Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 07, 2016

جونکیں

بستی کے ہر تیسرے باسی کو ملیریا ہو رہا تھا۔ ہسپتال تو وہاں تھا نہیں۔ ڈاکٹر قصبے سے لایا جاتا۔ دوا دیتا، پیسے جیب میں ڈالتا، ٹیکسی کا کرایہ بستی والوں سے الگ لیتا۔ یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا تھا۔
ایک نوجوان، جو بستی ہی کا تھا اور کراچی ملازمت کرتا تھا، چھٹی آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کے بندو! یہ جو گلی گلی پانی ٹھہرا ہوا ہے، اس میں مچھروں کی نسلیں پرورش پا رہی ہیں۔ اس متعفن، غلیظ پانی سے جان چھڑائو۔ جوہڑوں میں دوا ڈالو۔ ڈاکٹر نے پیسے بٹورنے ہیں‘ اسے کیا ضرورت ہے کہ پانی کے بارے میں ہدایات دے۔
وزیر اعظم کا دفتر اگر اِن خطوط پر غور کر رہا ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ پورے کا پورا منتخب میئر کے سپرد کیا جائے تو یہ فیصلہ درست سمت میں ہو گا۔ ترقیاتی ادارہ ٹھہرا ہوا متعفن پانی ہو چکا ہے جس میں مچھر پرورش پا رہے ہیں۔
ٹھہرا ہوا پانی؟ جی ہاں! اس لیے کہ کچھ ادارے بند گلی کی طرح ہیں۔ جو شخص سی ڈی اے میں یا ایل ڈی اے میں یا پی آئی اے میں بھرتی ہو گیا، اب چھتیس سال وہ اسی ادارے میں رہے گا۔ اگر وہ بددیانت ہے اور شاطر ہے، تو اپنی معلومات کو منفی سمت لے جائے گا۔ گروہ بندیاں اسی طرح بنتی ہیں۔ انگریز بہادر نے جو اصول بنایا تھا کہ تین سال سے زیادہ ایک سیٹ پر کوئی اہلکار، کوئی افسر نہ رہے تو اس کی پشت پر منطق تھی۔ اگر پاکستان کی گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں مسائل کا درست ادراک ہوتا تو تمام شہروں کے ترقیاتی اداروں کو ملا کر ایک محکمہ بنا دیا جاتا۔ وفاقی سطح پر نہیں تو صوبائی سطح پر یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ جسے لاہور کے ترقیاتی ادارے میں تین برس ہو چکے ہیں اسے راولپنڈی 
بھیجیں‘ راولپنڈی والوں کو مری، مری والوں کو ملتان۔ اسی طرح پشاور کے ترقیاتی ادارے میں سالہا سال سے اہلکار براجمان ہیں۔ انہیں کوہاٹ یا مردان کی کارپوریشنوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔
ایک ہی ادارے میں طویل قیام کرپشن کے لیے ممد ہوتا ہے۔ میز کے نیچے سودے طے ہوتے ہیں۔ مقامی پراپرٹی ڈیلر، اپنے اپنے پسندیدہ اہلکاروں اور افسروں کے ساتھ مل کر مافیا بنا لیتے ہیں۔ کرپشن وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سپریم کورٹ نے کچھ ہفتے پہلے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دے دیا۔ اس فیصلے پر دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ وہ کرپشن میں لاہور کے ادارے سے پیچھے کس طرح ہے؟
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے بابو منتخب میئر کو اختیارات آخر کیوں دیں گے؟ منتخب میئر، ظاہر ہے فرشتہ نہیں، اسی معاشرے کا حصہ ہے مگر جیسا بھی ہے منتخب ہے۔ اُسے مستقبل میں بھی ووٹ لینے ہیں اور ووٹروں کا سامنا کرنا ہے۔ سی ڈی اے کے حکام اور اہلکار لرز رہے ہیں۔ لرزنے کا سبب طیش بھی ہے اور خوف بھی! عشروں کی بادشاہت کہیں بکھر نہ جائے۔ کچھ ماہ قبل سی ڈی اے کے 23 محکمے منتخب میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سپرد کیے گئے۔ ترقیاتی ادارے کی یونین عدالت میں چلی گئی۔ افسر ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ رخنے پر رخنہ ڈالا جا رہا ہے۔ ادارے کا چیئرمین‘ جو نوکر شاہی کارکن  ہوتا ہے، صرف اور صرف متعلقہ وزیر کو جواب دہ ہے مگر میئر عوام کو جواب دہ ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو ضلعی حکومتوں کے خاتمے سے پیدا ہوئی۔ ضلع کے ناظم کا مرنا جینا وہیں تھا۔ کتنی کرپشن کرتا؟ کتنی ناانصافیاں کرتا؟ کل کو پھر عوام کا سامنا کرنا پڑتا۔ ظلم کیا صوبائی حکومتوں نے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹ کر۔ ڈی سی ہے یا ڈی سی او، ایک دفعہ تبادلہ ہو گیا تو زندگی بھر اس ضلع میں واپس نہیں آنا۔ نوکر شاہی کا اپنا اسلوب ہے۔ باس کی خوشنودی، اپنا آرام، سہولتوں کا حصول، آنے والے دنوں میں بہتر تعیناتی کے لیے منصوبہ بندی اور کوشش! عوام کے ووٹوں سے چنے گئے ناظم یا میئر کا انداز مختلف ہے۔ بالکل مختلف۔ اپنی شہرت کی حفاظت، مخالفین کے ڈر کی وجہ سے حد درجہ احتیاط، اور سب سے بڑھ کر… ووٹروں کا اطمینان تاکہ آنے والے انتخابات میں اُس کا دامن بالکل خالی نہ ہو۔ 
