اس طالب علم کو اگر غالب یا اقبال پر یا سعدی یا حافظ پر لکھنا ہو تو‘ معیار سے قطع نظر، کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جیتے جاگتے غالب‘ اقبال‘ سعدی یا حافظ تو دیکھے ہی نہیں! سروکار صرف ان کی تصانیف سے ہے! مگر ظفر اقبال پر لکھتے وقت معاملہ مشکل یوں ہو جاتا ہے کہ شاعر کی شخصیت اور شاعر کی شاعری، دونوں گڈمڈ ہو جاتی ہیں!
یہ 1966ء تھا۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اب اُس طالب علم کا نام یاد نہیں جو کالج میں ہم سے سینئر تھا۔ کینٹین میں ایک دن اس نے شاعری کی ایک نئی کتاب کا ذکر کیا۔ یہ ظفر اقبال کی گلافتاب تھی۔ اُس کے اور دوسرے سینئر طلبہ کے درمیان دھواں دھار بحث ہوئی۔ ایک طرف ظفر اقبال کی مخالفت تھی اور دوسری طرف موافقت! ہم جونیئر انتہائی دلچسپی اور انہماک سے یہ گفتگو سنتے رہے۔ غالباً یہی وہ دن تھا جب خلاقِ عالم نے یہ طے کر دیا کہ جہاں بھی اُردو شاعری کے دو پڑھنے والے ہوں گے‘ وہیں دو گروپ بن جائیں گے۔ ایک پرو ظفر اقبال اور دوسرا اینٹی ظفر اقبال۔ یہ تقسیم کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک، آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک، بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ہر جگہ، ہر گھر میں اور ہر ایج گروپ میں دیکھی‘ اور دیکھ رہے ہیں۔
گلافتاب بگولے کی طرح اٹھی اور آندھی کی طرح چھا گئی۔ جسے جدید اُردو شاعری میں رمق بھر بھی دلچسپی تھی، وہ اس سے تغافل نہ برت سکا۔ اس میں جو تجربہ تھا، اور جو تازگی تھی اور جو نئی تشبیہیں تھیں، اور پُرانے الفاظ کا جو نیا استعمال تھا‘ اس نے بہت سوں کے حواس گم کر دیے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سرسوں کی گندل اُردو شاعری میں در آئے گی؟ ؎
لوہے کی لاٹھ بن کے اڑے عمر بھر تو ہم
اب ٹوٹنے لگے تو سرہوں کی گندل ہوئے
کیا سرسوں کی گندل کو آپ نے انگوٹھے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کے درمیان رکھ کر کبھی ناخن سے کاٹنے کی کوشش کی ہے؟ کرکے دیکھیے اور پھر یہ شعر پڑھیے۔ کیا زندگی کی نزاکت کی اس سے بہتر تشریح ہو سکتی ہے؟
بد قسمتی سے یا خوش بختی سے‘ میں شاعری کا قاری ہوں، نقاد نہیں۔ ورنہ زنبیل سے ایسی ایسی اصطلاحات‘ اوزار اور ہتھیار نکالتا کہ ایک تو پڑھنے والے کے ہوش اُڑ جاتے دوسرے، وہ کسی بھی شاعر کی تخلیقات پر منطبق ہو جاتے۔
اور یہ جو لکھا ہے کہ شاعر کی شخصیت درمیان میں آ جاتی ہے، تو پھر وہ وقت بھی آیا کہ ظفر اقبال کو غریب خانے میں پایا! والد محترم جب اپنے دوسرے فرزند کے پاس کچھ دن گزارنے کے لیے پہلی بار امریکہ کے سفر پر جا رہے تھے تو ایئرپورٹ پر گمبھیر اداسی کے درمیان ایک جملہ کہا: انسان کی زندگی میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سو یہ عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا کہ جس شاعر کے مجموعہ ہائے کلام ’’آبِ رواں‘‘ اور ’’گلافتاب‘‘ کسی شعوری کوشش کے بغیر تقریباً حفظ ہو چکے تھے، وہ شاعر پاس بیٹھا تھا! ہم اُسے براہِ راست سُن سکتے تھے۔ باتیں کر سکتے تھے اور چُھو سکتے تھے!
