لاہور سے شہباز شریف بلا مقابلہ منتخب!بارش سے سڑکیں ان کے حق میں بیٹھ گئیں۔
الیکشن سے عین پہلے ……… بارشیں شہباز شریف کے خلاف خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کی سازش ہے۔
یقین جانیے اگر ایسی ایک بارش پشاور میں بھی ہو گئی تو پشاور کا حال لاہور سے کئی گنا بدتر ہو گا اور کراچی کا تو کچھ نہ پوچھیے۔
ری پبلکن کے ناکام تجربے کے بعد کبھی کسی دوسرے نام سے کوششیں نہیں کی گئی۔ تمام مقتدر حلقوں نے ہمیشہ مسلم لیگ ہی کے نام سے نیا پلیٹ فارم بنایا۔ مسلم لیگ کے موجودہ دھڑوں میں سے کسی کو بھی لے لیجیے۔ اس کے پیچھے اس کا خالق کوئی نہ کوئی مقتدر شخصیت ہی نکلے گی۔ اب جیپ کے نشان سے اگر کسی نئی مسلم لیگ کا تانا بانا بُنا جا رہا ہے تو یہ ایک تاریخی تسلسل ہے! کوئی انہونی نہیں!
سکندر اعظم فتح کے بعد یونان گیا۔ ایک شخص بے خبر سو رہا تھا۔ سکندر نے اسے لات رسید کی اور جگا کر کہا تو سو رہا ہے اور میں شہر فتح کر چکا ہوں۔ اس نے جواب دیا شہر فتح کرنا بادشاہ کا کام ہے اور لات رسید کرنا گدھے کا۔ کیا کوئی انسان دنیا میں نہیں رہا جو بادشاہت گدھے کو مل گئی ہے۔ ووٹ دینے سے پہلے سوچ لیجیے بادشاہت کسی گدھے کو مل گئی تو پانچ سال لاتیں کھاتے رہیں گے!
یااللہ امریکہ انڈیا اور اسرائیل کو بھی ایک نواز شریف عطا فرما!
عبادات ضرور کیجیے۔ مگر معاملات پر بھی نگاہ رکھیے۔ کعبہ کے گرد چکر لگانے سے وہ چکر معاف نہیں ہوں گے جو آپ نے لوگوں کو دیے۔
ایک بار ایک صحافی نے قائد اعظم سے کہا مسٹر جناح! میں آپ کو ووٹ نہیں دوں گا کیوں کہ آپ شیعہ ہیں۔ قائد اعظم مسکرائے اور بولے’’گاندھی کو دے دو۔ وہ سُنیّ ہے‘‘
عمران خان کا مسلک چاہے دیو بندی ہو بریلوی ہو وہابی ہو شیعہ ہو یا سنی جب تک زرداری اور نواز شریف جیسوں کے خلاف لڑنے والا کوئی بہتر متبادل نہیں مل جاتا میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہوں گا، عمران خان کو میں خلیفۂ وقت نہیں بنا رہا‘ نہ اس سے اسلام سیکھنا ہے بلکہ جمہوریت جیسے سسٹم کے ذریعے اسے منتخب کرنا ہے اب چاہے وہ مزار پر جائے چاہے۔ امام بارگاہ میں حاضر ہو چاہے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ لگائے مجھے اس سے صرف ایک غرض ہے کہ بدمعاشیہ کے خلاف جو جنگ اس نے شروع کی ہے وہ مکمل ہونی چاہیے اور بس!
