Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, July 15, 2018

ہم بدبختوں کی قسمت میں الیکشن کے دن سونا ہی ہے



ہمایوں اختر خان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ 

آپ نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی اور پارٹی کے منشور اور قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ بھر پور طریقے سے پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کے مستقبل کیلئے موثر ترین جدوجہد کی ہے۔ عمران خان نے ہمایوں اختر کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت سے تحریک انصاف کو تقویت ملے گی۔ 

ہمایوں اختر نے 1990ء کا الیکشن اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے لڑا اور کامیاب ہوئے۔ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین رہے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں قاف لیگ میں شامل ہوئے اور پانچ سال وزیر تجارت رہے۔2012ء میں ہم خیال گروپ کے رکن کی حیثیت سے مسلم لیگ نون کے ساتھ ہو گئے۔ 2015ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے ہمایوں اختر کے بھائی ہارون اختر کو اپنا ’’خصوصی معاون‘‘ مقرر کیا‘ ہارون اختر بعد میں مسلم لیگ نون کی طرف سے سینیٹر بھی ہوئے۔ 

9جولائی کے اخبارات میں قندیل بلوچ فیم مفتی عبدالقوی کا بیان چھپا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ 1۔ عمران خان نے اسے اپنا مشیر دینی امور مقرر کیا ہے۔ 2۔عمران خان نے وعدہ کیا کہ جن علماء و مشائخ نے پاک پتن میں چوکھٹ بوسی کی تائید کی ہے انہیں وہ اقتدار میں آ کر اعزاز و اکرام سے نوازیں گے اور 3۔ عمران خان نے کہا ہے کہ مفتی آنے والی حکومت کا حصہ ہو گا۔ دوسرے دن‘ دس جولائی کو اس کالم نگار نے اپنے کالم میں اس خبر کے حوالے سے لکھا کہ عمران خان کے باقی نورتنوں کا اندازہ بھی دیگ کے اس ایک چاول سے لگایا جا سکتا ہے۔ 

اس پر قارئین کا ردعمل دو حوالوں سے تھا۔ کچھ نے کالم نگار کی مذمت کی کہ ’’ایسی‘‘ شہرت رکھنے والے شخص کے دعویٰ پر اعتبار کر کے عمران خان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور یہ کہ اس خبر کی تردید کا عمران خان اور تحریک انصاف کے پاس وقت ہی نہیں! مگر تبدیلی کے مخلص خواہش مند پوچھنے لگے کہ پھر ووٹ کسے دیا جائے؟ 

مسلم لیگ نون ‘ جنرل مشرف اور مسلم لیگ قاف کے دیرینہ ساتھی ہمایوں اختر خان کو تحریک انصاف میں لے کر عمران خان نے تبدیلی کے عمل کو مکمل کر دیا ہے۔ 

عمران خان نے سٹیٹس کو کے علم برداروں کو پہلے اس بنیاد پر لیا کہ الیکشن میں کامیاب ہونا ایک سائنس ہے اور وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس سائنس کے سائنسدان ہیں۔ چنانچہ سٹیٹس کو کے سکہ بند طرف دار گروہ در گروہ‘ قبیلہ در قبیلہ فوج در فوج‘ تحریک انصاف میں یوں شامل ہوئے کہ پرانے نظریاتی کارکن اقلیت میں تبدیل ہو گئے۔ مگر اب! اب عمران خان کس بنیاد پر پارٹیاں تبدیل کرنے والے سٹیٹس کو کے علم برداروں بلکہ سرداروں کو لے رہے ہیں؟ اب تو ٹکٹ دیے جا چکے! اب کیا مجبوری ہے؟ 

آخری وقت میں یونینسٹ پارٹی کے جاگیردارمسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ پاکستان بن گیا۔ ان جاگیرداروں نے آج تک ستر سال ہو گئے‘ زرعی اصلاحات نافذ نہیں ہونے دیں‘ دلوں کا حال عالم الغیب ہی جانتا ہے مگر ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان تبدیلی لانے میں مخلص ہے تو یہ سٹیٹس کو کے علمبردار‘ یہ ہر پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار میں حصہ لینے والے ‘کیاعمران خان کو تبدیلی لانے دیں گے؟ کیا عمران خان قائد اعظم ‘ لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور حسین شہید سہروردی سے زیادہ بااثر اور پُرعزم ہے؟ 

