیا۔ مقررین نے کہا کہ آسٹریلیا کا ’’زوال پذیر‘‘ معاشرہ ہمیں قابل قبول نہیں؟ اس پر آسٹریلوی میڈیا نے ایک ہی جواب دیا اور اس تسلسل سے دیا کہ مسلمانوں کی اکثریت مضطرب ہو گئی۔ جواب یہ تھا کہ اس زوال پذیر معاشرے کو چھوڑ کر فوراً اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائو؟
یہاں احمد ابو طالب کا ذکر نامناسب نہ ہوگا۔ مراکش سے تعلق رکھنے والا یہ مسلمان ہالینڈ کے شہر راٹرے ڈیم کا میئر منتخب ہوا۔ چارج سنبھالنے کے بعد اس نے ہالینڈ میں مقیم مسلمان تارکین وطن سے خصوصی خطاب کیا اور کہا کہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور مظلوم ثابت کرنا بند کرو۔ مذہب پر کاربند رہو مگر لوگوں سے گُھل مل کر رہو۔ اپنے آپ کو علیحدہ نہ رکھو۔ اور اگر تمہیں یہاں کا طرز زندگی پسند نہیں تو خدا کا واسطہ ہے سامان باندھو اور چلے جائو۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند افراد کے رویے کی وجہ سے سارے کے سارے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
ایک نکتہ اس سارے بکھیڑے میں ثقافت اور مذہب کے درمیان فرق کرنے کا ہے۔ تمام مسلمانوں کا مذہب ایک ہے مگر مقامی ثقافتیں مختلف ہیں۔ اگر کوئی ہجرت کر کے دوسرے ملک میں جا بستا ہے تو اپنے مذہب پر بے شک کاربند رہے مگر وہ اپنی ثقافت پر‘ خواہ وہ ثقافت انڈونیشیا کی ہے یا پاکستان کی یا مصر کی یا مالی کی‘ ڈٹا رہے گا تو اپنے نئے ملک میں اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی سمجھے گا۔ معاشرے میں گھلنے ملنے سے احتراز کرے گا۔ نقصان یہ ہو گا کہ اس رویے کا الزام اسلام پر آئے گا۔
کاش 
Sense of Proportion 
بازار سے مل سکتا!

Friday, September 23, 2016

سوار کا انتظار


ایسا نہیں کہ لیڈر نہیں ملے۔ لیڈر ملے۔ ذہین لیڈر! مگر بخت نے یاوری نہ کی۔ قسمت دو نقطوں والے قاف سے نہیں، ’’ک‘‘ سے تھی! یہ وہی ’’ک‘‘ ہے جس سے ایک جانور کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ہمیں بھٹو جیسا لیڈر ملا۔ ولولے اور جوش سے بھرپور۔ صرف ذہین نہیں، نابغہ! دنیا کے کسی بھی رہنما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ یہ جو آج ہم رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، تو بھٹو کتابیں پڑھتا تھا اور کتابیں لکھتا بھی تھا۔ وہ چاہتا تو پاکستان کے لیے چرچل بن سکتا تھا۔ ڈیگال بن سکتا تھا۔ مہاتیر بن سکتا تھا۔ لی بن سکتا تھا۔ مگر وہی بات کہ ہماری قسمت قاف سے نہیں تھی۔ جاگیرداروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔ قومیانے کی جس پالیسی نے سوویت یونین کو کھوکھلا کر رکھا تھا، اس انتہائی غیر دانش مندانہ پالیسی کو پاکستان پر مسلط کیا۔ انڈسٹری، تعلیمی ادارے، سب کچھ بیورو کریسی کی نذر ہو گیا۔ کارخانے نوکرشاہی کے ایسے کارندوں کے ہاتھ چڑھ گئے جو اینٹوں کا بھٹہ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسی پر بس نہ کیا بھٹو صاحب قتل و غارت پر اُتر آئے۔ مخالف لیڈروں کو قتل کرایا۔ دلائی کیمپ قائم کیا۔ مسعود محمود کو نیم پرائیویٹ سپاہ کا امیر بنا دیا۔ پھر پاکستان کے بخت کے ساتھ بھٹو صاحب کا اپنا بخت بھی سفید سے سیاہ ہو گیا۔ ایک لیڈر جو پاکستان کی کایا پلٹ سکتا تھا، پھانسی کے تختے پر جھول کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔الطاف حسین کو دیکھیے! اگر صرف کراچی کے نکتۂ نظر سے بھی سوچیے تو الطاف حسین کے پاس کئی آپشن موجود تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی بناتے جو بین الاقوامی معیار کی ہوتی۔ کراچی کے نوجوان نجی شعبے پر چھا جاتے اور سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم یوں، خودہی، شکست سے دو چار ہو جاتا۔ مگر انہوں نے تعمیر کے بجائے تخریب کا راستہ اختیار کیا۔ مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی۔ خود بھی خراب ہوئے اور اہلِ کراچی کو بھی ابتلا میں ڈالا۔ آج ندیم نصرت لندن میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ متحدہ کے بانی نے مہاجروں کو شناخت دی۔ کاش وہ یہ بھی بتاتے کہ یہ شناخت کیا ہے؟ جون ایلیا کا جملہ ایک بار پھر لکھنے کو دل کر رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سلیمان ندوی، شبلی نعمانی، حکیم اجمل خان، محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد پیدا کرتے تھے اب وہ اجمل پہاڑی اور جاوید لنگڑا پروڈیوس کر رہے ہیں۔ کیا حکیم سعید مہاجروں کی شناخت نہ تھے؟ ہاں! مان لیا متحدہ کے بانی نے شناخت دی۔ ڈرل مشینوں کی شناخت! بوری بند لاشوں کی شناخت! بھتہ خوری کی شناخت! سیکٹر کمانڈروں کی شناخت! کراچی کا کون سا مسئلہ الطاف حسین نے حل کرایا؟ پانی کا مسئلہ؟ رہائش کا مسئلہ؟ بجلی کا مسئلہ؟ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ کچھ وزیروں کو ہمیشہ مخصوص وزارتیں ملیں۔ کچھ افراد بیرون ملک مقیم ہو گئے جہاں ان کا معیارِ زندگی شاہانہ ہے۔الطاف حسین جب لیڈر کے طور پر اُبھرے اس وقت پاکستان بھر میں ایسے لیڈر کی فطری طلب تھی جو مڈل کلاس کی اُمیدوں پر پورا اُترتا اور عوام کو نام نہاد اشرافیہ سے اور جدی پشتی جونکوں سے نجات دلاتا۔ الطاف حسین اگر ملک گیر سطح پر مڈل کلاس کو اکٹھا کرتے تو وہ ایک تاریخ ساز عظیم شخصیت کے طور پر اُبھرتے۔ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر خطوں کے تعلیم یافتہ لوگ، جو لغاریوں ‘مزاریوں چوہدریوں‘ نونوں ‘ٹوانوں‘ ملکوں، خانوں، کھروں، قریشیوں، گیلانیوں وڈیروں مخدوموں، پیروں اور میروں سے نفرت کرتے تھے، الطاف حسین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ مگر وہی بات کہ قسمت!پھر عمران خان ملے۔ عوام نے ساتھ بھی دیا۔ ولولہ تھا، ابال بھی تھا۔ کچھ کچھ پروگرام بھی تھا۔ صوبہ بھی ملا۔ مگر قسمت کا قاف یہاں بھی بدل گیا۔ ان کی ساری سیاست، ہر سرگرمی، ہر پروگرام میاں نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ کالم نگار مسلم لیگ نون کو سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہو گا، شریف برادران وسطی پنجاب اور لاہور سے ذہنی طور پر آج تک نہ نکل سکے۔ جو رہنما اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد خود ہی مسرور ہو اور اس مسرت کے اظہار کا طریقہ نئی ٹائی خریدنے کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کی حمایت وہی کر سکتے ہیں جو اس سے فائدے اُٹھا رہے ہوں۔ مگر عمران خان ایک سیاسی پرکار کی طرح صرف اور صرف وزیراعظم کے گرد دائرے بنا رہے ہیں۔ دُھن جب
 OBSESSION
 کا، جنون کا، روپ اختیار کر لے تو وبال بن جاتی ہے۔ عمران خان توانائیں کے پی پر لگاتے۔ صوبے کی صورت بدل کر رکھ دیتے، پھر تنظیم سازی کرتے، آزمودہ اور ازکار رفتہ سیاست دانوں کے بجائے نیا خون اُوپر لاتے۔ ڈویژن کی سطح پر ضلع کی سطح پر، تحصیل کی سطح پر، تھانے اور یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کو منظم کرتے اپنا ٹارگٹ آیندہ الیکشن رکھتے تو مستقبل ان کا بھی اور ملک کا بھی روشن ہوتا۔ وہ
 Electables
 کے جھانسے میں آگئے یعنی وہ اُْمیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں جیتتے ہیں خواہ جس پارٹی کا بھی ٹکٹ لے لیں۔ جہلم میں جس شخصیت کو انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ حالیہ ضمنی انتخاب میں دیا، اس سے پارٹی کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا؟ رہی سہی عزت سادات بھی گئی! پھر مسلم لیگ نون سے گلہ کیا ہے کہ اس نے امیر مقام ‘ماروی میمن اور زاہد حامد کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیا۔ آپ بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں!اگر دھرنے کا مقصد میاں نواز شریف کی حکومت سے چھٹکارا پانا ہے تو اس کی صرف تین صورتیں ہیں۔ اوّل۔ آپ کے دھرنے میں ملک پورا امڈ آئے۔ جم غفیر اور ابنوہِ کثیر سے ڈر کر، میاں صاحب، شاہ ایران کی طرح ملک سے بھاگ جائیں۔ اس کا امکان ایک فیصد بھی نہیں! پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں لاکھوں کروڑوں افراد مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں۔ دوم۔ میاں صاحب دھرنے سے ڈر کر، یا کارنر ہو کر استعفیٰ دے دیں۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے دلائل دینا بھی حماقت ہے۔ سوم۔ آرمی آکر تختہ الٹ دے۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ اگر کمانڈر انچیف نے ایسا کرنا ہوتا تو اسلام آباد کا دھرنا بہترین موقع تھا۔ اگر دھرنے کا مقصد رائے عامہ کی بیداری ہے اور کرپشن کے ایشو کو پیشِ منظر پر حاوی کرنا ہے تو کیا دھرنا اس مقصد کے حصول کا کامیاب ترین راستہ ہے؟ایاز امیر ہمارے کہنہ مشق صحافیوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ کیا دلکش اور سحر انگیز انگریزی لکھتے ہیں! انگریزی کاؤس جی بھی دلکش لکھتے تھے مگر وہ اکثر و بیشتر کراچی ہی کے مسائل پر لکھتے تھے۔ بیسیویں صدی کی یورپ کی تاریخ پر ایاز امیر کو عبور حاصل ہے۔ یہ کالم نگار اگر چکوال میں ہوتا تو ہٹلر اور سٹالن کی تاریخ ان سے سبقاً سبقاً پڑھتا۔ جس زمانے میں ہم نے مقابلے کا امتحان دیا، دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ کے لیے ای ایچ کار کی کتاب بائبل کا درجہ رکھتی تھی۔ سول سروس اکیڈیمی کو چاہیے کہ ایاز امیر کو تاریخ پڑھانے کے لیے مدعو کیا کرے۔ بات دور نکل گئی۔ ایاز امیر صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ایک خواب بُنا ہے۔ اور بین السطور کہا ہے کہ کیا عجب جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آجائیں اور اگر ایسا کریں گے تو عوام اُن کے گرد جمع ہو جائیں گے جیسے بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے تھے اور پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! جنرل کے مزاج میں جو متانت ہے جسے خالص عسکری متانت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، اس کے پیشِ منظر اس خواب کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں! جنرل راحیل شریف اتنے سادہ لوح نہیں کہ جو عزت کمائی ہے اسے سیاست کے چوراہے پر انڈیل دیں۔ جو خواب ایاز امیر دیکھ رہے ہیں وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سخت گرمی میں، پسینے میں شرابور، ایک شخص ریڈیو کے مائیک کے سامنے، آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہواؤں والے خنک موسم کی پیشین گوئی کر رہا تھا!تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہے؟ گڑھی خدا بخش اور رائے ونڈ کے تخت؟ اور تخت کے خاندانی وارث؟ اور وہی خاندان جو سترہ برسوں سے ’’منتخب‘‘ اداروں میں تشریف فرما ہیں؟ ایک شخص بلند چٹان سے گرا نیچے، بہت دور، قاتل گہرائی تھی۔ ایک درخت کی ٹہنی کو پکڑ لیا۔ آہ! شکیب جلالی یاد آ گیا؎جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسممیں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میںاُس نے غیبی قوت کو مدد کے لیے پکارا۔ آواز آئی ٹہنی کو چھوڑ دو۔بلند آواز میں کہا۔ کوئی اور ہے؟ عمران خان سے اُمیدیں باندھنے والے اب پکار رہے ہیں ’’کوئی اور ہے‘‘؎فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہےانتظار! انتظار! غیب سے آنے والے سوار کا انتظار!!