کرپٹ سیاست دانوں اور لوٹوں کو روکنے کے لیے پاکستان میں ’’جماعتی‘‘ سیاست رائج کی
جائے جو پارٹی جتنے فیصد ووٹ لے اسے اتنی سیٹیں دی جائیں۔
یہ جو آج کل امیروں کے دل میں غریبوں کے لیے محبت کی لہر اٹھی ہے اس کی ایکسپائری ڈیٹ 25جولائی ہے۔
اگر آپ لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ خوش نہیں ہونا اور ناراض ہی رہنا ہے تو الگ بات ہے ورنہ گزشتہ پورے عشرے میں کوئی ایک بارش بتائیں جو شہباز شریف نے گھر میں آرام سے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر گزاری ہو۔ ہر بارش انہوں نے لمبے بوٹ پہن کر لاہور کی سڑکوں پر گزاری ہے اب اگر ادارے اپنا کام نہ کریں تو شہباز شریف کا اس میں کیا قصور؟
تم جیسا بے وقوف کون ہو گا جو خود انتہائی پس ماندہ حال میں رہ رہا ہے اور خوش لاہور کی ترقی پر ہو رہا ہے۔ اپنے علاقے پر نظر نہیں ڈالتا۔
ووٹ جسے مرضی ہے دیجیے۔ سپورٹ جسے چاہتے ہیں کیجیے لیکن اخلاق سے نہ گریے آپ کا تعارف پارٹی نہیں آپ کے ماں باپ ہیں جنہوں نے آپ کی تربیت کی ہے۔
جب نواز شریف یا مریم نواز کی کوئی خبر آتی ہے تو دانشور اور بعض صحافی جمہوریت کو خطرے میں دیکھتے ہیں مگر بلاول کے قافلے پر پتھرائو میں انہیں جمہوریت کا حسن نظر آتا ہے۔
اب یہ کون افواہیں پھیلا رہا ہے کہ لاہور میں زیادہ بارشوں کے پیچھے پیرنی کی دعائوں اور چلوں کا ہاتھ ہے۔
سچ بولو سچ لکھو سچ دیکھو سچ کو برداشت کرنا سیکھو سچ کا ساتھ دو ہاں اگر کسی پارٹی سے وابستہ ہو تو پھر تمہارا سچ وہی ہو گا جو پارٹی کا سچ ہے۔
چھ ماہ میں کراچی کا کوڑا کرکٹ ختم کر دوں گا۔ دو سال میں گھر گھر پانی پہنچائوں گا۔ یہ جو آپ ہمیں چونا لگانے آئے ہیں یہ ہم دن میں کئی مرتبہ پان پر لگاتے ہیں۔
چار ہزار کلو میٹر دور ترکی کی ریاست پر گہری نظر رکھنے والی قوم کی نظر اپنے حکمران منتخب کرتے وقت برادری ‘ بریانی قیمے اور کرائے پر ہوتی ہے۔
میں حمزہ شہباز کے بوٹ پالش نہیں کر سکتا۔ ٹکٹ دے دیتے تو پھر بوٹ پالش پر کوئی اعتراض نہ تھا۔
چیف جسٹس۔ آپ نے میٹرو بس کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ اس کی سماعت درکار ہے؟
شاہ صاحب! سر مجھ سے غلطی ہو گئی پٹیشن واپس لیتا ہوں۔
چیف جسٹس: کیا آپ نون لیگ میں واپس آنے کی وجہ سے پٹیشن واپس لے رہے ہیں یا میٹرو بس ٹھیک ہو گئی ہے؟
شاہ صاحب! سر حالات ایسے ہیں کہ کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
ہمارا عروج یہ تھا کہ حاکم سے پوچھتے تھے کہ کرتا کیسے بنوایا؟ زوال یہ ہے کہ کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔
لڑکی گھر سے بھاگنے سے ایک دن پہلے کہتی ہے ’’کل ہم میں سے ایک نہیں ہو گا‘‘ دوسرے دن اس کا باپ کہتا ہے ’’لڑکی بھاگ تو گئی مگر تھی سچی! ایک بندہ واقعی کم ہے!
