یہ کینیڈا کا شہر ہے۔ شہری حسبِ معمول بسوں اور اپنی کاروں میں گھروں سے نکلے مگر آج ٹریفک ہر طرف رکی ہوئی ہے۔ گھنٹے ہو گئے، لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی سڑکیں کنٹینروں سے بند ہیں۔ چھوٹے راستے گاڑیوں سے اٹے ہیں۔
وہ دیکھیے، اُس طرف سے جلوس آ رہا ہے۔ ایک بہت بڑے ٹرک پر حضرت شیخ الاسلام طاہرالقادری کھڑے ہیں۔ ان کے اردگرد ان کے عقیدت مند اور مرید حصار باندھے ہیں۔ پیچھے سینکڑوں گاڑیوں کا جلوس ہے۔ ہر طرف بینر لگے ہیں۔ ان پر مختلف نعرے لکھے ہیں۔کسی پر لکھا ہے:’’حکومتِ پاکستان سے بات کی جائے‘‘
کسی پر لکھا ہے: ’’میں کینیڈین شہری ہوں، پاکستان میں میری تنظیم کے ارکان سے زیادتی ہوئی ہے‘‘۔
اب یہ جلوس شہر کے مرکزی چوک پر پہنچ گیا ہے۔ اس چوک پر چار بڑی شاہراہیں آ کر ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ چاروں شاہراہوں پر ٹریفک بند ہے۔ وسط میں کئی فٹ اونچا بہت بڑا سٹیج بنایا گیا ہے۔ شیخ الاسلام تقریر کر رہے ہیں۔
اُس دن شہری جو گھروں سے صبح کے وقت نکلے تھے، سارا دن پریشان رہے۔ ٹریفک تقسیم ہو کر گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ ایک ایک سٹریٹ میں گاڑیاں رینگتی رہیں، پھنستی رہیں اور نکلتی رہیں۔ بچے سکولوں سے چھٹی کر کے دوپہر کو نکلے اور شام ڈھلے گھروں میں پہنچے۔ بیمار ہسپتالوں میں اور مسافر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر نہ پہنچ پائے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ واقعی کینیڈا میں ایسا ہوا؟
نہیں! کسی ترقی یافتہ، مہذب ملک میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ راستہ، خواہ وہ شاہراہ ہے یا چھوٹی سڑک، گلی ہے یا سٹریٹ، کوچہ ہے یا پیدل چلنے کا ٹریک، ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس بنیادی حق کو پانچ منٹ کے لیے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے مطالبات جائز ہیں۔ ماڈل ٹائون میں چودہ انسانی جانوں کے خون کا حساب ہونا چاہیے۔ قصاص کا مطالبہ منطقی ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اِس قضیے میں ملوث، نوکرشاہی کے ایک سینئر رکن کو بیرونِ ملک تعینات کر دیا گیا اور وہ بھی ایک ایسے عہدے پر جس کا اُس کے شعبے یا تجربہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پاناما لیکس کا معاملہ بھی انجام کو پہنچنا چاہیے۔ فلیٹ کب خریدے گئے، رقم کس طرح باہر بھیجی گئی۔ سب سوالوں کے جواب قوم کو ملنے چاہئیں۔ مگر جب علامہ طاہرالقادری اور عمران خان ریلیاں نکالتے ہیں، جب شاہراہیں بند کرتے ہیں، جب ردِ عمل میں حکومت سراسیمگی دکھاتی ہے اور دارالحکومت کو کنٹینروں سے سربمہر کر دیتی ہے تو علامہ صاحب اور عمران خان عوام کی ہمدردیاں کھو دیتے ہیں۔ جو گھر سے نکلا ہے اور آپ کی ریلی کے سبب ٹریفک میں پھنسا ہے، جو آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے، اسے آپ کے مقصد سے ہمدردی تو کیا ہونی ہے، وہ غضب ناک ہو کر، بے بسی میں، آپ کو گالیاں دینے لگتا ہے۔
مگر راستے علامہ طاہرالقادری اور عمران بند کر رہے ہیں تو ایسا پہلی بار تو نہیں ہو رہا۔ اِس جرم میں صدر اور وزیر اعظم سے لے کر عام شہری تک سب برابر کے شریک ہیں۔ اس بنیادی حق کی پامالی میں سب حصہ دار ہیں۔ راستہ بند کرنا روایت بن چکا ہے، یہاں تک کہ اکثر اوقات لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں مگر برا نہیں مناتے۔ یہ حقوق سے بے خبری کی انتہا ہے۔ شہری شعور سے محرومی کا نکتۂ عروج ہے۔ پسماندگی کی معراج ہے۔ اس سے بڑھ کر پسماندگی کیا ہو گی کہ حکومت نے میٹرو بس مہیا کی، اس کے لیے جدید ترین اسٹیشن بنائے مگر عوام کو دُکھ کسی اور وجہ سے پہنچا ہے تو حملہ میٹرو کے اسٹیشن پر ہو رہا ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے خون پسینے سے تعمیر کردہ سہولیات خود ٹیکس دہندگان ہی کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔ بدبختی تہہ در تہہ چھائی ہوئی ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنی تباہی، اپنی عمارتیں خود منہدم کر رہے ہیں۔
