Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 21, 2016

2018ء

کھلا میدان تھا۔ دو سانپ تھے۔ ایک نے دوسرے کی دُم منہ میں دبائی۔ دوسرے نے پہلے کی! دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو ہڑپ کر گئے۔ میدان صاف تھا۔
میدان صاف ہے۔ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرنے والی کوئی فیصلہ کن قوت میدان میں نہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہ برپا ہؤا۔ اگر الیکشن کے روز آسمان سے پتھر نہ برسے، اگر اُس دن زمین نہ دھنسی، اگر اُس دوپہر کو سورج کے بجائے روشنی بکھیرنے کے لیے چاند نہ مامور کر دیا گیا اور اگر کسی تیز چیخ نے دلوں کا رُخ پھیر نہ دیا تو 2018ء میں بھی مسلم لیگ ہی فتح کا پرچم لہرائے گی۔ شاعر نے کہا تھا؎
علم اے حُسن! تیری فتح کے لہرا رہے ہیں
بریدہ سر ہیں عاشق اور واپس آرہے ہیں
سندھ میں پیپلز پارٹی کی دُم ایم کیو ایم کے منہ میں ہے ۔کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سندھ کارڈ نہیں چل سکتا نہ چلے گا۔ رہا اندرون سندھ، تو سید، مخدوم، پیر، جاگیردار جو صدیوں سے حکمران ہیں، 2018ء میں بھی کامیاب ٹھہریں گے۔ جہاں عوام بینائی واپس لانے کے لیے جھروکے سے درشن دینے والی شخصیت کا روئے مبارک دیکھنا کافی سمجھیں وہاں ووٹ دیتے وقت بھی یہی عقل بروئے کار آئے گی۔ مسلم لیگ نون کا چراغ وہاں پہلے جلانہ اب جلے گا۔ ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور کئی اور سیاسی شخصیات شریف برادران کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔ یوں بھی تخت لاہور کی جو برانچ اسلام آباد میں قائم ہے، اس کے مخصوص طرزِ عمل سے سندھی وزیر ہمیشہ شاکی ہی رہے۔ کوئی مانے نہ مانے، وفاق کا دارالحکومت لاہور ہے۔ اسلام آباد سیکنڈ کیپیٹل ہے۔ صدر ایوب خان نے ڈھاکہ میں سیکنڈ کیپیٹل بنایا۔ نام اس کا ایوب نگر رکھا۔ سیکنڈ کیپیٹل فرسٹ کیپیٹل بن گیا اور ایوب نگر تاریخ کی مٹی میں مل کر مٹی ہو گیا۔ قبر بنی نہ کتبہ۔ مگر کوئی نہیں جو عبرت پکڑے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گاڑی میں تحریک انصاف کوئی ڈینٹ نہیں ڈال سکی۔ لاہور کا ضمنی انتخاب ہو یا چیچہ وطنی کا، ذرا سی کسر رہ جاتی ہے اور یہ ذرا سی کسر ہی کسرِ نفسی کا کام دیتی ہے یعنی نفس کو توڑ کر دو ٹکڑے کر دیتی ہے۔ پشاور کے ایک شاعر تھے۔ مرحوم ہو چکے۔ اچھا کہتے تھے۔ پڑھتے اس سے بھی زیادہ اچھے تھے مگر آشنایانِ فن ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے! پنجاب سے بالعموم اور وسطی پنجاب سے بالخصوص مسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہیں اور سب ٹھوس ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد وسطی پنجاب کا دل ہیں۔ یہ دل شریف برادران کی مٹھی میں ہے۔ تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان کے لیے شریف برادران کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ ٹیکس سے لے کر شاہراہوں تک، ایف بی آر سے لے کر وزارتِ تجارت تک، ہر جگہ انہیں فوائد پہنچائے گئے ہیں۔
