چلیے مان لیا آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔
نادیدہ قوتوں نے دفاع اور خارجہ کے امور میں آپ کو آزادی نہیں دی تھی۔ مان لیا مداخلت ہوتی تھی۔ مان لیا کہ غیر ملکی سفیر اور امریکی افواج کے بڑے بڑے کمانڈر جی ایچ کیو میں آتے تھے۔ مگر جب آپ وزارت عظمیٰ کے تختِ طائوس پر بیٹھے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے!
آپ کے سامنے دو راستے تھے یا تو آپ اقتدار سنبھالنے سے انکار کر دیتے کہ حکومت لوں گا تو مکمل لوں گا۔ لولی لنگڑی اندھی بہری نہیں لوں گا۔ دفاع کے فیصلے وزیر دفاع کرے گا اور خارجہ سرگرمیوں کا مرکز وزارت خارجہ ہو گی یا وزیر اعظم کا آفس! جی ایچ کیو کا کردار صفر ہو گا۔ وہ وہی کام کریں گے جو کتاب میں ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے!
مگر آپ نے یہ راستہ نہ چنا۔ آپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا تخت پر بیٹھ گئے۔ تاج پہن لیا! اب آپ کے سامنے واحد راستہ یہ تھا کہ جو شعبے آپ کے مکمل اختیار میں تھے‘ آپ ان میں مثالی کارکردگی دکھاتے!مثلاً اگر نادیدہ قوتیں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں تو آپ اپنے دائرہ اختیار میں قانون کا نفاذ اس زبردست طریقے سے کرتے کہ نادیدہ قوتوں کے پاس قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہتا۔ مگر آپ نے ایسا نہ کیا۔ آپ نے اپنے وزراء کو‘ اپنے ساتھیوں کو‘ اپنی پارٹی کے بڑوں کو قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی پارٹی کے رہنما نے راولپنڈی تھانے پر حملہ کر کے ملزموں کو چھڑا لیا۔ فیصل آباد میں تھانوں پر آپ کے لوگوں نے حملے کیے۔ اسمبلی کے ارکان قانون سے بالاتر تھے۔ سرکاری رہائش گاہوں کے وہ کروڑوں کے مقروض ہیں۔ آپ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ نادیدہ قوتیں قانون سے بالاتر ہیں‘ قانون سے بالاتر تو آپ خود رہے‘ آپ کی پارٹی کے ارکان بھی! آپ کے خاندان نے قانون کو بوٹوں تلے روندا۔ آپ کہتے ہیں نادیدہ قوتیں آپ کے کام میں مداخلت کرتی ہیں۔ آپ کی بیٹی کیوں مداخلت کرتی رہی؟ آپ لندن میں کئی ماہ مقیم رہے۔ وہ کس قانون کے تحت وزیر اعظم کے دفتر میں غیر ملکی سفیروں سے ملتی رہی؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟ یہ قانون کی کون سی بالادستی ہے؟ آپ کا بھتیجا پنجاب میں بیورو کریسی کی تعیناتیاں کس قانون کے تحت کرتا رہا؟آپ کا داماد کس قانون کے تحت ارکان اسمبلی میں رقوم کی تقسیم کا انچارج بنا رہا؟ آپ نے کس قانون کے تحت خالی جہاز لندن میں کھڑا کیے رکھا؟ کس قانون نے آپ کو اجازت دی کہ نواسی کا نکاح حجاز میں ہو تو قومی ایئر لائن کے جہازوں کو ذاتی رکشا سمجھ لیں؟
آپ نے ایک بار بھی قومی اسمبلی میں سوال جواب کا سیشن اٹنڈ نہیں کیا؟ سال بھر سینیٹ میں نہیں آئے؟ آپ ازراہ کرم اس سوال کا دو ٹوک جواب دیں کہ کیا اس میں نادیدہ قوتیں رکاوٹ تھیں؟ آپ نے مہینوں کابینہ کااجلاس نہیں بلایا - کیوں؟ آپ سارے اہم فیصلے اپنے ذاتی وفاداروں اور رکوع میں جھکے ہوئے ٹوڈیوں کے مشورے سے کرتے تھے؟ کیوں؟ آخر کیوں؟
