نہیں! ایسا نہیں!
ہرگز نہیں!
جو بزرجمہر اپنی پرانی دوا بیچے جا رہے ہیں خدا کے لیے مریض پر رحم کر دیں! اب تو رحم کر دیں!!
ایک ازکار رفتہ تھیوری! یہ کہ نواز شریف کا بیانیہ مضبوط تھا۔ یہ کہ عوام سول بالادستی کے لیے بڑے میاں صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے یہ کہ شہباز شریف صاحب کا بیانیہ مختلف تھا۔ یہ کہ عوام کنفیوژ ہو گئے اور یوں مسلم لیگ نون ہار گئی!
رحم !رحم! اے ابنائے زمانہ! رحم!اس قوم پر رحم کر دیجیے!
بیانیہ کے لفظ کے ساتھ یہاں جو کچھ ہوا لغت کے قارون مدتوں یاد رکھیں گے اور گریہ کریں گے!
میاں نواز شریف صاحب کا ہمدرد وہ ہو گا جو انہیں دن کے سپنے سے نکال سکے۔ جو ان کے ذہن کی ساخت کو‘ زیادہ نہیں تو تھوڑا سا ہی بدل سکے!
گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں مسلم لیگ نون نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ تکے کھانے والے‘ چڑوں جیسی قابل رحم مخلوق کو بریاں کر کے ہڑپ کرنے والے کھیلوں کا سامان برآمد کرنے والے‘ کیا سول بالادستی کے نرم و نازک نظریات سمجھ گئے اور ووٹ دیے؟
جو کھرب پتی اپنی دولت سے ایئر پورٹ بنوا سکتے ہیں مگر یونیورسٹی بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ کیا وہ سول اور ملٹری بالادستی کی تہہ در تہہ باریکیوں میں پڑ سکتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! شریفوں نے وسطی پنجاب میں کام کیا اور بہت کام کیا۔ وسطی پنجاب میں ان کے محفوظ گوشے (Pockets) ہیں یہاں سے وہ اپنی کارکردگی کی بنا پر جیتے۔ وسطی پنجاب سے باہر ان کی کارکردگی برائے نام تھی۔ ہار گئے! کون سی سول بالادستی کی جنگ! سول نہ بالادستی اور جنگ تو بالکل نہیں!
جو دوست ہر تیسرے کالم میں ثنا خوان تھے کہ پنجاب میں جس سرحد سے داخل ہوں ترقی کے کام نظر آتے ہیں‘ مبالغہ آرائی کرتے تھے۔
خلق خدا جان گئی کہ یہ اپنے دولت کے انبار بچانے کے لیے ہمیں باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ اس الزام کا شریفوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ ان کے اپنے بیٹے لندن میںدولت سے کھیل رہے ہیں اور دوسروں کے بیٹوں کو وہ باہر نکال کر اپنے خاندانی اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔
مگر میاں صاحب! اب بھی کچھ نہیں گیا! اب بھی عوام آپ کے لیے باہر نکل سکتے ہیں! کیسے؟ یہ آپ کو ہم جیسے بے غرض ہی بتا سکتے ہیں جن کا رمق بھر مفاد آپ سے وابستہ ہے نہ عمران خان سے نہ کسی اور حکومت سے! ؎
یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے
خدا کی پناہ اس تصور سے بھی کہ کسی حکومتی رہنما کے ساتھ سرکاری دورے پر جائیں! کسی چیھتڑے کے لیے اشتہار لیں! کوئی تڑپ دل میں وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر پر بیٹھنے کی!ان میں سے کسی ’’کامیابی‘‘ میں عزت نہیں! عزت اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسولؐ کے لیے!!
اس لیے کہ اپنے گھر کی روٹی کھانا اور اپنے گھر میں بیٹھنا۔ سنہری پیٹی باندھ کر حضوری میں کھڑے ہونے سے بہتر ہے! اس لیے کہ گرم لوہے کو موڑ کر آہن گری کرنا دست بستہ کھڑا ہونے سے بہت بہتر ہے اور اس لیے کہ کمر کو کمان کی طرح دہرا کرنے سے بہتر ہے کہ ایک چپاتی پر گزر بسر کر لی جائے!
کمر کو دہرا کرنے سے ایک بھولا بسرا واقعہ یاد آ گیا۔ سول سروس میں اس کالم نگار کے بیچ میٹ ان دنوں وفاقی سیکرٹری برائے تعلیم تھے۔ ایک نام نہاد سرکاری ادبی ادارے کے سربراہ کے بارے میں ہنستے ہوئے بتایا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی دُہرے ہو جاتے ہیں اور پھر بہت مشکل سے کمر کی کمان کو سیدھا کرتے ہیں!
