’’……………………آپ نے علی ؓ کو نہیں دیکھا۔ دو بیٹے علیؓ کے آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں بھی علیؓ کا بیٹا ہوں…………بھی علیؓ کا بیٹا ہے۔ …ہمیں دیکھ لیا‘ آپ نے تو سمجھو علی کو دیکھ لیا۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ ہاتھ اٹھاکے۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ دیکھو میں علیؓ کا بیٹا ہوں۔ یہ علیؓ کا بیٹا ہے۔ یہ میرے بچے ہیں۔ آپ کے بھائی ہیں۔ ہمارا ساتھ دو گے؟ چھوٹا بڑا ووٹ دو گے؟ …………… پر مہر لگائو گے؟ چھوٹی بڑی سیٹ پر مہر لگائو گے؟ سنو! کل قیامت کو جب تیرا کوئی کام آنے والا نہیں ہو گا تو یہ خاتون جنت کے بچے تیرے کام آئیں گے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ دنیا میں بھی تیرے کام کریں گے اور آخرت میں بھی تیرے کام آئیں گے۔ بھائیو! میرے دوستو! مجھ سے محبت کرنے والو! میری محبت کے بدلے میں اللہ کا نبی اپنا جلوہ اور دیدار تجھے کروائے گا… کمپین کو شروع کرنا تھا۔ یہاں کا پہلا مجاہد۔ مجاہد اول۔ محب اول ملک… ………………نکلا اور میرے پاس آیا اور اس نے کہا میں …………… پہ قربان ہونے کو تیار ہوں۔ جب کربلا میں کوفیوں نے حسینؓ کے خاندان کو چھوڑ دیا تھا کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک حُر نکلا تھا۔ حضرت حر نکلا تھا۔ ہمارے لیے …………… حُر ہے۔ ہم اس کو حُر کا خطاب دیتے ہیں۔ وعدہ کیجئے کہ دونوں ووٹ ہمیں دیں گے۔‘‘
یہ ایک پیر صاحب کا خطاب ہے جو اپنے صاحبزادے کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ حاضرین جلسہ میں بے پناہ جوش ہے۔ ہاتھ اٹھا اٹھا کر پیر صاحب سے ووٹ دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ ووٹ دینے کے بدلے میں دنیا اور آخرت میں کام آنے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ یہ پیمان بھی باندھا جارہا ہے کہ ’’میری محبت کے بدلے میں اللہ کا نبی اپنا جلوہ اور دیدار کرائیں گے۔‘‘ مذہبی نکتہ نظر سے ایسے وعدے ووٹ کے لیے کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں تو علماء دین ہی رہنمائی کرسکتے ہیں مگر یہ وڈیو کلپ‘ جس سے پیر صاحب کی یہ تقریر اوپر نقل کی گئی ہے‘ اس حقیقت کو روشن دن کی طرح واضح کر رہی ہے کہ پاکستانی عوام کو مذہب کے نام پر آسانی سے موم کیا جاسکتا ہے اور موم کرنے کے بعد جس طرف چاہیں‘ موڑا جا سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ووٹ منشور کے نام پر مانگے جاتے ہیں یا ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر۔ پاکستان میں برادری ازم کا زور ہے۔ دو دن پہلے ایک قاری نے برطانیہ سے ای میل کی کہ ٹیلی ویژن چینل ہر روز مائیک اٹھائے بازاروں اور چوراہوں پر لوگوں سے کیوں پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ووٹ کسے دیں گے۔ یہ تو ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ قاری مزید لکھتا ہے کہ برطانیہ آنے کے بعد پہلے الیکشن کا ہنگامہ شروع ہوا تو اس نے اپنے ایک انگریز رفیق کار سے پوچھا ووٹ کسے دو گے۔ وہ اس سوال پر پہلے حیران ہوا پھر آزردہ خاطر کہ یہ تو ہم میاں بیوی بھی ایک دوسرے سے نہیں پوچھتے مگر ہمارے اور ان سفید فاموں کے کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تو چھوٹتے ہی پوچھتے ہیں آپ تنخواہ کتنی لے رہے ہیں اور آپ کے فلاں بھائی اور فلاں عزیز کی تنخواہ کتنی ہے۔ پورے گائوں پورے محلے پورے قصبے کو معلوم ہوتا ہے کہ کون کس کو ووٹ دے گا۔ اسی لیے تو دشمنیاں بڑھتی ہیں۔ دوستیاں ٹوٹتی ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بہو کو حکم دیا جاتا ہے اپنے والدین سے کہے کہ فلاں کو ووٹ دیں ورنہ جھگڑا ہوگا اور نقصان ظاہر ہے لڑکی والے ہی اٹھائیں گے۔