تین عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا کہ پنجاب پر شریف برادران کا غلبہ ہے۔ غبی سے غبی شخص کے لیے بھی یہ عرصہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ ایک ایک ضلع کی سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ ایک ایک انتخابی حلقے کا نقشہ ان کے دفتر کی میز پر نہیں، ان کے ذہنوں کی میزوں پر پھیلا ہے۔ انہیں معلوم ہے کس حلقے میں کون سی برادری فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ کس کو خریدنا ہے۔ کس سے غفلت برتنی ہے۔ کس کو کس کے مقابلے پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ سیاسی حرکیات پست سطح کی ہیں مگر ان کا وجود حقیقت ہے۔ تحریکِ انصاف کے پاس تجربہ نہیں اس لیے علم بھی نہیں۔ یہ وہ علم نہیں جو ایم بی اے سے حاصل ہو۔ یہ وہ علم ہے جس کی تدریس ڈیروں میں، بیٹھکوں میں، چوپالوں میں، حویلیوں میں، ڈرائنگ روموں میں ہوتی ہے۔ اس تدریس میں ڈایا گرام سازش سے بنتے ہیں۔ چاک کرنسی سے بنتے ہیں اور بلیک بورڈ وسیع و عریض جاگیروں سے وجود میں آتے ہیں۔ 
اس سے پہلے کہ تحریک انصاف کے مستقبل کا امکانی نقشہ کھینچیں، ایک اور زبنیل کا ذکر ضروری ہے جو مسلم لیگ نون کے پاس ہے۔ سیاست کے دو زرخیز ترین دماغ شریف برادران کے ساتھ ہیں۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن۔ عمران خان کا دھرنا جب خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا تو زرداری صاحب ہی نے دست گیری کی    ؎
دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشان حالی و درماندگی!
عام حالات میں پیپلز پارٹی لاکھ مسلم لیگ نون کی مخالفت کرے مگر پریشان حالی اور درماندگی میں پیپلز پارٹی ہی مسلم لیگ نون کے کام آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ حلیفوں کو چھوڑ کر اقتدار ایسی قوت کو لینے دے جو حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہیں۔ دونوں کی مال و دولت جائدادیں محلات کارخانے بیرون ملک ہیں۔ دونوں ایک ایک پارٹی کے مالک ہیں۔ دونوں سیاسی جاگیردار ہیں۔ دونوں کے پاس سیاسی ہاریوں کی فوجیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا خواجہ آصف، خاقان عباسی ہوں یا حنیف عباسی، کائرہ صاحب ہوں یا رضا ربانی یا اعتزاز احسن یا شیری رحمن، سب زرداریوں اور شریفوں کی اولاد کے سامنے دست بستہ ہیں اور تابعِ فرمان! پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن نہیں سکتی اور متبادل بہترین حکومت پیپلز پارٹی کے لیے مسلم لیگ نون ہی کی ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن سے لاکھ اختلافات سہی، کرسیوں اور مراعات پر ان کی عقابی نظریں گڑی ہونے سے بھی کسی کو انکار نہ ہو گا مگر اس کا کیا کیجیے کہ سیاسی مستقبل میں جو کچھ ان کی نظر پہلے دیکھ لیتی ہے، دوسروں کو وہ دیر میں نظر آتی ہے۔ وہ جذبات کو اپنے اوپر حکمرانی نہیں کرنے دیتے۔ سوچتے ہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی دوراندیشی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شدید مذہبی ہونے کے باوجود وہ ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ جیسے پلیٹ فارموں سے دور رہتے ہیں اس لیے کہ انہیں معلوم ہے ایسے پلیٹ فارم بنانے والی قوتیں، عام طور پر، انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور منظرِ عام پر رہنے کے لیے بیساکھیاں استعمال کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی بلاک کے اندر بائیں بازو کی نمایندگی کرتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا نام صدام حسین یا قذافی کے ساتھ لیا جاتا رہا مگر مشرق وسطیٰ کے کسی بادشاہ کے ساتھ ان کی نسبت کبھی پڑھنے یا سننے میں نہ آئی۔
