Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, September 16, 2016

دھچکا

برف کا دیو ہیکل پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا اور نیچے کی طرف بڑھنے لگا....
یہ سیاچن کا گیاری سیکٹر تھا دیو ہیکل گلیشیر کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی۔ اس نے پاکستانی مستقر کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ایک سو تیس فوجیوں کو ہڑپ کر گیا۔ 
یہ سیاچن‘ یہ کارگل‘ یہ گیاری برف اور پتھروں سے نہیں قائم۔ یہ اس خون کی قوت سے کھڑے ہیں جو پاکستانی مائوں کے جوان بیٹوں نے ان پہاڑیوں کو دیا ہے‘ پاکستانی قوم سلام کرتی ہے اپنے جوانوں کو جو دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر برفانی ہوائوں کا سامنا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ایسی برفانی ہوائیں جن کی شدت سے جسم کے اعضا صرف شل نہیں ہوتے‘ جھڑ جاتے ہیں۔ جو آنکھوں کی بینائی لے اُڑتی ہیں پاکستانی قوم شہیدوں کی ان میتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو کارگل کی چوٹیوں سے واپس اپنے قریوں‘ اپنی بستیوں میں آتی ہیں۔ اور زمین میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ شہید‘ پاک پوّتر بارش کے وہ قطرے ہیں جو آسمان سے اترتے ہیں اور زمین کے اندر چلے جاتے ہیں۔
پاکستانی عوام احسان نہیں بھولتے۔ اُنہیں چونڈہ کا میدان آج تک یاد ہے۔ جہاں بھارتی ٹینکوں کے آگے پاکستانی فوج کے جوان لیٹ گئے تھے۔ ٹینک ان کے اوپر سے گزرتے اور بھک سے اڑ جاتے اس وقت چاون بھارت کا وزیر دفاع تھا شورش کاشمیری نے بے ساختہ کہا    ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاون کے حق میں تیغِ جگردار ہو گیا
زندہ دلانِ شہر نے ایسا دیا ثبوت
لاہور ہر لحاظ سے بیدار ہو گیا
میرے وطن کی فوج ظفر موج کا جلال
ہندوستاں کے حق میں قضا کار ہو گیا
سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک‘ ہمارے وطن کی فوجِ ظفر مند کے پرچم‘ دہشت گردوں کے سینوں میں گڑے ہیں پاکستانی فوج نے ہزاروں جوان اور افسر صرف اور صرف اس لیے قربان کر دیے کہ قوم کے بوڑھے بچے عورتیں اور مرد سکون کی نیند سو سکیں۔ دہشت گردوں کی گولیوں کے سامنے ہماری فوج کے سینے ہمارے لیے سپر بن گئے ہمارے جوان بارودی دھماکوں کی نذر ہوئے تاکہ پاکستان کے شہر اور قصبے‘ قریے اور گائوں سکول اور بازار‘ مسجدیں اور خانقاہیں محفوظ رہیں۔
تو کیا ہم کسی فرد کو یا چند افراد کو اجازت دے سکتے ہیں کہ عالمِ اسلام کی اس عظیم فوج کو اپنی ناعاقبت اندیش حرکتوں سے نقصان پہنچائے؟ کیا فوج کے چند جوشیلے ناپختہ کار اور کچے افسروں کی اُس حرکت سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے عظیم فوج کی شہرت کو دھچکا لگے؟ نہیں کبھی نہیں! ہرگز نہیں!
اٹک کے قریب جو کچھ ہوا‘ اس میں فوج کا کردار‘بطور ادارہ نہیں! یہ چندافراد کا انفرادی فعل تھا۔ پاکستانی قوم کو‘ اس قوم کے عوام کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چند طالع آزمائوں کے نامسعود اقدامات کا ذمہ دار پوری فوج کو کبھی نہیں ٹھہرایا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل یحییٰ خان تک جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک‘ سیاست دانوں میں رقوم بانٹنے سے لے کر این ایل سی سکینڈل تک۔ جو کچھ ہوا‘ چند بخت آزمائوں کی انفرادی حرکات تھیں۔ فوج‘ بطور ادارہ ‘ ان اقدامات سے بری الذمہ ہے اور اسی پر قوم کا اجماع ہے۔ جہاں فوج کی قربانیاں قوم کی یادداشت پر کھدی ہیں‘ وہاں قوم کی تعریف بھی کی جانی چاہیے کہ اس نے فوج کے ادارے کو ہر حال میں افراد سے بلند رکھا اور چند جرنیلوں یا چند افسروں کی غلط کاریوں کو ہمیشہ ان کا انفرادی فعل سمجھا!
جنرل راحیل شریف نے کمان سنبھالی تو فوج کا مورال تسلّی بخش سطح پر نہیں تھا۔ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ خطرے کا پانی گلے تک آ چکا تھا۔ جنرل نے مورال کو آسمان تک پہنچایا۔ دہشت گردی کا قلع قمع کیا ملک کو خطرے سے باہرنکالا۔ فوج کو جو عزت‘ جو حرمت‘ جو شہرت‘ جو نیک نامی‘ آج حاصل ہے‘ تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ اس عزت پر ‘ اس حرمت پر اس شہرت پر اس نِکو نامی پر کسی انفرادی فعل کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے۔
جنرل راحیل شریف جیسے جواں مرد سپاہی سے یہ بعید ہے کہ وہ اسے انا کا مسئلہ بنانے کی اجازت دیں۔ نہیں‘ یہ انا کا مسئلہ نہیں! دو تین افسروں، فوجی جوانوں کے گروہ کو ذاتی غصہ نکالنے کے لیے جس طرح باہر نکال لائے۔ جنرل راحیل شریف اسے معاف نہیں کریں گے۔ یہ جوان پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ یہ ریاست کے ملازم تھے۔ کسی افسر کے ذاتی کارندے نہیں تھے۔ یہ فوج ہے‘ کسی ایک یا دو یا تین افسروں کی ذاتی جاگیر نہیں! یہ حرکت ان کے بلند مقام سے نیچے تھی! ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا!
جنرل راحیل شریف نے رات دن ایک کر کے‘ دہشت گردوں کو ملکی قانون کا تابع کیا۔ ان سے بہتر ملکی قانون کا قدر شناس کون ہو سکتا ہے؟ جنرل راحیل شریف یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے عساکر کا کوئی افسر‘ کوئی جوان‘ کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کرے اور جب اس خلاف ورزی کی نشان دہی کی جائے تو وہ اسے انا کا مسئلہ بنا لے اور فوج کو بطور ادارہ سامنے کھڑا کر دے۔
سوشل میڈیا حقیقت بن چکا ہے ایک سیلابی‘ زور آور‘ زبردست حقیقت! یہ کس طرح ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنے کرب کا اظہار کریں اور ہماری عزیز از جان فوج اور اس کا عظیم سالار اس کرب کا نوٹس نہ لیں۔ہزاروں لاکھوں پاکستانی درد سے تڑپ رہے ہیں۔ یہ درد فوج کے لیے ہے۔ یہ لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ بے پناہ محبت۔ بے پایاں محبت۔ والہانہ محبت۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ چندافراد‘ ان کی محبوب فوج کی شہرت کو نقصان پہنچائیں۔ پاک فوج کی شہرت پر ضرب پڑے تو یہ ضرب لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر پڑتی ہے اس درد کی لہر ان کے کلیجوں تک جا پہنچتی ہے!
قوم اپنے محبوب جنرل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ قوم کو پوری امید ہے کہ جنرل راحیل انصاف کریں گے۔ ایسا انصاف جو پوری قوم کو نظر آئے گا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com