اہلِ اقتدار میں ادراک ہوتا، حکومت کرنے والے ذہنی اعتبار سے بالغ ہوتے تو جدید ترین میٹرو اسٹیشن بنانے سے پہلے عوام کی ذہنیت کا علاج کرتے۔ مائنڈ سیٹ تبدیل کرتے۔ ایک ایک دماغ میں یہ حقیقت راسخ کر دیتے کہ راستہ بند کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے اور قومی املاک کی بربادی پر عبرت ناک سزا دی جائے گی۔
اہلِ اقتدار کس منہ سے عوام کو راستہ روکنے سے منع کر سکتے ہیں؟ وہ اپنی شاہی سواریوں کے لیے گھنٹوں اور بعض اوقات پہروں شاہراہیں بند کرا دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کراچی جاتے تھے تو اہلِ کراچی پر قیامت گزر جاتی تھی۔ معصوم بچے شام ڈھلے گھروں کو پہنچتے تھے اور ایم کیو ایم والے اِس ظلم کو دیکھتے تھے اور چوں تک نہیں کرتے تھے اس لیے کہ تعلق گہرا تھا۔ اتنا گہرا کہ الطاف حسین نے جب دہلی میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلا تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ۔۔۔ کھوکھلا نہرہ۔۔۔ لگانے والے جنرل پرویز مشرف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے گلے پر پائوں رکھ کر الطاف حسین کو سرکاری عشائیہ دلوایا گیا۔
کیا عزتِ نفس رہ جاتی ہے آپ کی جب آپ کی گاڑی کو روک کر اچانک ایک پولیس والا یا کسی حساس ادارے کا اہلکار، بونٹ پر زور سے ہاتھ مارتا ہے اور آپ آدھ گھنٹے کے لیے قید ہو جاتے ہیں۔ یہ بدترین قید ہے۔ آپ کہیں نہیں آ جا سکتے، اس لیے کہ آپ کا صدر یا وزیر اعظم یا کوئی اور گردن بلند، کوئی اور کج کلاہ، اپنا جلوس لیے گزر رہا ہے۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لندن میں شاہراہوں پر ٹریفک روک دی جائے کہ صدر اوباما نے گزرنا ہے؟ یہ صرف ہمارے ہاں ہے کہ غیر ملکی مہمانوں کے گزرتے وقت ٹریفک رک جاتی ہے۔ شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔ ان کا بس چلے تو وقت کی حرکت بھی روک دیں۔
اِس بدمعاشی میں، اس غنڈہ گردی میں عام شہری بھی برابر کا شریک ہے۔ یہ جو کروڑوں دکانداروں نے اپنا مال نہ صرف فٹ پاتھوں پر بلکہ سڑکوں پر رکھا ہوا ہے، یہ بدمعاشی نہیں ہے تو کیا ہے؟ یہ ناجائز قبضہ ہے۔ سوفٹ چوڑی سڑک میں سے مشکل سے دس فٹ کا راستہ راہگیروں کے لیے اور ان کی گاڑیوں کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ باقی ستر اسی فٹ حرام کھانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے! ظاہر ہے کسی کی زمین پر، خواہ وہ حکومت ہی کیوں نہ ہو، بغیر اجازت سودا رکھ کر فروخت کریں گے تو حرام خوری ہی ہو گی۔ حلال کی آمدنی تو اسے نہیں کہا جا سکتا۔
عام شہری اسی پر بس نہیں کرتا، اس کے بیٹے کی شادی ہے تو وہ سڑک پر ٹینٹ نصب کروا کر راستہ بند کر دیتا ہے۔ کبھی یہ جرم، تعزیتی خیمہ لگا کر کرتا ہے۔ گاڑیاں آتی ہیں، راستہ بند پا کر ریورس ہوتی ہیں اور اُن گلیوں کی تلاش میں دھکے کھانے لگتی ہیں جہاں سے گزر کر اصل راستے پر دوبارہ چڑھ سکیں۔ یہ کالم نگار کچھ عرصہ قبل ایک ایسی آبادی میں رہتا تھا جہاں یہ بدمعاشی کھلے عام ہوتی تھی۔ اُس محلے میں ایک مذہبی گروہ کا ’’امیر‘‘ رہتا تھا۔ وہ ان پڑھ تھا۔ اس نے گلی کا ایک چوتھائی حصہ ہڑپ کر کے اپنے مکان میں شامل کر لیا تھا۔ ایسا اِس ملک کے ہر شہر ہر قصبے میں ہو رہا ہے۔ شرفا عاجز ہیں۔ قانون بے نیاز ہے۔ ریاست کا وجود نظر نہیں آتا۔
یہ عام شہری مکان تعمیر کرتے وقت سریا، اینٹیں، ریت سڑک پر رکھ کر راستہ تنگ کرتا ہے اور راہگیروں کے لیے اذیت کا سبب بنتا ہے۔ بحریہ اور ڈیفنس کی رہائشی کالونیاں اسی لیے مقبولِ عام ہوتی جا رہی ہیں کہ ان کالونیوں کے منتظیم ایسی کسی دھاندلی کی اجازت نہیں دیتے اور بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں۔
حکمران اپنے قافلوں کے لیے راستے بند نہ کرتے اور عام شہری فٹ پاتھوں پر خوشی یا سوگ کے موقع پر سڑکیں بند نہ کرتے تو آج کسی سیاسی لیڈر کی یا اس کی پارٹی کی کیا مجال تھی کہ شاہراہوں پر قبضہ کر کے عوام کو کرب میں مبتلا کرتی!
ہم کنٹینروں کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ ایک طرف عمران خان کے اور علامہ صاحب کے کنٹینر ہیں، دوسری طرف حکومت کے کنٹینر ہیں جنہوں نے شاہراہیں مسدود کر رکھی ہیں۔
No comments:
Post a Comment