Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, September 24, 2016

توازن

مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اور مرکزی حیثیت رکھنے والے ملک میں خواتین کے لیے گھروں سے باہر عبایا پہننا لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبایا سیاہ رنگ کا ہو۔ حال ہی میں ایک عزیز وہاں سے واپس آئے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ شاپنگ مال میں تنہا مرد نہیں جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ہو۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ پابندی سارے ملک میں ہے یا صرف دارالحکومت میں۔
فرض کیجیے ایک غیر ملکی خاتون کالے رنگ کا عبایا پہننے سے انکار کر دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا طرز عمل درست ہے؟ یقیناً نہیں! وہ جس ملک میں آئی ہے‘ اس کے اپنے قوانین ہیں۔ یہ قوانین جیسے بھی ہیں‘ زمینی حقیقت ہیں۔ یہ بحث تو کی جا سکتی ہے کہ غلط ہیں یا صحیح‘ مگر ان کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی خاتون انکار کرے گی تو اسے ملک سے نکال دیا جائے گا۔ اور ہاں! یہ بھی کہا جائے گا کہ کیا ہم نے آپ کو بلانے کے لیے ہرکارہ بھیجا تھا؟ آپ عبایا کی پابندی گوارا نہیں کر سکتیں تو اس ملک میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟
فرض کیجیے‘ حکومتی قانون نہیں ہے، یہ صرف اس ملک کی ثقافت کا تقاضا ہے۔ تب بھی اس کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر وہاں کا رسم و رواج آپ کو نہیں پسند‘ تو وہاں رہنے کی کیا مجبوری ہے؟
یہ ستمبر کا وسط تھا۔ مغربی جرمنی کے شہر بیلا فیلڈ کے ایک ریستوران میں ایک خصوصی تقریب تھی۔ ہال‘کمرے اور بیرونی باغ‘ سب گاہکوں سے بھرے تھے۔ ایک خاتون وہاں آئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانکا ہوا تھا۔ صرف آنکھوں کا حصہ نظر آ رہا تھا۔ ریستوران کے منیجر نے خاتون سے کہا کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹائے تاکہ وہ اسے پہچان سکے۔ خاتون نے انکار کر دیا۔ اس پر منیجر نے اسے کہا کہ وہ ریستوران سے چلی جائے۔
اب ایک تنازعہ پیدا ہو گیا۔ چند گھنٹوں میں فیس بک پر پیغامات کے انبار لگ گئے۔ جو لوگ خاتون کے طرف دار تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ جرمنی میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کی رو سے چہرہ ڈھانکنا جرم ہو۔ دوسری طرف والوں کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایسا گاہک دیکھ کر باقی لوگ اگر اضطراب محسوس کرتے ہیں تو منیجر ایسے گاہک کو نکال سکتا ہے۔ تاہم منیجر  کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک صاحب کا کمنٹ تھا۔’’منیجر کا فیصلہ درست تھا۔ اسے کیا خبر نقاب کے پیچھے کون ہے! مرد یا عورت یا گن مین؟ آپ گھر میں جو چاہیں کیجیے مگر ایک غیر ملک میں آپ کو دوسروں کا کچھ تو خیال رکھنا ہی پڑے گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے لکھا ’’معاملہ بالکل سادہ ہے۔ جرمنی میں جرمن ثقافت کا احترام کرنا ہو گا۔ میں جب مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو غیر مسلم ہو کر بھی جوتے اتار دیتا ہوں۔ منیجر کا فیصلہ درست تھا‘‘۔
منیجر نے ایک معروف روزنامے کو بتایا کہ اس کے ریستوران میں گھانا‘ ترکی‘ مصر، یوکرائن ‘ پولینڈ‘ پاکستان اور پرتگال کے لوگ ملازم ہیں۔ کسی کے ساتھ رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ مہمانوں کی کثیر تعداد ایسے گاہک کی موجودگی میں نارمل نہیں محسوس کر رہی تھی۔
اب اس سارے معاملے کو ایک طرف رکھ کر ہم متحدہ عرب امارات کا رُخ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ توازن کس شے کو کہتے ہیں اور بین الاقوامی برادری میں نکِو بنے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ اسی سال جولائی میں متحدہ عرب امارات کا ایک باشندہ امریکہ میں سفر کر رہا تھا۔ اس نے اپنا روایتی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ پولیس نے سادگی کی وجہ سے یا بدنیتی کے سبب ‘ اسے داعش کا رکن سمجھا اور ہتھکڑی لگا لی۔ اگرچہ بعد میں چھوڑ دیا اور معذرت بھی کی!
