ایسا نہیں کہ لیڈر نہیں ملے۔ لیڈر ملے۔ ذہین لیڈر! مگر بخت نے یاوری نہ کی۔ قسمت دو نقطوں والے قاف سے نہیں، ’’ک‘‘ سے تھی! یہ وہی ’’ک‘‘ ہے جس سے ایک جانور کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ہمیں بھٹو جیسا لیڈر ملا۔ ولولے اور جوش سے بھرپور۔ صرف ذہین نہیں، نابغہ! دنیا کے کسی بھی رہنما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ یہ جو آج ہم رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، تو بھٹو کتابیں پڑھتا تھا اور کتابیں لکھتا بھی تھا۔ وہ چاہتا تو پاکستان کے لیے چرچل بن سکتا تھا۔ ڈیگال بن سکتا تھا۔ مہاتیر بن سکتا تھا۔ لی بن سکتا تھا۔ مگر وہی بات کہ ہماری قسمت قاف سے نہیں تھی۔ جاگیرداروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔ قومیانے کی جس پالیسی نے سوویت یونین کو کھوکھلا کر رکھا تھا، اس انتہائی غیر دانش مندانہ پالیسی کو پاکستان پر مسلط کیا۔ انڈسٹری، تعلیمی ادارے، سب کچھ بیورو کریسی کی نذر ہو گیا۔ کارخانے نوکرشاہی کے ایسے کارندوں کے ہاتھ چڑھ گئے جو اینٹوں کا بھٹہ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسی پر بس نہ کیا بھٹو صاحب قتل و غارت پر اُتر آئے۔ مخالف لیڈروں کو قتل کرایا۔ دلائی کیمپ قائم کیا۔ مسعود محمود کو نیم پرائیویٹ سپاہ کا امیر بنا دیا۔ پھر پاکستان کے بخت کے ساتھ بھٹو صاحب کا اپنا بخت بھی سفید سے سیاہ ہو گیا۔ ایک لیڈر جو پاکستان کی کایا پلٹ سکتا تھا، پھانسی کے تختے پر جھول کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔الطاف حسین کو دیکھیے! اگر صرف کراچی کے نکتۂ نظر سے بھی سوچیے تو الطاف حسین کے پاس کئی آپشن موجود تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی بناتے جو بین الاقوامی معیار کی ہوتی۔ کراچی کے نوجوان نجی شعبے پر چھا جاتے اور سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم یوں، خودہی، شکست سے دو چار ہو جاتا۔ مگر انہوں نے تعمیر کے بجائے تخریب کا راستہ اختیار کیا۔ مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی۔ خود بھی خراب ہوئے اور اہلِ کراچی کو بھی ابتلا میں ڈالا۔ آج ندیم نصرت لندن میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ متحدہ کے بانی نے مہاجروں کو شناخت دی۔ کاش وہ یہ بھی بتاتے کہ یہ شناخت کیا ہے؟ جون ایلیا کا جملہ ایک بار پھر لکھنے کو دل کر رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سلیمان ندوی، شبلی نعمانی، حکیم اجمل خان، محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد پیدا کرتے تھے اب وہ اجمل پہاڑی اور جاوید لنگڑا پروڈیوس کر رہے ہیں۔ کیا حکیم سعید مہاجروں کی شناخت نہ تھے؟ ہاں! مان لیا متحدہ کے بانی نے شناخت دی۔ ڈرل مشینوں کی شناخت! بوری بند لاشوں کی شناخت! بھتہ خوری کی شناخت! سیکٹر کمانڈروں کی شناخت! کراچی کا کون سا مسئلہ الطاف حسین نے حل کرایا؟ پانی کا مسئلہ؟ رہائش کا مسئلہ؟ بجلی کا مسئلہ؟ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ کچھ وزیروں کو ہمیشہ مخصوص وزارتیں ملیں۔ کچھ افراد بیرون ملک مقیم ہو گئے جہاں ان کا معیارِ زندگی شاہانہ ہے۔الطاف حسین جب لیڈر کے طور پر اُبھرے اس وقت پاکستان بھر میں ایسے لیڈر کی فطری طلب تھی جو مڈل کلاس کی اُمیدوں پر پورا اُترتا اور عوام کو نام نہاد اشرافیہ سے اور جدی پشتی جونکوں سے نجات دلاتا۔ الطاف حسین اگر ملک گیر سطح پر مڈل کلاس کو اکٹھا کرتے تو وہ ایک تاریخ ساز عظیم شخصیت کے طور پر اُبھرتے۔ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر خطوں کے تعلیم یافتہ لوگ، جو لغاریوں ‘مزاریوں چوہدریوں‘ نونوں ‘ٹوانوں‘ ملکوں، خانوں، کھروں، قریشیوں، گیلانیوں وڈیروں مخدوموں، پیروں اور میروں سے نفرت کرتے تھے، الطاف حسین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ مگر وہی بات کہ قسمت!