ان دنوں اس کتاب کا بہت شہرہ تھا۔
مصباح الاسلام فاروقی نے
Jewish Conspiracy and Muslim world
تصنیف کی جو دیکھتے ہی دیکھتے پیش نظر پر چھا گئی۔ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان اس کے اسیر ہوئے۔
سازشی تھوریاں یوں بھی مسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کا سورج نصف النہار پر رہا ان سازشی تھیوریوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ جب زوال آیا‘ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہے‘ دین اور دنیا کے علوم کے درمیان لکیر کھینچ دی، تب سازشی تھیوریاں بھی بازار میں بکنے لگیں۔ آج بھی عوام میں مقبول ترین نظریہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ساری ذمہ داری اغیار پر ہے۔ یہودی اور ہندو‘ امریکہ اور یورپ سازشیں کرتے ہیں۔ جیسے اپنا کچھ قصور نہیں۔ سازشی تھوریاں ماننے کا مطلب بالواسطہ اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ ہم اتنے بے بضاعت، ضعیف، جاہل اور سادہ لوح ہیں کہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ مومن دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے۔
ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا۔ وہاں پہنچے تو مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کا شوق دل میں چٹکیاں لے رہا تھا۔ معلوم ہوا علیل ہیں۔ بہر طور‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے، پوچھتے پوچھتے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ کیا گفتگو ہوئی‘ اب بالکل یاد نہیں‘ ہر روز ڈائری لکھنے کی عادت تو ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکلتے ہی ختم ہو چکی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ فاروقی صاحب بیمار تھے، مالی حالات اطمینان بخش نہیں تھے، چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ تاثر یہ ملا کہ جس مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے‘ وہ اب ان کی دیکھ بھال نہیں کر رہی۔ یہ بھی نہیں معلوم یہ تاثر کس حد تک درست تھا!
مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کا تذکرہ آج یوں چھڑا کہ کہنہ مشق صحافی جناب جبار مرزا کی تازہ تصنیف ’’قائد اعظم اور افواجِ پاکستان‘‘ پڑھتے ہوئے ایک مقام نے چونکا دیا۔ جبار مرزا نے ایک پیراگراف ’’صوبیدار مصباح الاسلام فاروقی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے! از حد تعجب ہوا۔ کیا فاروقی صاحب فوج میں صوبیدار تھے؟ تفصیل پڑھی تو لکھا تھا کہ فاروقی دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں شامل ہوگئے اور صوبیدارکے عہدے تک ترقی پائی! گویا بھرتی سپاہی یا لانس نائیک کے طور پر ہوئے ہوں گے! ویسے آج حیات ہوتے تو اپنی پارٹی کے ایک سابق امیر سے ضرورکہتے کہ ارے میاں! ہم انگریزوں کی فوج کی ملازمت کرتے رہے! تمہیں اپنی فوج سے کیا کد ہے؟
مشہور و معروف اخبار نویس وقار انبالوی مرحوم کے بارے میں بھی جبار مرزا نے چونکا دینے والے حقائق بیان کیے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں دس رنگروٹ بھرتی کرانے پر بونس کے طور پر انہیں ’’نائیک‘‘ کی ملازمت دی گئی۔ ترقی کر کے حوالدار ہو گئے۔ پھر نوکری چھوڑی اور روزنامہ زمیندار کے سٹاف میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ چھڑی تو وقار انبالوی نے اپنے آپ کو پھر پیش کیا۔ اب کے انہیں مصر بھیجا گیا جہاں وہ مصری ریڈیو سے تقریریں نشر کرتے رہے۔ جبار مرزا کے بقول’’سرِ راہے‘‘ کا کالم وقار انبالوی ہی نے شروع کیا۔
جبار مرزا نے ایک پورا باب ایسے ہی فوجیوں کے بارے میں مختص کیا ہے۔ یہ پڑھ کر بھی حیرت ہوئی کہ سابق آئی جی‘ سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ چودھری فضل حق نے جو تادمِ آخر ایک معروف روزنامہ میں کالم بھی لکھتے رہے‘ ملازمت کا آغاز انڈین آرڈننس کور میں نائب صوبیدار کے طور پر کیا!