نواز شریف پر جو بہت سے اعتراضات تھے۔ ان میں ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ انہوں نے جنرل مشرف کے ساتھیوں اور قاف لیگ کے زعما کو‘ جنہوں نے آمریت کا بھر پور ساتھ دیا‘ اپنی آغوش میں لے لیا‘ دانیال عزیز‘ طارق عظیم‘ امیر مقام‘ زاہد حامد‘ طلال چودھری‘ ماروی میمن اور مشاہد حسین میں اور کیا برائی تھی؟ ہمایوں اختر خان اور ان کے بھائی ہارون اختر بھی ان سب سیاست دانوں کی طرح جنرل مشرف اور قاف لیگ کو چھوڑ کر نون لیگ میں شامل ہو ئے۔ عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد نے مسلم لیگ نون اور قاف لیگ کو ایسے ہی سیاست دانوں کی وجہ سے ووٹ نہیں دیا۔ اب وہی سیاست دان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں تو تحریک انصاف کو کیوں ووٹ دیا جائے؟ جن رنگ بدلنے والے شعبدہ بازوں کی وجہ سے دوسری جماعتیں ناقابل قبول تھیں‘ وہی شعبدہ باز تحریک انصاف میں آ گئے ہیں تو پھر تحریک انصاف کو کس برتے پر ووٹ دیا جائے؟ 

میاں نواز شریف کو لوگ طعنہ دیتے تھے کہ جنرل مشرف کے ساتھی قابل قبول ہیں تو جنرل مشرف ہی سے کیا دشمنی ہے! آخر یہی لوگ تو آمر کے دست و بازو تھے۔ اب یہی سوال عمران خان سے پوچھا جانا چاہیے کہ میاں نواز شریف کے ساتھی قابل قبول ہیں تو نواز شریف ہی سے کیا جائیداد کا جھگڑا ہے؟ آخر یہی لوگ تو میاں نواز شریف کی حکومت کی پالیسیاں طے کرتے تھے۔ یہی ہمایوں اختر خان بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سربراہ تھے‘ انہی کے بھائی فیڈرل بورڈآف ریونیو کے مدارالمہام تھے۔ میاں صاحب تو ساری دنیا کو معلوم ہے فائل پڑھتے تھے نہ سنجیدہ پالیسی امور پر توجہ مرکوز کر سکتے تھے! وزراء مکمل طور پر آزاد تھے! 

یہ دلیل کہ لیڈر جو چاہے‘ وہی ہوتا ہے‘ بودی دلیل ہے۔ کیا عمران خان شہنشاہِ مطلق ہوں گے کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا لفظ قانون بن جائے گا؟ کیا نذر محمد گوندل‘ فردوس عاشق اعوان‘ عامر لیاقت ‘ ہمایوں اختر خان ‘ جہانگیر ترین اور بے شمار دوسرے روایتی سیاست دان موم کے بنے ہوئے بت ہیں جنہیں عمران خان جدھر چاہے گا موڑ لے گا؟ ان سیاست دانوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ ان کی ترجیحات میں سرِ فہرست کیا رہا ہے؟ یہ کوئی معمہ ہے نہ راز! سب کو معلوم ہے! ان کا دنیا کی ہر شے سے تعلق ہو سکتا ہے‘ تبدیلی سے نہیں! 

چشم تصور سے نظارہ کیجیے! عمران خان وزیر اعظم ہیں! دائیں طرف گوندل صاحب اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ تشریف فرما ہیں۔ بائیں طرف ہمایوں اختر ہیں۔ ساتھ ان کے بھائی ہارون اختر صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ عامر لیاقت نظر آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مفتی عبدالقوی صاحب بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ مفتی صاحب کے ہاتھ میں جھنڈا ہے اس پر قندیل بلوچ اور الماس بوبی کی تصویریں جلوہ افروز ہیں! مسلم لیگ نون سے تحریک انصاف میں آ کر ٹکٹ حاصل کرنے والوں کی مکمل فہرست ہمارے دوست آصف محمود صاحب کے پاس ضرور ہو گی۔ اگر وہ اپنے آئندہ کالم میں اسے شائع کر دیں تو آنے والی تبدیلی کے خدوخال بدرجۂ اتم واضح ہو جائیں گے! 

ہم جیسے بیوقوف الیکشن کے دن آسمان کی طرف منہ کر کے فریاد کرینگے ؎ 

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں 
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

 اور پھر سو جائیں گے! الیکشن کے دن ہماری قسمت میں سونا ہی ہے۔2013ء کے انتخابات میں نیند قربان کر کے ووٹ ڈالا تھا۔ آج تک قمر جلالوی کو یاد کر کے آہیں بھر رہے ہیں ؎ 

توبہ کیجے اب فریب دوستی کھائیں گے کیا

ا آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا 

کل بہار آئے گی یہ سُن کر قفس بدلو نہ تم 

رات بھر میں بے پروں کے پر نکل آئیں گے کیا؟




No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com