Wednesday, September 21, 2016

2018ء

کھلا میدان تھا۔ دو سانپ تھے۔ ایک نے دوسرے کی دُم منہ میں دبائی۔ دوسرے نے پہلے کی! دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو ہڑپ کر گئے۔ میدان صاف تھا۔
میدان صاف ہے۔ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرنے والی کوئی فیصلہ کن قوت میدان میں نہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہ برپا ہؤا۔ اگر الیکشن کے روز آسمان سے پتھر نہ برسے، اگر اُس دن زمین نہ دھنسی، اگر اُس دوپہر کو سورج کے بجائے روشنی بکھیرنے کے لیے چاند نہ مامور کر دیا گیا اور اگر کسی تیز چیخ نے دلوں کا رُخ پھیر نہ دیا تو 2018ء میں بھی مسلم لیگ ہی فتح کا پرچم لہرائے گی۔ شاعر نے کہا تھا؎
علم اے حُسن! تیری فتح کے لہرا رہے ہیں
بریدہ سر ہیں عاشق اور واپس آرہے ہیں
سندھ میں پیپلز پارٹی کی دُم ایم کیو ایم کے منہ میں ہے ۔کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سندھ کارڈ نہیں چل سکتا نہ چلے گا۔ رہا اندرون سندھ، تو سید، مخدوم، پیر، جاگیردار جو صدیوں سے حکمران ہیں، 2018ء میں بھی کامیاب ٹھہریں گے۔ جہاں عوام بینائی واپس لانے کے لیے جھروکے سے درشن دینے والی شخصیت کا روئے مبارک دیکھنا کافی سمجھیں وہاں ووٹ دیتے وقت بھی یہی عقل بروئے کار آئے گی۔ مسلم لیگ نون کا چراغ وہاں پہلے جلانہ اب جلے گا۔ ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور کئی اور سیاسی شخصیات شریف برادران کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔ یوں بھی تخت لاہور کی جو برانچ اسلام آباد میں قائم ہے، اس کے مخصوص طرزِ عمل سے سندھی وزیر ہمیشہ شاکی ہی رہے۔ کوئی مانے نہ مانے، وفاق کا دارالحکومت لاہور ہے۔ اسلام آباد سیکنڈ کیپیٹل ہے۔ صدر ایوب خان نے ڈھاکہ میں سیکنڈ کیپیٹل بنایا۔ نام اس کا ایوب نگر رکھا۔ سیکنڈ کیپیٹل فرسٹ کیپیٹل بن گیا اور ایوب نگر تاریخ کی مٹی میں مل کر مٹی ہو گیا۔ قبر بنی نہ کتبہ۔ مگر کوئی نہیں جو عبرت پکڑے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گاڑی میں تحریک انصاف کوئی ڈینٹ نہیں ڈال سکی۔ لاہور کا ضمنی انتخاب ہو یا چیچہ وطنی کا، ذرا سی کسر رہ جاتی ہے اور یہ ذرا سی کسر ہی کسرِ نفسی کا کام دیتی ہے یعنی نفس کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دیتی ہے۔ پشاور کے ایک شاعر تھے۔ مرحوم ہو چکے۔ اچھا کہتے تھے۔ پڑھتے اس سے بھی زیادہ اچھے تھے مگر آشنایانِ فن ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے! پنجاب سے بالعموم اور وسطی پنجاب سے بالخصوص مسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں اور سب ٹھوس ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد وسطی پنجاب کا دل ہیں۔ یہ دل شریف برادران کی مٹھی میں ہے۔ تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان کے لیے شریف برادران کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ ٹیکس سے لے کر شاہراہوں تک، ایف بی آر سے لے کر وزارتِ تجارت تک، ہر جگہ انہیں فوائد پہنچائے گئے ہیں۔
تین عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا کہ پنجاب پر شریف برادران کا غلبہ ہے۔ غبی سے غبی شخص کے لیے بھی یہ عرصہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ ایک ایک ضلع کی سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ ایک ایک انتخابی حلقے کا نقشہ ان کے دفتر کی میز پر نہیں، ان کے ذہنوں کی میزوں پر پھیلا ہے۔ انہیں معلوم ہے کس حلقے میں کون سی برادری فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ کس کو خریدنا ہے۔ کس سے غفلت برتنی ہے۔ کس کو کس کے مقابلے پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ سیاسی حرکیات پست سطح کی ہیں مگر ان کا وجود حقیقت ہے۔ تحریکِ انصاف کے پاس تجربہ نہیں اس لیے علم بھی نہیں۔ یہ وہ علم نہیں جو ایم بی اے سے حاصل ہو۔ یہ وہ علم ہے جس کی تدریس ڈیروں میں، بیٹھکوں میں، چوپالوں میں، حویلیوں میں، ڈرائنگ روموں میں ہوتی ہے۔ اس تدریس میں ڈایا گرام سازش سے بنتے ہیں۔ چاک کرنسی سے بنتے ہیں اور بلیک بورڈ وسیع و عریض جاگیروں سے وجود میں آتے ہیں۔ 
اس سے پہلے کہ تحریک انصاف کے مستقبل کا امکانی نقشہ کھینچیں، ایک اور زبنیل کا ذکر ضروری ہے جو مسلم لیگ نون کے پاس ہے۔ سیاست کے دو زرخیز ترین دماغ شریف برادران کے ساتھ ہیں۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن۔ عمران خان کا دھرنا جب خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا تو زرداری صاحب ہی نے دست گیری کی    ؎
دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشان حالی و درماندگی!
عام حالات میں پیپلز پارٹی لاکھ مسلم لیگ نون کی مخالفت کرے مگر پریشان حالی اور درماندگی میں پیپلز پارٹی ہی مسلم لیگ نون کے کام آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ حلیفوں کو چھوڑ کر اقتدار ایسی قوت کو لینے دے جو حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہیں۔ دونوں کی مال و دولت جائدادیں محلات کارخانے بیرون ملک ہیں۔ دونوں ایک ایک پارٹی کے مالک ہیں۔ دونوں سیاسی جاگیردار ہیں۔ دونوں کے پاس سیاسی ہاریوں کی فوجیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا خواجہ آصف، خاقان عباسی ہوں یا حنیف عباسی، کائرہ صاحب ہوں یا رضا ربانی یا اعتزاز احسن یا شیری رحمن، سب زرداریوں اور شریفوں کی اولاد کے سامنے دست بستہ ہیں اور تابعِ فرمان! پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن نہیں سکتی اور متبادل بہترین حکومت پیپلز پارٹی کے لیے مسلم لیگ نون ہی کی ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن سے لاکھ اختلافات سہی، کرسیوں اور مراعات پر ان کی عقابی نظریں گڑی ہونے سے بھی کسی کو انکار نہ ہو گا مگر اس کا کیا کیجیے کہ سیاسی مستقبل میں جو کچھ ان کی نظر پہلے دیکھ لیتی ہے، دوسروں کو وہ دیر میں نظر آتی ہے۔ وہ جذبات کو اپنے اوپر حکمرانی نہیں کرنے دیتے۔ سوچتے ہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی دوراندیشی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شدید مذہبی ہونے کے باوجود وہ ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ جیسے پلیٹ فارموں سے دور رہتے ہیں اس لیے کہ انہیں معلوم ہے ایسے پلیٹ فارم بنانے والی قوتیں، عام طور پر، انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور منظرِ عام پر رہنے کے لیے بیساکھیاں استعمال کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی بلاک کے اندر بائیں بازو کی نمایندگی کرتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا نام صدام حسین یا قذافی کے ساتھ لیا جاتا رہا مگر مشرق وسطیٰ کے کسی بادشاہ کے ساتھ ان کی نسبت کبھی پڑھنے یا سننے میں نہ آئی۔
ایک برات لڑکی والوں کے گاؤں روانہ ہو رہی تھی۔ سارے نوجوان تھے۔ کسی نے مشورہ دیا، لڑکو! ساتھ کسی تجربہ کار چٹ داڑھیے کو لے چلو، کیا خبر، تم پر کیا بیتے، جس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں چکھی ہو گی کام آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک معمر شخص کو بھی ساتھ لے لیا۔ وہی ہؤا جس کی سیانوں نے پیشگوئی کی تھی۔ لڑکی والوں نے شرط رکھی کہ براتی دس سالم پکے ہوئے بکرے کھائیں گے تو لڑکی روانہ کی جائے گی۔ نوجوان براتیوں کے ہوش اڑ گئے۔ بابے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرایا۔ کہنے لگا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جوابی شرط یہ رکھو کہ تمہاری شرط منظور ہے مگر دس بکرے دسترخوان پر ایک ساتھ نہیں آئیں گے۔ ایک ایک رکھا جائے گا اور ایک بکرے اور دوسرے کے درمیان اتنے منٹ کا وقفہ ہو گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ براتی شرط جیت گئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ توے سے گرم گرم پھلکے اترتے جائیں تو کھاتے وقت حساب کتاب نہیں رہتا۔ معمول سے بہت زیادہ کھانا کھا لیا جاتا ہے۔ سو، مسلم لیگ نون کے براتیوں پر جب بھی مشکل وقت پڑا، دونوں شاطر دماغ سیاست دان انہیں کسی نہ کسی ترکیب نمبر چھ سے ضرور آگاہ کریں گے۔رہی تحریک انصاف! تو شاید ہی اس حقیقت سے کوئی انکار کرے کہ اس کا گراف گر چکا ہے اور رکنے میں نہیں آ رہا۔ شادیاں کرنا ہر شخص کا انفرادی فعل ہے اور ذاتی معاملہ، مگر عمران خان نے جس طرح اپنے آپ کو تماشا بنایا اور خالص نجی معاملات میڈیا پر پیش ہوئے اس سے ذہنی کچاپن کھُل کر ثابت ہوا۔ یہی رویہ ان کا سیاسی معاملات میں بھی ہے۔ ایک لہر تھی جو گلے گلے آئی مگر پھر اُتر گئی۔ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا تحریکِ انصاف کا نصف النہار تھا۔ اگر وہ اس وقت لچک دکھاتے تو یہ عروج برقرار رہتا۔
ایک بہت بڑا سبب اُن کا گراف گرنے کا ان کے سیاسی حلیف ہیں۔ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید! کتنے سنجیدہ لوگ ان دونوں کو ووٹ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری صاحب کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں مگر اس جذباتی اور شیخ پرست قوم میں جو بیس بائیس کروڑ کی تعداد میں ہیں، لاکھوں مریدوں کا حصول چنداں مشکل نہیں۔ یہاں تو پیر سپاہی لاکھوں کا مجمع لگا لیتا تھا۔
عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کے حلقے کو فنڈز دیے اور سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے بھی ایک مدرسہ کو فنڈ دیے اور سیاسی نقصان اُٹھایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس مدرسہ کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ انہیں چیلنج کیا گیا کہ مین سٹریم کی تعریف ہی کر دیکھیں مگر انہیں ان معاملات کا ذرہ بھر ادراک نہیں!
کاغذ کا دامن تنگ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا سے کم نشستیں ملیں گی۔ بہت ہی کم! کیا عجب اگلی حکومت صوبے میں اے این پی اور جے یو آئی (ف) کے اشتراک سے بنے۔ واللہ اعلم۔
وضاحت۔ کل کے کالم میں آیتِ کریمہ کے الفاظ ’’وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُم‘‘ درست کمپوز نہ ہوئے جس پر معذرت۔

