عرب بہار پاکستان میں پہنچی مگر دیر سے۔
یہ پاکستانی بہار ہے۔ مگر خدا نہ کرے(میرے منہ میں خاک) انجام مصر یا لیبیا جیسا ہو!
انسان کچھ نہیں سیکھتا اس لیے ’’لفی خسر‘‘ کہا گیا۔ سیکھنا کیا ہے ایک صاحب اپنے سسر کے پاس بیٹھے تھے کسی نے پوچھا کہاں ہیںجواب دیا ان الانسان لفی خسر۔ کہ خسر کی خدمت میں حاضر ہیں! تاریخ سے انسان نے کیا سیکھا؟ کچھ نہیں! ذوالفقار علی بھٹو جیسے پڑھے لکھے‘ صاحب مطالعہ شخص نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا‘ نواز شریف صاحب پر تو مطالعہ کی تہمت بھی نہیں لگ سکتی۔ اکثر و بیشتر لوگ میاں صاحب کو مغل بادشاہوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کاش وہ مغلوں کی تاریخ ہی پڑھ لیتے۔ فرانسیسی طبیب برنیئر شاہ جہاں اور اورنگزیب دونوں کے ساتھ رہا۔ لکھتا ہے اورنگزیب کشمیر جاتا تھا تو ہاتھی بھمبر تک جا سکتے تھے اس کے آگے راستہ پہاڑی تھا‘ ہاتھی رک جاتے تھے۔ سامان قُلّی اٹھا لیتے تھے۔ بادشاہ سلامت کا سامان پانچ ہزار قلی اٹھاتے تھے۔ شاہ جہاں شکار کے لیے نکلتا تو ایک لاکھ افراد ساتھ ہوتے۔ پڑائو میں ہر سپاہی اپنا کھانا خود پکاتا۔ دھواں اتنا اٹھتا کہ کوسوں تک کچھ دکھائی نہ دیتا۔ جلوس شاہی کے راستے کی زد میں کوئی راہ گیر آ جاتا تو زندہ نہ بچ پاتا۔ جلوسِ شاہی کے راستے کو آج کل ’’روٹ لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ چند ماہ پہلے دارالحکومت میں ایک شہری اس کی زد میں آ کر ہلاک ہوا ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
وہی شاہ جہان آٹھ سال قید رہا کسی دشمن کی قید میں؟ ہاں! دشمن کون تھا؟ حقیقی فرزند! اکثر مسور کی دال پکاتا کہ اس میں‘ جیسا کہ سنا ہے‘ زہر کی آمیزش نہیں ہو سکتی!
میاں نواز شریف کا طرز زندگی مغل بادشاہوں کے معیار حیات سے لاکھ گنا نہیں تو ہزار گنا برتر تھا۔ کہاں لندن کے چار عالی شان اپارٹمنٹوں پر مشتمل محل اور کہاں مغلوں کے قلعے‘ جو لاہور آگرہ اور دلی کے تپتے سلگتے شہروں میں واقع تھے۔ بیس بیس سال میں میاں صاحب کے فرزند اور دختر کھرب پتی ہو گئے۔ مغل بادشاہ اور سلاطین دہلی سو بار بھی جنم لیں تو جاتی امرا جیسے محلات انہیں نصیب نہیں ہو سکتے۔ زلہ خوار اور درباری کبھی نہیں تسلیم کریں گے کہ ہزاروں ریاستی پولیس مین پورے خانوادے کی حفاظت پر مامور تھے۔ یہاں تک کہ پورے قبیلے کے لیے! غریب عوام کے ٹیکسوں پر یہ خاندان دنیا کے بلند ترین معیاروں میں سے ایک پر زندگی گزار رہا تھا۔ مری کے کوہستان میں کھانا ہیلی کاپٹروں پر پہنچایا جاتا۔ کل رات ایک واقف حال نے بتایا کہ شریف پرویز مشرف صاحب کے عہد ہمایونی میں جدہ کے محل میں منتقل ہوئے تو وہاں قیام کا خرچ‘ واقفِ حال کے بقول‘ حکومت پاکستان اٹھاتی رہی! واللہ اعلم!
جو حقیقت انسان کو فراموش نہیں کرنی چاہیے وہ حالات کی غیر یقینی نیچر ہے۔ تخت ہے یا تاج‘ خزانہ ہے یا محل‘ لندن کے اپارٹمنٹ میں یا فرانس کا تین سو سالہ قدیم نوابانہ قصر‘ سب ناقابل اعتبار ہیں۔ نواز شریف صاحب کے پاس کیا نہیں تھا۔ حکومت‘ وفاق‘ طاقت ور ترین صوبہ‘ بے تحاشا بے اندازہ دولت‘ کئی براعظموں کئی ملکوں میں بکھری جائیدادیں‘ کارخانے‘ بنک اکائونٹس‘ مگر کچھ کام نہ آیا۔ حالات نے ایک ہی کروٹ لی اور وہ تخت سے گر کر زمین پر آ رہے۔ سورہ لقمان کے آخر میں فرمایا’’اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا‘‘
جس دن جے آئی ٹی کے سامنے اسحق ڈار صاحب کی پیشی تھی ۔اس دن باہر نکل کر انہوں نے جو تقریر کی تھی اس کا لب لباب یہ تھا کہ کسی کو اختیار نہیں کہ ان سے کچھ پوچھے‘ عمران خان کے حوالے سے ایک فقرہ انہوں نے کہا
Who are You
کہ تم کس کھیت کی مولی ہو‘ مگر آج دبئی اور لندن میں امارت کے لمبے چوڑے سلسلے ملکیت میں ہونے کے باوجود وہ ایک پناہ گیر ہیں۔ میڈیا کو دیکھ کر پچھلے دنوں انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر میڈیا نے تصویریں کھینچ کر ان کی مضحکہ خیز بے بسی دنیا کو دکھا دی۔ اثاثے نوے لاکھ سے نوے کروڑ کر کے ڈار صاحب نے کیا حاصل کیا؟ دولت تو ایک طوائف ہے۔ آج ایک کے ساتھ‘ کل دوسرے کے ساتھ‘ چلیں دولت اکٹھی کیجیے‘ مگر خدا کے بندو! کوئی حد‘ کوئی سرخ لکیر‘ کوئی بیرئیرایک نسل کے لیے دو نسلوں کے لیے!! آنے والی ساری نسلوں کے لیے کیوں اکٹھی کرتے ہو؟
تخت طائوس کیا آج شاہ جہان کی اولاد کے پاس ہے؟ اور کوہ نور ہیرا‘ جو پورے برصغیر میں گھومتا‘ طوائف کی طرح تماش بینوں کے دل جیتتا‘ ایران گیا۔ وہاں سے افغانستان۔ وہاں سے پھر ہندوستان‘ وہاں سے لندن! کل کو یہ بھڑوا کیا خبر کس کی نوکری اختیار کر لے!