شاعری نے تو حیران کیا ہی تھا، ظفر اقبال کی شخصیت نے اور بھی حیران کیا۔ یاخدا! یہ کیسا شاعر ہے جو سورج کی پہلی کرن سے بہت پہلے اُٹھ پڑتا ہے! شام چار بجے کا وقت طے ہوا کہ اسلام آباد راولپنڈی کے کچھ منتخب شاعر ادیب آئیں گے اور ظفر اقبال صاحب سے گفتگو کریں گے۔ ساڑھے تین بجے تک بہت سے احباب وفور اشتیاق میں آچکے تھے۔ اب ماتھا ٹھنکا۔ معلوم نہیں ظفر صاحب کہاں ہیں، پہنچتے بھی ہیں یا نہیں! اس ضمن میں دوسرے شعرا کے حوالے سے جتنے تلخ تجربات ہوئے تھے، ایک ایک کرکے یادداشت پر ہتھوڑے چلانے لگے۔ چار بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ ظفر اقبال ہمارے درمیان موجود تھے! یارِ دیرینہ شعیب بن عزیز نے اِس کالم نگار کے بارے میں کہا تھا کہ اتنی واجبی ذہانت کے ساتھ اتنی بڑی شاعری! سو حیرت ہوئی کہ اتنی غیر شاعرانہ عادات کے ساتھ ظفر اقبال نے اتنی عظیم شاعری کر ڈالی!
پھر وہ وقت بھی آیا کہ جناب نے حکم صادر فرمایا کہ آبِ رواں کا نیا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے، تم اس کا فلیپ لکھو۔ یہ ایسے ہی تھا کہ چوہدری اپنے مزارع کو کہے کہ میرے ساتھ والی کرسی پر تشریف رکھو! حیرت سے گنگ ہو کر جسارت کی کہ یا حضرت! یہ کیسے ممکن ہے؟ کہنے لگے، میں اپنے جونیئرز کی آرا بھی لینا چاہتا ہوں۔ سو اس وقت آبِ رواں کا جو ایڈیشن مارکیٹ میں دستیاب ہے اور جو برادر محترم فرخ سہیل گوئندی صاحب نے شائع کیا ہے، اس کا فلیپ اِس طالب علم کا لکھا ہوا ہے۔ ظفر صاحب نے یہ اعزاز صرف مجھے ہی نہیں دیا، اپنے دوسرے جونیئرز کو بھی عطا کیا۔ اس وقت سامنے ان کی کلیات ’’اب تک‘‘ کا پانچواں حصّہ ہے۔ اس میں ابرار احمد، جاذب قریشی، گوہر نوشاہی، الیاس بابر اعوان، فاطمہ حسن، سرور جاوید، ظفرالنقی، اصغر ندیم سید، علی اکبر ناطق، حسین مجروح، سلیم کوثر، اختر عثمان، آفتاب حسین اور عابد سیال کے تبصرے، مضامین اور آرا شامل ہیں۔ جونیئرز کے حوالے سے ان کی ایک اور عادت بھی سینئر شعرا سے بالکل مختلف ہے! وہ اپنے بعد کے شعرا کو غور سے اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ اور یہ کہنا تو تحصیل حاصل ہے کہ رائے دیتے وقت لحاظ یا رعایت نہیں کرتے! اِس لکھنے والے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی نثری تصنیف لا= تنقید میں ایک مضمون اس کے حوالے سے بھی ہے جو دراصل ایک کالم پر کڑا تبصرہ ہے!