Tuesday, September 20, 2016

کھارا اور میٹھا

جھاڑ جھنکار تھے اور زمین پر بکھری ہوئی خشک چٹختی ٹہنیاں! ستمبر اُدھیڑ عمر کو چھو رہا تھا مگر دھوپ کی حدت نوجوانی پر اصرار کر رہی تھی۔ پیشانیاں پسینے سے بھری تھیں۔ کوئی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کی نگاہیں ایک طرف تھیں۔ کبھی کبھی کوئی شخص کھویا ہوا سوال کرتا، نزدیک کھڑا شخص مختصر سا جواب دیتا اور پھر اُس طرف دیکھنے لگتا جدھر سب دیکھ رہے تھے۔
فیروز بشیر انصاری کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا۔ ایک نیک نام، سادہ اطوار شخص، اس کی آخری تعیناتی ٹیکس محتسب کے ادارے میں وفاقی سیکرٹری کی تھی۔ غیبت سے احتراز کرنے والے فیروز نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ والد بشیر انصاری اس خطے کے چوٹی کے وکیل تھے۔ امارت کو اس نے اپنی شخصیت کا حصہ کبھی نہ بنایا۔
اور ہؤا کیا؟ وہ کار چلا رہا تھا نہ ہوائی جہاز میں تھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سڑک کے ایک کنارے پر پیدل چل رہا تھا۔پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا۔ وحشت ناک رفتار تھی۔ سیدھا اُس کی کمر سے ٹکرایا۔ پھر سوار، سامنے، اوندھے منہ گرا۔ پھر دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مقتول بھی اور قاتل بھی!
قاتل بھی! جی ہاں! قاتل! کیا کسی کو پروا ہے کہ موٹر سائیکل سوار اِس ملک میں حشر برپا کیے ہیں؟ وحشیوں کے گروہ کے گروہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانا جرم نہیں! ضرورت ہے اور مجبوری بھی! ان میںخال خال ایسے ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں۔ مگر لاکھ میں تین چار، اس سے زیادہ نہیں! ان سواروں کی بربریت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو گاڑی خود چلاتے ہیں۔ گاڑی غلط سمت میں چلانا مشکل ہے۔ مگر موٹر سائیکل غلط سمت میں چلانا آسان! یہ سانپ ہے جو دائروں میں چلتا راستہ بناتا جاتا ہے اور کسی قانون کو نہیں مانتا۔ کم از کم پچاس فیصد گاڑیوں کو موٹرسائیکل ہِٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ فوج قانون سے ماورا ہے یا سیاست دان، یا نوکر شاہی، تو غلط کہتا ہے! ٹریفک قانون سے ماورا ہے اور ٹریفک میں موٹر سائیکل سوار قانون سے مکمل، ایک سو ایک فیصد ماورا۔ نئی افتاد جو پڑی ہے یہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر کھاریاں اور گوجرانوالہ کے درمیان یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور سب ان کے آگے بے بس ہیں۔ یہ کالم نگار لاہور میں ایک بار اپنے نواسی اور نواسوں کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا۔ سڑک پار کرنا تھی۔ گاڑیوں والے رُک گئے مگر موٹر سائیکل ایک بھی، رُک نہیں رہا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک سفید ریش شخص بچوں کے ساتھ سڑک پار کرنا چاہتا ہے، گاڑیاں رُکی ہوئی ہیں مگر جلتے شعلوں پر سوار، کوئی موٹر سائیکل والا رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بالآخر ایک نوجوان نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر انہیں ایک لمحے کے لیے لگام دی! رہی ریاست! تو ریاست محلات سے اور ڈرائنگ روموں سے اور ہوائی جہازوں سے اور ایوانِ وزیراعظم سے اور قصرِ صدارت سے اور مری کے برفستانوں سے باہر نکلے تو شاہراہوں پر آئے! تب تک شاہراہوں پر سفر کرنے والے‘ ٹرالیوں، ٹریکٹروں، تاتاری صفت موٹر سائیکل سواروں، نشے میں دُھت ٹرک ڈرائیوروں اور ڈمپر چلانے والے انسان نما جانوروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے رہیں گے! کیا ہماری زندگیوں میں وہ وقت آئے گا کہ شاہراہوں پر تہذیب آئے گی؟ تہذیب قانون سے آتی ہے اور کسی کو اچھا لگے یا بُرا، قانون شاہراہوں پر تب آتا ہے جب حکمران، ٹریفک بند کیے بغیر، ٹریفک کے درمیان سفر کریں! مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں‘ دل کے پھپھولے کچھ اور کہنا چاہتے ہیں!
سلیں رکھ دی گئیں۔ پھر سلوں کے درمیان جو گیپ تھا اُسے گارے سے بھر دیا گیا۔ اب مٹی ڈالنے کا وقت تھا۔ تعلق جتنا گہرا تھا، اسی حساب سے مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھری، آخر چھیالیس سالہ رفاقت تھی۔ واہ ری دنیا! جنہیں ہم گلے سے لگاتے ہیں۔ گھر آئیں تو قدموں میں بچھتے ہیں۔ پانی اور چائے خدام کی طرح جھک کر پیش کرتے ہیں۔ چند دن بات نہ ہو تو اضطراب محسوس کرتے ہیں۔ اُن پر مٹی خود ڈالتے ہیں! پھر انہیں تنہا، بے یارو مددگار، ایک وحشت ناک ویرانے میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ پھر دنیا کے ہنگاموں میں یوں کھو جاتے ہیں جیسے یہیں رہنا ہو! پھر ایک اور دن آتا ہے۔ تب مٹی ہم پر ڈالی جا رہی ہوتی ہے! مِنّہا خَلَقْنَا کُم وَ مِنْھا نُعِیْدُ کُم و مِنْھا نُخْرِ جُکُم تَارَۃً اُخْرای۔ اسی مٹی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اسی سے نکالیں گے!
ہاں! وحشت ناک ویرانے میں! مگر کیا کبھی کسی نے رات کے وقت ان وحشت ناک ویرانوں کو دیکھا ہے؟ یہ راتوں کو آباد ہو جاتے ہیں۔ پُر ہول دیو آسا درختوں سے اندھیرے اُترتے ہیں! یہ اندھیرے اجاڑ، بے آباد قبروں کے درمیان رقص کرتے ہیں۔ کبھی جب آدھی رات اِس طرف ہو اور آدھی رات اُس طرف ہو تو وہاں سے گزرو! تم ایک ایک اندھیرے کو پہچان لو گے۔ دیکھو، وہ بڑا اندھیرا، جس کے لمبے نوکیلے دانت انگاروں کی طرح دہک رہے ہیں، سرے محل کا ہے۔ رقص کرتے ہوئے کیسے قہقہے لگا رہا ہے۔ دل ہلا دینے والے، سامنے کے درخت سے وہ جو دوسرا اندھیرا اترا ہے وہ فرانس کی اُس حویلی کا ہے جو کئی سو سال پُرانی ہے اور جس پر زندگی میں ایک دوبار سے زیادہ ہیلی کاپٹر اُترا بھی نہیں! اُس ڈراؤنے درخت سے جو اندھیرا اُترا ہے وہ بار بار پاگلوں کی طرح ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہا ہے۔ ’’میں تمہیں تعینات کر دیتا ہوں، 
جتنا بنا سکتے ہو بنا لو‘‘۔ اُس چیختے اندھیرے کو دیکھو، وہ اُس سرکاری مال سے بنا ہے جو دبئی میں ہونے والے ’’سرکاری‘‘ اجلاسوں کے لیے آنے جانے پر بے تحاشا خرچ ہوتا تھا۔ مگر اُس اندھیرے کو تو دیکھو جو درخت سے اب اُترا ہے۔ کتنا ہولناک ہے۔ یہ پاناما لیکس کا مجسّم اندھیرا ہے۔ وہ دوسرا اندھیرا کتنا لمبا ہے۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس لیے کہ یہ وہ چار دیواری ہے جو ستر کروڑ روپے کے قومی مال سے محلات کے گرد تعمیر ہوئی۔ نہیں! چار دیواری نہیں بنی، یہ اندھیرا تعمیر ہوا ہے۔ عوام کے گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ شاہراہیں مقتل بنی ہیں اور ستر کروڑ کے چار دیواری! اُس پروردگار سے جو پرفیوم میں ڈوبے جسموں کو منوں مٹی کے نیچے بھیجتا ہے، کیا بعید ہے کہ چار دیواریوں کو سانپ کی شکل دے دے! مگر وہ اندھیرا دیکھو، ہاتھوں کو درندوں کے پنجوں کی شکل میں آگے کرتا، یہ وہ جھوٹی گواہیاں ہیں جو عدالتوں میں دی جاتی ہیں! یہ وہ پانی ہے جو دودھ میں ملایا جاتا رہا۔ یہ سرخ اینٹوں کا وہ برادہ ہے جو حاجی صاحب باوضو ہو کر مرچوں میں مِکس کرتے رہے۔ رات آدھی، اِس طرف اور آدھی اُس طرف! ہو کا عالم! قبریں! عفریت نما درخت! اور ان درختوں سے اُترتے ناچتے، دھاڑتے، بھونکتے، پھنکارتے اندھیرے! ناچتے ہوئے ان اندھیروں کے پاؤں سوکھی ٹہنیوں پر پڑتے ہیں تو ایسی مہیب آوازیں نکلتی ہیں کہ ایک ایک پتھر، ایک ایک کتبہ لرز اُٹھتا ہے! کیا ہیں یہ اندھیرے؟ یہ وہ تھوتھنیاں ہیں جو بیٹی کی ولادت کی خبر سُن کر سؤر کا چہرہ بن جاتی تھیں! یہ وہ حرام مال ہے جو ٹیکس چوری کرنے کے لیے ایک حرام خور کی جیب میں دوسرا حرام خور ٹھونستا تھا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا نہیں ہوا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو چند سکوں کی خاطر منہ سے نکالا گیا۔ یہ وہ غیبت ہے جو دوستوں اور رشتہ داروں کی گئی۔ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو دوسرے کی دبا کر اپنے کھیت کو بڑا کیا گیا۔ یہ وہ زمین ہے جو یتیم کی ہڑپ کرلی گئی۔ یہ وہ بدزبانی ہے جو گاہک سے اور ماتحت سے اور مزدور سے روا رکھی گئی۔ یہ وہ نخوت ہے جو حکومت کے نشے میں غرق ہو کر عوام سے برتی گئی۔ اور یہ وہ قرض ہے جسے واپس کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا 
ان وحشت ناک قبروں میں ایک اور جہاں بھی آباد ہے۔ اللہ کے بندو! اُسے بھی دیکھو! درختوں سے روشنیاں بھی اُترتی ہیں! سچائی کی روشنی ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی روشنی! اُس چٹنی کی روشنی جو حرام مال ٹھکرا کر سوکھی روٹی کے ساتھ کھائی گئی۔ اُس مال کی روشنی جو اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر ضرورت مندوں کو دیا گیا۔ اُس احتیاط کی روشنی جو سرکاری خزانے کے استعمال میں برتا گیا۔ اُس نرم گفتاری اور مسکراہٹ کی روشنی جو فیروز بشیر انصاری جیسے لوگوں نے اونچے عہدوں پر بیٹھ کر ہر طرف بکھیری۔ کسی کو نقصان نہ پہنچایا۔ بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ فرمایا گیا جس نے دو بیٹیوں کی اچھی تربیت و تعلیم کی اور پھر اپنے اپنے گھر میں آباد کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہو گا۔ پھر دو مبارک انگلیاں اُٹھائیں (مفہوم)۔ بیٹیوں کی تعظیم، قدرو منزلت، ان کے حقوق کی ادائیگی! روشنی ہے جو لحد میں اُترے گی!
کھارا اور میٹھا پانی۔ ایک سمندر میں ہے! کھارا پانی میٹھے میں نہیں ملتا اور میٹھا پانی کھارے سے الگ رہتا ہے۔ قبرستانوں میں دو دنیائیں آباد ہیں۔ کچھ کو صرف ہیبت ناک اندھیرے دکھائی دیتے ہیں، رقص کرتے، دھاڑتے، چنگھاڑتے خوفناک پنجے لہراتے اندھیرے! کچھ کو صرف روشنیاں نظر آتی ہیں۔ چاندنی جیسی ٹھنڈی روشنیاں! عطر بیز ہواؤں میں بسی ہوئی روشنیاں! روشنیاں جو مقدس آسمانی درختوں سے اُترتی ہیں اور قبروں کے اندر جاتی ہیں! سلام کرتی روشنیاں! آداب بجا لاتی روشنیاں! خوش خبری دیتی روشنیاں! مگر ایک کارنامہ قدرت کا اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے! ہر شخص کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اندھیروں کی سمت بڑھ رہا ہے یا روشنیوں کی طرف!

