جھاڑ جھنکار تھے اور زمین پر بکھری ہوئی خشک چٹختی ٹہنیاں! ستمبر اُدھیڑ عمر کو چھو رہا تھا مگر دھوپ کی حدت نوجوانی پر اصرار کر رہی تھی۔ پیشانیاں پسینے سے بھری تھیں۔ کوئی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کی نگاہیں ایک طرف تھیں۔ کبھی کبھی کوئی شخص کھویا ہوا سوال کرتا، نزدیک کھڑا شخص مختصر سا جواب دیتا اور پھر اُس طرف دیکھنے لگتا جدھر سب دیکھ رہے تھے۔
فیروز بشیر انصاری کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا۔ ایک نیک نام، سادہ اطوار شخص، اس کی آخری تعیناتی ٹیکس محتسب کے ادارے میں وفاقی سیکرٹری کی تھی۔ غیبت سے احتراز کرنے والے فیروز نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ والد بشیر انصاری اس خطے کے چوٹی کے وکیل تھے۔ امارت کو اس نے اپنی شخصیت کا حصہ کبھی نہ بنایا۔
اور ہؤا کیا؟ وہ کار چلا رہا تھا نہ ہوائی جہاز میں تھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سڑک کے ایک کنارے پر پیدل چل رہا تھا۔پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا۔ وحشت ناک رفتار تھی۔ سیدھا اُس کی کمر سے ٹکرایا۔ پھر سوار، سامنے، اوندھے منہ گرا۔ پھر دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مقتول بھی اور قاتل بھی!
قاتل بھی! جی ہاں! قاتل! کیا کسی کو پروا ہے کہ موٹر سائیکل سوار اِس ملک میں حشر برپا کیے ہیں؟ وحشیوں کے گروہ کے گروہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانا جرم نہیں! ضرورت ہے اور مجبوری بھی! ان میںخال خال ایسے ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں۔ مگر لاکھ میں تین چار، اس سے زیادہ نہیں! ان سواروں کی بربریت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو گاڑی خود چلاتے ہیں۔ گاڑی غلط سمت میں چلانا مشکل ہے۔ مگر موٹر سائیکل غلط سمت میں چلانا آسان! یہ سانپ ہے جو دائروں میں چلتا راستہ بناتا جاتا ہے اور کسی قانون کو نہیں مانتا۔ کم از کم پچاس فیصد گاڑیوں کو موٹرسائیکل ہِٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ فوج قانون سے ماورا ہے یا سیاست دان، یا نوکر شاہی، تو غلط کہتا ہے! ٹریفک قانون سے ماورا ہے اور ٹریفک میں موٹر سائیکل سوار قانون سے مکمل، ایک سو ایک فیصد ماورا۔ نئی افتاد جو پڑی ہے یہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر کھاریاں اور گوجرانوالہ کے درمیان یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور سب ان کے آگے بے بس ہیں۔ یہ کالم نگار لاہور میں ایک بار اپنے نواسی اور نواسوں کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا۔ سڑک پار کرنا تھی۔ گاڑیوں والے رُک گئے مگر موٹر سائیکل ایک بھی، رُک نہیں رہا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک سفید ریش شخص بچوں کے ساتھ سڑک پار کرنا چاہتا ہے، گاڑیاں رُکی ہوئی ہیں مگر جلتے شعلوں پر سوار، کوئی موٹر سائیکل والا رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بالآخر ایک نوجوان نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر انہیں ایک لمحے کے لیے لگام دی! رہی ریاست! تو ریاست محلات سے اور ڈرائنگ روموں سے اور ہوائی جہازوں سے اور ایوانِ وزیراعظم سے اور قصرِ صدارت سے اور مری کے برفستانوں سے باہر نکلے تو شاہراہوں پر آئے! تب تک شاہراہوں پر سفر کرنے والے‘ ٹرالیوں، ٹریکٹروں، تاتاری صفت موٹر سائیکل سواروں، نشے میں دُھت ٹرک ڈرائیوروں اور ڈمپر چلانے والے انسان نما جانوروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے رہیں گے! کیا ہماری زندگیوں میں وہ وقت آئے گا کہ شاہراہوں پر تہذیب آئے گی؟ تہذیب قانون سے آتی ہے اور کسی کو اچھا لگے یا بُرا، قانون شاہراہوں پر تب آتا ہے جب حکمران، ٹریفک بند کیے بغیر، ٹریفک کے درمیان سفر کریں! مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں‘ دل کے پھپھولے کچھ اور کہنا چاہتے ہیں!