ایک برات لڑکی والوں کے گاؤں روانہ ہو رہی تھی۔ سارے نوجوان تھے۔ کسی نے مشورہ دیا، لڑکو! ساتھ کسی تجربہ کار چٹ داڑھیے کو لے چلو، کیا خبر، تم پر کیا بیتے، جس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں چکھی ہو گی کام آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک معمر شخص کو بھی ساتھ لے لیا۔ وہی ہؤا جس کی سیانوں نے پیشگوئی کی تھی۔ لڑکی والوں نے شرط رکھی کہ براتی دس سالم پکے ہوئے بکرے کھائیں گے تو لڑکی روانہ کی جائے گی۔ نوجوان براتیوں کے ہوش اڑ گئے۔ بابے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرایا۔ کہنے لگا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جوابی شرط یہ رکھو کہ تمہاری شرط منظور ہے مگر دس بکرے دسترخوان پر ایک ساتھ نہیں آئیں گے۔ ایک ایک رکھا جائے گا اور ایک بکرے اور دوسرے کے درمیان اتنے منٹ کا وقفہ ہو گا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ براتی شرط جیت گئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ توے سے گرم گرم پھلکے اترتے جائیں تو کھاتے وقت حساب کتاب نہیں رہتا۔ معمول سے بہت زیادہ کھانا کھا لیا جاتا ہے۔ سو، مسلم لیگ نون کے براتیوں پر جب بھی مشکل وقت پڑا، دونوں شاطر دماغ سیاست دان انہیں کسی نہ کسی ترکیب نمبر چھ سے ضرور آگاہ کریں گے۔رہی تحریک انصاف! تو شاید ہی اس حقیقت سے کوئی انکار کرے کہ اس کا گراف گر چکا ہے اور رکنے میں نہیں آ رہا۔ شادیاں کرنا ہر شخص کا انفرادی فعل ہے اور ذاتی معاملہ، مگر عمران خان نے جس طرح اپنے آپ کو تماشا بنایا اور خالص نجی معاملات میڈیا پر پیش ہوئے اس سے ذہنی کچاپن کھُل کر ثابت ہوا۔ یہی رویہ ان کا سیاسی معاملات میں بھی ہے۔ ایک لہر تھی جو گلے گلے آئی مگر پھر اُتر گئی۔ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا تحریکِ انصاف کا نصف النہار تھا۔ اگر وہ اس وقت لچک دکھاتے تو یہ عروج برقرار رہتا۔
ایک بہت بڑا سبب اُن کا گراف گرنے کا ان کے سیاسی حلیف ہیں۔ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید! کتنے سنجیدہ لوگ ان دونوں کو ووٹ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری صاحب کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں مگر اس جذباتی اور شیخ پرست قوم میں جو بیس بائیس کروڑ کی تعداد میں ہیں، لاکھوں مریدوں کا حصول چنداں مشکل نہیں۔ یہاں تو پیر سپاہی لاکھوں کا مجمع لگا لیتا تھا۔
عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کے حلقے کو فنڈز دیے اور سیاسی فائدہ اُٹھایا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے بھی ایک مدرسہ کو فنڈ دیے اور سیاسی نقصان اُٹھایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس مدرسہ کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ انہیں چیلنج کیا گیا کہ مین سٹریم کی تعریف ہی کر دیکھیں مگر انہیں ان معاملات کا ذرہ بھر ادراک نہیں!
کاغذ کا دامن تنگ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا سے کم نشستیں ملیں گی۔ بہت ہی کم! کیا عجب اگلی حکومت صوبے میں اے این پی اور جے یو آئی (ف) کے اشتراک سے بنے۔ واللہ اعلم۔
وضاحت۔ کل کے کالم میں آیتِ کریمہ کے الفاظ ’’وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُم‘‘ درست کمپوز نہ ہوئے جس پر معذرت۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com