Saturday, September 17, 2016

بندوق اور قلم

ان دنوں اس کتاب کا بہت شہرہ تھا۔
 مصباح الاسلام فاروقی نے 
Jewish Conspiracy and Muslim world
تصنیف کی جو دیکھتے ہی دیکھتے پیش نظر پر چھا گئی۔ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان اس کے اسیر ہوئے۔
سازشی تھوریاں یوں بھی مسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کا سورج نصف النہار پر رہا ان سازشی تھیوریوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ جب زوال آیا‘ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہے‘ دین اور دنیا کے علوم کے درمیان لکیر کھینچ دی، تب سازشی تھیوریاں بھی بازار میں بکنے لگیں۔ آج بھی عوام میں مقبول ترین نظریہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ساری ذمہ داری اغیار پر ہے۔ یہودی اور ہندو‘ امریکہ اور یورپ سازشیں کرتے ہیں۔ جیسے اپنا کچھ قصور نہیں۔ سازشی تھوریاں ماننے کا مطلب بالواسطہ اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ ہم اتنے بے بضاعت، ضعیف، جاہل اور سادہ لوح ہیں کہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ مومن دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے۔
ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا۔ وہاں پہنچے تو مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کا شوق دل میں چٹکیاں لے رہا تھا۔ معلوم ہوا علیل ہیں۔ بہر طور‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے، پوچھتے پوچھتے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ کیا گفتگو ہوئی‘ اب بالکل یاد نہیں‘ ہر روز ڈائری لکھنے کی عادت تو ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکلتے ہی ختم ہو چکی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ فاروقی صاحب بیمار تھے، مالی حالات اطمینان بخش نہیں تھے، چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ تاثر یہ ملا کہ جس مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے‘ وہ اب ان کی دیکھ بھال نہیں کر رہی۔ یہ بھی نہیں معلوم یہ تاثر کس حد تک درست تھا!
مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کا تذکرہ آج یوں چھڑا کہ کہنہ مشق صحافی جناب جبار مرزا کی تازہ تصنیف ’’قائد اعظم اور افواجِ پاکستان‘‘ پڑھتے ہوئے ایک مقام نے چونکا دیا۔ جبار مرزا نے ایک پیراگراف ’’صوبیدار مصباح الاسلام فاروقی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے! از حد تعجب ہوا۔ کیا فاروقی صاحب فوج میں صوبیدار تھے؟ تفصیل پڑھی تو لکھا تھا کہ فاروقی دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں شامل ہوگئے اور صوبیدارکے عہدے تک ترقی پائی! گویا بھرتی سپاہی یا لانس نائیک کے طور پر ہوئے ہوں گے! ویسے آج حیات ہوتے تو اپنی پارٹی کے ایک سابق امیر سے ضرورکہتے کہ ارے میاں! ہم انگریزوں کی فوج کی ملازمت کرتے رہے! تمہیں اپنی فوج سے کیا کد ہے؟
مشہور و معروف اخبار نویس وقار انبالوی مرحوم کے بارے میں بھی جبار مرزا نے چونکا دینے والے حقائق بیان کیے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں دس رنگروٹ بھرتی کرانے پر بونس کے طور پر انہیں ’’نائیک‘‘ کی ملازمت دی گئی۔ ترقی کر کے حوالدار ہو گئے۔ پھر نوکری چھوڑی اور روزنامہ زمیندار کے سٹاف میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ چھڑی تو وقار انبالوی نے اپنے آپ کو پھر پیش کیا۔ اب کے انہیں مصر بھیجا گیا جہاں وہ مصری ریڈیو سے تقریریں نشر کرتے رہے۔ جبار مرزا کے بقول’’سرِ راہے‘‘ کا کالم وقار انبالوی ہی نے شروع کیا۔
جبار مرزا نے ایک پورا باب ایسے ہی فوجیوں کے بارے میں مختص کیا ہے۔ یہ پڑھ کر بھی حیرت ہوئی کہ سابق آئی جی‘ سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ چودھری فضل حق نے جو تادمِ آخر ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے رہے‘ ملازمت کا آغاز انڈین آرڈننس کور میں نائب صوبیدار کے طور پر کیا!
فوج سے وابستہ قلم کاروں کی فہرست اتنی مختصر بھی نہیں! چراغ حسن حسرت برطانوی فوج میں میجر تھے۔ زیڈ اے سلہری 1965ء کی جنگ کے دوران کرنل تعینات ہوئے۔ فیض احمد فیض 1943ء میں میجر بھرتی ہوئے۔ ایک سال بعد لیفٹیننٹ کرنل ہو گئے۔ حاجی لق لق ‘ جن کا اصل نام عطا محمد چشتی تھا، پہلی عالمی جنگ میں فوج میں کلرک بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے اعزازی (آنریری) کپتان کے منصب تک پہنچے۔ رہے مزاحیہ شاعری کے بابائے اعظم سید ضمیر جعفری تو ان کا فوج سے تعلق ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہی ہے۔
جبار مرزا نے جن قلم کاروں کا ذکر فوج کے حوالے سے کیا ہے‘ زیادہ تر ان کا تعلق صحافت سے رہا۔ اس کالم نگار کو وہ مشاہیر بھی یاد آ رہے ہیں جو ادیب تھے۔ کرنل محمد خان اور ایڈمرل شفیق الرحمن نے اردو مزاح نگاری میں قابلِ رشک مقام پیدا کیا۔ مگر ایک نام ایسا ہے جسے سب بھولتے جا رہے ہیں۔ بریگیڈیئر گلزار احمد ! آپ مصنف تھے ‘ بہت بڑے عالم اور زبان دان! ان کی تصانیف تو بہت ہیں مگر ہیرالڈ لیمب کی تصنیف ’’امیر تیمور‘‘ کا جو ترجمہ بریگیڈیئر صاحب نے کیا، قلم توڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب کا ترجمہ کرنا اتنا مشکل کام تھا کہ مجھ جیسے طالب علم کو تو تصوّر ہی سے خوف آتا ہے۔ ہیرالڈ لیمب نے ایسی ایسی ادق اصطلاحات استعمال کی ہیں کہ خدا کی پناہ! مگر بریگیڈیئر صاحب نے ترجمہ کرنے کا حق ادا کر دیا۔ اتنا سلیس اور رواں ترجمہ ہے اور پڑھنے والے کو اپنے حصار میں یوں مقید کر لیتا ہے کہ کتاب کا درجہ ترجمہ کا نہیں‘ طبع زاد تصنیف کا ہو جاتا ہے۔ یہ ترجمہ’’میری لائبریری ‘‘ نے چھاپا تھا۔ اب ناپید ہے۔ خوش قسمتی سے لاہور ایک دکان سے ہاتھ آیا تو اپنے بیٹے ڈاکٹر اسرار الحق کے لیے‘ جو ہیرالڈ لیمب کا شیدائی ہے‘ خرید لیا۔ 1992ء میں جب یہ کالم نگار پہلی بار وسط ایشیا گیا تو اس کتاب کو سفری گائیڈ کے طور پر ساتھ رکھا! اب یہ نادر نسخہ میلبورن میں اسرارکی لائبریری کی زینت ہے۔
جبار مرزا کی اس تازہ تصنیف کا ایک باب’’بزم یک شب‘‘ از حد دلچسپ ہے۔ بزم یک شب اس مشاعرے کا نام تھا جو پاک فوج نے 1956ء میں راولپنڈی میں برپا کیا تھا۔ تھرڈ آرمڈ بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر ملک سرفراز خان تھے۔ ضیاء الحق (جو بعد میں صدر پاکستان بنے) میجرتھے‘ ضمیر جعفری اسی بریگیڈ سے بطور کپتان وابستہ تھے۔ میجر ضیاء الحق کو ان کے دوست بے تکلفی سے مولوی اور ضمیر جعفری کو جمروکہتے تھے۔ اس آل پاکستان مشاعرے کی شاعرانہ کمانڈ ضمیر جعفری کے ہاتھ میں تھی اور انتظامی کمانڈ میجر ضیاء الحق کے پاس تھی۔ مشاعرے کی نمایاں بات یہ تھی کہ جوش ملیح آبادی کو بھی بلایا گیا۔ جبار مرزا صاحب کے بقول‘ پاکستان ورود کرنے کے بعد جوش صاحب کا یہ پہلا مشاعرہ تھا۔ دوسری خاص بات اس مشاعرے کی یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کو دعوت نہیں دی گئی۔ بہر طور‘ جوش صاحب کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا گیا تو انہوں نے سرکاری انتظام کے تحت ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے اپنی ایک رشتہ دار کے گھر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ منتظمین حضرات وہاں ان کا خیال اس طرح نہ رکھ سکے جس طرح جوش صاحب چاہتے تھے۔ بقول جبار مرزا ’’جوش صاحب کا اشیائے کام و دہن کی کمیابی سے مزاج بگڑ گیا۔ ناراض ہو گئے‘‘۔ مشاعرے سے پہلے فوجی افسر‘ جو ڈیوٹی پر تھے‘ انہیں لینے گئے تو جوش صاحب نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ضمیر جعفری مشاعرے کا مائک عبدالعزیز فطرت کے حوالے کر کے خود وہاں پہنچے۔ جوش صاحب کی عزیزہ نے بتایا کہ وہ کسی سے نہیں مل رہے۔ بہرطور‘ ضمیر جعفری کسی نہ کسی طرح ان کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ جوش صاحب دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹے ہوئے تھے اور کچھ گنگنا رہے تھے۔ ضمیر جعفری نے انہیں مخاطب کر کے کہا: ’’جوش صاحب! آپ جتنے بڑے شاعر ہیں اس سے اگر آدھے بھی انسان ہیں تو اُٹھ پڑیے۔ لوگ آپ کو سننا چاہتے ہیں، چل کے دیکھیں ہم نے آپ کے لیے کیا کیا انتظامات کر رکھے ہیں‘‘۔ جوش صاحب نے کہا چلیے‘ ہم تیار ہیں۔ یہ الگ بات کہ جو نظم’’ہچکیوں کا قہقہہ‘‘ انہوں نے مشاعرے میں سنائی، اس کی وجہ سے بریگیڈیئر صاحب اپنے سینیٔرز کے سامنے کئی دنوں تک وضاحتیں کرتے رہے اور پیشیاں بھگتتے رہے!!