چھوٹے میاں صاحب سچے تھے۔ بتا دیا کہ لوڈشیڈنگ ہو گی اور ذمہ دار نگران ہوں گے۔
طلعت حسین نے جاوید چودھری کے پروگرام میں بتایا کہ میاں صاحب کی عادت ہے وہ انٹرویو سے پہلے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر ان کو کامیابی ہوتی ہے بعض اوقات کامیابی نہیں بھی ہوتی۔ مجھے بھی پہلے بٹھایا بات کی کہ کیا باتیں ہوں گی۔ میں نے کہا جی کچھ سوچا نہیں ہے۔ بس بڑے ایشوز پر بات کریں گے۔ دہشت گردی پر۔ کرپشن پر‘ انرجی بحران پر۔ بس یہی۔ ان کی تسلی نہ ہوئی ظہر کا وقت عصر میں تبدیل ہو گیا۔ پھر مغرب ہو گئی پھر ہم نے لائننگ وغیرہ تبدیل کی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا تھا کہ میاں صاحب سیاست پر بولتے ہیں تو نپا تلا اور اچھا بولتے ہیں‘ جب آپ کے پاس اتنا تجربہ ہو آپ نے اتنی دنیا گھومی ہو تو آپ کو انٹرویو میں معاونین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر میاں صاحب جب بیٹھے تو ساتھ ہی بہت سارے معاونین بھی بیٹھ گئے اور عجیب و غریب مشورے دینے لگے۔ ایک نے تو کہہ دیا کہ جب سوال کیا جائے گا تو ہم جواب لکھ کر آپ کو سامنے سے دکھائیں گے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب الگ پریشان کیوں کہ انٹرویو شروع نہیں ہو رہا تھا۔ کافی دیر بعد شروع ہوا تو احسن اقبال صاحب بھی موجود تھے۔ میں ان کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ ذہین اور بردباد شخصیت ہیں مگر اس وقت ماحول ایسا بنا ہوا تھا کہ ہر طرف سے مداخلت ہو رہی تھی کہ میاں صاحب یہ کہیں میاں صاحب یوں کہیں۔ جب دخل اندازی بہت بڑھ گئی تومیں نے کہا دیکھیں آپ کے لیڈر بول رہے ہیں۔ خدارا انہیں بولنے دیجیے آپ اگر چاہتے ہیں تو میں آپ کا انٹرویو الگ لے لوں گا۔ پھر اس انٹرویو کا کلپ چلتا ہے نظر آ رہا ہے کہ میاں صاحب مدد مانگنے کے لیے معاونین کی طرف دیکھتے ہیں اور طلعت حسین احسن اقبال کو بولنے سے روک دیتا ہے جس پر پروفیسر ارسطو ناراض ہو جاتا ہے۔
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کسی عدلیہ نے ڈیم بنایا ہو۔ بلاول بھٹو۔ بالکل درست کہا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں سیاست دانوں نے اس قدر بے دردی سے لوٹا ہو۔ جہاں حکومت میں ہو کر ڈیموں کو بموں سے اڑا دینے کی دھمکی دی ہو۔ جہاں پہلے کرپشن سے بنے ہوئے محلات کا انکار کیا ہو پھر چپکے سے انہیں فروخت کر دیا ہو۔ کون سے ملک کا سفیر ہے جو پارٹی کے صدر کی کرپشن کے ثبوت سوئٹزر لینڈ جا کر غائب کر دیتا ہو۔
فکری شعور اور علمی طور پر بنجر معاشرے کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی جب فرحت اللہ بابر‘ اعتزاز احسن اور رضا ربانی بلاول جیسوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں۔
عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ گجرات تشریف لا رہے ہیں تو اپنے کارکنوں پر ایک احسان کیجیے۔ وہ یوں کہ جس طرح آپ نے قاف سے اتحاد کر کے کارکنوں کے جذبات کو کچلا ہے اسی طرح ان پر ٹریکٹر چڑھا کر ان کے جسموں کو بھی کچل دیں تاکہ اختلاف کا رولا ہی ختم ہو جائے۔
شوہر کی کامیابی میں بیوی کا کردار۔ کوئی مری ہوئی بیوی کا نام لے کر صدر بن گیا۔ کوئی بیمار بیوی کے پیچھے چھپ کر خود کو بچا رہا ہے اور کوئی بیوی کے اشاروں پر چل کر وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ بیویوں کی قدر کرو۔ کامیابی تمہارے قدم چومے گی!
No comments:
Post a Comment