وزیر اعظم کو استقامت کے ساتھ منتخب میئر کا ساتھ دینا ہو گا۔ ادارے کی بدنیتی کا اندازہ صرف ایک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے ناکارہ اور اُجڑے ہوئے پارک تھے، وہ میئرکو دے دیے گئے اور جو آمدنی دے رہے تھے جیسے ایف نائن پارک، یا چڑیا گھر، یا لیک ویو پارک، وہ خود رکھ لیے۔ دو ملّائوں میں مرغی حرام ہوتی ہے۔ اگر ترقیاتی ادارہ پورے کا پورا میٹروپولیٹن کارپوریشن کو، یعنی منتخب میئر کو نہ دیا گیا تو میئر کا کامیاب ہونا ممکن ہی نہ ہو گا‘ کیونکہ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ بیٹھنے کے لیے کمرے دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جائے گا۔ فرنیچر دینے میں حیلہ سازیاں ہوں گی۔ افرادی قوت کی تقسیم میں چالاکیاں بروئے کار لائی جائیں گی۔ ٹیلی فونوں، کمپیوٹروں، فیکس مشینوں، پرنٹروں کی تقسیم میں جھگڑے پڑیں گے۔ مہینے اور سال گزر جائیں گے، نوکری شاہی کے چکروں میں میئر اور اس کے معاونین یوں جکڑے جائیں گے کہ ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والا معاملہ ہو گا۔ اس اثنا میں میئر کی مدت ختم ہو جائے گی اور ترقیاتی ادارے کے بابو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرکے فتح کا جشن منائیں گے۔ 
ملازمین کی یونینیں ان اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ کچھ ہفتے ہوئے، پی آئی اے کے سربراہ نے دہائی دی۔ مگر کسی نے نہ سنی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ملازمین کی چھ یونینیں ہوں گی‘ وہاں ادارہ کیسے چل سکتا ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ چھ یونین، ایئرلائن کے چلنے پر فیصلہ کن انداز میں اثر ڈالتی ہیں۔ کیبن کریو کی اپنی یونین ہے۔ پائلٹ حضرات کی اپنی اور اسی طرح باقی شعبوں کی اپنی، پھر ان سب کے اوپر سی بی اے ہے یعنی بارگیننگ ایجنسی۔ جب پوچھا گیا کہ ’’کیا اِن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں نے عملی طور پر ایئرلائن کو یرغمال بنا رکھا ہوا ہے؟ تو پی آئی اے کے چیئرمین کا جواب اثبات میں تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ضرورت چار ہزار افراد کی ہے مگر ملازمین کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔ اس لیے کہ کارکردگی کی بنیاد پر انتظامیہ کسی کو ملازمت سے نکال ہی نہیں سکتی۔ ’’ہم احتساب کے حوالے سے ایک درست نتیجے پر پہنچتے ہیں مگر بدقسمتی سے اگلا قدم اٹھانا از حد مشکل ہوتا ہے۔ اس کا سبب یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کا اثر و رسوخ اور مداخلت ہے‘‘۔
یہی صورتِ حال ریلوے میں ہے۔ ریلوے ملازمین اور ان کے خاندان ادارے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین بھی مفت سفر کرتے ہیں۔ یونین منہ زور ہے۔ مراعات کم نہیں کرنے دیتی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کے عہدیدار، تنخواہیں پوری پوری لیتے ہیں‘ مگر کام نہیں کرتے۔ سیاست کل وقتی ہے۔ یہ جونکیں ہیں جو معیشت کا خون چوس رہی ہیں۔ ظلم کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ایک بہت بڑے ادارے کا سربراہ اعتراف کر رہا ہے کہ ادارہ یونینوں کے ہاتھ میں یرغمال بنا ہوا ہے۔
سرکاری یونیورسٹیوں کا حال سٹوڈنٹس یونینوں نے بُرا کر رکھا ہے۔ جامعات ان کے ہاتھ میں یرغمال ہیں۔ اساتذہ پر جسمانی تشدد کی مثالیں عام ہیں۔ ہوسٹل ڈیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ جن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں نے جامعات کو اپنے مہیب جبڑوں میں دبوچ رکھا ہے‘ ان کے اپنے تعلیمی ادارے میں طلبہ کو سیاست بازی کی اجازت نہیں۔ تعلیم و تعلّم کا کام جو پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے، اس کا عشرِ عشیر بھی سرکاری یونیورسٹیوں میں نہیں ہو پاتا۔ اس لیے کہ یہاں طلبہ تنظیموں کا سرطان پھل پھول نہیں سکتا۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا معاملہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ کیا وزیر اعظم اسے بابوئوں اور یونین کے جبڑوں سے نکال کر منتخب میئر کے حوالے کر سکیں گے؟ اگر ایسا ہو گیا تو یہ ایک خوش آئند آغاز ہو گا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com