Friday, September 16, 2016

دھچکا

برف کا دیو ہیکل پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا اور نیچے کی طرف بڑھنے لگا....
یہ سیاچن کا گیاری سیکٹر تھا دیو ہیکل گلیشیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی۔ اس نے پاکستانی مستقر کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ایک سو تیس فوجیوں کو ہڑپ کر گیا۔ 
یہ سیاچن‘ یہ کارگل‘ یہ گیاری برف اور پتھروں سے نہیں قائم۔ یہ اس خون کی قوت سے کھڑے ہیں جو پاکستانی مائوں کے جوان بیٹوں نے ان پہاڑیوں کو دیا ہے‘ پاکستانی قوم سلام کرتی ہے اپنے جوانوں کو جو دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر برفانی ہوائوں کا سامنا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ایسی برفانی ہوائیں جن کی شدت سے جسم کے اعضا صرف شل نہیں ہوتے‘ جھڑ جاتے ہیں۔ جو آنکھوں کی بینائی لے اُڑتی ہیں پاکستانی قوم شہیدوں کی ان میتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو کارگل کی چوٹیوں سے واپس اپنے قریوں‘ اپنی بستیوں میں آتی ہیں۔ اور زمین میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ شہید‘ پاک پوّتر بارش کے وہ قطرے ہیں جو آسمان سے اترتے ہیں اور زمین کے اندر چلے جاتے ہیں۔
پاکستانی عوام احسان نہیں بھولتے۔ اُنہیں چونڈہ کا میدان آج تک یاد ہے۔ جہاں بھارتی ٹینکوں کے آگے پاکستانی فوج کے جوان لیٹ گئے تھے۔ ٹینک ان کے اوپر سے گزرتے اور بھک سے اڑ جاتے اس وقت چاون بھارت کا وزیر دفاع تھا شورش کاشمیری نے بے ساختہ کہا    ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاون کے حق میں تیغِ جگردار ہو گیا
زندہ دلانِ شہر نے ایسا دیا ثبوت
لاہور ہر لحاظ سے بیدار ہو گیا
میرے وطن کی فوج ظفر موج کا جلال
ہندوستاں کے حق میں قضا کار ہو گیا
سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک‘ ہمارے وطن کی فوجِ ظفر مند کے پرچم‘ دہشت گردوں کے سینوں میں گڑے ہیں پاکستانی فوج نے ہزاروں جوان اور افسر صرف اور صرف اس لیے قربان کر دیے کہ قوم کے بوڑھے بچے عورتیں اور مرد سکون کی نیند سو سکیں۔ دہشت گردوں کی گولیوں کے سامنے ہماری فوج کے سینے ہمارے لیے سپر بن گئے ہمارے جوان بارودی دھماکوں کی نذر ہوئے تاکہ پاکستان کے شہر اور قصبے‘ قریے اور گائوں سکول اور بازار‘ مسجدیں اور خانقاہیں محفوظ رہیں۔
تو کیا ہم کسی فرد کو یا چند افراد کو اجازت دے سکتے ہیں کہ عالمِ اسلام کی اس عظیم فوج کو اپنی ناعاقبت اندیش حرکتوں سے نقصان پہنچائے؟ کیا فوج کے چند جوشیلے ناپختہ کار اور کچے افسروں کی اُس حرکت سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے عظیم فوج کی شہرت کو دھچکا لگے؟ نہیں کبھی نہیں! ہرگز نہیں!
اٹک کے قریب جو کچھ ہوا‘ اس میں فوج کا کردار‘بطور ادارہ نہیں! یہ چندافراد کا انفرادی فعل تھا۔ پاکستانی قوم کو‘ اس قوم کے عوام کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چند طالع آزمائوں کے نامسعود اقدامات کا ذمہ دار پوری فوج کو کبھی نہیں ٹھہرایا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل یحییٰ خان تک جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک‘ سیاست دانوں میں رقوم بانٹنے سے لے کر این ایل سی سکینڈل تک۔ جو کچھ ہوا‘ چند بخت آزمائوں کی انفرادی حرکات تھیں۔ فوج‘ بطور ادارہ ‘ ان اقدامات سے بری الذمہ ہے اور اسی پر قوم کا اجماع ہے۔ جہاں فوج کی قربانیاں قوم کی یادداشت پر کھدی ہیں‘ وہاں قوم کی تعریف بھی کی جانی چاہیے کہ اس نے فوج کے ادارے کو ہر حال میں افراد سے بلند رکھا اور چند جرنیلوں یا چند افسروں کی غلط کاریوں کو ہمیشہ ان کا انفرادی فعل سمجھا!
جنرل راحیل شریف نے کمان سنبھالی تو فوج کا مورال تسلّی بخش سطح پر نہیں تھا۔ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ خطرے کا پانی گلے تک آ چکا تھا۔ جنرل نے مورال کو آسمان تک پہنچایا۔ دہشت گردی کا قلع قمع کیا ملک کو خطرے سے باہرنکالا۔ فوج کو جو عزت‘ جو حرمت‘ جو شہرت‘ جو نیک نامی‘ آج حاصل ہے‘ تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ اس عزت پر ‘ اس حرمت پر اس شہرت پر اس نِکو نامی پر کسی انفرادی فعل کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے۔
جنرل راحیل شریف جیسے جواں مرد سپاہی سے یہ بعید ہے کہ وہ اسے انا کا مسئلہ بنانے کی اجازت دیں۔ نہیں‘ یہ انا کا مسئلہ نہیں! دو تین افسروں، فوجی جوانوں کے گروہ کو ذاتی غصہ نکالنے کے لیے جس طرح باہر نکال لائے۔ جنرل راحیل شریف اسے معاف نہیں کریں گے۔ یہ جوان پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ یہ ریاست کے ملازم تھے۔ کسی افسر کے ذاتی کارندے نہیں تھے۔ یہ فوج ہے‘ کسی ایک یا دو یا تین افسروں کی ذاتی جاگیر نہیں! یہ حرکت ان کے بلند مقام سے نیچے تھی! ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا!
جنرل راحیل شریف نے رات دن ایک کر کے‘ دہشت گردوں کو ملکی قانون کا تابع کیا۔ ان سے بہتر ملکی قانون کا قدر شناس کون ہو سکتا ہے؟ جنرل راحیل شریف یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے عساکر کا کوئی افسر‘ کوئی جوان‘ کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کرے اور جب اس خلاف ورزی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اسے انا کا مسئلہ بنا لے اور فوج کو بطور ادارہ سامنے کھڑا کر دے۔
سوشل میڈیا حقیقت بن چکا ہے ایک سیلابی‘ زور آور‘ زبردست حقیقت! یہ کس طرح ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنے کرب کا اظہار کریں اور ہماری عزیز از جان فوج اور اس کا عظیم سالار اس کرب کا نوٹس نہ لیں۔ہزاروں لاکھوں پاکستانی درد سے تڑپ رہے ہیں۔ یہ درد فوج کے لیے ہے۔ یہ لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ بے پناہ محبت۔ بے پایاں محبت۔ والہانہ محبت۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ چندافراد‘ ان کی محبوب فوج کی شہرت کو نقصان پہنچائیں۔ پاک فوج کی شہرت پر ضرب پڑے تو یہ ضرب لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر پڑتی ہے اس درد کی لہر ان کے کلیجوں تک جا پہنچتی ہے!
قوم اپنے محبوب جنرل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم کو پوری امید ہے کہ جنرل راحیل انصاف کریں گے۔ ایسا انصاف جو پوری قوم کو نظر آئے گا۔

Monday, September 12, 2016

مہرباں کیسے کیسے

صدراشرف غنی نے پاکستان کو دھمکی دی۔ اس پر بھارتی پریس نے شادیانے بجائے۔ بجانے ہی تھے۔ یہ ان کا حق تھا۔ مگر ان پاکستانیوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا جو افغان مہاجرین کے لیے مرے جا رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی دلچسپی پاکستان میںکم اور افغانستان میں زیادہ ہے؟
اس ماہ کی چودہ تاریخ کو صدر اشرف غنی نے بھارت کی یاترا کرنی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کو دھمکی دینا، بھارت یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا۔ بھارت کی چاپلوسی کرنے کا اس سے بہتر اسلوب اور کیا ہوسکتا ہے! برطانیہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان اوون جینکن سے ملاقات کے دوران افغان صدر ممیائے۔ شکایت کی کہ پاکستان افغان میوہ جات بھارت نہیں لے جانے دیتا۔ اس چغل خور بچے کی طرح، جو اپنی کارستانیاں چھپاتا ہے اور دوسروں کی چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل کے رہنما، افغان مہاجرین پر فدا ہونے کے لیے تیار ہیں، مگر افغان صدر کی یاوہ گوئی کا نوٹس نہیں لیتے۔ افغان مہاجرین بھی سیانے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی طرف داری کون کرے گا۔ دفاع پاکستان کے لیڈروں کے سامنے انہوں نے اپنے’’معصوم‘‘ مطالبات دھرے۔
٭ جن افغانوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہے انہیں ’’قیام امن‘‘ تک پاکستان میں رہنے دیا جائے:
٭جن افغانوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہے انہیں ’’قیام امن‘‘ تک پاکستان میں رہنے دیا جائے۔
٭ جو رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں رجسٹریشن کارڈ ایشو کیے جائیں۔
٭ افغانستان آمدورفت کی اجازت دی جائے۔
٭ تاجروں کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے۔
٭ تعلیمی اداروں میں داخلوں پر پابندی ہٹائی جائے۔
٭ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت بحال کی جائے۔
٭ قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
دفاع پاکستان کے رہنمائوں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ مہاجرین کے مسائل کو اجاگر کریں گے۔ فوراً کمیٹی بنائی گئی جو مہاجرین کے ’’معصوم‘‘ مطالبات منوانے کے لیے حکام سے ملاقات کرے گی!
غور کیجیے ! ’’قیام امن‘‘ تک مہاجرین پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں کئی ہزار سال سے امن قائم ہوا نہ ہوگا۔ پھر وہ یہاں تجارت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان بھی آنا جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دفاع پاکستان کے کسی رہنما نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر افغانستان  میں امن نہیں ہے تو وہاں آمد و رفت کیا معنی؟
کچھ مطالبات جو افغان مہاجرین اپنی فہرست میں شامل کرنا بھول گئے، ہم یاد دلائے دیتے ہیں:
٭ پاکستان کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں افغانوں کو ملازمتیں دی جائیں۔
٭ بالخصوص نادرا اور پاسپورٹ کے محکمے میں ملازمتوں کے لیے انہیں سپیشل کوٹا دیا جائے۔
٭ انہیں پاکستان کی مسلح افواج میں بھرتی کیا جائے۔
٭ انہیں ووٹ دینے کا اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
٭ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں انہیںممبر نامزد کیا جائے۔
٭ وزیراعظم پاکستان کی کابینہ میں افغان مہاجرین کو وزارتیں دی جائیں۔
٭ سی ایس ایس کے امتحان میں افغانوں کو بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
٭ افغان مہاجرین کو پاکستان میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
٭ پاکستان کے تمام بازاروں اور مارکیٹوں سے مقامی تاجروں کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ افغان مہاجرین کو تجارت کرنے کا موقع دیا جائے۔
٭ اٹک، لاہور اور دیگر شہروں میں مقامی تاجروں کو قتل کیا گیا ہے، باقی مقامی تاجروں کو بھی قتل کرنے کی عام اجازت دی جائے۔
٭ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بارڈر کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے تاکہ مہاجرین کسی روک ٹوک کے بغیر آ جاسکیں۔
امید ہے دفاع پاکستان کونسل کے رہنما ان مطالبات کو بھی فہرست میں شامل کرکے متعلقہ حکام تک پہنچا دیں گے۔
ویسے تعجب ہے کہ افواج پاکستان سے بے لوث اور والہانہ محبت کرنے والے ایک رہنما، دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر اس مذہبی (و سیاسی ) پارٹی کے رہنما کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں جس کے ایک سابق لیڈر نے پاکستانی افواج کے شہیدوں کو شہید ماننے سے انکار کیا تھا۔ اس کی تردید پارٹی نے کی نہ ان ذات شریف کے جانشین نے۔ جانشین صاحب کے بھی کئی روپ ہیں۔ ایک طرف مذہبی جماعت کے لیڈر ہیں اور نیل کے ساحل سے لے کر خاک کاشغر تک امت مسلمہ کے غم خوار ہیں۔ دوسری طرف ایسے اجلاسوںمیں بھی جا پہنچتے ہیں جو خالص لسانی اور نسلی بنیادوں پر بلائے جاتے ہیں۔
خیر! یہ تو ایک جملہ مقرضہ تھا، بات یہ ہو رہی تھی کہ افغان مہاجرین کے غم میں خون کے آنسو بہانے والے اس وقت رخ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں جب افغانستان کے لیڈر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ حب الوطنی کی کون سی قسم ہے؟
صدر اشرف غنی کا واویلا بے معنی ہے اور صرف اور صرف چالاکی پر مبنی ہے۔ وہ ہر اس موقع پر شیر آیا شیر آیا کی چیخ و پکار کرتے ہیں جب واہگہ پار سے اشارہ ہوتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو دوطرفہ تجارتی معاہدہ موجود ہے، اس کی رو سے افغان اشیائے تجارت پاکستان کے راستے بھارت جا سکتی ہیں مگر بھارت سے اشیاء لانے کی اجازت نہیں۔پاکستان کے بھارت کے ساتھ معاملات حساس ہیں اسی لیے یہ شق رکھی گئی۔ برطانوی نمائندے کے سامنے صدراشرف غنی نے پوری بات نہیں بتائی اور یہ واویلا مچایا کہ پاکستان نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ اب یہ تفصیلات کہ ٹرک اٹاری تک جائیں یا نہ جائیں، دونوں ملکوں نے بیٹھ کر طے کرنا ہے۔ اس کا برطانوی نمائندے سے کیا تعلق۔
وہ جو اقبال نے کہا تھا         ؎
مقصد ہے ملوکیتِ انگریز کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
تو یہ افغان میوہ جات کی برآمد کا قصہ نہیں، کچھ اور ہی مسئلہ ہے۔ گزشتہ ماہ افغان کمانڈر انچیف بھارت گئے اور ’’ضروریات‘‘ کی فہرست بھارتیوں کے حوالے کی۔ اس فہرست میں ہیلی کاپٹر شامل تھے اور روس کے بنے ہوئے جنگی ساز و سامان کے سپیئرپارٹس بھی۔ گزشتہ برس وزیراعظم مودی نے افغانستان کو اسلحہ نہ دینے کی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے چار گن شپ جنگی ہیلی کاپٹر افغانستان کو دیئے۔ ہر سال بھارت آٹھ سو افغان فوجیوں کو تربیت دیتا ہے۔کیا دفاع پاکستان کونسل ان تمام حقائق سے بے خبر ہے؟
دوسرے لفظوں میں افغان مہاجرین یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں رہیں، حقوق ان کے پاکستانیوں کے برابر ہوں، بلکہ ان سے بڑھ کر ہوں۔ دوسری طرف ان کی حکومت بھارت کے ساتھ جنگی معاہدے کرتی رہے۔ افغان فوجی بھارت جا کر تربیت حاصل کرتے رہیں۔
یہ پرانا وتیرہ ہے۔ جب بھی کسی افغان صدر نے بھارت کا دورہ کرنا ہوتا ہے، اس سے پہلے پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ مگر دوسروں سے کیا شکوہ! افغانستان کے جو وکیل پاکستان کے اندر موجود ہیں، ان سے کیسے نمٹیں گے؟

