ترمذ کی خنک شام تھی۔ ہم سب غیر ملکی مندوب ایک کھلے میدان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے، کچھ فاصلے پر سٹیج تھا۔ سٹیج پر کوئی کرسی یا ڈائس نہیں تھا۔ بیٹھے ہوئے گھنٹہ بھر ہو گیا تو بڑھتی ہوئی سردی میں کچھ مندوبین اپنی گاڑیوں اور بسوں سے اوورکوٹ لینے کے لیے اُٹھے تو سکیورٹی کے افراد نے بتایا کہ اب کوئی شخص اِس جگہ سے اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے مندوبین سے ملنے آنا ہے اور ان کی آمد پر سکیورٹی کا یہی انداز ہوتا ہے۔
ساتھ ایرانی مندوب بیٹھا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک نیا جھونکا آیا اور اس نے بے ساختہ منوچہری دامغانی کا شعر پڑھا ؎
خیزد و خز آرید کہ ہنگامِ خزاں است
بادِ خنک از جانبِ خوارزم وزان است
اُٹھو، ریشمی چادر اوڑھو کہ خزاں آن پہنچی۔ خوارزم کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
ترمذ کا شہر! خنک شام! پچھلی رات خوارزم سے واپس پہنچے تھے۔ ایسے میں ایک ایرانی کی زبان سے برمحل، بے ساختہ شعر، سبحان اللہ سبحان اللہ! تیر کی طرح دل میں پیوست ہو گیا۔ پاک و ہند میں فارسی پڑھنے پڑھانے والوں نے منوچہری دامغانی کو کبھی کوئی خاص لِفٹ نہیں دی۔ واپس آ کر پہلی فرصت میں کوئٹہ کے کتاب فروشوں کی معرفت ایران سے منوچہری کا دیوان منگوایا۔
یہ ازبکستان میں جلال الدین خوارزم شاہ کی 700ویں برسی کا ہنگامہ تھا۔ پاکستان سے ہم دو مندوب تھے۔ یہ فقیر اور ڈاکٹر این بی بلوچ۔ تاشقند سے خصوصی پرواز کے ذریعے دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین کو خیوا لے جایا گیا جہاں کانفرنس کا انعقاد تھا۔ وہاں سے ترمذ۔ یہاں مقصد کانفرنس کی تفصیلات بتانا نہیں۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کے اندازِ حکومت کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد صدر صاحب تشریف لائے۔ مندوبین کے تو وہ قریب بھی نہیں پھٹکے‘ نہ ہی ان کی موجودگی میں کوئی اپنی جگہ سے ہِل سکا۔ سٹیج پر کھڑے ہو کر انہوں نے تقریر کی۔ دائیں بائیں دیگر وزرا اور صوبائی عمائدین کھڑے تھے۔ جہاں جاتے سخت سکیورٹی کی وجہ سے سٹیج پر بیٹھنے سے گریز کرتے‘ حاضرین کے نزدیک جانے کا سوال ہی نہ تھا۔
تاشقند سے لاہور کا فاصلہ سات سو بتیس میل اور اسلام آباد کا پانچ سو باسٹھ میل ہے۔ ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘۔ کتابوں میں تو درست ہے تاہم حقیقت میں ان مسلمان ملکوں سے ہمارا تعلق اتنا ہے کہ اسلام کریموف کی وفات کی خبر یک کالمی سرخی کی دو سطروں پر مشتمل تھی۔ ان کے جنازے میں افغان صدر اشرف غنی شریک تھے۔ ایران سے وزیر خارجہ آئے تھے۔ پاکستان سے کوئی نہ تھا۔
اسلام کریموف تقریباً ستائیس برس ازبکستان کے حکمران رہے۔ یہ شدید آمریت کا دور تھا۔ اِس آمریت کے ڈانڈے اُن 127 برسوں سے ملتے ہیں جو اہلِ تاشقند نے روسیوں کی غلامی میں گزارے۔ 1865ء میں زار کی فوج نے تاشقند فتح کیا تو عیسائی راہب صلیب اٹھائے شہر میں داخل ہونے والے لشکر کے آگے آگے تھا۔ پھر اشتراکی انقلاب آیا۔ سوویت یونین کی ستر سالہ غلامی، زار کے زمانے سے بھی بدتر تھی۔ رسم الخط، لباس سب کچھ بدل گیا۔ ہندوستان پر اس کے مقابلے میں برطانوی سامراج کی حکومت تھی۔ شاید ہندوستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے حصے میں برطانوی آقا آئے۔ برطانیہ میں جمہوریت تھی۔ بھارتی اور پاکستانی اُس آمریت کا سوچ بھی نہیں سکتے جس نے وسط ایشیائی ریاستوں کو اپنے خوفناک جبڑوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مغل سلطنت کا زوال تاریخ کا مرحلہ تھا جس کا آنا ناگزیر تھا۔ برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کرکے گریٹ گیم کھیلی اور اس کامیابی کے ساتھ کہ افغانستان کو بفر ریاست بنا کر، جنوب کی طرف مسلسل بڑھتے ہوئے روسیوں کو دریائے آمو کے اُس پار روک دیا۔ فائدے بچھو اور سانپ کے بھی ہوتے ہیں اور استعمار کے بھی۔ جمہوریت، مقامی حکومتیں اور مالیات کا مستحکم نظام، استعمار ہی کے تحفے ہیں۔
بظاہر کریموف نے سوویت یونین کے انہدام پر ازبکستان کی آزادی کا اعلان کیا مگر اسلوب حکمرانی وہی رکھا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ کے جی بی کی جگہ نیشنل سکیورٹی بیورو بنا ڈالی۔ ہر شخص دوسرے سے بات کرتے ہوئے خوف زدہ رہتا۔ بارڈر بند کر دیے۔ درآمدات پر ستر فیصد ٹیکس نافذ کیا۔ الیکشن منعقد کرائے مگر یہ الیکشن عجیب و غریب تھے۔ ہر دفعہ نوے فیصد ووٹ کریموف کو پڑتے! 2000ء کے انتخابات میں تو کریموف کے حریف امیدوار نے خود ووٹ کریموف کے حق میں ڈالا۔
برطانیہ اور امریکہ نے اپنی روایتی منافقت سے کام لیتے ہوئے کریموف کی شدید آمریت کو سہارا دیا اس لیے کہ یہ آمریت انہیں راس آئی تھی۔ 2003ء میں کامن ویلتھ کے دفترِ خارجہ نے ازبکستان کو برطانیہ کا اہم ساتھی قرار دیا اور ’’تصدیق نامہ‘‘ جاری کیا کہ ’’ازبک افواج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہی نہیں‘‘۔ 2004ء میں تاشقند میں برطانوی سفیر کریگ مُرّے نے کریموف کی مجرمانہ سرگرمیوں کو صدام سے تشبیہہ دی تو برطانوی حکومت نے اپنے سفیر کو بیک بینی دو گوش ملازمت سے فارغ کر دیا۔
کریموف اپنے سیاسی مخالفین پر بھی اسلامی انتہا پسندی ہی کا لیبل لگاتے۔ 2005ء میں وادیٔ فرغانہ کے شہر اندجان میں بغاوت ہوئی۔ عوامی ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس پر کریموف کی افواج نے شہر میں قتل عام کیا اور نہتے عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ اب کے برطانیہ کو شرم آئی اور اس نے اس قتل عام کو انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا‘ مگر امریکہ نے ’’صبر‘‘ کی تلقین کی اور ازبک عوام کو تلقین کی کہ ’’پُرامن‘‘ جدوجہد کریں۔ ’’پُرامن‘‘ جدوجہد کی تلقین امریکہ اُن عوام کو کر رہا تھا جنہیں فٹ بال کھیلنے پر بھی ازبک پولیس گرفتار کر لیتی تھی۔ الزام یہ لگتا تھا کہ فٹ بال کھیل کر یہ افراد جسمانی فِٹنس کی تیاری کر رہے ہیں تا کہ انتہا پسندوں کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ کریموف کا حکم تھا کہ باغیوں کے سروں میں گولی ماری جائے۔ ’’ضرورت پڑی تو میں خود انہیں گولی ماروں گا‘‘۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا۔
کریموف کی ماں تاجک اور باپ ازبک تھا۔ انہوں نے کریموف کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ کریموف کا بچپن وہیں گزرا۔ طبیعت میں سختی اور مزاج میں جو تشدد تھا، اس کی ایک وجہ کچھ مبصرین کے نزدیک یتیم خانے کا ماحول بھی تھا۔ بڑی بیٹی گلنارہ کو جب کرپشن کے الزام میں پکڑا گیا تو عینی شاہدین کے مطابق پہلے باپ نے گلنارہ کو چہرے پر تھپڑ رسید کیا‘ پھر بے تحاشہ زدوکوب کیا‘ اور پھر گھر میں مقید کر دیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ بیٹی کے ساتھ سیاسی اختلاف تھا اور کرپشن محض بہانہ تھی۔ سرکاری اجلاس کے دوران کریموف کو غصہ آتا تو موصوف حاضرین پر سنگِ مرمر کا بھاری سگریٹ دان بھی دے مارتے۔
1992ء میں یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعلقات نارمل تھے۔ تین چار پروازیں ہفتہ وار تاشقند جاتیں۔ چمڑے کے تاجر اُن دنوں تاشقند کے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے عام پائے جاتے۔ پھر تعلقات میں سردمہری در آئی۔ زبانی روایت یہ کہتی ہے کہ ازبکستان میں جو دھماکے ہوئے تھے ان میں کچھ ایسے افراد بھی ملوث تھے‘ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھے‘ اگرچہ وہ افراد پاکستان نہیں تھے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کو ویزا دینے میں سختی برتی جانے لگی۔ اس زبانی روایت کی تصدیق مشکل ہے مگر جس فراخ دلی سے ہمارے ادارے غیر ملکیوں کو نوازتے ہیں اور چند ٹکوں کی خاطر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بانٹتے پھرتے ہیں، اُس کے پیشِ نظر یہ روایت کچھ ناممکن بھی نہیں۔
وسط ایشیا کی یہ ریاستیں بجلی، گیس اور معدنیات کا خزانہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی اِن ریاستوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ نااہلی اور وژن کی کمی ہے۔ ایک بار اس کالم نگار کو تاشقند میں بتایا گیا کہ پاکستان کے سفیر گاف کھیلنے کے علاوہ کسی شے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ رہے ہمارے کیریئر ڈپلومیٹ، تو انہیں امریکہ یا یورپ سے باہر تعینات کیا جائے تو ان کی اکثریت یوں بے کل رہتی ہے جیسے طوطا پنجرے میں پھڑپھڑاتا ہے۔ ہمارے اکثر سفارت کاروں کی ارضِ موعود
(Promised Land)
ولایتی ممالک ہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت نے ابتدا ہی سے اِن ریاستوں پر بھرپور توجہ دی۔ بھارت کا لمبا چوڑا ثقافتی مرکز تاشقند میں ایک مدت سے کام کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس آڑ میں جاسوسی بھی ہوتی ہو گی۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی کا مضبوط شعبہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں وسط ایشیائی طلبہ اردو سیکھنے کے لیے بھارتی یونیورسٹیوں میں جاتے رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ بھارت کی برآمدات اِن ملکوں میں بے تحاشا ہیں۔ وہاں کی تعمیری، بینکاری اور دیگر سرگرمیوں میں بھارتی پیش پیش ہیں۔ یہ ریاستیں بھارتی فلموں کی بہت بڑی منڈی بھی ہیں۔ عرصہ ہوا اِس کالم نگار نے اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات کو تجویز دی تھی کہ پاکستانی ڈراموں کو وہاں عام کرنے کی کوشش کی جائے لیکن یہ تجویز بھی ردّی کے اُس بڑے ڈرم میں چلی گئی جہاں ہر مفید تجویز اپنے عبرتناک انجام کو پہنچتی ہے۔ جس ملک میں ہر پالیسی چند مخصوص طبقات کے مفاد میں بنتی ہو وہاں ہم جیسے احمقوں کی، جو صرف اور صرف ملک کے نقطۂ نظر سے سوچتے ہیں، کون سنتا ہے اور کون سنے گا! ؎
بہت ہی تیز مہک اور ہلکی ہلکی آنچ
وطن کی خاک ہے یا آتشیں گلاب ہے یہ
No comments:
Post a Comment