آپ کا کیا خیال ہے متحدہ عرب امارات کا ردِعمل کیا ہونا چاہیے تھا؟ نہیں معلوم وہاں کی حکومت نے احتجاج کیا یا نہیں‘ مگر بہر طور یہ نہیں کہا کہ ’’یہ ہمارا لباس ہے۔ آپ کون ہیں اس لباس پر اعتراض کرنے والے؟ یہ ہمارے کلچر، ہماری تہذیب، ہمارے مذہب کا حصہ ہے‘‘۔ اس کے برعکس‘ بالکل برعکس‘ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اپنے شہریوں کو ایک ہدایت جاری کی۔ اس میں تلقین کی گئی کہ مغربی ملکوں میں جانے والے اپنے روایتی لباس سے احتراز کریں تاکہ انہیں کسی قسم کا خطرہ نہ لاحق ہو۔ خواتین کو خصوصی طور پر تلقین کی گئی کہ یورپی ملکوں میں جانا ہو تو چہرے کو نہ ڈھانپیں۔
متحدہ عرب امارات سو فیصد اسلامی ملک ہے، مسجدوں سے بھرا ہوا‘ ایک سے ایک جید عالم دین وہاں بیٹھا ہے۔ کسی نے حکومت کے اس فرمان پر تنقید نہ کی۔کسی نے نہیں کہا کہ یہ دین کا بنیادی رکن ہے۔ متحدہ عرب امارات کا یہی وہ Pragmatic
 اور حقیقت پسندانہ رویہ ہے جس کی بنا پر آج وہ واحد مسلم ملک ہے جہاں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں اور سفید فام مغربی بھی وہاں ملازمت پانے اور قیام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اب ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ کیا چہرے کوڈھانپنا اُس خاتون کا‘ جسے ریستوران سے نکال دیا گیا‘ حق نہیں تھا؟ تھا! بالکل تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اتنی ہی بے لچک ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ جرمنی میں ایسا کرنا تضحیک یا تو ہین کا سبب بنتا ہے تو اسے جرمنی میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے روایتی علماء صرف تین صورتوں میں غیر مسلموں کے ملک میں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اوّل‘ مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے۔ دوم، تحصیل علم کے لیے۔ سوم، اگر اپنے وطن میں اس حال کو پہنچ جائے کہ بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہو۔ آج جو کروڑوں مسلمان مغربی ملکوں (بشمول جاپان، آسٹریلیا) میں رہ رہے ہیں‘ ان میں سے بہت ہی کم تعداد ایسی ہے جو حصول علم کے لیے رہ رہی ہے۔ اور شاید ہی کسی کی ہجرت کا سبب یہ ہو کہ وہ اپنے وطن میں دو وقت کی روٹی سے محروم تھا!
یہاں یہ بے بحث بے کار ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا اس خاتون کا مذہبی فریضہ تھا۔ یہ دلیل بھی یہاں بے سود ہے کہ حج کے موقع پر خواتین چہرہ ڈھانپ ہی نہیں سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی خاتون جس قسم کا لباس بھی پہننا چاہتی ہے‘ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ یہی دلیل کافی ہے کہ وہ چہرہ ڈھانپنا پسند کرتی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس پر اعتراض کرے یا اسے منع کرے۔ مگر ایسی صورت میں غیر مسلم ملکوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ شام اور عراق کے لاکھوں مہاجرین کو جرمنی نے پناہ دی۔ جرمنی کی چانسلر نے ساتھ جتا بھی دیا کہ مکہ اور مدینہ ان کے زیادہ قریب تھے بہ نسبت جرمنی کے۔ مگر ہم جب دینے والے نہیں بنتے‘ لینے والے بنتے ہیں تو سب کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے، سو یہ طعنہ سننا پڑا۔
2010ء کا واقعہ ہے۔ آسٹریلیا کی ریاست (غالباً نیو سائوتھ ویلز میں) ایک ممبر اسمبلی نے بل پیش کیا کہ مسلمان خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کر دیا جائے۔ یہ بل ناکام ہوا۔ خود سفید فام آسٹریلوی ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود‘ سڈنی کے مسلمان علاقے لکھمبا میں خواتین نے احتجاجی جلسہ کیا۔ مقررین نے کہا کہ آسٹریلیا کا ’’زوال پذیر‘‘ معاشرہ ہمیں قابل قبول نہیں؟ اس پر آسٹریلوی میڈیا نے ایک ہی جواب دیا اور اس تسلسل سے دیا کہ مسلمانوں کی اکثریت مضطرب ہو گئی۔ جواب یہ تھا کہ اس زوال پذیر معاشرے کو چھوڑ کر فوراً اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائو؟
یہاں احمد ابو طالب کا ذکر نامناسب نہ ہوگا۔ مراکش سے تعلق رکھنے والا یہ مسلمان ہالینڈ کے شہر راٹرے ڈیم کا میئر منتخب ہوا۔ چارج سنبھالنے کے بعد اس نے ہالینڈ میں مقیم مسلمان تارکین وطن سے خصوصی خطاب کیا اور کہا کہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور مظلوم ثابت کرنا بند کرو۔ مذہب پر کاربند رہو مگر لوگوں سے گُھل مل کر رہو۔ اپنے آپ کو علیحدہ نہ رکھو۔ اور اگر تمہیں یہاں کا طرز زندگی پسند نہیں تو خدا کا واسطہ ہے سامان باندھو اور چلے جائو۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند افراد کے رویے کی وجہ سے سارے کے سارے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
ایک نکتہ اس سارے بکھیڑے میں ثقافت اور مذہب کے درمیان فرق کرنے کا ہے۔ تمام مسلمانوں کا مذہب ایک ہے مگر مقامی ثقافتیں مختلف ہیں۔ اگر کوئی ہجرت کر کے دوسرے ملک میں جا بستا ہے تو اپنے مذہب پر بے شک کاربند رہے مگر وہ اپنی ثقافت پر‘ خواہ وہ ثقافت انڈونیشیا کی ہے یا پاکستان کی یا مصر کی یا مالی کی‘ ڈٹا رہے گا تو اپنے نئے ملک میں اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی سمجھے گا۔ معاشرے میں گھلنے ملنے سے احتراز کرے گا۔ نقصان یہ ہو گا کہ اس رویے کا الزام اسلام پر آئے گا۔
کاش 
Sense of Proportion 
بازار سے مل سکتا!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com