Friday, September 09, 2016

ہلکی ہلکی آنچ

ترمذ کی خنک شام تھی۔ ہم سب غیر ملکی مندوب ایک کھلے میدان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے، کچھ فاصلے پر سٹیج تھا۔ سٹیج پر کوئی کرسی یا ڈائس نہیں تھا۔ بیٹھے ہوئے گھنٹہ بھر ہو گیا تو بڑھتی ہوئی سردی میں کچھ مندوبین اپنی گاڑیوں اور بسوں سے اوورکوٹ لینے کے لیے اُٹھے تو سکیورٹی کے افراد نے بتایا کہ اب کوئی شخص اِس جگہ سے اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے مندوبین سے ملنے آنا ہے اور ان کی آمد پر سکیورٹی کا یہی انداز ہوتا ہے۔
ساتھ ایرانی مندوب بیٹھا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک نیا جھونکا آیا اور اس نے بے ساختہ منوچہری دامغانی کا شعر پڑھا ؎
خیزد و خز آرید کہ ہنگامِ خزاں است
بادِ خنک از جانبِ خوارزم وزان است
اُٹھو، ریشمی چادر اوڑھو کہ خزاں آن پہنچی۔ خوارزم کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
ترمذ کا شہر! خنک شام! پچھلی رات خوارزم سے واپس پہنچے تھے۔ ایسے میں ایک ایرانی کی زبان سے برمحل، بے ساختہ شعر، سبحان اللہ سبحان اللہ! تیر کی طرح دل میں پیوست ہو گیا۔ پاک و ہند میں فارسی پڑھنے پڑھانے والوں نے منوچہری دامغانی کو کبھی کوئی خاص لِفٹ نہیں دی۔ واپس آ کر پہلی فرصت میں کوئٹہ کے کتاب فروشوں کی معرفت ایران سے منوچہری کا دیوان منگوایا۔
یہ ازبکستان میں جلال الدین خوارزم شاہ کی 700ویں برسی کا ہنگامہ تھا۔ پاکستان سے ہم دو مندوب تھے۔ یہ فقیر اور ڈاکٹر این بی بلوچ۔ تاشقند سے خصوصی پرواز کے ذریعے دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین کو خیوا لے جایا گیا جہاں کانفرنس کا انعقاد تھا۔ وہاں سے ترمذ۔ یہاں مقصد کانفرنس کی تفصیلات بتانا نہیں۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کے اندازِ حکومت کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد صدر صاحب تشریف لائے۔ مندوبین کے تو وہ قریب بھی نہیں پھٹکے‘ نہ ہی ان کی موجودگی میں کوئی اپنی جگہ سے ہِل سکا۔ سٹیج پر کھڑے ہو کر انہوں نے تقریر کی۔ دائیں بائیں دیگر وزرا اور صوبائی عمائدین کھڑے تھے۔ جہاں جاتے سخت سکیورٹی کی وجہ سے سٹیج پر بیٹھنے سے گریز کرتے‘ حاضرین کے نزدیک جانے کا سوال ہی نہ تھا۔
تاشقند سے لاہور کا فاصلہ سات سو بتیس میل اور اسلام آباد کا پانچ سو باسٹھ میل ہے۔ ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘۔ کتابوں میں تو درست ہے تاہم حقیقت میں ان مسلمان ملکوں سے ہمارا تعلق اتنا ہے کہ اسلام کریموف کی وفات کی خبر یک کالمی سرخی کی دو سطروں پر مشتمل تھی۔ ان کے جنازے میں افغان صدر اشرف غنی شریک تھے۔ ایران سے وزیر خارجہ آئے تھے۔ پاکستان سے کوئی نہ تھا۔
اسلام کریموف تقریباً ستائیس برس ازبکستان کے حکمران رہے۔ یہ شدید آمریت کا دور تھا۔ اِس آمریت کے ڈانڈے اُن 127 برسوں سے ملتے ہیں جو اہلِ تاشقند نے روسیوں کی غلامی میں گزارے۔ 1865ء میں زار کی فوج نے تاشقند فتح کیا تو عیسائی راہب صلیب اٹھائے شہر میں داخل ہونے والے لشکر کے آگے آگے تھا۔ پھر اشتراکی انقلاب آیا۔ سوویت یونین کی ستر سالہ غلامی، زار کے زمانے سے بھی بدتر تھی۔ رسم الخط، لباس سب کچھ بدل گیا۔ ہندوستان پر اس کے مقابلے میں برطانوی سامراج کی حکومت تھی۔ شاید ہندوستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے حصے میں برطانوی آقا آئے۔ برطانیہ میں جمہوریت تھی۔ بھارتی اور پاکستانی اُس آمریت کا سوچ بھی نہیں سکتے جس نے وسط ایشیائی ریاستوں کو اپنے خوفناک جبڑوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مغل سلطنت کا زوال تاریخ کا مرحلہ تھا جس کا آنا ناگزیر تھا۔ برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کرکے گریٹ گیم کھیلی اور اس کامیابی کے ساتھ کہ افغانستان کو بفر ریاست بنا کر، جنوب کی طرف مسلسل بڑھتے ہوئے روسیوں کو دریائے آمو کے اُس پار روک دیا۔ فائدے بچھو اور سانپ کے بھی ہوتے ہیں اور استعمار کے بھی۔ جمہوریت، مقامی حکومتیں اور مالیات کا مستحکم نظام، استعمار ہی کے تحفے ہیں۔
بظاہر کریموف نے سوویت یونین کے انہدام پر ازبکستان کی آزادی کا اعلان کیا مگر اسلوب حکمرانی وہی رکھا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ کے جی بی کی جگہ نیشنل سکیورٹی بیورو بنا ڈالی۔ ہر شخص دوسرے سے بات کرتے ہوئے خوف زدہ رہتا۔ بارڈر بند کر دیے۔ درآمدات پر ستر فیصد ٹیکس نافذ کیا۔ الیکشن منعقد کرائے مگر یہ الیکشن عجیب و غریب تھے۔ ہر دفعہ نوے فیصد ووٹ کریموف کو پڑتے! 2000ء کے انتخابات میں تو کریموف کے حریف امیدوار نے خود ووٹ کریموف کے حق میں ڈالا۔
برطانیہ اور امریکہ نے اپنی روایتی منافقت سے کام لیتے ہوئے کریموف کی شدید آمریت کو سہارا دیا اس لیے کہ یہ آمریت انہیں راس آئی تھی۔ 2003ء میں کامن ویلتھ کے دفترِ خارجہ نے ازبکستان کو برطانیہ کا اہم ساتھی قرار دیا اور ’’تصدیق نامہ‘‘ جاری کیا کہ ’’ازبک افواج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہی نہیں‘‘۔ 2004ء میں تاشقند میں برطانوی سفیر کریگ مُرّے نے کریموف کی مجرمانہ سرگرمیوں کو صدام سے تشبیہہ دی تو برطانوی حکومت نے اپنے سفیر کو بیک بینی دو گوش ملازمت سے فارغ کر دیا۔
کریموف اپنے سیاسی مخالفین پر بھی اسلامی انتہا پسندی ہی کا لیبل لگاتے۔ 2005ء میں وادیٔ فرغانہ کے شہر اندجان میں بغاوت ہوئی۔ عوامی ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس پر کریموف کی افواج نے شہر میں قتل عام کیا اور نہتے عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ اب کے برطانیہ کو شرم آئی اور اس نے اس قتل عام کو انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا‘ مگر امریکہ نے ’’صبر‘‘ کی تلقین کی اور ازبک عوام کو تلقین کی کہ ’’پُرامن‘‘ جدوجہد کریں۔ ’’پُرامن‘‘ جدوجہد کی تلقین امریکہ اُن عوام کو کر رہا تھا جنہیں فٹ بال کھیلنے پر بھی ازبک پولیس گرفتار کر لیتی تھی۔ الزام یہ لگتا تھا کہ فٹ بال کھیل کر یہ افراد جسمانی فِٹنس کی تیاری کر رہے ہیں تا کہ انتہا پسندوں کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ کریموف کا حکم تھا کہ باغیوں کے سروں میں گولی ماری جائے۔ ’’ضرورت پڑی تو میں خود انہیں گولی ماروں گا‘‘۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا۔
کریموف کی ماں تاجک اور باپ ازبک تھا۔ انہوں نے کریموف کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ کریموف کا بچپن وہیں گزرا۔ طبیعت میں سختی اور مزاج میں جو تشدد تھا، اس کی ایک وجہ کچھ مبصرین کے نزدیک یتیم خانے کا ماحول بھی تھا۔ بڑی بیٹی گلنارہ کو جب کرپشن کے الزام میں پکڑا گیا تو عینی شاہدین کے مطابق پہلے باپ نے گلنارہ کو چہرے پر تھپڑ رسید کیا‘ پھر بے تحاشہ زدوکوب کیا‘ اور پھر گھر میں مقید کر دیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ بیٹی کے ساتھ سیاسی اختلاف تھا اور کرپشن محض بہانہ تھی۔ سرکاری اجلاس کے دوران کریموف کو غصہ آتا تو موصوف حاضرین پر سنگِ مرمر کا بھاری سگریٹ دان بھی دے مارتے۔
 1992ء میں یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعلقات نارمل تھے۔ تین چار پروازیں ہفتہ وار تاشقند جاتیں۔ چمڑے کے تاجر اُن دنوں تاشقند کے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے عام پائے جاتے۔ پھر تعلقات میں سردمہری در آئی۔ زبانی روایت یہ کہتی ہے کہ ازبکستان میں جو دھماکے ہوئے تھے ان میں کچھ ایسے افراد بھی ملوث تھے‘ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھے‘ اگرچہ وہ افراد پاکستان نہیں تھے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کو ویزا دینے میں سختی برتی جانے لگی۔ اس زبانی روایت کی تصدیق مشکل ہے مگر جس فراخ دلی سے ہمارے ادارے غیر ملکیوں کو نوازتے ہیں اور چند ٹکوں کی خاطر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بانٹتے پھرتے ہیں، اُس کے پیشِ نظر یہ روایت کچھ ناممکن بھی نہیں۔
وسط ایشیا کی یہ ریاستیں بجلی، گیس اور معدنیات کا خزانہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی اِن ریاستوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ نااہلی اور وژن کی کمی ہے۔ ایک بار اس کالم نگار کو تاشقند میں بتایا گیا کہ پاکستان کے سفیر گاف کھیلنے کے علاوہ کسی شے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ رہے ہمارے کیریئر ڈپلومیٹ، تو انہیں امریکہ یا یورپ سے باہر تعینات کیا جائے تو ان کی اکثریت یوں بے کل رہتی ہے جیسے طوطا پنجرے میں پھڑپھڑاتا ہے۔ ہمارے اکثر سفارت کاروں کی ارضِ موعود 
(Promised Land)
 ولایتی ممالک ہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت نے ابتدا ہی سے اِن ریاستوں پر بھرپور توجہ دی۔ بھارت کا لمبا چوڑا ثقافتی مرکز تاشقند میں ایک مدت سے کام کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس آڑ میں جاسوسی بھی ہوتی ہو گی۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی کا مضبوط شعبہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں وسط ایشیائی طلبہ اردو سیکھنے کے لیے بھارتی یونیورسٹیوں میں جاتے رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ بھارت کی برآمدات اِن ملکوں میں بے تحاشا ہیں۔ وہاں کی تعمیری، بینکاری اور دیگر سرگرمیوں میں بھارتی پیش پیش ہیں۔ یہ ریاستیں بھارتی فلموں کی بہت بڑی منڈی بھی ہیں۔ عرصہ ہوا اِس کالم نگار نے اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات کو تجویز دی تھی کہ پاکستانی ڈراموں کو وہاں عام کرنے کی کوشش کی جائے لیکن یہ تجویز بھی ردّی کے اُس بڑے ڈرم میں چلی گئی جہاں ہر مفید تجویز اپنے عبرتناک انجام کو پہنچتی ہے۔ جس ملک میں ہر پالیسی چند مخصوص طبقات کے مفاد میں بنتی ہو وہاں ہم جیسے احمقوں کی، جو صرف اور صرف ملک کے نقطۂ نظر سے سوچتے ہیں، کون سنتا ہے اور کون سنے گا! ؎
بہت ہی تیز مہک اور ہلکی ہلکی آنچ
وطن کی خاک ہے یا آتشیں گلاب ہے یہ