پھر عمران خان ملے۔ عوام نے ساتھ بھی دیا۔ ولولہ تھا، ابال بھی تھا۔ کچھ کچھ پروگرام بھی تھا۔ صوبہ بھی ملا۔ مگر قسمت کا قاف یہاں بھی بدل گیا۔ ان کی ساری سیاست، ہر سرگرمی، ہر پروگرام میاں نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ کالم نگار مسلم لیگ نون کو سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہو گا، شریف برادران وسطی پنجاب اور لاہور سے ذہنی طور پر آج تک نہ نکل سکے۔ جو رہنما اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد خود ہی مسرور ہو اور اس مسرت کے اظہار کا طریقہ نئی ٹائی خریدنے کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کی حمایت وہی کر سکتے ہیں جو اس سے فائدے اُٹھا رہے ہوں۔ مگر عمران خان ایک سیاسی پرکار کی طرح صرف اور صرف وزیراعظم کے گرد دائرے بنا رہے ہیں۔ دُھن جب
OBSESSION
کا، جنون کا، روپ اختیار کر لے تو وبال بن جاتی ہے۔ عمران خان توانائیں کے پی پر لگاتے۔ صوبے کی صورت بدل کر رکھ دیتے، پھر تنظیم سازی کرتے، آزمودہ اور ازکار رفتہ سیاست دانوں کے بجائے نیا خون اُوپر لاتے۔ ڈویژن کی سطح پر ضلع کی سطح پر، تحصیل کی سطح پر، تھانے اور یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کو منظم کرتے اپنا ٹارگٹ آیندہ الیکشن رکھتے تو مستقبل ان کا بھی اور ملک کا بھی روشن ہوتا۔ وہ
Electables
کے جھانسے میں آگئے یعنی وہ اُْمیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں جیتتے ہیں خواہ جس پارٹی کا بھی ٹکٹ لے لیں۔ جہلم میں جس شخصیت کو انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ حالیہ ضمنی انتخاب میں دیا، اس سے پارٹی کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا؟ رہی سہی عزت سادات بھی گئی! پھر مسلم لیگ نون سے گلہ کیا ہے کہ اس نے امیر مقام ‘ماروی میمن اور زاہد حامد کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیا۔ آپ بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں!اگر دھرنے کا مقصد میاں نواز شریف کی حکومت سے چھٹکارا پانا ہے تو اس کی صرف تین صورتیں ہیں۔ اوّل۔ آپ کے دھرنے میں ملک پورا امڈ آئے۔ جم غفیر اور ابنوہِ کثیر سے ڈر کر، میاں صاحب، شاہ ایران کی طرح ملک سے بھاگ جائیں۔ اس کا امکان ایک فیصد بھی نہیں! پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں لاکھوں کروڑوں افراد مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں۔ دوم۔ میاں صاحب دھرنے سے ڈر کر، یا کارنر ہو کر استعفیٰ دے دیں۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے دلائل دینا بھی حماقت ہے۔ سوم۔ آرمی آکر تختہ الٹ دے۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ اگر کمانڈر انچیف نے ایسا کرنا ہوتا تو اسلام آباد کا دھرنا بہترین موقع تھا۔ اگر دھرنے کا مقصد رائے عامہ کی بیداری ہے اور کرپشن کے ایشو کو پیشِ منظر پر حاوی کرنا ہے تو کیا دھرنا اس مقصد کے حصول کا کامیاب ترین راستہ ہے؟ایاز امیر ہمارے کہنہ مشق صحافیوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ کیا دلکش اور سحر انگیز انگریزی لکھتے ہیں! انگریزی کاؤس جی بھی دلکش لکھتے تھے مگر وہ اکثر و بیشتر کراچی ہی کے مسائل پر لکھتے تھے۔ بیسیویں صدی کی یورپ کی تاریخ پر ایاز امیر کو عبور حاصل ہے۔ یہ کالم نگار اگر چکوال میں ہوتا تو ہٹلر اور سٹالن کی تاریخ ان سے سبقاً سبقاً پڑھتا۔ جس زمانے میں ہم نے مقابلے کا امتحان دیا، دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ کے لیے ای ایچ کار کی کتاب بائبل کا درجہ رکھتی تھی۔ سول سروس اکیڈیمی کو چاہیے کہ ایاز امیر کو تاریخ پڑھانے کے لیے مدعو کیا کرے۔ بات دور نکل گئی۔ ایاز امیر صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ایک خواب بُنا ہے۔ اور بین السطور کہا ہے کہ کیا عجب جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آجائیں اور اگر ایسا کریں گے تو عوام اُن کے گرد جمع ہو جائیں گے جیسے بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے تھے اور پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! جنرل کے مزاج میں جو متانت ہے جسے خالص عسکری متانت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، اس کے پیشِ منظر اس خواب کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں! جنرل راحیل شریف اتنے سادہ لوح نہیں کہ جو عزت کمائی ہے اسے سیاست کے چوراہے پر انڈیل دیں۔ جو خواب ایاز امیر دیکھ رہے ہیں وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سخت گرمی میں، پسینے میں شرابور، ایک شخص ریڈیو کے مائیک کے سامنے، آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہواؤں والے خنک موسم کی پیشین گوئی کر رہا تھا!تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہے؟ گڑھی خدا بخش اور رائے ونڈ کے تخت؟ اور تخت کے خاندانی وارث؟ اور وہی خاندان جو سترہ برسوں سے ’’منتخب‘‘ اداروں میں تشریف فرما ہیں؟ ایک شخص بلند چٹان سے گرا نیچے، بہت دور، قاتل گہرائی تھی۔ ایک درخت کی ٹہنی کو پکڑ لیا۔ آہ! شکیب جلالی یاد آ گیا؎جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسممیں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میںاُس نے غیبی قوت کو مدد کے لیے پکارا۔ آواز آئی ٹہنی کو چھوڑ دو۔بلند آواز میں کہا۔ کوئی اور ہے؟ عمران خان سے اُمیدیں باندھنے والے اب پکار رہے ہیں ’’کوئی اور ہے‘‘؎فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہےانتظار! انتظار! غیب سے آنے والے سوار کا انتظار!!
ایسا نہیں کہ لیڈر نہیں ملے۔ لیڈر ملے۔ ذہین لیڈر! مگر بخت نے یاوری نہ کی۔ قسمت دو نقطوں والے قاف سے نہیں، ’’ک‘‘ سے تھی! یہ وہی ’’ک‘‘ ہے جس سے ایک جانور کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ہمیں بھٹو جیسا لیڈر ملا۔ ولولے اور جوش سے بھرپور۔ صرف ذہین نہیں، نابغہ! دنیا کے کسی بھی رہنما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ یہ جو آج ہم رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، تو بھٹو کتابیں پڑھتا تھا اور کتابیں لکھتا بھی تھا۔ وہ چاہتا تو پاکستان کے لیے چرچل بن سکتا تھا۔ ڈیگال بن سکتا تھا۔ مہاتیر بن سکتا تھا۔ لی بن سکتا تھا۔ مگر وہی بات کہ ہماری قسمت قاف سے نہیں تھی۔ جاگیرداروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔ قومیانے کی جس پالیسی نے سوویت یونین کو کھوکھلا کر رکھا تھا، اس انتہائی غیر دانش مندانہ پالیسی کو پاکستان پر مسلط کیا۔ انڈسٹری، تعلیمی ادارے، سب کچھ بیورو کریسی کی نذر ہو گیا۔ کارخانے نوکرشاہی کے ایسے کارندوں کے ہاتھ چڑھ گئے جو اینٹوں کا بھٹہ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسی پر بس نہ کیا بھٹو صاحب قتل و غارت پر اُتر آئے۔ مخالف لیڈروں کو قتل کرایا۔ دلائی کیمپ قائم کیا۔ مسعود محمود کو نیم پرائیویٹ سپاہ کا امیر بنا دیا۔ پھر پاکستان کے بخت کے ساتھ بھٹو صاحب کا اپنا بخت بھی سفید سے سیاہ ہو گیا۔ ایک لیڈر جو پاکستان کی کایا پلٹ سکتا تھا، پھانسی کے تختے پر جھول کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔الطاف حسین کو دیکھیے! اگر صرف کراچی کے نکتۂ نظر سے بھی سوچیے تو الطاف حسین کے پاس کئی آپشن موجود تھے۔ وہ ایک یونیورسٹی بناتے جو بین الاقوامی معیار کی ہوتی۔ کراچی کے نوجوان نجی شعبے پر چھا جاتے اور سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم یوں، خودہی، شکست سے دو چار ہو جاتا۔ مگر انہوں نے تعمیر کے بجائے تخریب کا راستہ اختیار کیا۔ مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی۔ خود بھی خراب ہوئے اور اہلِ کراچی کو بھی ابتلا میں ڈالا۔ آج ندیم نصرت لندن میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ متحدہ کے بانی نے مہاجروں کو شناخت دی۔ کاش وہ یہ بھی بتاتے کہ یہ شناخت کیا ہے؟ جون ایلیا کا جملہ ایک بار پھر لکھنے کو دل کر رہا ہے کہ جو لوگ پہلے سلیمان ندوی، شبلی نعمانی، حکیم اجمل خان، محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد پیدا کرتے تھے اب وہ اجمل پہاڑی اور جاوید لنگڑا پروڈیوس کر رہے ہیں۔ کیا حکیم سعید مہاجروں کی شناخت نہ تھے؟ ہاں! مان لیا متحدہ کے بانی نے شناخت دی۔ ڈرل مشینوں کی شناخت! بوری بند لاشوں کی شناخت! بھتہ خوری کی شناخت! سیکٹر کمانڈروں کی شناخت! کراچی کا کون سا مسئلہ الطاف حسین نے حل کرایا؟ پانی کا مسئلہ؟ رہائش کا مسئلہ؟ بجلی کا مسئلہ؟ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ کچھ وزیروں کو ہمیشہ مخصوص وزارتیں ملیں۔ کچھ افراد بیرون ملک مقیم ہو گئے جہاں ان کا معیارِ زندگی شاہانہ ہے۔الطاف حسین جب لیڈر کے طور پر اُبھرے اس وقت پاکستان بھر میں ایسے لیڈر کی فطری طلب تھی جو مڈل کلاس کی اُمیدوں پر پورا اُترتا اور عوام کو نام نہاد اشرافیہ سے اور جدی پشتی جونکوں سے نجات دلاتا۔ الطاف حسین اگر ملک گیر سطح پر مڈل کلاس کو اکٹھا کرتے تو وہ ایک تاریخ ساز عظیم شخصیت کے طور پر اُبھرتے۔ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر خطوں کے تعلیم یافتہ لوگ، جو لغاریوں ‘مزاریوں چوہدریوں‘ نونوں ‘ٹوانوں‘ ملکوں، خانوں، کھروں، قریشیوں، گیلانیوں وڈیروں مخدوموں، پیروں اور میروں سے نفرت کرتے تھے، الطاف حسین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ مگر وہی بات کہ قسمت!پھر عمران خان ملے۔ عوام نے ساتھ بھی دیا۔ ولولہ تھا، ابال بھی تھا۔ کچھ کچھ پروگرام بھی تھا۔ صوبہ بھی ملا۔ مگر قسمت کا قاف یہاں بھی بدل گیا۔ ان کی ساری سیاست، ہر سرگرمی، ہر پروگرام میاں نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ کالم نگار مسلم لیگ نون کو سپورٹ کرنے والا آخری شخص ہو گا، شریف برادران وسطی پنجاب اور لاہور سے ذہنی طور پر آج تک نہ نکل سکے۔ جو رہنما اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد خود ہی مسرور ہو اور اس مسرت کے اظہار کا طریقہ نئی ٹائی خریدنے کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کی حمایت وہی کر سکتے ہیں جو اس سے فائدے اُٹھا رہے ہوں۔ مگر عمران خان ایک سیاسی پرکار کی طرح صرف اور صرف وزیراعظم کے گرد دائرے بنا رہے ہیں۔ دُھن جب
OBSESSION
کا، جنون کا، روپ اختیار کر لے تو وبال بن جاتی ہے۔ عمران خان توانائیں کے پی پر لگاتے۔ صوبے کی صورت بدل کر رکھ دیتے، پھر تنظیم سازی کرتے، آزمودہ اور ازکار رفتہ سیاست دانوں کے بجائے نیا خون اُوپر لاتے۔ ڈویژن کی سطح پر ضلع کی سطح پر، تحصیل کی سطح پر، تھانے اور یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کو منظم کرتے اپنا ٹارگٹ آیندہ الیکشن رکھتے تو مستقبل ان کا بھی اور ملک کا بھی روشن ہوتا۔ وہ
Electables