سول سروس کے آخری درجے سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو اس وقت تک سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ ایک ادیب دوست بااثر تھے۔ یار مہرباں سعود عثمانی نے انہیں سی وی دیااور سفارش کی کہ دوسروں کی طرح اس کا بھی ملازمت کے لیے استحقاق ہے۔ انہوں نے مجھ سے بات کی اور اظہار افسوس کیا کہ دوران ملازمت کوئی انفارمیشن کسی کو پہنچائی ہوتی۔ کسی کے ’’زیر سایہ‘‘آ جاتے تو آج سب کچھ ممکن ہوتا۔ الحمد للہ کہہ کر اس دوستانہ بلکہ سرپرستانہ’’سرزنش‘‘ پر شکریہ ادا کیا۔ خفیہ معلومات بہت بار مانگی گئیں مگر ریاست کی امانت میں خیانت کرنے کا یہاں تصور ہی نہ تھا۔ ایک دفعہ مزدوری کی نوعیت وزارت خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری کی تھی۔ پلاسٹک کے وزیر اعظم شوکت عزیز کا زمانہ تھا۔ ان کے لیے جہاز خریدنے کا معاملہ تھا۔ وفد تشکیل دیا گیا۔ چار پانچ ملکوں میں جانا تھا۔ اپنی جگہ اپنے ماتحت جوائنٹ سیکرٹری کو وفد کا رکن نامزد کیا۔ خریداری ہو گئی۔ متعلقہ فائل تحویل میں تھی۔ ایک صبح ایک بہت معروف صحافی کا فون آیا۔ کہ وہ فائل دیکھنی ہے۔ عرض کیا اس خریداری کا دکھ تو مجھے بھی بہت ہے مگر فائل سرکار کی امانت ہے انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ وہ بھی کسی دن کام آ سکتے ہیں بہت انکسار کے ساتھ معذرت کی! کچھ عرصہ بعد اس پلازہ میں جانا ہوا جہاں وہ بھی بیٹھتے تھے۔ باہر برآمدے میں کھڑے تھے۔ گزرتے ہوئے سلام کیا۔ رعونت کا سیاہ ابر چہرے پر چھا گیا۔ سلام کا جواب نہ دیا۔
جناب میاں نواز شریف! اب بھی کچھ نہیں گیا۔ سب کچھ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس پاکستانی شہری کے آپ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔ جتنی وفاداری ملک کے ساتھ ہے اتنی ہی تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے کے ساتھ ہے۔ ہاں! وفاداری کی نوعیت نہ جانے آپ کے فہم میں سما سکے یا ماپ سے باہر ہو جائے۔
آج اعلان کر دیجیے کہ چار عالی شان اپارٹمنٹوں کو ملا کر جو محل بنایا گیا اور جو لندن میں اس وقت خاندان کی رہائش گاہ ہے‘ وہ ریاست پاکستان کو پیش کرتا ہوں اس میں سفارت خانہ بنائیں یا پاکستان مرکز‘ جس میں ثقافتی سنٹر ہو اور ایک عظیم الشان لائبریر ی!
آج اعلان کر دیجیے کہ بیرون ملک سے اپنا سارا سرمایہ‘ ساری جائیداد‘ سارے کارخانے ملک میں واپس لا رہا ہوں۔
آج اعلان کر دیجیے کہ جاتی امرا کے محلات ریاست پاکستان کے نام کررہا ہوں۔ جس طرح چاہے استعمال کرے۔ بے شک غیر ملکی سفارت خانوں کو فروخت کر دے اور حاصل شدہ رقم قومی خزانے میں ڈال دے۔
آج اعلان کر دیجیے کہ حکومت میں آنے سے پہلے جہاں رہائش پذیر تھے وہیں رہیں گے اس لیے کہ محلات لندن میں ہوں یا جاتی امرا میں یا جدہ میں یا دبئی میں‘ یا نیو یارک میں‘ بہت قلیل مدت کے لیے ہیں۔ سورہ دخان میں ارشاد فرمایا:
’’کتنے ہی باغات اور چشمے وہ چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور عظیم الشان محلات!!اور عیش و آرام کے اسباب جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ ہوا ان کا انجام! اور ان چیزوں کا ہم نے دوسرے لوگوں کو وارث بنا دیا۔ پھر ان پر آسمان رویا نہ زمین! اور نہ ہی وہ مہلت پانے والے ہوئے!!‘‘
تو عالی جاہ! جب یہ سب کچھ آپ نے چھوڑ ہی جانا ہے‘ تو (خدا آپ کو لمبی زندگی دے) کیوں نہ اپنی زندگی ہی میں اس طرح چھوڑ دیجیے کہ تونگری عش عش کر اٹھے۔آج یہ بھی اعلان کر دیجیے کہ آپ نے کابینہ اور منتخب ایوان کو خاطر میں نہ لا کر غلطی کی۔ اور یہ کہ ایک مخصوص سرکل پر انحصار نقصان دہ ثابت ہوا۔
آج اعلان کر دیجیے کہ حکومت کی کنجیاں ساری کی ساری‘ اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کے سپرد کرنا غلطی تھی۔
یہ اعلان بھی کر دیجیے کہ مقدمات کا سامنا کروں گا اور جس ملکیت کی بھی منی ٹریل نہ دکھا سکا۔ ریاست پاکستان کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔
یقین کیجیے عالی مرتبت! اس کے بعد بھی آپ کے اور آپ کے لواحقین کے تصرف میں بہت کچھ موجود ہو گا۔ مگر یہ اعلانات کرنے کے بعد آپ کو سول بالادستی کا نعرہ لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ عوام لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آپ کے لیے باہر نکلیں گے۔ پھر وہ جیپوں کا نہیں‘ آپ کی خاطر ٹینکوں اور توپوں کا بھی سامنا کریں گے اور آپ کو اتنے ووٹ دیں گے کہ آپ کو کسی فضل الرحمن کسی اچکزئی کے کاندھے پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی!
اس لکھاری کا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود‘ یہ یقین دہانی کرانے کے لیے تیار ہے کہ آپ یہ سب کچھ کریں گے تو عمران خان بھی آپ کے ہاتھ چومے گا!
No comments:
Post a Comment