Wednesday, September 07, 2016

جونکیں

بستی کے ہر تیسرے باسی کو ملیریا ہو رہا تھا۔ ہسپتال تو وہاں تھا نہیں۔ ڈاکٹر قصبے سے لایا جاتا۔ دوا دیتا، پیسے جیب میں ڈالتا، ٹیکسی کا کرایہ بستی والوں سے الگ لیتا۔ یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا تھا۔
ایک نوجوان، جو بستی ہی کا تھا اور کراچی ملازمت کرتا تھا، چھٹی آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کے بندو! یہ جو گلی گلی پانی ٹھہرا ہوا ہے، اس میں مچھروں کی نسلیں پرورش پا رہی ہیں۔ اس متعفن، غلیظ پانی سے جان چھڑائو۔ جوہڑوں میں دوا ڈالو۔ ڈاکٹر نے پیسے بٹورنے ہیں‘ اسے کیا ضرورت ہے کہ پانی کے بارے میں ہدایات دے۔
وزیر اعظم کا دفتر اگر اِن خطوط پر غور کر رہا ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ پورے کا پورا منتخب میئر کے سپرد کیا جائے تو یہ فیصلہ درست سمت میں ہو گا۔ ترقیاتی ادارہ ٹھہرا ہوا متعفن پانی ہو چکا ہے جس میں مچھر پرورش پا رہے ہیں۔
ٹھہرا ہوا پانی؟ جی ہاں! اس لیے کہ کچھ ادارے بند گلی کی طرح ہیں۔ جو شخص سی ڈی اے میں یا ایل ڈی اے میں یا پی آئی اے میں بھرتی ہو گیا، اب چھتیس سال وہ اسی ادارے میں رہے گا۔ اگر وہ بددیانت ہے اور شاطر ہے، تو اپنی معلومات کو منفی سمت لے جائے گا۔ گروہ بندیاں اسی طرح بنتی ہیں۔ انگریز بہادر نے جو اصول بنایا تھا کہ تین سال سے زیادہ ایک سیٹ پر کوئی اہلکار، کوئی افسر نہ رہے تو اس کی پشت پر منطق تھی۔ اگر پاکستان کی گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں مسائل کا درست ادراک ہوتا تو تمام شہروں کے ترقیاتی اداروں کو ملا کر ایک محکمہ بنا دیا جاتا۔ وفاقی سطح پر نہیں تو صوبائی سطح پر یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ جسے لاہور کے ترقیاتی ادارے میں تین برس ہو چکے ہیں اسے راولپنڈی 
بھیجیں‘ راولپنڈی والوں کو مری، مری والوں کو ملتان۔ اسی طرح پشاور کے ترقیاتی ادارے میں سالہا سال سے اہلکار براجمان ہیں۔ انہیں کوہاٹ یا مردان کی کارپوریشنوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔
ایک ہی ادارے میں طویل قیام کرپشن کے لیے ممد ہوتا ہے۔ میز کے نیچے سودے طے ہوتے ہیں۔ مقامی پراپرٹی ڈیلر، اپنے اپنے پسندیدہ اہلکاروں اور افسروں کے ساتھ مل کر مافیا بنا لیتے ہیں۔ کرپشن وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سپریم کورٹ نے کچھ ہفتے پہلے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دے دیا۔ اس فیصلے پر دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ وہ کرپشن میں لاہور کے ادارے سے پیچھے کس طرح ہے؟
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے بابو منتخب میئر کو اختیارات آخر کیوں دیں گے؟ منتخب میئر، ظاہر ہے فرشتہ نہیں، اسی معاشرے کا حصہ ہے مگر جیسا بھی ہے منتخب ہے۔ اُسے مستقبل میں بھی ووٹ لینے ہیں اور ووٹروں کا سامنا کرنا ہے۔ سی ڈی اے کے حکام اور اہلکار لرز رہے ہیں۔ لرزنے کا سبب طیش بھی ہے اور خوف بھی! عشروں کی بادشاہت کہیں بکھر نہ جائے۔ کچھ ماہ قبل سی ڈی اے کے 23 محکمے منتخب میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سپرد کیے گئے۔ ترقیاتی ادارے کی یونین عدالت میں چلی گئی۔ افسر ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ رخنے پر رخنہ ڈالا جا رہا ہے۔ ادارے کا چیئرمین‘ جو نوکر شاہی کارکن  ہوتا ہے، صرف اور صرف متعلقہ وزیر کو جواب دہ ہے مگر میئر عوام کو جواب دہ ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو ضلعی حکومتوں کے خاتمے سے پیدا ہوئی۔ ضلع کے ناظم کا مرنا جینا وہیں تھا۔ کتنی کرپشن کرتا؟ کتنی ناانصافیاں کرتا؟ کل کو پھر عوام کا سامنا کرنا پڑتا۔ ظلم کیا صوبائی حکومتوں نے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹ کر۔ ڈی سی ہے یا ڈی سی او، ایک دفعہ تبادلہ ہو گیا تو زندگی بھر اس ضلع میں واپس نہیں آنا۔ نوکر شاہی کا اپنا اسلوب ہے۔ باس کی خوشنودی، اپنا آرام، سہولتوں کا حصول، آنے والے دنوں میں بہتر تعیناتی کے لیے منصوبہ بندی اور کوشش! عوام کے ووٹوں سے چنے گئے ناظم یا میئر کا انداز مختلف ہے۔ بالکل مختلف۔ اپنی شہرت کی حفاظت، مخالفین کے ڈر کی وجہ سے حد درجہ احتیاط، اور سب سے بڑھ کر… ووٹروں کا اطمینان تاکہ آنے والے انتخابات میں اُس کا دامن بالکل خالی نہ ہو۔ 
وزیر اعظم کو استقامت کے ساتھ منتخب میئر کا ساتھ دینا ہو گا۔ ادارے کی بدنیتی کا اندازہ صرف ایک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے ناکارہ اور اُجڑے ہوئے پارک تھے، وہ میئرکو دے دیے گئے اور جو آمدنی دے رہے تھے جیسے ایف نائن پارک، یا چڑیا گھر، یا لیک ویو پارک، وہ خود رکھ لیے۔ دو ملّائوں میں مرغی حرام ہوتی ہے۔ اگر ترقیاتی ادارہ پورے کا پورا میٹروپولیٹن کارپوریشن کو، یعنی منتخب میئر کو نہ دیا گیا تو میئر کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہ ہو گا‘ کیونکہ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ بیٹھنے کے لیے کمرے دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جائے گا۔ فرنیچر دینے میں حیلہ سازیاں ہوں گی۔ افرادی قوت کی تقسیم میں چالاکیاں بروئے کار لائی جائیں گی۔ ٹیلی فونوں، کمپیوٹروں، فیکس مشینوں، پرنٹروں کی تقسیم میں جھگڑے پڑیں گے۔ مہینے اور سال گزر جائیں گے، نوکری شاہی کے چکروں میں میئر اور اس کے معاونین یوں جکڑے جائیں گے کہ ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والا معاملہ ہو گا۔ اس اثنا میں میئر کی مدت ختم ہو جائے گی اور ترقیاتی ادارے کے بابو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرکے فتح کا جشن منائیں گے۔ 
ملازمین کی یونینیں ان اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ کچھ ہفتے ہوئے، پی آئی اے کے سربراہ نے دہائی دی۔ مگر کسی نے نہ سنی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ملازمین کی چھ یونینیں ہوں گی‘ وہاں ادارہ کیسے چل سکتا ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ چھ یونین، ایئرلائن کے چلنے پر فیصلہ کن انداز میں اثر ڈالتی ہیں۔ کیبن کریو کی اپنی یونین ہے۔ پائلٹ حضرات کی اپنی اور اسی طرح باقی شعبوں کی اپنی، پھر ان سب کے اوپر سی بی اے ہے یعنی بارگیننگ ایجنسی۔ جب پوچھا گیا کہ ’’کیا اِن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں نے عملی طور پر ایئرلائن کو یرغمال بنا رکھا ہوا ہے؟ تو پی آئی اے کے چیئرمین کا جواب اثبات میں تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ضرورت چار ہزار افراد کی ہے مگر ملازمین کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔ اس لیے کہ کارکردگی کی بنیاد پر انتظامیہ کسی کو ملازمت سے نکال ہی نہیں سکتی۔ ’’ہم احتساب کے حوالے سے ایک درست نتیجے پر پہنچتے ہیں مگر بدقسمتی سے اگلا قدم اٹھانا از حد مشکل ہوتا ہے۔ اس کا سبب یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کا اثر و رسوخ اور مداخلت ہے‘‘۔
یہی صورتِ حال ریلوے میں ہے۔ ریلوے ملازمین اور ان کے خاندان ادارے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین بھی مفت سفر کرتے ہیں۔ یونین منہ زور ہے۔ مراعات کم نہیں کرنے دیتی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کے عہدیدار، تنخواہیں پوری پوری لیتے ہیں‘ مگر کام نہیں کرتے۔ سیاست کل وقتی ہے۔ یہ جونکیں ہیں جو معیشت کا خون چوس رہی ہیں۔ ظلم کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ایک بہت بڑے ادارے کا سربراہ اعتراف کر رہا ہے کہ ادارہ یونینوں کے ہاتھ میں یرغمال بنا ہوا ہے۔
سرکاری یونیورسٹیوں کا حال سٹوڈنٹس یونینوں نے بُرا کر رکھا ہے۔ جامعات ان کے ہاتھ میں یرغمال ہیں۔ اساتذہ پر جسمانی تشدد کی مثالیں عام ہیں۔ ہوسٹل ڈیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ جن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں نے جامعات کو اپنے مہیب جبڑوں میں دبوچ رکھا ہے‘ ان کے اپنے تعلیمی ادارے میں طلبہ کو سیاست بازی کی اجازت نہیں۔ تعلیم و تعلّم کا کام جو پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے، اس کا عشرِ عشیر بھی سرکاری یونیورسٹیوں میں نہیں ہو پاتا۔ اس لیے کہ یہاں طلبہ تنظیموں کا سرطان پھل پھول نہیں سکتا۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا معاملہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ کیا وزیر اعظم اسے بابوئوں اور یونین کے جبڑوں سے نکال کر منتخب میئر کے حوالے کر سکیں گے؟ اگر ایسا ہو گیا تو یہ ایک خوش آئند آغاز ہو گا۔