محبت پر جو شعر ظفر اقبال نے کہے ہیں‘ وہ تو کہے ہی ہیں، زندگی کی تلخیوں، معاشرے کی مکروہات، ہمارے متعفن گلے سڑے مائنڈ سیٹ اور عام آدمی کو درپیش روزمرہ کی بے حرمتی پر ظفر اقبال نے جو کچھ غزل میں کہا ہے، سچ یہ ہے کہ نظم کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے! ایک کالم اس کا کیا متحمل ہو سکتا ہے اور ایک مجھ سا طالب علم اس پر کیا لکھے گا! مگر اُردو شاعری کا پرو ظفر اقبال گروہ انگشت بدنداں ہے کہ غزل کو وہ کہاں سے کہاں لے گیا۔ یوں لگتا ہے اُردو غزل اس کے تھیلے میں ہے۔ تھیلا اس کے کندھے پر ہے۔ وہ جا رہا ہے۔ جہاں چاہتا ہے، رُکتا ہے، تھیلے کو کندھے سے اُتارتا ہے اُس سے غزل نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیرت سے گنگ رہ جاتے ہیں کہ ہر بار غزل کی ایک انوکھی ہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ رہا اُردو شاعری کا وہ گروہ جو اینٹی ظفر اقبال ہے، تو اصل میں وہ بھی پرو ظفر اقبال ہی ہے اس لیے کہ تیلی نے کہا تھا جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ، تو جاٹ نے جواب دیا تھا کہ تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو! تیلی نے طعنہ دیا کہ قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے کہا‘ قافیہ نہیں ملا تو کیا ہوا، کولہو تمہیں بھاری تو لگے گا نا! سو اینٹی ظفر اقبال گروہ کو ظفر اقبال کے شاعری پسند نہیں آرہی تو کیا ہوا! بھاری تو لگ رہی ہے! یوں بھی عربی کا محاورہ ہے مَنْ صَنَّفَ قَدِ اسْتَہْدَف جس نے بھی نئی راہ نکالی، تنقید اور ملامت کا ہدف بنا ؎
ازان کہ پیروئی خلق گمرہی آرد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
خلق کے پیچھے چلنے سے گمراہی کے سوا حاصل ہی کیا ہؤا؟ اس لیے تو گزرے قافلے کے نقوشِ پا کو لائقِ التفات نہ سمجھا!
معاشرے کی مکروہات اور گلے سڑے مائنڈ سیٹ کی بات ہو رہی تھی۔ طوالت کی گنجائش نہیں مگر دو چار اشعار:
گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی
کتے بلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا!
ہم وہی کمّی اور کمین
نون ٹوانے کھوسے تم
عزت ملی تو آخر اُسی سے ملی ظفر
بے غیرتی کے ساتھ جو پیسہ بنایا ہے
رہی محبت! تو محبت کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو بابے نے چھوڑا ہو۔ صرف ایک شعر ؎
زندگی کے گھپ اندھیروں میں کہیں پر تھوڑی تھوڑی
اس کے ہونٹوں کی چمک سے روشنی ہونے لگی ہے
ادب میں خمسے بہت مشہور ہیں۔ نظامی گنجوی 1130ء میں پیدا ہوئے۔ پانچ کتابوں پر مشتمل خمسہ لکھا اور بعد میں آنے والوں کو امتحان میں ڈال گئے۔ مخرنِ اسرار، خسرو شیریں، لیلیٰ مجنوں، سکندر نامہ اور ہفت پیکر۔ سکندر نامہ ہمارے مدارس میں پڑھایا جاتا رہا۔ امیر خسرو 1253ء میں پیدا ہوئے۔ نظامی کے جواب میں خمسہ لکھا۔ اس میں مطلع انوار معرکے کی تصنیف ہے۔ 1414ء میں جامی تشریف لائے۔ انہوں نے بھی خمسہ لکھا۔ تحفۃ الاحرار مشہور ہوئی۔ ان کی تصنیف یوسف زلیخا درس نظامی کا حصہ رہی۔ ظفر اقبال 1932ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا خمسہ ایک اور ہی طرز کا ہے۔ یہ جو پانچویں جلد کلیات کی اب آئی ہے‘ اس میں چھ کتابیں شامل ہیں مگر پانچ جلدیں خمسہ ہی تو ہیں اور ابھی تو اللہ اسے سلامت رکھے سِتہ سبع یہاں تک کہ تِسع اور عشرہ بھی آئے گا!