سفاک ترین پہلو ہمارے انتخابی کلچر کا مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا ہے۔ ایک جذباتی مسلمان کو حضرت علی ؓ کے نام پر قیامت کے دن کام آنے کے نام پر اور حد یہ ہے کہ سرور کونین ؐ کے دیدار کے نام پر‘ رام کرنا کیا مشکل ہے۔ پیر صاحب پیر بھی ہیں اور سید بھی۔ ورنہ ایک عام آدمی کسی کو حُر قرار دیتا تو اس پر توہین کا الزام لگ جاتا۔ حالی کے بقول۔
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
کہاں حضرت حُر! اور کہاں وہ آج کا مرید جو الیکشن میں پیر صاحب کے صاحبزادے کی مدد کر رہا ہے۔ کہاں آسمان کہاں زمین۔
غور کیجئے! مذہب کے نام پر اس استحصال کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ بارہا آزمائی ہوئی مذہبی جماعتیں مذہب کے نام پر پھر اکٹھی ہوئی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کی مسجدوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ ایک دوسرے کے مدرسوں میں اپنے طلبہ کو پڑھنے بلکہ جانے تک کی اجازت نہیں دیتے مگر جب سیاسی فائدہ ہو تو لوگوں سے دین کے نام پر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ علامہ ساجد نقوی کی اقتدا میں ذرا نماز پڑھ کر دکھا دیں۔ کبھی نہیں! ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے ان کے موجود ہیں۔ مگر سیاست کے لیے مذہب کو استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو۔
تجارت کے لیے بھی مذہب کو مکروہ طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسلامی شہد کی مثال تو عام ہے۔ کل کو اسلامی کلونجی‘ اسلامی کھجور‘ اسلامی زیتون اور اسلامی انجیر بھی بازار میں آ سکتے ہیں۔ نہاری بیچنے کے لیے مقدس نام استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر بازار میں ایک چپل متعارف کرائی گئی۔ کہا گیا کہ اس کا ڈیزائن وہی ہے جو حبیب خدا ﷺ کی مبارک چپل کا تھا۔ کروڑوں کا کاروبار ہوا۔ پھر وہ چپل مارکیٹ سے غائب ہو گئی۔ مقصد پورا ہو گیا ہوگا۔
اس حوالے سے ایک اقتباس پیش کرنا مناسب ہوگا۔ برصغیر کے مشہور و معروف عالم دین مولانا منظور نعمانی ایک حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں :
’’رسول اللہ ﷺ لباس کے بارے میں ان حدود وا حکام کی پابندی کے ساتھ‘ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں‘ اس طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا۔ آپ تہمد باندھتے تھے‘ چادر اوڑھتے تھے‘ کرتا پہنتے تھے‘ عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جاسکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے تھے۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اس طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے۔ اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے۔ ہاں ایسے اصولی احکام دیئے گئے ہیں جن کی ہرزمانے میں ہر جگہ پر سہولت کے ساتھ پابندی کی جا سکتی ہے۔‘‘ (معارف الحدیث حصہ ششم‘ صفحہ 424)
بات مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کے تذکرے سے شروع ہوئی تھی۔ مذہب کے نام پر چندہ تو مانگا ہی جا رہا تھا۔ روٹیاں بھی اکٹھی کی جا رہی تھیں۔ تجارت بھی ہورہی تھی‘ ووٹ بھی مانگے جا رہے تھے‘ اب ووٹوں کے ساتھ آخرت کی کامیابی بھی منسلک کی جا رہی ہے۔ پیر صاحب کے صاحبزادے کو ووٹ دیجئے۔ آخرت کی گارنٹی لیجئے۔
No comments:
Post a Comment