Monday, September 05, 2016

Container

یہ کینیڈا کا شہر ہے۔ شہری حسبِ معمول بسوں اور اپنی کاروں میں گھروں سے نکلے مگر آج ٹریفک ہر طرف رکی ہوئی ہے۔ گھنٹے ہو گئے، لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی سڑکیں کنٹینروں سے بند ہیں۔ چھوٹے راستے گاڑیوں سے اٹے ہیں۔
وہ دیکھیے، اُس طرف سے جلوس آ رہا ہے۔ ایک بہت بڑے ٹرک پر حضرت شیخ الاسلام طاہرالقادری کھڑے ہیں۔ ان کے اردگرد ان کے عقیدت مند اور مرید حصار باندھے ہیں۔ پیچھے سینکڑوں گاڑیوں کا جلوس ہے۔ ہر طرف بینر لگے ہیں۔ ان پر مختلف نعرے لکھے ہیں۔کسی پر لکھا ہے:’’حکومتِ پاکستان سے بات کی جائے‘‘ 
کسی پر لکھا ہے: ’’میں کینیڈین شہری ہوں، پاکستان میں میری تنظیم کے ارکان سے زیادتی ہوئی ہے‘‘۔
اب یہ جلوس شہر کے مرکزی چوک پر پہنچ گیا ہے۔ اس چوک پر چار بڑی شاہراہیں آ کر ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ چاروں شاہراہوں پر ٹریفک بند ہے۔ وسط میں کئی فٹ اونچا بہت بڑا سٹیج بنایا گیا ہے۔ شیخ الاسلام تقریر کر رہے ہیں۔
اُس دن شہری جو گھروں سے صبح کے وقت نکلے تھے، سارا دن پریشان رہے۔ ٹریفک تقسیم ہو کر گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ ایک ایک سٹریٹ میں گاڑیاں رینگتی رہیں، پھنستی رہیں اور نکلتی رہیں۔ بچے سکولوں سے چھٹی کر کے دوپہر کو نکلے اور شام ڈھلے گھروں میں پہنچے۔ بیمار ہسپتالوں میں اور مسافر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر نہ پہنچ پائے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ واقعی کینیڈا میں ایسا ہوا؟
نہیں! کسی ترقی یافتہ، مہذب ملک میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ راستہ، خواہ وہ شاہراہ ہے یا چھوٹی سڑک، گلی ہے یا سٹریٹ، کوچہ ہے یا پیدل چلنے کا ٹریک، ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس بنیادی حق کو پانچ منٹ کے لیے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے مطالبات جائز ہیں۔ ماڈل ٹائون میں چودہ انسانی جانوں کے خون کا حساب ہونا چاہیے۔ قصاص کا مطالبہ منطقی ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اِس قضیے میں ملوث، نوکرشاہی کے ایک سینئر رکن کو بیرونِ ملک تعینات کر دیا گیا اور وہ بھی ایک ایسے عہدے پر جس کا اُس کے شعبے یا تجربہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پاناما لیکس کا معاملہ بھی انجام کو پہنچنا چاہیے۔ فلیٹ کب خریدے گئے، رقم کس طرح باہر بھیجی گئی۔ سب سوالوں کے جواب قوم کو ملنے چاہئیں۔ مگر جب علامہ طاہرالقادری اور عمران خان ریلیاں نکالتے ہیں، جب شاہراہیں بند کرتے ہیں، جب ردِ عمل میں حکومت سراسیمگی دکھاتی ہے اور دارالحکومت کو کنٹینروں سے سربمہر کر دیتی ہے تو علامہ صاحب اور عمران خان عوام کی ہمدردیاں کھو دیتے ہیں۔ جو گھر سے نکلا ہے اور آپ کی ریلی کے سبب ٹریفک میں پھنسا ہے، جو آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے، اسے آپ کے مقصد سے ہمدردی تو کیا ہونی ہے، وہ غضب ناک ہو کر، بے بسی میں، آپ کو گالیاں دینے لگتا ہے۔
مگر راستے علامہ طاہرالقادری اور عمران بند کر رہے ہیں تو ایسا پہلی بار تو نہیں ہو رہا۔ اِس جرم میں صدر اور وزیر اعظم سے لے کر عام شہری تک سب برابر کے شریک ہیں۔ اس بنیادی حق کی پامالی میں سب حصہ دار ہیں۔ راستہ بند کرنا روایت بن چکا ہے، یہاں تک کہ اکثر اوقات لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں مگر برا نہیں مناتے۔ یہ حقوق سے بے خبری کی انتہا ہے۔ شہری شعور سے محرومی کا نکتۂ عروج ہے۔ پسماندگی کی معراج ہے۔ اس سے بڑھ کر پسماندگی کیا ہو گی کہ حکومت نے میٹرو بس مہیا کی، اس کے لیے جدید ترین اسٹیشن بنائے مگر عوام کو دُکھ کسی اور وجہ سے پہنچا ہے تو حملہ میٹرو کے اسٹیشن پر ہو رہا ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے خون پسینے سے تعمیر کردہ سہولیات خود ٹیکس دہندگان ہی کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔ بدبختی تہہ در تہہ چھائی ہوئی ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنی تباہی، اپنی عمارتیں خود منہدم کر رہے ہیں۔
اہلِ اقتدار میں ادراک ہوتا، حکومت کرنے والے ذہنی اعتبار سے بالغ ہوتے تو جدید ترین میٹرو اسٹیشن بنانے سے پہلے عوام کی ذہنیت کا علاج کرتے۔ مائنڈ سیٹ تبدیل کرتے۔ ایک ایک دماغ میں یہ حقیقت راسخ کر دیتے کہ راستہ بند کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے اور قومی املاک کی بربادی پر عبرت ناک سزا دی جائے گی۔
اہلِ اقتدار کس منہ سے عوام کو راستہ روکنے سے منع کر سکتے ہیں؟ وہ اپنی شاہی سواریوں کے لیے گھنٹوں اور بعض اوقات پہروں شاہراہیں بند کرا دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کراچی جاتے تھے تو اہلِ کراچی پر قیامت گزر جاتی تھی۔ معصوم بچے شام ڈھلے گھروں کو پہنچتے تھے اور ایم کیو ایم والے اِس ظلم کو دیکھتے تھے اور چوں تک نہیں کرتے تھے اس لیے کہ تعلق گہرا تھا۔ اتنا گہرا کہ الطاف حسین نے جب دہلی میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلا تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ۔۔۔ کھوکھلا نہرہ۔۔۔ لگانے والے جنرل پرویز مشرف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے گلے پر پائوں رکھ کر الطاف حسین کو سرکاری عشائیہ دلوایا گیا۔
کیا عزتِ نفس رہ جاتی ہے آپ کی جب آپ کی گاڑی کو روک کر اچانک ایک پولیس والا یا کسی حساس ادارے کا اہلکار، بونٹ پر زور سے ہاتھ مارتا ہے اور آپ آدھ گھنٹے کے لیے قید ہو جاتے ہیں۔ یہ بدترین قید ہے۔ آپ کہیں نہیں آ جا سکتے، اس لیے کہ آپ کا صدر یا وزیر اعظم یا کوئی اور گردن بلند، کوئی اور کج کلاہ، اپنا جلوس لیے گزر رہا ہے۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لندن میں شاہراہوں پر ٹریفک روک دی جائے کہ صدر اوباما نے گزرنا ہے؟ یہ صرف ہمارے ہاں ہے کہ غیر ملکی مہمانوں کے گزرتے وقت ٹریفک رک جاتی ہے۔ شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔ ان کا بس چلے تو وقت کی حرکت بھی روک دیں۔
اِس بدمعاشی میں، اس غنڈہ گردی میں عام شہری بھی برابر کا شریک ہے۔ یہ جو کروڑوں دکانداروں نے اپنا مال نہ صرف فٹ پاتھوں پر بلکہ سڑکوں پر رکھا ہوا ہے، یہ بدمعاشی نہیں ہے تو کیا ہے؟ یہ ناجائز قبضہ ہے۔ سوفٹ چوڑی سڑک میں سے مشکل سے دس فٹ کا راستہ راہگیروں کے لیے اور ان کی گاڑیوں کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ باقی ستر اسی فٹ حرام کھانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے! ظاہر ہے کسی کی زمین پر، خواہ وہ حکومت ہی کیوں نہ ہو، بغیر اجازت سودا رکھ کر فروخت کریں گے تو حرام خوری ہی ہو گی۔ حلال کی آمدنی تو اسے نہیں کہا جا سکتا۔
عام شہری اسی پر بس نہیں کرتا، اس کے بیٹے کی شادی ہے تو وہ سڑک پر ٹینٹ نصب کروا کر راستہ بند کر دیتا ہے۔ کبھی یہ جرم، تعزیتی خیمہ لگا کر کرتا ہے۔ گاڑیاں آتی ہیں، راستہ بند پا کر ریورس ہوتی ہیں اور اُن گلیوں کی تلاش میں دھکے کھانے لگتی ہیں جہاں سے گزر کر اصل راستے پر دوبارہ چڑھ سکیں۔ یہ کالم نگار کچھ عرصہ قبل ایک ایسی آبادی میں رہتا تھا جہاں یہ بدمعاشی کھلے عام ہوتی تھی۔ اُس محلے میں ایک مذہبی گروہ کا ’’امیر‘‘ رہتا تھا۔ وہ ان پڑھ تھا۔ اس نے گلی کا ایک چوتھائی حصہ ہڑپ کر کے اپنے مکان میں شامل کر لیا تھا۔ ایسا اِس ملک کے ہر شہر ہر قصبے میں ہو رہا ہے۔ شرفا عاجز ہیں۔ قانون بے نیاز ہے۔ ریاست کا وجود نظر نہیں آتا۔ 
یہ عام شہری مکان تعمیر کرتے وقت سریا، اینٹیں، ریت سڑک پر رکھ کر راستہ تنگ کرتا ہے اور راہگیروں کے لیے اذیت کا سبب بنتا ہے۔ بحریہ اور ڈیفنس کی رہائشی کالونیاں اسی لیے مقبولِ عام ہوتی جا رہی ہیں کہ ان کالونیوں کے منتظیم ایسی کسی دھاندلی کی اجازت نہیں دیتے اور بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں۔
حکمران اپنے قافلوں کے لیے راستے بند نہ کرتے اور عام شہری فٹ پاتھوں پر خوشی یا سوگ کے موقع پر سڑکیں بند نہ کرتے تو آج کسی سیاسی لیڈر کی یا اس کی پارٹی کی کیا مجال تھی کہ شاہراہوں پر قبضہ کر کے عوام کو کرب میں مبتلا کرتی!
ہم کنٹینروں کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ ایک طرف عمران خان کے اور علامہ صاحب کے کنٹینر ہیں، دوسری طرف حکومت کے کنٹینر ہیں جنہوں نے شاہراہیں مسدود کر رکھی ہیں۔

 

powered by worldwanders.com