سول بیورو کریسی آپ کے مکمل اختیار میں تھی‘ ان کی تعیناتیوں میں کوئی نادیدہ قوت‘ کوئی جی ایچ کیو‘ کوئی آئی ایس آئی مداخلت نہیں کر رہی تھی۔ مگر آپ نے سول بیورو کریسی کا دھڑن تختہ کر دیا۔ وفاق اور پنجاب میں لاقانونیت کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ بیورو کریسی نگوڑی کا حلیہ بگڑ گیا۔ جونیئر افسروں کو ٹاپ پر بٹھا دیا گیا۔ کیا یہ سول بالادستی تھی؟ تعیناتیاں کرتے وقت آپ کو خدا کا خوف نہ رہا۔ آپ نے صرف یہ دیکھا کہ خواجہ کون ہے؟ اور وانی کون ہے؟ روایت ہے کہ آپ پوچھتے تھے۔’’اے اپنا بندہ اے؟
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو
وزارت تجارت آپ کے اختیار میں تھی۔ آپ نے اپنے عہد اقتدار میں کتنی بار وہاں آ کر حالات کا جائزہ لیا؟ مئی 2018ء میں جب آپ کا پانچ سالہ اقتدار کوچ کرنے کو تھا تو درآمدات اس قدر زیادہ اور برآمدات اتنی کم تھیں کہ خسارہ تیس ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ اس کی متعدد وجوہات میں ایک بڑی وجہ تعیناتیوں میں آپ کی دھاندلی اور دوست پروری تھی۔ آپ نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اہم ادارے میں نوکرشاہی کے اس رکن کو سفیر بنا کر بھیجا جس کا تجارت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کی واحد اہلیت یہ تھی کہ ماڈل ٹائون قصے میں اس کا کلیدی کردار تھا۔ یہ آپ کے وژن کی صرف ایک مثال ہے۔ اگر کوئی محقق آپ کے عہد اقتدار کی تعیناتیوں کا تجزیہ کر کے رپورٹ تیار کرے تو پبلک ایڈمنسٹریشن کی تاریخ میں یہ بدترین کارکردگی ہو گی۔
آپ کو صحت اور تعلیم میں مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ اسلام آباد میں صرف دو سرکاری ہسپتال ہیں ۔بیس نہیں۔ ایک بار بھی آپ وہاں نہ گئے کہ عوام کی حالت زار کا براہ راست مشاہدہ کریں۔ آج آپ کی پوری پارٹی لاہور میں چند ہزار سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ کر سکی۔ آپ دو بار ہی ہسپتال میں عوام کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر پرچی بنواتے۔ دوائی لیتے‘ ہسپتال کی حالت راتوں رات زمین سے آسمان تک پہنچ جاتی۔ لوگ دیوانہ وار‘ کسی کے کہے بغیر‘ آپ کے لیے لاہور ایئر پورٹ کی طرف بھاگ رہے ہوتے۔ آپ ہر چھ ماہ میں تین سرکاری سکولوں ہی کا دورہ کر کے احکام جاری کر دیتے‘ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے لیے مثال بنتے۔ آج آپ کے لیے لوگ جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر باہر نکلتے۔
آپ آج کس سول بالادستی کی بات کرتے ہیں؟ آپ تو چار برس ایک عالی شان پکنک مناتے رہے۔ آپ کے فرائض منصبی ‘ آپ کے بجائے اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد سرانجام دیتے رہے۔ آپ خود لندن ہوتے تھے یا مری! ملک تو دور کی بات ہے آپ صرف دارالحکومت کو صاف ستھرا مثالی شہر نہ بنوا سکے۔ آپ کا طرز حکومت یہ تھا کہ اہم وزارت‘ ہائوسنگ اینڈ ورکس کا وزیر ہفتے میں صرف ایک دن دفتر آتا تھا مگر آپ کو معلوم ہی نہ تھا۔ آپ نے چار سال میں اپنے وزراء کی کارکردگی چیک کرنے کے لیے کوئی طریقہ‘ کوئی میکانزم‘ کوئی نظام‘ کوئی سلسلہ نہ بنایا۔ آپ کی حکومت مثالی ہوتی تو نادیدہ قوتیں آپ کے رعب میں ہوتیں۔ آپ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلند آواز سے کہہ سکتے کہ جب میرا وزیر‘ میرا ایم این اے ‘ میری بیٹی‘ میرا بھتیجا‘ قانون سے بالاتر نہیں تو بریگیڈیئر یا جرنیل کس طرح قانون سے ماورا ہو سکتا ہے۔ مگر آپ کی اپنی لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ پچانوے فیصد بیرونی دوروں میں صرف ایک وزیر اعلیٰ آپ کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ کا بھائی تھا۔ آپ کے عہد اقتدار میں تو یہاں تک کہا گیا کہ فلاں ملک کے ساتھ پنجاب کے تعلقات ایسے ہوں گے! گویا پنجاب ملک تھا۔
آپ کی حکومت لاقانونیت‘ اقربا پروری اور عیش و عشرت کا تعفن زدہ مرقع تھی! آپ کا عوام سے براہ راست رابطہ تھا نہ ہے۔ آپ نادیدہ قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں! آپ سول بالادستی کی جنگ نہیں لڑ سکتے اور لڑنے کی کوشش کریں بھی تو جیت نہیں سکتے۔
کیا کوئی ایسا لیڈر سول بالادستی کی جنگ لڑ سکتا ہے جس کے بیٹے‘ پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے‘ نواسیاں‘ لندن میں پل بڑھ رہے ہوں‘ جو خود ہر عید لندن جا کر کرے اور جس کی اولاد کا لندن کے گلی کوچوں میں چور چور کہہ کر ہر جگہ تعاقب کیا جا رہا ہو۔
اور اتنی ہمت تو آپ میں کبھی نہیں ہو گی کہ آپ قوم کی دولت قوم کو واپس کر دیں۔ مال و زر اور جائیداد کی محبت نے آپ سے تونگری اور ہمت چھین لی ہے۔ نصف درجن لکھاری اور صحافی‘ جنہیں آپ نے عہدے دیے‘ وزارتیں دیں‘ دوروں میں ساتھ رکھا کچھ کو اداروں کی سربراہی اور کچھ کو رکنیت دی‘ آپ کے لیے نثری قصیدے لکھ رہے ہیں‘ مگر سوشل میڈیا پر خلقِ خدا ان نام نہاد دانشوروں کو جن القابات سے نواز رہی ہے ان میں عزت نفس ہوتی تو ڈوب مرتے! ایک زلہ خوار نے ایک شہکار لکھا ہے اس پر عوام کے نرم ترین کمنٹ دیکھیے۔
“”آپ جیسے مشیروں نے نواز شریف کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ “”
“”لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش! اس بلی نے سو سے زائد چوہے کھا رکھے ہیں اور آپ اسے ’’حج‘‘ پر لیے جاتے ہیں۔ “”
روغن قاز ملنے والے ان اصحابِ قلم نے اس ابوالفضل اور فیضی کو بھی مات کر دیا ہے جو کیلنڈر ہی تخت نشینی کی تاریخ سے آغاز کرتے تھے۔ ایک معروف اینکر نے جس کی شہرت ایک زمانے میں اچھی تھی‘ نون لیگ کی ریلی کے دوران ریکارڈ کیا جانے والا پروگرام نشر نہ ہونے پر اپنا مستقل شو جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ اس خبر پر صرف دو کمنٹ آئے۔ دونوں ہی چشم کشا ہیں۔
“”اس پروگرام کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہجوم اتنا نہ تھا۔ جوش اتنا نہ تھا‘ جتنا بیان کیا گیا ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ حق ادا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے نہیں روکا جانا چاہیے تھا تاکہ اس اینکر کا کردار لوگوں کے سامنے آتا۔ “”
“”یہ پروگرام تو چل نہ پایا۔ اب دوسرا شو شروع کریں کہ کیسے اربوں کی چوری پکڑے جانے پر اداروں کو مطعون کیا جائے اور حکمرانوں کی بدعنوانی کی پردہ پوشی کی جائے۔ پروگرام بکے نہ بکے‘ حکمران اقتدار میں آ کر آپ کا منہ تو جواہرات سے بھریں گے۔””
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment