Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 28, 2016

کوئی ہے سننے والا؟


ڈاکٹر ریحان جب بھی صبح گھر سے نکلتے، آدھ گھنٹے کا مارجن ضرور رکھتے تاکہ ٹریفک کا کوئی مسئلہ تاخیر کا سبب بنے تو وقت میں گنجائش ہو۔ اس دن انہوں نے یہ گنجائش چالیس منٹ کی رکھی‘ اس لیے کہ ایک نازک آپریشن کرنا تھا۔ مریض کو رات سے خالی پیٹ رکھا گیا تھا۔ ایک مقررہ وقت پر سرجری کا آغاز ہونا تھا۔ وہ فیض آباد کے قریب پہنچے تو ٹریفک بلاک تھی۔ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی انتظار کرنا شروع کر دیا۔ خیال یہی تھا کہ دس پندرہ منٹ کی بات ہو گی۔ مگر آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر ڈیڑھ گھنٹہ‘ اور پھر دو گھنٹے۔ ان کا مریض، ان کا سٹاف، ان کے مریض کے لواحقین سب انتظار کر رہے تھے۔ وہ انہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ کیوں رُکی ہوئی ہے؟ یہ نہیں معلوم۔
اس رُکے ہوئے اژدہام میں ایک اور گاڑی بھی پھنسی ہوئی تھی‘ جس میں نصیر صاحب مسلسل قے کر رہے تھے۔ وہ دل کے مریض تھے۔ ان کے بیوی بچے رُکی ہوئی گاڑی میں آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے اور نصیر صاحب کا منہ اور چہرہ ہر قے کے بعد ٹشو پیپر سے پونچھ رہے تھے۔ گاڑی کے فرش پر ٹشو پیپروں کا ڈھیر بڑھتا جا رہا تھا۔ نصیر صاحب کی آنکھیں مُندی ہوئی تھیں۔ ان کی بیوی کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ مگر گاڑیوں کا ایک سمندر ان کی گاڑی کے آگے اور ایک سمندر ان کی گاڑی کے پیچھے موجزن تھا۔ دھوپ تیز ہو رہی تھی۔
اس سمندر میں، فیض آباد کے دوسری طرف ایک اور گاڑی میں چوہدری شریف دھاڑیں مارتی بیوی کو دلاسہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کے والد کا لاہور میں انتقال ہو گیا تھا‘ اور وہ جلد سے جلد اپنے باپ کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔ تین گھنٹوں سے ٹریفک رُکی ہوئی تھی۔ بیوی کو غش پر غش آ رہے تھے اور چوہدری شریف اس کے چہرے پر پانی چھڑکنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس نظر آ رہی تھی نہ ریاست!
ٹریفک کے اس بحرِ اوقیانوس میں ایک موٹر سائیکل سوار بھی تھا‘ جو مسلسل رو رہا تھا۔ اِس بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے انٹرویو کے لیے طلب کیا تھا۔ جوں جوں انٹرویو کا وقت قریب آ رہا تھا، اس کے دل کی دھڑکن اس کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اُمیدواروں کی کمی نہیں تھی اور اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ وہ اس کا انتظار کریں۔ پھر انٹرویو کا وقت آ گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر انٹرویو کا وقت گزر گیا۔ ٹریفک رکی رہی۔ پھر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا۔ اسے بے بسی میں، اِس بے کسی میں، اس بیچارگی میں وہ اور کیا کرتا۔
تقریباً تین گھنٹے گزر چکے تو ٹریفک پولیس کی وردی میں ملبوس ایک اہلکار بھاگتا بھاگتا گزرا… ’’واپس چلو، آگے شاہراہ بند ہے۔ انہوں نے لاشیں ہائی وے پر رکھی ہوئی ہیں۔ کسی کو گزرنے نہیں دے رہے‘‘۔
اب ایک اور قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں گاڑیاں ریورس ہونے میں لگ گئیں۔ بہت سی ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ جھگڑے ہوئے۔ ایک خاتون ڈرائیور، دو نوجوانوں سے بحث کر رہی تھی‘ جو اُلٹا اُسے قصوروار ثابت کر رہے تھے۔
اورنج ٹرین، میٹرو بسوں اور کھلی شاہراہوں کا کیا فائدہ جب آپ یہ ضمانت نہ دے سکیں کہ وہ ٹریفک کے لیے ہمہ وقت میسر رہیں گی۔ دارالحکومت کی ایکسپریس ہائی وے ایک عرصہ سے ٹارگٹ بنی ہوئی ہے۔ جس کسی کا کوئی عزیز قتل ہوتا ہے، وہ لاش لا کر شاہراہ پر رکھ دیتا ہے۔ پھر پولیس اور انتظامیہ کے افسران آ کر اِن قانون شکنوں سے ’’مذاکرات‘‘ کرتے ہیں جیسے کوئی ٹریڈ یونین ہو یا دوسرے ملک کے نمایندے ہوں! یہ ریاست کی حد درجہ کمزوری ہے۔ یہ ’’مذاکرات‘‘ جو اصل میں منت سماجت ہوتی ہے‘ بعض اوقات گھنٹوں بلکہ پہروں جاری رہتے ہیں اور ٹریفک میں مریض، ڈاکٹر، مسافر، طالب علم، حاملہ عورتیں، سکولوں کے معصوم بچے، تھکے ماندے بوڑھے‘ سب اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کئی موت کا پیالہ پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بلیک میلنگ پورے ملک میں جاری ہے۔ حیدر آباد اور کراچی کے درمیان سپر ہائی وے بھی بلاک کر دی جاتی ہے۔ پنجاب کے تقریباً ہر قصبے اور ہر شہر میں شاہراہ بلاک کرنے کا ’’رواج‘‘ عام ہے۔ سیاسی جماعتیں الگ ظلم ڈھاتی ہیں۔ ان کے جلوس، احتجاج اور دھرنے عوام کو بے پناہ مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔
معمر حضرات کو یاد ہو گا کہ ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی میں جی ٹی روڈ پر ایک پولی ٹیکنک کالج بنا تھا۔ اس کے طلبہ آئے دن جی ٹی روڈ بلاک کر دیتے۔ اسی کالج کا طالب علم عبدالحمید ایک احتجاج کے دوران جی ٹی روڈ پر موت کے گھاٹ اُتر گیا۔ بھٹو صاحب کی سیاست کا آغاز تھا۔ وہ مرحوم طالب علم کے آبائی قصبے پنڈی گھیب میں تعزیت کے لیے بھی گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو آئے دن کے اِس بکھیڑے کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ اُس کالج کو کہیں اور منتقل کر دیا اور یہاں ایک عسکری ٹیکنیکل ادارہ قائم کر دیا۔ اس کے بعد یہ شاہراہ کبھی نہ بلاک ہوئی۔ پولی ٹیکنک کالج کہاں منتقل ہوا؟ کم از کم اس کالم نگار کو اس کی خبر نہیں۔ مگر جو کچھ ہوا بالکل درست ہوا۔ 
ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں کیا کر رہے ہیں؟ امریکی قانون دیکھیے:۔
’’اگر آپ احتجاج کے دوران دوسروں کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں، تو آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جو احتجاج گاڑیوں کی آمد و رفت یا پیدل چلنے والوں کا راستہ بند کرے وہ غیر قانونی ہے۔ آپ کسی عمارت کے اندر داخل ہونے کا راستہ بند نہیں کر سکتے‘ نہ ہی عوام کو ہراساں کر سکتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ آپ آزادیء تقریر کا حق کسی کی ذاتی جائداد پر، کسی شاپنگ مال پر، مالک کی اجازت کے بغیر نہیں استعمال کر سکتے۔ جب آپ کو پرائیویٹ پراپرٹی سے چلے جانے کا کہہ دیا جائے تو پھر آپ کو وہاں موجود رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کا احتجاج کرنے کا حق متاثر ہوا ہے تو قانونی چارہ جوئی کیجئے‘‘۔
امریکہ ہی میں کچھ عرصہ پہلے ایک احتجاج کے دوران گاڑیوں کا راستہ بند کر دیا گیا۔ یہ منی سوٹا ریاست کا واقعہ ہے۔ ایک گاڑی نہیں رکی اور ہجوم میں سے راستہ بناتی گزرتی گئی۔ اس کشمکش کے دوران ایک لڑکی کی ٹانگ گاڑی کے نیچے آ کر کچلی گئی مگر ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا نہ اُس پر کوئی الزام لگا۔
احتجاج کرنے والے یہ دلیل لا سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی آمد و رفت کے وقت بھی تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ یہ دلیل ضعیف ہے۔ اصولی طور پر حکمرانوں کے شاہی جلوسوں کے لیے ٹریفک بالکل بند نہیں ہونی چاہیے؛ تاہم اِس بیماری… کا وقفہ اب مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم لکھنے والوں کے پیہم احتجاج کے سبب ایسا ہوا ہو۔ اس سلسلے میں شدید ترین ظلم جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ہوتا رہا‘ جب پورا کراچی دن بھر کے لیے سیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے سبب اموات بھی ہوئیں۔ ایک بار موصوف کوئٹہ گئے تو مبینہ طور پر ایک دن کی سکیورٹی پر دو کروڑ روپے صرف ہوئے۔ لاہور کا نہیں پتہ مگر وفاقی دارالحکومت میں شاہی جلوس کے طویل قافلے کے لیے پندرہ بیس منٹ ہی عوام کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اس کا موازنہ لاشوں کے احتجاج کے ساتھ نہیں ہو سکتا جو کئی پہروں پر محیط ہوتا ہے۔ 
روزنامہ دنیا کی وساطت سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔
٭ اب وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون پاس کیا جائے کہ کسی بھی شاہراہِ عام کو بند کرنا شدید جرم سمجھا جائے گا اور شاہراہ واگزار کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭ اس کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس قانون کی بھرپور تشہیر ہونی چاہیے تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہو جائے۔
٭ کسی بھی شاہراہ عام کو بند کرنے والوں کو وہاں سے ہٹانے کے لیے آنسو گیس یا ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جائے۔ ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے متعلقہ قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭ سیاسی تقاریر کے لیے ہر شہر میں ایک جگہ مختص کی جائے۔ دارالحکومت میں ایف نائن پارک کا ایک گوشتہ اس کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی اور احتجاجی تقاریر اس مخصوص جگہ کے علاوہ کہیں بھی نہ کرنے دی جائیں۔
٭ سیاسی جماعتیں جلوس نکالنے کے لیے پرمٹ حاصل کریں اور ضمانت دیں کہ ٹریفک نہیں روکی جائے گی۔
٭ مذہبی نوعیت کے جلوسوں کا معاملہ حساس ہے‘ مگر یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے جلوس آدھی شاہراہ کو استعمال کریں اور بقیہ آدھی ٹریفک کے لیے کھُلی رہے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com