کے جھانسے میں آگئے یعنی وہ اُْمیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں جیتتے ہیں خواہ جس پارٹی کا بھی ٹکٹ لے لیں۔ جہلم میں جس شخصیت کو انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ حالیہ ضمنی انتخاب میں دیا، اس سے پارٹی کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا؟ رہی سہی عزت سادات بھی گئی! پھر مسلم لیگ نون سے گلہ کیا ہے کہ اس نے امیر مقام ‘ماروی میمن اور زاہد حامد کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیا۔ آپ بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں!اگر دھرنے کا مقصد میاں نواز شریف کی حکومت سے چھٹکارا پانا ہے تو اس کی صرف تین صورتیں ہیں۔ اوّل۔ آپ کے دھرنے میں ملک پورا امڈ آئے۔ جم غفیر اور ابنوہِ کثیر سے ڈر کر، میاں صاحب، شاہ ایران کی طرح ملک سے بھاگ جائیں۔ اس کا امکان ایک فیصد بھی نہیں! پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب میں لاکھوں کروڑوں افراد مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں۔ دوم۔ میاں صاحب دھرنے سے ڈر کر، یا کارنر ہو کر استعفیٰ دے دیں۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے دلائل دینا بھی حماقت ہے۔ سوم۔ آرمی آکر تختہ الٹ دے۔ یہ بھی نہیں ہو گا۔ اگر کمانڈر انچیف نے ایسا کرنا ہوتا تو اسلام آباد کا دھرنا بہترین موقع تھا۔ اگر دھرنے کا مقصد رائے عامہ کی بیداری ہے اور کرپشن کے ایشو کو پیشِ منظر پر حاوی کرنا ہے تو کیا دھرنا اس مقصد کے حصول کا کامیاب ترین راستہ ہے؟ایاز امیر ہمارے کہنہ مشق صحافیوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ کیا دلکش اور سحر انگیز انگریزی لکھتے ہیں! انگریزی کاؤس جی بھی دلکش لکھتے تھے مگر وہ اکثر و بیشتر کراچی ہی کے مسائل پر لکھتے تھے۔ بیسیویں صدی کی یورپ کی تاریخ پر ایاز امیر کو عبور حاصل ہے۔ یہ کالم نگار اگر چکوال میں ہوتا تو ہٹلر اور سٹالن کی تاریخ ان سے سبقاً سبقاً پڑھتا۔ جس زمانے میں ہم نے مقابلے کا امتحان دیا، دونوں عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ کے لیے ای ایچ کار کی کتاب بائبل کا درجہ رکھتی تھی۔ سول سروس اکیڈیمی کو چاہیے کہ ایاز امیر کو تاریخ پڑھانے کے لیے مدعو کیا کرے۔ بات دور نکل گئی۔ ایاز امیر صاحب نے ایک حالیہ کالم میں ایک خواب بُنا ہے۔ اور بین السطور کہا ہے کہ کیا عجب جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آجائیں اور اگر ایسا کریں گے تو عوام اُن کے گرد جمع ہو جائیں گے جیسے بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے تھے اور پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! جنرل کے مزاج میں جو متانت ہے جسے خالص عسکری متانت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، اس کے پیشِ منظر اس خواب کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں! جنرل راحیل شریف اتنے سادہ لوح نہیں کہ جو عزت کمائی ہے اسے سیاست کے چوراہے پر انڈیل دیں۔ جو خواب ایاز امیر دیکھ رہے ہیں وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سخت گرمی میں، پسینے میں شرابور، ایک شخص ریڈیو کے مائیک کے سامنے، آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہواؤں والے خنک موسم کی پیشین گوئی کر رہا تھا!تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہے؟ گڑھی خدا بخش اور رائے ونڈ کے تخت؟ اور تخت کے خاندانی وارث؟ اور وہی خاندان جو سترہ برسوں سے ’’منتخب‘‘ اداروں میں تشریف فرما ہیں؟ ایک شخص بلند چٹان سے گرا نیچے، بہت دور، قاتل گہرائی تھی۔ ایک درخت کی ٹہنی کو پکڑ لیا۔ آہ! شکیب جلالی یاد آ گیا؎جھکی چٹان، پھسلتی گرفت، جھولتا جسممیں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میںاُس نے غیبی قوت کو مدد کے لیے پکارا۔ آواز آئی ٹہنی کو چھوڑ دو۔بلند آواز میں کہا۔ کوئی اور ہے؟ عمران خان سے اُمیدیں باندھنے والے اب پکار رہے ہیں ’’کوئی اور ہے‘‘؎فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہےانتظار! انتظار! غیب سے آنے والے سوار کا انتظار!!
No comments:
Post a Comment