Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, September 02, 2016

عاشق مست جلالی…

ملک فتح خان بنیادی طور پر زراعت کے ماہر ہیں۔ دیہات کی ترقی کے لیے کئی بین الاقوامی اور قومی اداروں کے مشیر رہے۔ بھوٹان، نیپال اور منیلا میں جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے حوالے سے کتنوں ہی کو تربیت دی۔ نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے اب بھی مشیر ہیں۔ مدتوں 
A.B.A.D
 (ایجنسی فار بارانی ایریاز ڈیویلپمنٹ) کے سربراہ رہے۔ بارانی علاقوں میں کسانوں کو کچھ قرضے اور کچھ امداد دے دلوا کر ہزاروں چھوٹے ڈیم بنوائے۔ نئے بیج متعارف کروائے۔ ہم جیسے دوستوں نے مدتوں ان کا استحصال کیا۔ ہم کسان اتنے بڑے نہیں تھے جتنی انہیں زحمت دیا کرتے۔ ’’ملک صاحب، اب کے گندم کا کون سا بیج ڈلوانا چاہیے‘‘۔ ملک صاحب بہترین بیج کا بتاتے۔ پھر فراہمی کا بھی بندوبست کرتے۔ زرعی ریسرچ کے تازہ ترین نتائج انہی کے پاس ہوتے۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ جو بارانی علاقہ ہے فتح جنگ‘ پنڈی گھیب سے لے کر تلہ گنگ اور چکوال تک کا‘ یہ بادام کی پیدائش اور افزائش کے لیے بہترین ثابت ہوا ہے‘ اور بادام کے پودے جنوری‘ فروری میں لگا دینے چاہئیں۔
مگر آج ملک فتح خان کا تذکرہ کرنے کا سبب زراعت ہے نہ زرعی تحقیق، بیج نہ کھاد‘ نہ بادام کے درخت۔ ملک صاحب نے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو نصب کی جو خوشبو کی طرح ہر چہار سمت پھیل گئی۔ یہ وڈیو کیا تھی، ہم جیسوں کے لیے، جو گاؤں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، خوانِِ یغما تھی۔ اس میں ہمارا لوک رقص اور لوگ گیت تھے۔ بیسیوں نے وڈیو کو شیئر کیا۔ ہزاروں لاکھوں نے دیکھا، پہروں دیکھا اور بار بار دیکھا۔ دنیا کے دوسرے کنارے، ویسٹ کوسٹ سے ایک صاحب نے لکھا کہ دیکھتا ہوں اور روتا ہوں اور روتا ہوں اور دیکھتا ہو؎
رونا فراق کا تری تصویر دیکھ کر
رونے کے بعد پھر تری تصویر دیکھنا
کُرتوں اور تہمد میں ملبوس افراد دائروں میں رقص کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تان لگاتا ہے۔
’’من پیا ٹھردا
ڈھولا ویہڑھے آ وڑیا‘‘
پھر وہ سب مل کر یہی سطر گاتے ہیں اور بار بار گاتے ہیں۔ گاتے ہوئے وہ بازو اوپر کرکے ہوا میں لہراتے ہیں۔ پھر ایک ساتھ نیچے کرکے گیت کے آہنگ سے ہم آہنگ ہو کر گھوم جاتے ہیں۔ پھر بازوؤں کو نیچے کرکے دھرتی کے قریب، تالی بجاتے ہیں، پھر پورے قد کے ساتھ سیدھا کھڑا ہوتے ہیں اور نغمے کے تال میں پگھل کر، پھر گھوم جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو دیکھنے اور سننے والوں پر طاری ہوتا ہے۔ ہم پلٹتے ہیں، اپنے کھیتوں کھلیانوں کی طرف، اپنے کچے گھروں، وسیع صحنوں کی طرف، صحن، جن کے کناروں پر ریحان (نیازبو) کے پودے پھول کھلاتے تھے، صحن جن کے وسط میں انار کے پودے تھے؎
گلِ انار کچھ ایسے کھلا ہے آنگن میں
کہ جیسے کوئی کھڑا رو رہا ہے آنگن میں 
صحن، جہاں دھریک کے ہرے گھنیرے درخت تھے، انتہا درجے کے سبز، جن کے پودے، کڑکتی دھوپ میں، پتوں کو اِس ہنروری کے ساتھ ہلاتے تھے کہ چھاؤں کا قالین بُن ڈالتے تھے۔ دھریک کے ان درختوں پر کاسنی رنگ کے پھول کھلتے تھے جن کی خوشبو خون میں رچ بس جاتی تھی۔
ہم پلٹتے ہیں کچے گھروں کی ان دیواروں کی طرف، جو گارے سے کھڑی کی جاتی تھیں۔ ان میں بھوسہ ملایا جاتا تھا۔ پھر ہم، کسی ڈوبتی شام کو، جب دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر، کچھ سوچتے تھے تو بے خیالی میں، دیوار سے بھوسے کا باہر نکلا ہوا تنکا توڑتے تھے، یوں کہ سوچ کے بہاؤ میں ذرہ بھر تعطل نہیں در آتا تھا!