مگر عبرت کوئی نہیں پکڑتا‘ حواری‘ ان کے خاندان کی پرستش کرنے والے بیرم خان‘ ان کے دربار کے دریوزہ گر‘ ان کے
Beneficiary
لاکھ انہیں سول بالادستی کی جنگ کا ہیرو قرار دیں‘ یہ کہنے کی ہمت کوئی نہیں کر سکتا کہ لندن کی جائیداد خریدتے وقت ان کے بیٹے خود کفیل تھے۔ عدالت کے فیصلے میں جو دلائل ہیں ان کے غلط یا درست ہونے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ شہباز شریف نے عدالتی فیصلے کے جواب میں پرسوں یہ دلیل دی کہ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کیا اور سی پیک تصنیف کیا۔ کیا آج تک دنیا میں کسی نے کسی کی بریت کے لیے اس کا کوئی غیر متعلق کام پیش کیا؟ ایک شخص پر چوری کا الزام ہے۔ دفاع یہ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ اس نے فلاں موقع پر تیتر مارا تھا اور فلاں وقت انڈوں کا خاگینہ پکایا تھا اس لیے اسے چوری کے الزام سے بری کر دیا جائے!سکولوں کے انسپکٹر صاحب کلاس روم میں آئے اور بچوں سے سوال پوچھا کہ تمہارے کلاس روم کا طول اگر اٹھارہ فٹ ہے اور عرض سولہ فٹ ہے تو بتائو میری عمر کیا ہے؟ سب گنگ! مہر بہ لب! ایک بچہ اٹھا اور کہا آپ کی عمر 36برس ہے! انسپکٹر صاحب مرعوب ہوئے اور خوش بھی! شاباش دے کر کہا بالکل درست! مگر تم نے یہ معمہ بوجھا کیسے؟ بچے نے جواب دیا‘ میرے بڑے بھائی کو ابو آدھا پاگل کہتے ہیں اور اس کی عمر اٹھارہ برس ہے! بات اثاثوں کی ہو رہی ہے! لڑکپن میں صاحبزادوں نے دنیا کی گراں ترین جائیدادوں میں سے نمایاں ترین جائیداد کیسے خرید لی؟ اس پر بات کیجیے۔
حیرت ہوتی ہے جن دانش وروں کو اس ملک نے پالا پوسا اور بزر جمہر بننے کا موقع دیا انہیں فکر ہے تو شریفوں کے خاندان کی اور بھٹو فیملی کی ابدی حکمرانی کی! کبھی پھوٹے منہ نہ کہا کہ اس ملک میں کرپٹ لوگوں کو پکڑنا چاہیے اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ عدلیہ چوروں کو پکڑے تو درد قولنج کا حملہ ہوتا ہے کہ یہ تو عدالتی مارشل لاء ہے‘ عدالتی فعالیت ہے! باپ کے بعد بیٹی کو بادشاہ بنانا اور نانا کے بعد نواسے کو حکمران بنانا ان حواریوں اور ان نابینا دانشوروں کے لیے موت و حیات کا اور کفر واسلام کا مسئلہ ہے! دولت کہاں سے آئی؟ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں! احساسِ کمتری کے مارے ہوئے! مرعوب! کانوں میں حلقے ہیں‘ ٹخنوں پر زنجیریں ہیں‘ کلائیوں پر فدویانہ کنگن ہیں اور گلے میں ہار ہے ‘جسے پکڑ کر ان کا سرپرست جدھر چاہے کھینچتا ہے اور یہ کھنچتے چلے جاتے ہیں!
سول بالادستی ضرور ہونی چاہیے مگر اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ کھرب پتی خاندان سے کچھ نہ پوچھا جائے‘ اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ بیگم صاحبہ اور بھائی صاحب اور بیٹی اور بھتیجے کے علاوہ سیاسی جماعت میں سب غلام ہیں؟ خارش کی بیماری لاحق ہے تو علاج اور بھی ہیں!صرف یہ ایک علاج تو نہیں کہ شہزادی اور شہزادے کے سامنے رکوع میں کھڑا ہوا جائے اور ان کے سامنے سجدہ کیا جائے تو سرینوں سے کپڑا ہٹ جائے! ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
No comments:
Post a Comment