سلیں رکھ دی گئیں۔ پھر سلوں کے درمیان جو گیپ تھا اُسے گارے سے بھر دیا گیا۔ اب مٹی ڈالنے کا وقت تھا۔ تعلق جتنا گہرا تھا، اسی حساب سے مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھری، آخر چھیالیس سالہ رفاقت تھی۔ واہ ری دنیا! جنہیں ہم گلے سے لگاتے ہیں۔ گھر آئیں تو قدموں میں بچھتے ہیں۔ پانی اور چائے خدام کی طرح جھک کر پیش کرتے ہیں۔ چند دن بات نہ ہو تو اضطراب محسوس کرتے ہیں۔ اُن پر مٹی خود ڈالتے ہیں! پھر انہیں تنہا، بے یارو مددگار، ایک وحشت ناک ویرانے میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ پھر دنیا کے ہنگاموں میں یوں کھو جاتے ہیں جیسے یہیں رہنا ہو! پھر ایک اور دن آتا ہے۔ تب مٹی ہم پر ڈالی جا رہی ہوتی ہے! مِنّہا خَلَقْنَا کُم وَ مِنْھا نُعِیْدُ کُم و مِنْھا نُخْرِ جُکُم تَارَۃً اُخْرای۔ اسی مٹی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اسی سے نکالیں گے!
ہاں! وحشت ناک ویرانے میں! مگر کیا کبھی کسی نے رات کے وقت ان وحشت ناک ویرانوں کو دیکھا ہے؟ یہ راتوں کو آباد ہو جاتے ہیں۔ پُر ہول دیو آسا درختوں سے اندھیرے اُترتے ہیں! یہ اندھیرے اجاڑ، بے آباد قبروں کے درمیان رقص کرتے ہیں۔ کبھی جب آدھی رات اِس طرف ہو اور آدھی رات اُس طرف ہو تو وہاں سے گزرو! تم ایک ایک اندھیرے کو پہچان لو گے۔ دیکھو، وہ بڑا اندھیرا، جس کے لمبے نوکیلے دانت انگاروں کی طرح دہک رہے ہیں، سرے محل کا ہے۔ رقص کرتے ہوئے کیسے قہقہے لگا رہا ہے۔ دل ہلا دینے والے، سامنے کے درخت سے وہ جو دوسرا اندھیرا اترا ہے وہ فرانس کی اُس حویلی کا ہے جو کئی سو سال پُرانی ہے اور جس پر زندگی میں ایک دوبار سے زیادہ ہیلی کاپٹر اُترا بھی نہیں! اُس ڈراؤنے درخت سے جو اندھیرا اُترا ہے وہ بار بار پاگلوں کی طرح ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہا ہے۔ ’’میں تمہیں تعینات کر دیتا ہوں،
جتنا بنا سکتے ہو بنا لو‘‘۔ اُس چیختے اندھیرے کو دیکھو، وہ اُس سرکاری مال سے بنا ہے جو دبئی میں ہونے والے ’’سرکاری‘‘ اجلاسوں کے لیے آنے جانے پر بے تحاشا خرچ ہوتا تھا۔ مگر اُس اندھیرے کو تو دیکھو جو درخت سے اب اُترا ہے۔ کتنا ہولناک ہے۔ یہ پاناما لیکس کا مجسّم اندھیرا ہے۔ وہ دوسرا اندھیرا کتنا لمبا ہے۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس لیے کہ یہ وہ چار دیواری ہے جو ستر کروڑ روپے کے قومی مال سے محلات کے گرد تعمیر ہوئی۔ نہیں! چار دیواری نہیں بنی، یہ اندھیرا تعمیر ہوا ہے۔ عوام کے گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ شاہراہیں مقتل بنی ہیں اور ستر کروڑ کے چار دیواری! اُس پروردگار سے جو پرفیوم میں ڈوبے جسموں کو منوں مٹی کے نیچے بھیجتا ہے، کیا بعید ہے کہ چار دیواریوں کو سانپ کی شکل دے دے! مگر وہ اندھیرا دیکھو، ہاتھوں کو درندوں کے پنجوں کی شکل میں آگے کرتا، یہ وہ جھوٹی گواہیاں ہیں جو عدالتوں میں دی جاتی ہیں! یہ وہ پانی ہے جو دودھ میں ملایا جاتا رہا۔ یہ سرخ اینٹوں کا وہ برادہ ہے جو حاجی صاحب باوضو ہو کر مرچوں میں مِکس کرتے رہے۔ رات آدھی، اِس طرف اور آدھی اُس طرف! ہو کا عالم! قبریں! عفریت نما درخت! اور ان درختوں سے اُترتے ناچتے، دھاڑتے، بھونکتے، پھنکارتے اندھیرے! ناچتے ہوئے ان اندھیروں کے پاؤں سوکھی ٹہنیوں پر پڑتے ہیں تو ایسی مہیب آوازیں نکلتی ہیں کہ ایک ایک پتھر، ایک ایک کتبہ لرز اُٹھتا ہے! کیا ہیں یہ اندھیرے؟ یہ وہ تھوتھنیاں ہیں جو بیٹی کی ولادت کی خبر سُن کر سؤر کا چہرہ بن جاتی تھیں! یہ وہ حرام مال ہے جو ٹیکس چوری کرنے کے لیے ایک حرام خور کی جیب میں دوسرا حرام خور ٹھونستا تھا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا نہیں ہوا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو چند سکوں کی خاطر منہ سے نکالا گیا۔ یہ وہ غیبت ہے جو دوستوں اور رشتہ داروں کی گئی۔ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو دوسرے کی دبا کر اپنے کھیت کو بڑا کیا گیا۔ یہ وہ زمین ہے جو یتیم کی ہڑپ کرلی گئی۔ یہ وہ بدزبانی ہے جو گاہک سے اور ماتحت سے اور مزدور سے روا رکھی گئی۔ یہ وہ نخوت ہے جو حکومت کے نشے میں غرق ہو کر عوام سے برتی گئی۔ اور یہ وہ قرض ہے جسے واپس کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا
ان وحشت ناک قبروں میں ایک اور جہاں بھی آباد ہے۔ اللہ کے بندو! اُسے بھی دیکھو! درختوں سے روشنیاں بھی اُترتی ہیں! سچائی کی روشنی ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کی روشنی! اُس چٹنی کی روشنی جو حرام مال ٹھکرا کر سوکھی روٹی کے ساتھ کھائی گئی۔ اُس مال کی روشنی جو اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر ضرورت مندوں کو دیا گیا۔ اُس احتیاط کی روشنی جو سرکاری خزانے کے استعمال میں برتا گیا۔ اُس نرم گفتاری اور مسکراہٹ کی روشنی جو فیروز بشیر انصاری جیسے لوگوں نے اونچے عہدوں پر بیٹھ کر ہر طرف بکھیری۔ کسی کو نقصان نہ پہنچایا۔ بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ فرمایا گیا جس نے دو بیٹیوں کی اچھی تربیت و تعلیم کی اور پھر اپنے اپنے گھر میں آباد کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہو گا۔ پھر دو مبارک انگلیاں اُٹھائیں (مفہوم)۔ بیٹیوں کی تعظیم، قدرو منزلت، ان کے حقوق کی ادائیگی! روشنی ہے جو لحد میں اُترے گی!
کھارا اور میٹھا پانی۔ ایک سمندر میں ہے! کھارا پانی میٹھے میں نہیں ملتا اور میٹھا پانی کھارے سے الگ رہتا ہے۔ قبرستانوں میں دو دنیائیں آباد ہیں۔ کچھ کو صرف ہیبت ناک اندھیرے دکھائی دیتے ہیں، رقص کرتے، دھاڑتے، چنگھاڑتے خوفناک پنجے لہراتے اندھیرے! کچھ کو صرف روشنیاں نظر آتی ہیں۔ چاندنی جیسی ٹھنڈی روشنیاں! عطر بیز ہواؤں میں بسی ہوئی روشنیاں! روشنیاں جو مقدس آسمانی درختوں سے اُترتی ہیں اور قبروں کے اندر جاتی ہیں! سلام کرتی روشنیاں! آداب بجا لاتی روشنیاں! خوش خبری دیتی روشنیاں! مگر ایک کارنامہ قدرت کا اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے! ہر شخص کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اندھیروں کی سمت بڑھ رہا ہے یا روشنیوں کی طرف!
No comments:
Post a Comment