ہم پلٹتے ہیں اُس کچے فرش کی طرف، جو کہنے کو تو مٹی کا ہوتا تھا مگر ہماری دادیاں، ہماری نانیاں، مٹی کے اُس فرش کو گول چکنے پتھر کے ساتھ یوں ہموار کرتی تھیں کہ ماربل کے مقابلے کا ہو جاتا تھا۔
پھر سرِ شام تنوروں سے دھواں اُٹھتا تھا اور مرغولوں کی صورت فضا میں پھیل جاتا تھا۔ ڈھور ڈنگر واپس آتے تھے۔ گھنٹیوں کی آواز سارے میں اُڑتی تھی۔ ہمارے دل اِن آوازوں کے ساتھ رقص کرتے تھے۔ چرواہے، ایندھن اور درختوں کی شاخیں سروں پر لادے، ہاتھوں میں لاٹھی پکڑے، ریوڑ ہانکتے چلے آتے تھے۔ ان کے وفادار، نگہبان کُتے، بظاہر ان کے پیچھے چل رہے ہوتے مگر ان کُتوں کو ایک ایک بھیڑ، ایک ایک بکری، ایک ایک گائے کا پتہ ہوتا۔ وہ ایک ایک نقل و حرکت سے اپنے مالک کو باخبر رکھتے۔ ایک ایسی زبان میں جو صرف وہ جانتے تھے یا اُن کے مالک!
یہ لوک رقص، یہ لوک گیت ہماری بستیوں کے ہیں۔ ہمارے قریوں، ہمارے قصبوں کے ہیں۔ یہ نغمے، یہ رقص، ہماری رگوں میں، ہماری رگوں کے اندر بہتے خون میں، ہمارے خون کے سرخ ذرات میں رچے ہیں۔ دنیا بھر کی آوارہ خرامی اور دیس دیس کی موسیقی انہیں ہمارے لہو کے اندر سے کھرچ نہیں سکی۔ ہم جب نہیں رہیں گے، ان لوک رنگوں میں تب بھی موجود ہوں گے۔ ہمیں لوگ تب بھی دیکھیں گے۔ سنیں گے۔ یہاں تک کہ وہ ہمیں چھو سکیں گے۔ 
دائروں میں گھومتے، گیت گاتے، اِن کسانوں کے عقب میں آپ وہ کچی دیوار دیکھ رہے ہیں؟ اُس دیوار میں جو گارا لگا ہے، وہ گارا ہم ہی ہیں۔ ہم مٹی بن کر اپنے قریوں میں‘ کچی دیواروں میں، چھتوں کی منڈیروں میں استعمال ہوتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ اُس طرف جو درخت نظر آرہے ہیں، اُن کے پتوں کی ہریالی میں ہمارا سرخ خون ہی تو جھلک رہا ہے   ؎
یہ جو خاک ہے مرے گاؤں کی، مرا خون ہے
مرے خون میں اِسی خار و خس کا خمار ہے
ذرا کان لگا کر سنیے، یہ آواز، یہ مدھر لے، کہاں سے آ رہی ہے؎
ماہیا فتح جنگے نیا!
تلہ گنگے دی بولی بول
اُس باکمال شاعر، جعفر طاہر نے، جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں، کہا تھا اور یہ ایک ہی مصرع ہے:    ؎
گل و گلزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ
مرے جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی لَے
بستے رہیں ہمارے جھنگ، تلہ گنگ!
 مٹی کی یہ محبت، لوگ رنگوں سے یہ پیار، یہ وابستگی، اپنا دائرہ پھیلاتی ہے تو یہی تو ہے جو وطن کی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر ہمارے مقامی رنگ، ہمارے لوگ گیت اور رقص، ایک دوسرے میں مدغم ہو کر، پورے وطن پر سایہ فگن ہو جاتے ہیں۔ یہی رنگا رنگی، یہی تنوع، وطن کی محبت کا جوہر ہے۔ سارے مقامی رنگ، ساری علاقائی ثقافتیں، تمام زبانوں کے گیت، سارے خطوں کے رقص، ہمیں یکساں عزیز ہیں۔ یہی باہم مل کر، ہمارا وطن بناتے ہیں۔ کم نظر ہے وہ شخص جسے کسی علاقے، کسی خطے کی ثقافت بھاتی نہیں! جو ماں کا نہیں، وہ کسی کا نہیں! جو زمین کو چھوڑ کر، آسمان کی طرف اُڑنے کی کوشش کرے گا، وہ زمین کا رہے گا نہ آسمان کا! جو اپنی زبانیں، اپنی مٹی چھوڑ کر دوسری زبانوں، دوسرے خطوں سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کرے گا، منہ کی کھائے گا۔ تجربے نے ثابت بھی یہی کیا ہے!
تین عشرے ہونے کو ہیں۔ یہ کالم نگار، اُن دنوں وفاق کی وزارتِ ثقافت میں مزدوری کرتا تھا۔ فرائضِ منصبی میں، ثقافتی طائفے لے کر دیس دیس جانا بھی شامل تھا! کینیڈا کے جنت نظیر شہر، وینکوور میں عالمی ایکسپو
 (EXPO) 
منعقد ہوئی۔ پوری دنیا کے ملک اپنی ثقافتیں لے کر پہنچ گئے۔ پاکستانی وفد یہ فقیر لے کر گیا۔ اُس دن وسیع و عریض ہال، ہزاروں افراد سے بھرا تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پاکستانی طائفہ پاکستان کا لوگ رقص دکھا رہا تھا۔ کالم نگار ہال میں اِدھر اُدھر، چکر لگا رہا تھا کہ ملک ملک کے ناظرین سے تاثرات لیے جائیں۔ دیکھا کہ ایک شخص جو نوجوان تھا نہ ادھیڑ عمر، رو رہا تھا۔ زار و قطار۔ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: کیا بات ہے؟ روتا تھا اور کہتا تھا‘ ’’یہ رقص میں نے بچپن میں دیکھا تھا اور پھر آج دیکھا ہے۔ گاؤں یاد آ رہا ہے اور کچا گھر اور وہ سارے لوگ جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چراغوں کی روشنی میں یہ رقص کیا کرتے تھے!! مجھے سنبھالو میرے اندر کچھ ہو رہا ہے!‘‘
دُور۔ بہت دور سے۔ علن فقیر کی آواز آ رہی ہے۔ عاشق مست جلالی ہُو۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com