فوج سے وابستہ قلم کاروں کی فہرست اتنی مختصر بھی نہیں! چراغ حسن حسرت برطانوی فوج میں میجر تھے۔ زیڈ اے سلہری 1965ء کی جنگ کے دوران کرنل تعینات ہوئے۔ فیض احمد فیض 1943ء میں میجر بھرتی ہوئے۔ ایک سال بعد لیفٹیننٹ کرنل ہو گئے۔ حاجی لق لق ‘ جن کا اصل نام عطا محمد چشتی تھا، پہلی عالمی جنگ میں فوج میں کلرک بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے اعزازی (آنریری) کپتان کے منصب تک پہنچے۔ رہے مزاحیہ شاعری کے بابائے اعظم سید ضمیر جعفری تو ان کا فوج سے تعلق ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہی ہے۔
جبار مرزا نے جن قلم کاروں کا ذکر فوج کے حوالے سے کیا ہے‘ زیادہ تر ان کا تعلق صحافت سے رہا۔ اس کالم نگار کو وہ مشاہیر بھی یاد آ رہے ہیں جو ادیب تھے۔ کرنل محمد خان اور ایڈمرل شفیق الرحمن نے اردو مزاح نگاری میں قابلِ رشک مقام پیدا کیا۔ مگر ایک نام ایسا ہے جسے سب بھولتے جا رہے ہیں۔ بریگیڈیئر گلزار احمد ! آپ مصنف تھے ‘ بہت بڑے عالم اور زبان دان! ان کی تصانیف تو بہت ہیں مگر ہیرالڈ لیمب کی تصنیف ’’امیر تیمور‘‘ کا جو ترجمہ بریگیڈیئر صاحب نے کیا، قلم توڑ کر رکھ دیا۔ اس کتاب کا ترجمہ کرنا اتنا مشکل کام تھا کہ مجھ جیسے طالب علم کو تو تصوّر ہی سے خوف آتا ہے۔ ہیرالڈ لیمب نے ایسی ایسی ادق اصطلاحات استعمال کی ہیں کہ خدا کی پناہ! مگر بریگیڈیئر صاحب نے ترجمہ کرنے کا حق ادا کر دیا۔ اتنا سلیس اور رواں ترجمہ ہے اور پڑھنے والے کو اپنے حصار میں یوں مقید کر لیتا ہے کہ کتاب کا درجہ ترجمہ کا نہیں‘ طبع زاد تصنیف کا ہو جاتا ہے۔ یہ ترجمہ’’میری لائبریری ‘‘ نے چھاپا تھا۔ اب ناپید ہے۔ خوش قسمتی سے لاہور ایک دکان سے ہاتھ آیا تو اپنے بیٹے ڈاکٹر اسرار الحق کے لیے‘ جو ہیرالڈ لیمب کا شیدائی ہے‘ خرید لیا۔ 1992ء میں جب یہ کالم نگار پہلی بار وسط ایشیا گیا تو اس کتاب کو سفری گائیڈ کے طور پر ساتھ رکھا! اب یہ نادر نسخہ میلبورن میں اسرارکی لائبریری کی زینت ہے۔
جبار مرزا کی اس تازہ تصنیف کا ایک باب’’بزم یک شب‘‘ از حد دلچسپ ہے۔ بزم یک شب اس مشاعرے کا نام تھا جو پاک فوج نے 1956ء میں راولپنڈی میں برپا کیا تھا۔ تھرڈ آرمڈ بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر ملک سرفراز خان تھے۔ ضیاء الحق (جو بعد میں صدر پاکستان بنے) میجرتھے‘ ضمیر جعفری اسی بریگیڈ سے بطور کپتان وابستہ تھے۔ میجر ضیاء الحق کو ان کے دوست بے تکلفی سے مولوی اور ضمیر جعفری کو جمروکہتے تھے۔ اس آل پاکستان مشاعرے کی شاعرانہ کمانڈ ضمیر جعفری کے ہاتھ میں تھی اور انتظامی کمانڈ میجر ضیاء الحق کے پاس تھی۔ مشاعرے کی نمایاں بات یہ تھی کہ جوش ملیح آبادی کو بھی بلایا گیا۔ جبار مرزا صاحب کے بقول‘ پاکستان ورود کرنے کے بعد جوش صاحب کا یہ پہلا مشاعرہ تھا۔ دوسری خاص بات اس مشاعرے کی یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کو دعوت نہیں دی گئی۔ بہر طور‘ جوش صاحب کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا گیا تو انہوں نے سرکاری انتظام کے تحت ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے اپنی ایک رشتہ دار کے گھر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ منتظمین حضرات وہاں ان کا خیال اس طرح نہ رکھ سکے جس طرح جوش صاحب چاہتے تھے۔ بقول جبار مرزا ’’جوش صاحب کا اشیائے کام و دہن کی کمیابی سے مزاج بگڑ گیا۔ ناراض ہو گئے‘‘۔ مشاعرے سے پہلے فوجی افسر‘ جو ڈیوٹی پر تھے‘ انہیں لینے گئے تو جوش صاحب نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ضمیر جعفری مشاعرے کا مائک عبدالعزیز فطرت کے حوالے کر کے خود وہاں پہنچے۔ جوش صاحب کی عزیزہ نے بتایا کہ وہ کسی سے نہیں مل رہے۔ بہرطور‘ ضمیر جعفری کسی نہ کسی طرح ان کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ جوش صاحب دیوار کی طرف منہ کر کے لیٹے ہوئے تھے اور کچھ گنگنا رہے تھے۔ ضمیر جعفری نے انہیں مخاطب کر کے کہا: ’’جوش صاحب! آپ جتنے بڑے شاعر ہیں اس سے اگر آدھے بھی انسان ہیں تو اُٹھ پڑیے۔ لوگ آپ کو سننا چاہتے ہیں، چل کے دیکھیں ہم نے آپ کے لیے کیا کیا انتظامات کر رکھے ہیں‘‘۔ جوش صاحب نے کہا چلیے‘ ہم تیار ہیں۔ یہ الگ بات کہ جو نظم’’ہچکیوں کا قہقہہ‘‘ انہوں نے مشاعرے میں سنائی، اس کی وجہ سے بریگیڈیئر صاحب اپنے سینیٔرز کے سامنے کئی دنوں تک وضاحتیں کرتے رہے اور پیشیاں بھگتتے رہے!!
No comments:
Post a Comment